باہر کا آدمی
حریم الیاس
”ممی میں ڈرائیور انکل کے ساتھ صفا کے گھر چلی جاؤں؟“ بارہ سالہ ثانیہ نے اپنی ماں کی لجاجت سے پوچھا۔
مسز فرحت ایک ورکنگ وومین تھیں، کچھ دیر پہلے ہی آفس سے تھکی آئیں۔ صوفے پر نیم دراز تھیں، بیٹی کی بات سن کر چونک کر آنکھیں کھولیں۔
”نہیں آپ اکیلے تو ڈرائیور کے ساتھ نہیں جا سکتیں“ انہوں نے دائیں ہاتھ سے اپنے جدید تراش خراش بالوں کو سہلاتے ہوئے کہا۔
”ممی پلیز آج صفا کا برتھ ڈے ہے۔ میں نے پرامس کیا تھا میں ضرور آؤں گی“ ثانیہ نے بے چارگی سے کہا۔
”ثانی میں آپ کو اجازت نہیں دے سکتی بیٹا شام بھی ڈھل گئی ہے۔“ اب وہ سیدھی ہو کر بیٹھ گئی تھیں۔
”پلیز ممی“ اس نے ضد کی۔
”نہیں میں تمہیں اجازت نہیں دے سکتی۔“مسز فرحت نے سختی سے کہا۔
”کیوں ممی؟“ آپ کیوں منع کر دیتی ہیں؟ آپ نے لاسٹ ویک مجھے وجیہہ کے گھر بھی جانے نہیں دیا تھا، اس کے تو بھائی جان مجھے لینے بھی آگئے تھے۔“ وہ اب باقاعدہ بحث پر اتر آئی تھی۔
”اف ثانیہ پلیز دماغ نہ کھاؤ میں آج ویسے ہی تھک گئی ہوں۔“ انہوں نے ڈپٹا۔
”اور تمہیں کتنی بار سمجھایا ہے کہ باہر کے ہر بندے پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا، ڈرائیور انکل اور وجیہہ کے بھائی آپ کے لئے اجنبی (unknown) ہیں، آپ ان پر کیسے اعتماد کر سکتی ہیں۔ آپ کو خود اپنی کیئر کرنا ہو گی۔ ممی ہر وقت آپ کے ساتھ نہیں ہوتیں، اس لئے منع کر رہی ہوں“ اس بار انہوں نے رسانیت سے اسے سمجھایا۔
وہ منہ بسور کر بیٹھ گئی، آنکھوں میں آنسو آنے کو بے تاب تھے۔ مسز فرحت اکلوتی اولاد کو منانے کے موڈ میں نہ تھیں لیکن اس کی اُتری شکل دیکھ کر اُن کا دل نرم پڑنے لگا۔
”السلام علیکم بھابھی!“ لاؤنج کے دروازے سے اچانک وحید داخل ہوئے۔
”وعلیکم السلام!“ مسز فرحت جو ڈھیلی ڈھالی صوفے پر پڑی تھیں ایک دم چونک کر اٹھیں اور اپنے بے ترتیب کپڑوں کو درست کرنے لگیں۔
ثانیہ ہنوز ویسے ہی بیٹھی رہی۔
وحید ان کے شوہر کے فرسٹ کزن ہونے کے ساتھ بہت اچھے دوست بھی تھے۔ سو گھر میں اس طرح آنا جانا اور بے تکلفی سے داخل ہونا ان کا معمول ہی تھا۔
’ارے ہماری گڑیا کا کیوں موڈ آف ہے؟“ وحید نے ثانیہ کے گال چھوئے۔ وہ ناگواری سے کسمسائی۔
”بس وحید بھائی یہ ثانی کو اپنی دوست کے ہاں جانا ہے اور میں منع کر رہی ہوں اس لئے موڈ آف ہو گیا ہے۔“ انہوں نے مختصراً بتایا۔
”تو ڈرائیور کہاں ہے؟“ وحید نے پوچھا۔
اصل میں، میں avoid کرتی ہوں کہ ثانی کہیں اکیلے جائے اور ڈرائیور کے ساتھ بھیجنا نہیں چاہتی اس کے پاپا بھی ابھی تک …… وہ لاشعوری طور پر وحید کو تفصیل بتانے لگیں کہ وحید نے بات کاٹ دی۔
”ارے بھابھی میں چھوڑ دیتا ہوں۔ اس میں ایسا کیا مسئلہ ہے۔“ وحید نے اپنی پُرخلوص خدمات پیش کیں۔
مسز فرحت شاید یہی بات سننا چاہ رہی تھیں فوراً ہلکی پھلکی ہو گئیں۔
”چلو جاؤ ثانی تیار ہو جاؤ تمہارا مسئلہ حل ہو گیا۔“
”مگر ممی……“ وہ کچھ کہنا چاہتی تھی۔
اب کیا ہوا ثانی جاؤ تیار ہو جاؤ، دیکھو انکل وحید کتنے kind ہیں۔“ انہوں نے مسکرا کر کہا۔
”چلو بیٹا جلدی کرو۔“ انکل وحید نے شفقت سے کہا۔
”اوکے۔“ وہ انہیں نظر انداز کرتی ہوئی بادلِ ناخواستہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔
”ثانیہ کے ایگزامز ہو رہے ہیں کیا؟“ کمال صاحب نے لیپ ٹاپ کے کی بورڈ پر انگلیاں چلاتے ہوئے مصروف انداز میں بیوی سے سوال کیا۔
”نہیں ابھی تو نہیں ہو رہے“ مسز فرحت سنگھار میز کے آگے بیٹھی کلینزننگ میں مصروف تھیں۔
”اچھا پھر دکھائی کیوں نہیں دیتی؟“ کمال صاحب نے پوچھا۔
”آج کل چپ چپ سی ہے میں نے پوچھا پر کچھ بتاتی ہی نہیں۔“ وہ نرمی سے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں رخساروں پر گول دائرے میں گھمانے لگیں۔
”کیا مطلب بتاتی نہیں؟ کیسی ماں ہو تم؟“ کمال صاحب بھرم ہوئے۔
”کمال! پوچھا تھا میں نے کہ کیا پرابلم ہے پر کہتی ہے کچھ نہیں۔ میں نے ہزار بار آپ سے کہا ہے اس کے اسکول جائیں اس کے ٹیچرز سے ملیں۔ کچھ دن پہلے ہی وہ اپنے ریاضی کے سر کی شکایت کر رہی تھی لیکن آپ کو آفس سے فرصت ہی نہیں۔“ انہوں نے تڑخ کر جواب دیا وہ اپر کلاس کی آزاد خیال عورت تھیں ایسا روایتی طعنہ کیسے برداشت کرتیں۔
”تو کیا کمانا چھوڑ دوں؟ تم لوگوں کے لئے ہی تو کر رہا ہوں محنت۔“ کمال صاحب بھی آج سارے حساب برابر کرنے کے موڈ میں تھے۔“
”کمال پلیز، ابھی ثانی کی بات کر رہے ہیں ہم۔“ انہوں نے شوہر کو بگڑتے دیکھ کر بات ختم کرنے کی کوشش کی۔
”جس دن سے فرینڈ کی برتھ ڈے سے آئی ہے پریشان ہے۔ پہلے میں نے سوچا شاید دوست سے لڑائی کر لی ہے اس لئے اپ سیٹ ہے لیکن اس کی دو ستیں کل آئی تھیں گھر، ان کے ساتھ بھی کھوئی کھوئی سی تھی۔“ وہ اپنے خیالات سے انہیں آگاہ کرنے لگیں۔