باجی ارشاد

باجی ارشاد
سارہ قیوم

 

باجی ارشاد سویرے سویرے سارے کام سے فارغ ہو کر نیا جوڑا خرید لائی اور دوپہر کو ٹرک کے نیچے آکر مر گئی۔
ویسے تو بڑی جی دار تھی جی! باجی ارشاد۔ پچھلے سال اس کی ابو جی سے لڑائی ہوئی تو اس نے دودھ والا بڑا دیگچہ اٹھا کر ابوجی کو دے مارا۔ ابو جی گر پڑا اور امی جی ہائے ہائے کرتی ویسے ہی اس کے اوپر گر گئی۔ ہم ساری دیورانیاں، جیٹھانیاں دل ہی دل میں بڑی خوش ہوئیں۔ بھائی اکرم گھر آیا تو باجی ارشاد سے بڑا لڑا۔ مار مار کر نیل ڈال دیئے پر وہ صلح کو نہ مانی۔ کہتی تھی صلح کروں گی تو خود کروں گی تیری مار سے نہیں کروں گی اور جب صلح کی تو ایسے ہی نہیں کی۔ پوری ایک کلو مٹھائی منگا کر بانٹی پھر صلح کی۔ ایسی عقل مند اور بہادر تھی باجی ارشاد، لیکن جب مری تو منٹوں سیکنڈوں میں ہی مر گئی۔ ذرا حوصلہ نہ کیا۔ ہائے باجی ارشاد تو نے ذرا نہ سوچا کہ کس پہ غصے نکالے گا بھائی اکرم تیرے پیچھے اور کیا کریں گے تیرے بغیر تیرے چھوٹے چھوٹے وکرم، ولیم اور سونیا۔ آپ کو تو پتا ہی ہے جی! یہ آج کل کے بچے بھلا رہتے ہیں ماؤں کے بغیر؟
چار گھروں کا کام کرتی تھی۔ جب میری نئی نئی شادی ہوئی تو مجھے بھی ساتھ لے جاتی تھی۔ میں اس کے ساتھ صفائی کرا دیتی یا کپڑے دھلوا دیتی۔ لیکن جب میری طبیعت خراب ہو گئی تو میں نے جانا چھوڑ دیا۔ ساری جیٹھانیوں میں سے باجی ارشاد ہی میرا سب سے زیادہ خیال رکھتی تھی جی۔ باجی حمیدہ تو اتنی سست تھی کہ پورے دن میں صرف ایک گھر کا کام کرتی۔ بولتی تو کوئی اس کی بات ہی نہ سنتا۔ دو منٹ کی بات گھنٹے میں کرتی۔ کسی کے پاس اتنا ٹائم ہی نہیں تھا اور باجی بلقیس تو پرلے درجے کی بدتمیز تھی۔ ہر وقت گندے گندے مذاق کر کے ہنستی رہتی اور نت نئے فیشن کرتی رہتی۔ ہم سب میں کالی تھی پر مہرون لپ اسٹک سے کم تو لگاتی ہی نہیں تھی۔ باجی ارشاد سب سے اچھی تھی۔ تھی تو چھوٹی سی، یہ اس کرسی سے ذرا ہی اونچی ہو گی اور کانے جیسی پتلی پر تھی بڑی پھرتیلی۔ چار گھروں میں جھاڑو پوچا کرتی۔ اپنے گھر کا کام کرتی اور جب مجھے اُلٹیاں آتی تھیں تو وہی سنبھالتی تھی۔ میری تو بچی بھی اس نے پیدا کرائی جی۔ جب میرا ٹائم آیا تو میرا میاں گیا دائی کو بلانے۔ دائی مرن جوگی اپنی بیٹی کے گھر گئی ہوئی تھی۔ ادھر میری حالت خراب۔ جب اینڈ ہونے والا ہوا تو باجی ارشاد سامنے بیٹھ گئی اور لو جی باجی ارشاد نے کڑی جمالی۔ نام بھی اسی نے رکھا۔ روزی۔
باجی ارشاد بڑی خدا پرست تھی۔ اتوار کے اتوار چرچ جا کر نماز پڑھتی اور گیت گاتی۔ ہائے ہائے گاتی بڑا اچھا تھی۔ اصغر لفنگے کے ویاہ پہ اس نے بڑی ڈھولکی بجائی اور ٹپے گائے۔ درزی والا ٹپہ تو سب نے فرمائش کر کے بار بار سنا: اک چولا درزی دا، نہ سانوں گھر ملیا نہ ماہیا مرضی دا۔

بھائی اکرم نے سنا تو اسے بڑا مارا۔ کہنے لگا اب میں نے نہیں رکھنی، کا گت ہی دینا ہے۔ خیر بھائی اکرم کی تو عادت ہے۔ جس روز باجی ارشاد فوت ہوئی ہے اس سے ایک دن پہلے بھی تو اس نے یہی کیا تھا۔ باجی ارشاد کے بھائی کی منگنی تھی۔ اس نے نیا سوٹ خریدنے کے لیے پیسے مانگے تھے۔ بس جی مارکُٹ کے گھر سے چلا گیا اور کہہ گیا کہ اب نہیں رکھنی۔ کاگت ہی دنیا ہے۔ پہلے تو باجی ارشاد منہ لپیٹ کر پڑی روتی رہی پھر اٹھ کر کام پہ چلی گئی۔ واپسی پر بڑی خوش خوش آئی۔ باجیوں سے پیسے مانگ کر لائی تھی۔ اگلے دن سویرے سویرے سارے کام سے فارغ ہو کر نیا جوڑا خرید لائی۔ دوپہر کو بھائی اکرم کے ساتھ سائیکل پہ بیٹھ کر ماں کے گھر کو نکلی۔ لال بتی پر گاڑیاں رکیں، پیچھے سے ٹرک نے آکر کھڑی سائیکل کو ٹکر مار دی۔ باجی ارشاد سڑک پر گر پڑی اور ٹرک اس کے سر پر چڑھ گیا۔ دوسرا سانس نہ لیا بے چاری نے۔ خونم خون گھر آئی تو ہمیں یقین ہی نہ آیا۔ جنازے پہ اتنا ملک تھا کہ گلی تنگ پڑ گئی۔ جنازہ لے کے ہم پہلے باجی روحی کے گھر گئے۔ وہ بے چاری رو پڑی اور ہزار روپیہ نکال کے باجی ارشاد کی ہتھیلی پر رکھا۔ دو گھر چھوڑ کر بریگیڈئر صاحب کا گھر تھا پر وہ بڑا ڈاہڈا آدمی تھا اس لئے ہم نے اس کے گھر کی گھنٹی نہ بجائی۔ بعد میں پتا چلا لفنگا اصغر دوپہر کو ہی اسے اطلاع دے کر دو ہزار روپے لے آیا تھا۔ آپے ہی کھا پی گیا۔

Loading

Read Previous

بیگم شرف النساء

Read Next

سبز اور سفید

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!