باجی ارشاد

چوٹیں تو بھائی اکرم کو زیادہ نہ آئیں پر اس کا دل گھٹ گیا۔ پہلے تو چپ گپ ہو گیا۔ پھر ذرا ہوش آیا تو رویا پیٹا۔ پھر ذرا زیادہ ہوش آگیا تو اٹھ کر شہناز کے گھر چلا گیا۔ شہناز اس کی شادی سے پہلے کی سہیلی تھی۔ ماں پیو نے اس کی شادی کہیں اور کر دی۔ ادھر بھائی اکرم کا بھی ویاہ ہو گیا۔ اب جو باجی ارشاد فوت ہوئی ہے تو بھائی اکرم کو شہناز یاد آگئی۔ وہ اس کے گھر گلبہار کالونی جانے لگا۔ ہیں جی؟ نہیں نہیں جی اس کا میاں زندہ تھا۔ بچے بھی تھے، سات۔ اصل میں جی اس کا میاں جہاز تھا۔ وہ سوٹا لگا کر دروازے پر پڑا رہتا۔ بھائی اکرم ٹاپ کر اندر چلا جاتا۔ باجی ارشاد کو مرے مہینہ بھی نہیں ہوا تھا، بھائی اکرم شہناز کو گھر لے آیا۔ نہیں نہیں جی، نکاح نہیں کیا تھا ابھی۔ لو، ساس سسر نے کیا منع کرنا تھا؟ وہ آپ ہی ایسے تھے۔ وہ تو جی محلے والوں نے کہا ایسے رہنا ٹھیک نہیں نکاح پڑھاؤ۔ شہناز نے فٹافٹ باجی ارشاد کا ٹرنک کھول کر ایک لال سوٹ نکالا نکاح پہ پہننے کے لئے۔ پر جی باجی ارشاد تو چھوٹی سی تھی پتلی سی، شہناز اونچی لمبی۔ باجی ارشاد کی قمیص اس نے گلے میں تو ڈال لی، بازو بھی پھنسا لئے پر اس سے نیچے نہ گئی قمیص۔ شہناز کے بازو سر سے اوپر ہی رہ گئے اور وہ لال قمیص میں پھنس کر کاں گڈا بن کر کھڑی ہو گئی۔ میری تو ہنسی نہ رکے جی۔ بڑی مشکل سے اسے قمیص میں سے نکالا۔ میں قمیص کھولنے بیٹھی۔ شہناز اپنے بچے لانے گلبہار کالونی چلی گئی۔ بچے لے کر ابھی گھر آئی ہی تھی کہ ساتھ ہی فادر آگیا۔ اب جو نکاح ہونے لگا تو فادر نے پچھلی شادی کا طلاق نامہ مانگا۔ طلاق تو ہوئی نہیں تھی جی۔ فادر بڑا ناراض ہوا۔ کہنے لگا پہلے طلاق لے کر آؤ پھر نکاح ہو گا۔ شہناز اور بھائی اکرم گلبہار کو بھاگے طلاق لینے۔ بڑی دیر ہو گئی۔ پیچھے سے فادر کا ہلا پڑ گیا کہنے لگا چھیتی چھیتی کرو۔ میں اور میرا میاں گئے گلبہار، ان دونوں کو بلانے۔ وہاں گئے تو جہاز صحن میں چار پائی پہ پڑا تھا۔ شہناز اس کے ترلے لے رہی تھی اور بھائی اکرم اس کا گلا دبا رہا تھا پر وہ طلاق نہیں دے رہا تھا۔ وہ جہاز تھا نا جی، وہ کیسے طلاق دیتا؟ اسے تو ہوش ہی نہیں تھا۔ واپس گھر بھابڑے آتے آتے شام پڑ گئی۔ تب تک فادر اتنا کاہلا پڑ گیاہوا تھا کہ اس نے بغیر طلاق کے ہی نکاح پڑھا دیا۔ اس سارے سیاپے میں شہناز کو لال جوڑ اپہننے کا وقت ہی نہ ملا پر باجی بلقیس نے اس کو منہ بھر کے مہرون لپ اسٹک تھوپ دی۔ گرمی میں وہ بھی بہ گئی۔ پھر ابو جی نے کہا چرغہ لاؤ۔ چرغہ لانے کی تو بھائی اکرم کی اوقات نہیں تھی اس لئے وہ تندور سے دال لے آیا۔ کھا پی کے فارغ ہو کر جب دلہا دلہن کمرے میں گئے تو ان کے بستر پر دس بچے سو رہے تھے۔ سات شہناز کے اور تین بھائی اکرم کے۔ بڑی دیر تو جی دونوں بچے ہی ڈھوتے رہے۔ پانچ بچے اٹھا کر باہر چار پائیوں پر ڈالے، پانچ پھر بھی اندر ہی رہ گئے، پھر کہیں جا کے دلہا دلہن سوئے۔
اگلے دن میں صبح چولہے پہ بیٹھی ناشتہ بنا رہی تھی جب بھائی اکرم کمرے سے نکلا۔ ہمیں صحن میں دیکھا تو دانت نکال کر کہنے لگا کسی نے میرے ویاہ پہ گانے ہی نہیں گائے۔ کوئی ڈھولکی بجاؤ، کوئی ٹپے سناؤ۔ مجھے پتا نہیں کیا ہوا جی، میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

Loading

Read Previous

بیگم شرف النساء

Read Next

سبز اور سفید

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!