الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۳
رات:14
آنا حسن بدرالدین کا غیض و غضب میں اور چڑھنا حجام کے ہتھے:
چودھویں شب کو جب شہریارِ سکندر جاہ خاقانِ کلاہ نے انتظامِ سلطنت سے فراغت پائی تو خاتونِ جمیلہ شہرزاد یوں چہچہائی کہ جب سوداگر بچے حسن بدرالدین نے زلیخا کو گوشۂ صحن میں چپکے چپکے روتے پایا تو بہت بے قرار ہوا اور زلیخا سے بصد اصرار اس گریہ و بکاہ کا سبب پوچھنے لگا۔ زلیخا پہلے تو ٹالتی رہی، آخر بار بار کے اصرار سے مجبور ہو کر روتے ہوئے یوں گویا ہوئی۔ ‘‘جب میں چیک اپ کرانے گئی تو…… ڈاکٹر نے مجھے….. اس نے مجھے…molest کیا۔’’
زلیخا نے انگریزی کا جو لفظ بولا اس کا مطلب حسن کو معلوم نہ تھا۔ اگرچہ حسن زمانِ پاستان سے آیا تھا مگر بفضل ِخدا بلا کا ذہن پایا تھا۔ اس کی چھٹی حس نے گھنٹی بجائی اور کُل امور اس کے سامنے روزِ روشن کی طرح عیاں کر دیے کہ اگر ایک نوجوان طرحدار لڑکی ایک خرانٹ، گرگِ باراں دیدہ ڈاکٹر سے مل کر آتی ہے اور پھر تنہائی میں لاکھ لاکھ آنسو بہاتی ہے تو اس کا کیا مطلب ہو سکتا ہے۔ شک کے عوض حسن کو یقین ہو گیا کہ اس بدبخت، ناہنجار ڈاکٹر نے دست درازی کی ہو گی، کچھ نہ کچھ حیلہ بازی کی ہو گی۔
اس حقیقت کا ظاہر ہونا تھا کہ مارے غیض و غضب کے حسن تھرتھر کانپنے لگا۔ ماموں زاد بہن کے ساتھ ایک لعین مرد کی دست درازی کی بات سن کر بھلا کیوں کرنہ تاب آئے اور انسان قتل پر کیوں نہ آمادہ ہو جائے؟
پس حسن اچھل کر کھڑا ہوا اور چلاٌ کر بولا: ‘‘کہاں ہے میری تلوار و شمشیر، نیزہ و تیر؟ فوراً حاضر کرو کہ جا کر اس بدکارناہنجار کا کام تمام کروں، غیرت دار مردوں میں نام کروں۔’’
زلیخا نے جو حسن کو اس طیش اور غیض و غضب میں دیکھا تو گھبرا کر بولی: ‘‘پلیز آہستہ بولو۔ دیکھو اتنا غصہ نہ کرو۔ پلیز بیٹھ جاؤ۔’’
لیکن حسن اس وقت شمشیرِ عریاں تھا، غصہ ور مثل شیرژیاں تھا۔ بدماغ ہو کر بولا:
‘‘بیٹھ جاؤں؟ مجھے کیا سمجھ رکھا ہے کہ اتنی بڑی بات سن کر بھی میں بیٹھ جاؤں؟ میں چاہتا ہوں کہ اسی وقت جاؤں اور اس مردود کا گلا دباؤں۔ تلوارِ تیز کا ایسا تلا ہوا ہاتھ دوں کہ لاش پھڑکتی نظر آئے، پانی نہ مانگنے پائے۔’’
زلیخا نے گھبرا کر حسن کا ہاتھ پکڑ کر اسے کرسی پر بٹھایا اور بصد ِمنت و سماجت بولی: ‘‘خدا کا واسطہ ہے اتنا شور نہ مچاؤ۔ کسی نے سن لیا تو میری عزت جائے گی اور تمہاری جان۔ ارادۂ قتل کے الزام میں پکڑے جاؤ گے۔’’
یہ کہہ کر پانی حسن کو دیا، حسن نے ایک سانس میں پیا۔ ٹھنڈے پانی سے غیض و غضب کی آگ تھوڑی ٹھنڈی ہوئی مگر پوری طرح نہ بجھی۔
زلیخا نے رنجیدہ ہو کر کہا: ‘‘اسی لیے میں نے کسی کو بتایا نہیں تھا۔ اسی ری ایکشن کا خدشہ تھا مجھے۔ تم نے مجھے کمزور لمحے میں پکڑ لیا۔ ورنہ میں تمہیں کبھی بھی نہ بتاتی۔’’
حسن نے غصے سے کہا: ‘‘کیوں نہ بتاتی؟ اور میں تو پوچھتا ہوں اسی وقت کیوں نہ بتایا؟ میں اسی وقت اس عفریتِ پلید کی خبر لیتا۔ اسے قتل کرتا اور خدا سے اجر لیتا۔’’
زلیخا نے سر جھکا لیا۔ کچھ دیر خاموش رہی، پھر آہستہ سے بولی: ‘‘پہلے تو مجھے کچھ سمجھ ہی نہیں آئی۔ میں اس سے پیٹ درد کا علاج کرانے گئی تھی۔ پیٹ تو اس نے چیک کرنا ہی تھا۔ ہاتھ سے بھی اور اسٹیتھوسکوپ سے بھی۔ لیکن پھر۔ پھر اس نے اور جگہ بھی۔ اور جب میں گھبرائی توکہنے لگا، آپ کے ریفلیکسز چیک کر رہا ہوں۔ گھٹنے پر ہتھوڑی مار کر چیک کیا، پاؤں پر بھی اور پھر۔ پھر اچانک اس نے۔۔۔۔۔۔’’