وہ شہر کے صدر بازار میں لوہے کی منڈی تھی جو ہر وضع اور ہر قماش کے لوگوں سے بھری پڑی تھی۔ وہ صومعہ نشین بھی اسی منڈی کا منتشر سا صیغہ معلوم ہو تا تھا ۔ ایک منظوم عبارت سا علیا بشر ، جو ساکن ہو کر بھی متحرک دکھتا ۔
وہ پورے دن میں واحد کام موحد بن کر کرتا ۔ صبح سویرے جب اِکا دُکا سائیکل سوار اخبار بیچنے شہر کی سڑکیں چھاپتے ، ہر پرند اپنا گھونسلا رزق کے لیے چھوڑ کر پرواز بھرتا، تب وہ بھی ایک قوی الجثہ مقناطیس ، جسے اٹھانا صرف اسی مجاور کے بس کا کام تھا ، کو موٹی رسی سے باندھ کر تمام بند دکانوں کے باہر زمین سے انچ بھر اٹھا ئے اٹھائے پھرتا ۔ لوہے کے نادیدہ ، بیکار ٹکڑے اس مقناطیس کی طرف کھنچے آتے تھے ۔ یہ وہ پہلو تھا جو ہر صاحب ِ بصر دیکھتا تھا اور جو پہلو ہر صاحب ِ بصیرت دیکھ سکتا تھا’ وہ یہ تھا کہ دراصل وہ اس کی جانب کھنچے چلے آتے ہیں ۔پھر انہی جمع شدہ ٹکڑوں کو ایک طرف ڈھیر کرتا جاتا اور یوں اس کا کام تمام ہو جاتا ۔پھر باقی ماندہ دن وہ کسی نہ کسی دکان کے باہر پڑا جیب سے چند بوسیدہ کاغذ نکال کر ان پر لکھی آیات پڑھتا رہتا۔ کبھی وہ یوں روانی سے انہیں دہراتا جیسے سب اسے ازبر ہو اور کبھی اس د قت سے پڑھتا گویا ابھی ابھی ہجے کرنا سیکھے ہوں ۔
اس کے بائیں ہاتھ میں ہمیشہ کستوری کی شیشی دبی ہوتی جسے وہ ہر تین چار منٹ بعد نتھنوں سے لگا کر گہرے سانس بھر کر اپنے اندر اتار لیتا اور پھر سے مٹھی میں دبا لیتا۔ وہ ہر تین چار منٹ بعد یہ عمل دہراتا، اسی لیے وہ سب کے لیے مشام تھا ۔
حاکم کے بڑے ابا بتاتے تھے کہ وہ ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا، مگر وہ کبھی پوچھنے کی جرأت نہ کر سکا کہ وہ کیسا تھا؟ حاکم نے جب جب اسے گزرتے ہوئے دور سے سلام کیا، تو سلام کے جواب سے قبل وہ لازماً اک خاطی کے مانند سارے جسم کو ٹٹول ٹٹول کر سونگھا کرتا ، پھر چشمِ زدن میں شیشی نکال کر سانس اندر کو کھینچتا، شیشی سے خود پر چھڑکاؤ کرتا اور تب کہیں جا کر سلام کا جواب دیتا ۔ اکثر سلام کرنے والا جا چکا ہوتا، تو وہ اگلی بار اس کے سامنے آنے پر اُدھار رکھا جواب لوٹا دیتا ۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”اس کا اصل نام عالم ہے۔ یہ سامنے کی بڑی منزل اس کی ملکیت رہی ہے ۔ پھر اس نے اسے شہر کے اندر مشہو ر ‘ پاگل کدے ‘ کے نام منتقل کر دیا اور خود ایک عرصہ غائب رہا۔جب لوٹا تو اس حال میں لوٹا۔” اکمل نے ساری کہانی ایک آنکھوں دیکھی کہانی کی مانند دہرا دی جو دراصل اس کے ابا نے اسے سنا رکھی تھی ۔
”کوئی حادثہ ہوا یا واقعہ ؟” حاکم نے دور نظر آتے ، جھوم جھوم جاتے ‘مشام ‘ کو دیکھتے سوال کیا ۔
”نہ حادثہ ، نہ واقعہ۔ عصیان تھا ۔”
”اسی لیے ملکیت صدقے میں دے ڈالی؟”
”نہیں! کفارے میں ۔”
اور حاکم کے اندر کھوج کاٹنے لگی کہ وہ ایسا کیسے ہوا ؟”
”آپ کو یہ مشک پسند ہے ؟”
اس روز وہ جسارت کر ہی بیٹھا اور تبھی اس کے پاس جا کر بیٹھ گیا ۔ آدھے بازار نے اسے ایسا کرتے دیکھا ، باقیوں میں سے کسی نے اس کی شجاعت کی داد دی، تو کسی نے اسے نصیحت کی۔ کسی نے اسے ڈرایا، تو کسی نے تاسف سے سر ہلایا، مگر اسے یہ سب کرنا ہی تھا ۔
” میں اس سڑاند کو ناپسند کرتا ہوں ۔” وہ کس سڑاند کی بات کر رہا تھا ۔ حاکم یہ سمجھنے سے قاصر رہا۔
” یہاں تو ایک مشک فام کے سوا کچھ نہیں۔ ” حاکم نے گہری سانس لیتے اس خوش بو کو ہمیشہ کے لیے قید کر لینا چاہا۔
”یہاں لحم اور لہو کی بساند ہے، جو ہر اس وجو د سے اٹھتی ہے جو مردہ ہو ۔ کیا تم سونگھنے کی حس سے بے حس ہو ؟ ”
اور حاکم نے غائب دماغی سے اس حاضر جواب کو دیکھا ۔ اس بھید بھرے سودائی کے ہر اس راز کو جو وہ اک عرصے سے اٹھا ئے پھر رہا تھا ۔
٭…٭…٭
بڑا مُؤقرّ اور زاہدوں میں گردانا جاتا تھا وہ عالم۔” جس کا صدر بازار میں بڑا کاروبار اور بیوپاری مال تھا ۔ چالیس کے پیٹے میں بھی گھر نہ بسایا تھا ۔زندگی بس ایک ہی مدار میں گھومتی تھی ۔ ”خدمت ِ خلق۔” نہ ظلم کرو ، نہ ظلم کیے جاؤ۔ ظلم پھر ہوا بھی اور خود پر کیا بھی گیا۔
اندرونِ شہر جس طویل گلی میں اس کی پیلی حویلی ساری عمارتوں کو ہیچ کرتی سر اٹھائے کھڑی تھی، وہیں اسی گلی کا اختتام چھوٹے سے ایک کمرے کے مکان پر ہوتا تھا جو’ ‘پاگل کدہ’ ‘ کے نام سے مشہور تھا۔ ”پاگل کدہ’ ‘ دو خواتین کی ملکیت تھا جس کے باہر دیواروں پر جا بہ جا کسی راہ چلتے منچلے نے کوئلے سے ”پاگل کدہ’ ‘ جلی حروف میں کندہ کیا اور مانو مکان کی نہیں، مکین کے دل کی دیواروں پہ کندہ ہوا کہ دل کو لگا گویا دل سے لگا۔
دو خواتین ، دونوں بہنیں ، دونوں مطلقہ ، دونوں بے اولاد ، دونوں ہی مخبوط الحواس۔ چھوٹی اور بڑی بی بی ۔وہ بشر سے بھاگتیں تو بشر ان سے چھپتے اور اس چھپنے میں درپردہ بڑی تہمتیں تھیں جو وقت نے محذوف کر ڈالیں ۔
اس گھر کی آبادی میں ان کی بالوں کی سیاہی اور ہاتھوں کی قوت گواہ رہی تھی۔ پھر وہی سیاہی، سفیدی میں ڈھلی اور طاقت، ضعف میں۔ یسر، عسرت میں بدلی اور صحت بیماری میں ۔
نہ کوئی آگے نہ پیچھے۔ تو ہر کوئی ان کے آگے اور پیچھے لگ گیا۔
”یہ حسن کے بازار سے مفرور ہیں۔” وہ انسانوں کے بازار سے مفرور ہوتی ، محدود ہو گئیں۔
” ضرور ان پر سماوی سزا کا نزول ہے ۔” وہ اسی سزا کے واسطے دیتیں ، ارض و سماں والے سے جزا مانگنے لگیں۔ انہیں دیکھتے چلتے پھرتے کانوں کو ہاتھ لگاتے۔
”استغفار کا مقام ہے۔” تو دونوں استغفار کے مقام تک ہی جا پہنچیں ۔ وہ دونوں اپنی قسمت میں لکھے ایک مرد سے مطلقہ ہوئیں تو ہزاروں سے مقہور کردی گئیں۔ وہ انسانیت، جہاں تہمتوں کو مثلِ فن، زن کے دامن پر زینت بنا کر مُحرر کیا جائے ، ایسی انسانیت کو قابلِ مُحرق سمجھتے، دونوں نے اپنے گھر کو گور کی طرح اوڑھ لیا۔
دوسروں کی ذات پر انگلی اٹھانا انسان خود کے لیے تفویض سمجھتا ہے۔ ایسا حق، جو وہ عہدِ الست کے بدلے خدا سے لکھوا کر لایا تھا اور اسی حق سے اس حق کو استعمال بھی کرنا جانتا ہے ۔ سو ان بیبیوں کے اس فرار ِ فرد کو اپنے قرار ِ قلب کے لیے زیر بحث لاتے ہوئے انہیں پاگل قرار دیا گیا ۔
عالم ہر ماہ کی پہلی کو راشن کا سامان کمرے کی ڈیوڑھی میں رکھوا دیتا تھا۔سارا دن پڑے رہنے والا سامان، اندھیرا پھیلنے پر کسی آسیب کی طرح غائب ہو جاتا تھا ۔نہ کبھی جھوٹے منہ شکریہ کہا گیا، نہ کبھی ادھر سے حقِ مہربانی وصول کیا گیا۔
ایسی ہی ایک تاریک رات کو تاریخی دن میں ڈھلنا تھا۔ تبھی جب عالم گندم کی بالیوں میں سے دانے الگ کروا رہا تھا، تو ملازمین میں سے ایک دوڑا ہوا آیا کہ ‘ ‘پاگل کدہ’ ‘ کی بڑی بی بی آئی ہیں ۔وہ سارا کام وہیں چھوڑ کر بھاگا تھا ۔ دروازے کے پٹ تھامے وہ کالی چادر میں انگارہ آنکھیں لیے یوں کھڑی تھی کہ نادانستہ اس نے جھرجھری لی۔
” چھوٹی کو کچھ ہو گیا ہے۔” اس نے ایک ہاتھ سے اپنے کمرے کی طرف اشارہ کیا ۔
” کیا ہو گیا ہے ؟” وہ سمجھ نہ سکا ۔
”یہی تو دیکھنا ہے کہ کیا ہو گیا ہے۔ ” اور وہ اس کے ہم راہ ہو لیا ۔” چھوٹی بی بی بیمار ہیں کیا؟”
”شاید! ”
اس نے تعجب سے ساتھ چلتی کالی رات کا حصہ بنی اس بی بی کو دیکھا ۔برابر میں ایک ہیولا چلتا دکھتا تھا اور بس ۔
” حکیم یا طبیب کو دکھایا ہوتا۔”
”جسے میں نہیں جانتی ، اس تک میں نہیں جاتی۔”
”نہ جانے میں کچھ کر بھی پاؤں گا یا نہیں؟” وہ سوچ سوچ کر بے یقین ہو رہا تھا ۔
” کیا خبر اب سب تم ہی کر پاؤ۔” وہ سوچے بنا بھی پر یقین تھی
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
۔