دانہ پانی — قسط نمبر ۹ (آخری قسط)

عشق تے آتش سیک برابر
سانوں عشق دا سیک چنگیرا
اگ تے ساڑھے ککھ تے کانے
عشق ساڑے تن میرا
اگ دا دارو مینہ تے پانی
دس عشق دا دارو کیہڑا
(آگ اور عشق دونوں ایک طرح سے جلاتے ہیں
لیکن ہمیں عشق سے جلنا پسند ہے
آگ تو صرف گھاس پھوس جلاتی ہے
مگرعشق میرا تن جلاتی ہے
آگ تو پانی سے بجھ جاتی ہے
مگر مجھے بتاؤ عشق کس دوا سے ختم ہوتاہے)
اُس بُت نے دعا کی تھی کہ وہ واقعی بُت ہوتا۔ جو اُس نے سُنا، نہ سُن سکتا، جو اُس نے دیکھا، نہ دیکھ پاتا اور اگر پہلے نہیں تھا تو اب بُت بن جاتا، رہ ہی کیا گیا تھا اب دُنیا میں؟
وہ وہاں آنے سے پہلے بھی مجرم بن کر آیا تھا مگر یہ نہیں جانتا تھا کہ بتول سیدھا اُسے پھانسی کے تختے پر لٹکادے گی۔ وہ تو اتنے لمبے عرصے کے بعد گاؤں آنے پر حویلی جانے سے بھی پہلے گامو کے گھر آیا تھا تعزیت کرنے اور موتیا کا حال جاننے۔ اُس کے ملازم نے اُسے بتایا تھا گامو کے بارے میں جب وہ اُسے سٹیشن سے لینے آیا تھا اور مراد اُسے یہ نہیں کہہ سکا کہ وہ اتنے عرصہ بعد واپس ہی اس لئے آیا تھا کہ وہ اُس کے گھر جاسکے۔
”اسلم! حویلی کے بجائے گامو کے گھر چلو۔”
اُس نے گاڑی چلانے والے ملازم سے کہا تھا۔ گامو کے گھر سے بہت دور گاڑی روک کر وہ پیدل اُس کی گلی میں آیاتھا اور اُس گلی میں آتے ہوئے اُسے چند سال پہلے ایک چھت پر کھڑی وہ دلہن یاد آئی تھی۔ اُس نے بے اختیارآج بھی سر اُٹھا کر جیسے اُس گلی میں گامو کے گھر کی چھت پر اُس وجود کو ڈھونڈنا چاہا تھا، وہاں کچھ بھی نہیں تھا۔
گامو کے گھر کا دروازہ کھلا تھا اور مراد نے دہلیز پر قدم رکھ کر اُس دروازے کو بجانا چاہا تھا، جب اُس نے اندر سے آتی بتول کی آواز سُنی تھی اور پھر وہ انسان سے بُت میں بدل گیا تھا۔ پتہ نہیں وہ کون سی ریل کی پٹڑی تھی جس پر وہ لیٹا ہوا تھا اور بتول کی آواز ریل بن کر اُس کے وجود کے پرخچے اُڑاتے ہوئے اُس پر سے گزر رہی تھی۔
”سازش؟ اُس کی ماں یہ سازش کیسے کرسکتی تھی؟”
اُس نے تو صرف ”پیار ” کیا تھا۔ پیار کی یہ سزا تو کوئی اُسے نہیں دے سکتا تھا اور وہ بھی وہ جو اُس کی اپنی ماں تھی۔
کبھی کبھی انسان روشنی میں آنا نہیں چاہتا، کبھی کبھی دُنیا اتنی بدصورت لگتی ہے کہ انسان اُسے دیکھنے کے بجائے اندھا ہوکر جینا چاہتا تھا۔ مراد کے ساتھ بھی اس وقت یہی ہورہا تھا۔ وہ کس کو بُرا کہے؟ کس سے لڑے؟ کس سے بدلہ لے؟سامنے کھڑے مہرے سے یا اُس مہرے کو چلانے والے اُس ہاتھ سے جس نے مراد کو جنم دیا تھا۔
” چوہدری صاحب میں۔۔۔”

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

بتول نے بڑی دیر بعد کچھ کہنے کی ہمت کی تھی اور مراد نے ہاتھ اُٹھا کر جیسے اُسے خاموش ہوجانے کے لئے کہا تھا۔ وہ اب اُس سے کچھ اور بھی سننا نہیں چاہتا تھا۔ کوئی وضاحت، کوئی معافی، کچھ بھی نہیں۔ بتول نے اُس کا چہرہ دیکھا اور پھر پلٹ کر سکے چنتی موتیا کو دیکھا اور پھر وہ چپ چاپ اُس دہلیز کی طرف بڑھ گئی تھی جہاں سے مراد ہٹا تھا۔ وہ بتول کو نہیں دیکھ رہا تھا، وہ چارپائی پر بیٹھے اُس وجود کو دیکھ رہا تھا جسے اُس نے پہلی نظر میں پہچانا ہی نہیں تھا۔ وہ سر جھکائے بیٹھی سکّوں کے ساتھ کھیل رہی تھی اور اُس کے قدموں کی آواز پر اُس نے سر اُٹھا کر اُسے دیکھا تھا بالکل اُسی طرح جیسے کچھ دیر پہلے وہ بتو ل کی طرف متوجہ ہوئی تھی۔
وہ کتنے سال بعد ایک دوسرے کے سامنے آئے تھے۔ کتنے سال بعد ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔
اُس کے نین غزالی دلبر
اُس کے گال گلابی
اُس کے روپ پہ ساون برسے
بہہ جائے مر مرکے
اُس کا حسن کہانی جیسا
کاغذ کتنے بھردے
اُس کی مشک بہاروں جیسی
اُس کی چپ میں چھاؤں
وہ حسن پری
وہ روپ متی
وہ میرے جل کی ناؤ
پہلی بار جب مراد نے اُسے دیکھا تھا تو وہ حسن کا مجسمہ تھا اور وہ اُس پر یوں مرمٹا تھا کہ پہلی نظر بھی ہٹا نہیں سکا تھا۔ موتیا نے اُسے باندھ کر رکھ دیا تھا۔ وہ آج اُس سے ملا تھا تو وہ حسن کا مجسمہ بھربھرا ہوکر اپنی ساری آب وتاب کھوچکا تھا۔ وہ پھر بھی اُس سے نظر نہیں ہٹاپایا وہ آج بھی اُس پر شعر پڑھ سکتا تھا، اُسے آج بھی ٹرین میں سُنا ہوا وہی گیت یاد آیا تھا اور اُس نے عجیب سے اندازمیں وہ سب اُس کے سامنے کہنا شروع کردیاتھا۔ اُس کی آواز امرت کی طرح موتیا کی سماعتوں میں اُتررہی تھی جیسے کسی طلسم کو توڑتے ہوئے اُسے پھر سے زندہ کررہی تھی۔ وہ سب کچھ جو بھول گیا تھا، دوبارہ یاد آنے لگا تھا۔پھر وہ سب کچھ جو یاد آرہا تھا وہ جہاں آکر ختم ہورہا تھا، وہاں وہ کھڑا تھا۔ غائب نہیں ہوا تھا۔
مراد چند قدم چل کر آگے آیا تھا پھر اُس کے بالمقابل چارپائی پر بیٹھ گیا تھا۔ اُس کے ہاتھ سے سکّے لے کر اُس نے چارپائی پر رکھے تھے۔ اُس کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے لیا تھا۔ اُس کا ہاتھ بے حد ٹھنڈا تھا۔ بہت کمزور، اُس کی ہاتھ کی رگیں اُبھری ہوئی تھیں۔گوشت نہ ہونے کے برابر تھا۔ اُس کا سرخ و سفید گلابی رنگ اب زرد تھا۔ اُس کے اتنے قریب بیٹھ کر مراد اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نہیں دیکھ سکا۔ وہ سر جُھکائے اُس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لئے کسی مجرم کی طرح بیٹھا ہوا تھا اور موتیا پلکیں جھپکائے بغیر اُسے دیکھتی ہی جارہی تھی۔
”مجھے اتنا برا بھلا کہو موتیا کہ میں مرجاؤں یہاں بیٹھے بیٹھے۔”
وہ عجیب مطالبہ تھا جو مراد نے بالآخر سر اُٹھا کر اُس سے کیا تھا۔
” میں اب تم سے اپنے لئے کوئی اچھے الفاظ نہیں چاہتا۔ کوئی اظہارِ محبت نہیں، بس تم مجھے بددعائیں دو، بُرا بھلا کہو، گالیاں دو۔ میں سب کچھ سننے آیا ہوں جو اتنے سالوں میں میری بے وفائی پر مجھے کہا ہوگا۔”
مراد نے اُس کو دیکھتے ہوئے کہا تھا اور جواب اللہ وسائی نے دیا تھا جو ابھی ابھی گھر میں داخل ہوئی تھی اور دروازے کی طرف مراد کی پشت ہوتے ہوئے بھی وہ پہچان گئی تھی کہ وہ کون تھا جو موتیا کے سامنے بیٹھا تھا تو موتیا کی آنکھوں میں جیسے چمک لوٹ آئی تھی۔
” جس دن تمہاری بارات ہمارے گھر آنے کے بجائے دروازے کے سامنے سے گزر کر گئی تھی، اس دن کے بعد موتیا نہیں بولی۔ گامو کے مرنے پر بھی نہیں ۔ چھوٹے چوہدری کمّی کمین تو ہم تھے پر تم لوگوں نے کیوں بدلہ لینے کے لئے کمیّوں سے بھی بدتر کام کیا۔”
اللہ وسائی کی آواز پر وہ کرنٹ کھا کر پلٹا تھا اور پھر بے اختیار چارپائی سے کھڑا ہوگیا۔
” کس کی بارات؟ میری بارات نے تو یہاں آنا نہیں تھا۔”
” جاکر اپنی ماں سے پوچھ، اپنے باپ سے پوچھ کہ تیری بارات نے اُس دن کہاں جانا تھا اور کہاں گئی؟ تو نے میری بیٹی کو رسوا کرنا تھا تو چھوڑدیتا، پورے گاؤں کے سامنے یوں بارات لاکر تماشا نہ بناتا۔دیکھ اب اس کا حال یہ نہ ہنستی ہے نہ روتی ہے اور نہ بولتی ہے۔ تین سال سے اسی طرح لئے بیٹھی ہوں۔ اسے دیکھتے دیکھتے گامو مرگیا۔ اکلوتی جوان بیٹی کا یہ حال ہوجائے تو کون زندہ رہے گا؟ میں بھی زندہ لاش ہوں چھوٹے چوہدری۔ صرف اس لئے چل پھررہی ہوں کیونکہ یہ زندہ ہے، اس کی سانسیں چل رہی ہیں۔ اس نے بددعا نہیں دی کبھی تجھے اور تیرے ماں باپ کو، پر میں ہر روز دیتی ہوں۔ بھٹی پر دانے بھونتے ہوئے میں سارا وقت تجھے بددعائیں دیتی ہوں کہ تیرا خاندان اس طرح اُجڑے کہ لوگ کانوں کو انگلیاں لگا لگا کر توبہ کریں۔”
اللہ وسائی بے حد غم و غصّہ میں اُس سے کہتی جارہی تھی اور مراد دم سادھے سُن رہا تھا۔
اولاد کے گناہ ماں باپ کے پیروں کے نیچے سے زمین نکال دیتے ہیں لیکن ماں باپ کے گناہ بھی اولاد کی جان نکال دیتے ہیں۔
مراد نے ایک لفظ کہے بغیر وہ سب کچھ سن لیا تھا۔ اُس نے اللہ وسائی کو بولنے دیا تھا۔ رونے دیا تھا۔ وہ سارے جہاں کا کوڑا لاکر اُس پر پھینک دیتی ، تب بھی وہ وہاں سے نہ ہلتا۔ لیکن اُس کا ذہن ماؤف ہورہا تھا۔ اُس کی ماں اتنی بے رحم تو کبھی بھی نہیں تھی یا تھی اور اسے ہی اندازہ نہیں ہوا تھاکیونکہ وہ اُس کی اکلوتی اولاد تھا ۔ اُس کے لئے اُس کی ماں کے پاس مٹھاس کے علاوہ کچھ تھا ہی نہیں اور اُس مٹھاس نے اُسے بے یقین کردیا تھا کہ وہ جو کچھ سُن اور دیکھ رہا تھا، وہ تاجور کا کیا دھرا تھا۔ اتنی نفرت، اتنا زہر، اتنی بے رحمی اور اتنی بے حسی۔۔۔ کس طرح؟ وہ سمجھنے سے قاصر تھا اور وہ جیسے تڑپ رہا تھا۔
” تو دیکھ یہ میری بیٹی کس طرح گزارے گی ساری زندگی؟ باپ چلا گیا ، میرے بعد کون خیال رکھے گا اِس کا؟ لوگ کہتے ہیں یہ پاگل ہوگئی ہے، پر مجھے پتہ ہے یہ پاگل نہیں ہے، بس سہہ نہیں سکتی کچھ بھی۔ تو نے ٹور نہیں نبھانی تھی تو کیوں میری بیٹی کو محبت کا فریب دیا تھا؟”
اللہ وسائی روتے ہوئے اُس سے پوچھ رہی تھی اور مراد کے پاس کوئی جواب نہیں تھا، نہ کوئی وضاحت۔ وہ اللہ وسائی سے یہ کہہ نہیں پارہا تھا کہ وہ بھی لہولہان تھا۔ اُس کی پشت میں غیروں نے نہیں اُس کی اپنی ماں نے خنجر گھونپا تھا۔
” سنیں چاچی! میں اس جمعے کو بارات لے کر آؤں گا اور موتیا کو بیاہ کر لے جاؤں گا۔ جو کچھ ہوا، اُس پر اپنا پچھتاوا اور رنج دکھانے کے لئے میرے پاس لفظ نہیں ہیں مگر میں موتیا کو اب لے جاؤں گا، اسی دھوم دھام سے جس دھوم دھام سے وہ پہلی بارات آپ کی گلی سے گزر کر گئی تھی۔”
وہ فیصلہ لمحوں میں ہوا تھا اور اُس سے بھی کم وقت میں مراد نے اللہ وسائی کو سُنا دیا تھا۔ وہ گنگ رہ گئی تھی۔ وہ اُس موتیا کو بیاہنے آئے گا، سب کچھ دیکھنے اور جاننے کے بعد بھی۔ اللہ وسائی کو یقین نہیں آیا تھا۔ لیکن کہنے والا اب ایک بار پھر جُھک کر موتیا کا ہاتھ پکڑ رہا تھا اور پھر اُس نے اس ہاتھ کو اپنے ہونٹوں سے چھو کر ماتھے پر لگایا تھا۔ پھر وہ اُٹھ کر کھڑا ہوا اور کچھ بھی کہے بغیر اُن کے گھر سے نکل گیا تھا۔
”مراد!”
اللہ وسائی کو لگا اُسے وہم ہوا تھا۔ اُس نے بے یقینی سے موتیا کو دیکھا۔ وہ چارپائی سے اُتر کر کھڑی تھی اور اُس دروازے کی طرف دیکھ رہی تھی جہاں سے وہ نکل کر گیا تھا۔
” امّاں مراد۔۔۔”
اللہ وسائی نے اُسے ایک بار پھر کہتے سُنا تھا اور اس پر جیسے شادیٔ مرگ طاری ہوگیا تھا۔ آج اتنے سالوں بعد اُس نے موتیا کی آواز سنی تھی۔ دوپٹہ منہ پر رکھے روتے ہوئے اللہ وسائی نے موتیا کو اپنے ساتھ لپٹاتے ہوئے اُس سے کہا تھا:
”ماں صدقے! ماں واری! ہاں مراد ہی تھا میری دھی۔تیرے لئے آیا تھا، اب بارات لے کر آئے گا۔”
اُس نے جیسے موتیا کو ساری خوشخبریاں اکٹھی دینا چاہیں۔
” تو بول بات کر موتیا! تُو کچھ کہہ۔”
اللہ وسائی اُسے کہہ رہی تھی، وہ اللہ وسائی کا چہرہ دیکھتی رہی پھر اُس نے مدھم آواز میں کہا۔
”ابّا!”
اللہ وسائی کے کلیجے پر ہاتھ پڑا۔روتے ہوئے اُس نے سوچا وہ موتیا کے لئے اب گامو کہاں سے لائے گی۔
”ابّا!’
موتیا جیسے ایک بار پھر پکاررہی تھی ۔ اللہ وسائی ہنستی اور روتی جارہی تھی۔ خوشی اور غم دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر اکٹھے آگئے تھے اُس کے گھر۔
”تو اتنی جلدی کیوں چلاگیا گامو؟ دیکھ اچھے دن لوٹ کر آئے ہیں ہمارے گھر۔”
اُس نے روتے اور ہنستے ہوئے گامو کو پکارا تھا اور پھر موتیا کو ایک بار پھر اپنے سینے سے لگالیا تھا۔
…٭…

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

پاتال — حیا بخاری

Read Next

لالی — شاذیہ خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!