اس کے چاروں طرف خوبصورت سبزہ تھا۔ شیشم اور چیڑ کے درخت، نرم ملائم سر سبز گھاس…. اوپر آسمان پہ کالے بادل چھانے لگے تھے۔ اس نے ایک نظر نیچیکھڑے اس شخص کی طرف دیکھا جو اس کے لیے پوری کائنات تھا۔ لیکن اُس شخص کی آنکھوں میں اس کے لیے بے یقینی، بے اعتباری اور نفرت تھی۔ اس نے خود کو ذرا سا اوپر کھینچ کر دونوں ہاتھوں سے پہاڑی سطح سے جھانکتی اس شاخ کو اور مضبوطی سے جکڑا۔ وہ مرنا نہیں چاہتی تھی۔ اس نے ڈرتے ڈرتے ایک بار پھر مدد طلب نگاہوں سے سامنے کھڑے شخص کو دیکھا۔ وہ بے حس تھا۔
اس نے ایک نظر نیچے دوڑائی تھی۔ کتنے ہی فٹ نیچے سنگلاخ چٹانوں کے نوکیلے پتھر، درختوں اور پودوں کی شاخیں اور جڑیں اور پوری روانی سے بہتا دریا کا پانی…. وہ کانپ گئی تھی۔
”لالا…..” خوف سے نیلے پڑتے لب ذرا سا وا ہوئے تھے۔
٭٭٭٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”پلوشے۔ اُدھر دیکھو۔” چلتے چلتے اچانک زرغونہ رکی تھی۔ پلوشہ بھی اس کے ہاتھ کے اشارے کی سمت دیکھنے لگی۔ سامنے ہی مالٹوں کا باغ تھا۔ سبز پتوں میں چھپے اور کچھ جھانکتے نارنجی مالٹے دل للچائے دے رہے تھے۔
”لالا سے کہیں گے وہ لادے گا۔” زرغونہ نے ہمیشہ کی طرح سمجھ داری کا مظاہرہ کیا، ”تم اپنے لالا کی سنو۔ میں تو چلی” پلوشہ نے سڑک سے نیچے باغ کی طرف جاتے ہوئے کہا۔ زرغونہ اسے روکتی رہ گئی۔
”کیا ہو رہا ہے؟” اچانک ایک بھاری آواز نے اسے بُری طرح چونکادیا تھا۔ چادر میں لپٹے مالٹے اس کے ہاتھ سے چھوٹتے بچے۔
”تم کون ہو اور کیا کررہی ہو؟” آنے والے نے سوال دہرایا۔
”عظمت اللہ کی بیٹی ہوں۔ مالٹے دیکھے تو رہا نہیں گیا۔” وہ حسب معمول پُراعتماد لہجے میں بولی۔ اُس کے اچانک آنے پر اسے سنبھلنے میں چند پل لگے تھے۔
”ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔ مگر اب نکلو یہاں سے۔” وہ تپ کر بولا تھا۔ اور تب ہی اس کی نظر ذرا اوپر سڑک پر پڑی تھی۔ دوہرا ساں سبز، جھیل جیسی آنکھیں ان ہی کی طرف دیکھ رہی تھیں اور رفیق جان کو لگا اس ایک نظر نے اسے بے جان کردیا تھا تو یا روح تک اندر سے کھینچ لی۔ وہ لڑکیاں کب گئیں؟ کیا بولیں؟ کسی طرف گئیں؟ اسے کچھ خبر نہیں ہوئی تھی۔ اسے ہوش ہی کہاں رہا تھا۔
٭٭٭٭
چھوٹی سی وادی تھی۔ چند دنوں کی تلاش کے بعد ہی وہ جان گیا تھا کہ وہ ساحر آنکھوں والی لڑکی کون تھی…. فرہاد آفریدی کی بہن …. زرغونہ…. اماں نے تو اتنا بھی بتادیا کہ پوری دادی میں اس سے زیادہ حسین کوئی نہیں۔ ” اس کے دل نے یہی توگواہی دی تھی۔” رفیق مسکرایا۔
”فیروز خاناں۔ میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔” اگلے چند ہی گھنٹوں میں وہ چوک میں بیٹھا جگری دوست سے راز و نیاز کررہا تھا۔ اس کی بات پہ فیروز خان کی آنکھوں میں عجیب سا تاثر اُبھرا ۔
”کیا ہوا؟” نہ وہ چونکا۔ فیروز نے نہ جانے کیوں محسوس کیا کہ اس کے دوست کے ساتھ کچھ گھمبیر ہونے والا تھا۔ یا پھر….
”’فیروز خاناں…. ”رفیق نے اس کا کندھا ہلایا۔
”وہ تو بچپن سے اپنے چچا زاد کی منگیتر ہے” اسے یہی مناسب لگا کہ رفیق جتنی جلدی اپنے سفر سے واپس لوٹ جائے اس کے لیے بہتر ہے۔ رفیق ایک جھٹکے سے اُٹھا اور تیزی سے چوک سے باہر نکل گیا۔ فیروز پکارتا رہ گیا تھا۔
٭٭٭٭
ساری وادی گواہ تھی رفیق جان ایسا بالکل بھی نہ تھا۔ دراز قامت، سرخ و سپید گلابیوں میں کھلتی رنگت، لبوں پہ ہر دم دھیمی مسکراہٹ رکھنے والا رفیق جان اس رفیق جان سے بالکل الگ تھا۔ اسے دیکھ کر تو لگتا تھا کسی صحرا کا بھٹکا ہوا مسافر ہے۔ مجنوں ہے کہیں سے پتھر کھاکر آرہا ہے۔ شانوں پر بکھرے لمبے ریشمی بال اب گرد سے اَٹے رہتے تھے۔ گلابی ہونٹوں پہ پپڑیاں جمنے لگیں تھیں۔ کئی دنوں سے پہنا جوڑا میل سے اٹا تھا اور سب سے وحشت ناک اس کی مسکراتی، جھلمل، دوستی کا رنگ دیتی گہری نیلی آنکھیں…. نہ جانے اب وہاں کیسے وحشت زدہ رنگ لودینے لگے تھے۔
”میرے بچے کو نظر لگ گئی۔ ساری وادی میں اس جیسا جوان نہیں بس کسی بدخواہ کی نظر لگ گئی۔” اماں نے روتے ہوئے دہائی دی۔
”مجھے تو کالا جادو لگتا ہے۔ کسی حاسد نے جادو کروادیا ہے۔ تم مانو یا نہ مانو۔”
کسی دوسری عورت نے اندازہ لگایا۔ اماں کو یقین آنے لگا۔ لیکن فیروز…. وہ سب جانتا تھا۔ رفیق کے بچپن کا دوست تھا۔ اس کے پل پل کا ساتھی، اس کی رگ رگ سے واقف، اس کے ہر رنگ کی پہچان تھی اسے اور وہ جان گیا تھا۔ خوب صورت سوچ کا مالک رفیق جان اب کچھ غلط سوچ رہا تھا۔ کچھ بے حد غلط۔
٭٭٭٭
خاکی رجسٹر تھامے صبح سے نہ جانے وہ کون سے حساب کتاب میں مصروف تھا۔ زرغونہ نے سارے گھر کے کام نبٹالیے تھے اور اب آدھے گھنٹے سے اسے کھانے کا کہہ رہی تھی مگر فرہاد تھا کہ رجسٹر میں سردیے بس ہوں ہاں کردیتا۔ آخر اس کے صبر کا پیمانہ چھلک پڑا۔
”لالا… مجھے بھوک لگی ہے۔”
”تو تم کھالو نا پگلی۔ بس تھوڑا سا کام رہ گیا۔ ”فرہاد نے رجسٹر پر ہی نظریں جمائے اسے جواب دیا۔
”آپ جانتے ہیں۔ مجھے آپ کے ساتھ کھانا کھانے کی عادت ہے۔” وہ منہ بناکر بولی۔
”تو میں بھی کئی دنوں سے تمہیں سمجھا رہا ہوں کہ اب میرے بغیر کھانا کھانے کی عادت ڈالو۔” اب کی بار وہ مسکراتے ہوئے اس کی طرف متوجہ ہوا۔
”کیوں ڈالوں عادت۔ مجھے آپ کو چھوڑ کے کہیں نہیں جانا۔” وہ خفا ہوئی۔
”ہر بیٹی، ہر بہن یہی کہتی ہے۔ مگر اگلے گھر جا کر میکے کی یاد تک نہیں آتی۔”
”ایسا تو نا ممکن ہے لالا۔” وہ حیران ہوئی۔
”چلو دیکھ لیں گے۔” فرہاد مسکرایا۔
”دیکھیں گے تو تب نا جب میں یہاں سے جاوؑں گی۔”
”اچھا۔ میں ذرا جہیز کی ایک دو چیزیں اور یاد کرکے لکھ لوں تو پھر کھاتے ہیں کھانا۔ یہ بحث بعد میں کرلیں گے۔” فرہاد نے بحث سمیٹنی ضروری سمجھا۔
”ایسے ہی اتنا خرچہ بڑھارہے ہیں آپ۔ میں نے کہا نا کہ مجھے کہیں نہیں جانا۔” وہ بضد تھی، فرہاد ہنس دیا۔
٭٭٭٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});