دانہ پانی — قسط نمبر ۸

مٹّی دا توں مٹّی ہونا کاہدی بلّے بلّے
اج مٹّی دے اُتے بندیا کل مٹّی دے تھلّے
اللہ وسائی بے یقینی کے عالم میں گامو کا چہرہ دیکھتی رہی پھر اُس نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے گامو سے کہا:
” نہ گامو! یہ نہیں کرسکتی میں۔ جس اولاد کو منتوں مرادوں سے لیا ہے،اُسے اپنے ہاتھوں سے مارنے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔”اُس نے دوپٹے سے اپنی آنکھیں رگڑتے ہوئے کہا تھا۔
”اور تو بھی کیوں سوچ رہا ہے مرنے کا؟ گامو مت سوچ ایسا کچھ بھی۔ یہ شیطان ہے جو تجھے بھٹکا رہاہے۔”
اللہ وسائی نے اپنے شوہر کا ہاتھ پکڑ کر جیسے اُسے سنبھالا دینا چاہا تھا اور وہ گیلی آنکھوں کے ساتھ قہقہہ لگانے لگا۔
” شیطان کو کیا پڑی ہے اللہ وسائی کہ وہ جھوک جیون میں آئے۔ یہاں اس کا کیا کام۔ یہاں تو انسان کافی ہیں اُس کا کام کرنے کے لئے۔”
وہ ہنس رہاتھا اور بڑبڑا رہا تھا۔ اللہ وسائی کا بھی دل بھرآنے لگا تھا۔
”نہ روگامونہ رو! موتیا ٹھیک ہوجائے گی۔ تجھے یاد ہے جب اولاد نہیں تھی تو کتنے سال اولاد کے انتظار میں گزارے تھے ہم نے۔ کبھی زبان پر شکوہ نہیں لائے۔ پھر رب سوہنے نے اپنی رحمت کردی تھی۔ اب پھر کردے گا۔ ٹھیک ہوجاناہے موتیا نے۔ دیکھنا تُو۔”
اللہ وسائی شوہر کو تسلیاں دینے لگی۔ گامواُس کا چہرہ پلکیں جھپکائے بغیر دیکھتا رہا۔ پھر اُس نے سر ہلاتے ہوئے کہا:
”پتہ نہیں اس بار دل کو تسلی کیوں نہیں ہوتی کہ سب ٹھیک ہوجائے گا۔”
وہ اُٹھ کر صحن کے چکر کاٹنے لگا۔ اللہ وسائی بیٹھی بے بسی سے شوہر کو دیکھتی رہی۔ اُس کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں تھا۔ نہ وہ شوہر کے لئے کچھ کرسکتی تھی، نہ بیٹی کے لئے۔ بے بسی سی بے بسی تھی جو وہ محسوس کررہی تھی اور اس کیفیت میں وہ بس رب سوہنے کو ہی پکار سکتی تھی اور پکار رہی تھی۔ غم تھا کہ سینہ چیر رہا تھا اور آنسو تھے کہ سیلاب بن کر سب کچھ بہا لے جانے کے لئے کھڑے تھے اور دل کا بوجھ تھا کہ بھاری سے بھاری ہی ہوتا جارہا تھا۔ نہ رونے سے گھٹ رہا تھا، نہ رب کو پکارنے سے۔ وہ بس گامو کودیکھ رہی تھی جو ننگے پاؤں اُس صحن میں پھررہا تھا جس کے فرش کو اب اللہ وسائی نے لیپنا بند کردیا تھا۔
جھوک جیون میں اُس سال بارش نہیں ہوئی۔اُس گھر میں دو انسانوں کی آنکھوں سے ہونے والی برسات نے جھوک جیون میں بارش لانے والے بادلوں کا سارا پانی پی لیا تھا۔
گاؤں میں پریشانی کی لہر دوڑی تھی۔ بڑے سالوں کے بعد یہ پہلا سال تھا جب جھوک جیون کے آسمان پر بدلیاں اُمڈ کر برسے بغیر گزری تھیں۔ گاؤں کے لوگوں کی طرح چوہدریوں کو بھی فکر ہوئی تھی۔ چوہدری مراد کا بیٹا پیداہو اور گاؤں میں سوکھا پڑجائے۔ یہ کم از کم تاجور کو تو برداشت نہیں ہورہا تھا۔ لیکن پھر اُس نے خود کو یہ کہہ کر تسلی دے دی تھی کہ یہ اتفاقاً ہوا ہوگا ، اِس بار نہیں تو اگلے سال تو ضرور ہی بارشیں ہوں گی۔
مراد بیٹے کو دیکھنے تین مہینے کے بعد گاؤں آیا تھا اور اُسے گود میں لئے وہ بہت دیر اُس کا چہرہ دیکھتا رہا۔
”ہے نا خوبصورت تیرا بیٹا؟”

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

تاجور نے اُسے یوں بیٹے کو دیکھتے دیکھ کر جیسے فخریہ اندازمیں کہا تھا۔مراد نے جواب دینے کے بجائے بیٹے کا ماتھا چوما تھا اور اُسے ماہ نور کی گود میں دے دیا تھا۔ وہ شادی کے بعد پہلی بار پاکستان آیا تھا اور بالکل بدلا ہوا تھا۔ مختصر بات کرتا اور مسکرانا بھول گیا تھا۔ تاجور کو اُس کے رویے نے پریشان کیا تھااور ماہ نو ر کو دل شکستہ۔ سارا سال تاجور اُسے یہی کہہ کہہ کر بہلاتی رہی تھی کہ اولاد ہوتے ہی سب ٹھیک ہوجائے گا اور بیٹا ہونے دے تو مراد نے واقعی سب کچھ بھول جانا تھا، پر مراد کچھ بھی نہیں بھولا تھا نہ بدلا تھا۔ اُس کے لہجے کی ٹھنڈک میں کوئی شبنم نہیں اُتری تھی۔
وہ دس دن کے لئے آیا تھا اور چلاگیا تھا اور ان دس دنوں میں گاؤں کی ایک ایک گلی میں اُسے موتیا کی یاد آئی تھی اور اُس کا دل چاہا تھا وہ لوگوں سے اُس کا پوچھے پر اُس نے جیسے اپنے زبان اور دل پر قفل ڈال لئے تھے۔ اب کیا نام لینا موتیا کا، کیا یاد کرنا اُس کو، وہ یہ سمجھے بیٹھا تھا کہ وہ شہر میں ڈاکٹر بن رہی ہوگی۔ یہ بھی ہوسکتا تھا کہ وہ کسی اور سے شادی کرچکی ہوتی۔ یہ بھی ممکن تھا کہ وہ کسی اور کی محبت میں گرفتار ہوکر اُس پر ہنستی ہو۔ پتہ نہیں مراد کو کیا کیا خیال آئے تھے اور سارے ہی خیال پل بھر میں غائب ہوجاتے تھے۔
دل موتیا موتیا کرتا تھا اور وہ اُس دل کو کوڑے مارتا تھا پھر بھی وہ مرتا نہیں تھا، ڈھیٹ تھا۔ موتیا کے پیار میں اُس سے بھی ڈھیٹ تھا۔ دماغ اچھا تھا اس معاملے میں اُس کی سنتا تھا۔ اُسے جب کہتا وہ موتیا کے بارے میں سوچنا بند کردیتا۔
وہ دل اور دماغ کی یہ جنگ لے کر پاکستان آیا تھا اور پاکستان سے جاتے ہوئے ماہ نور کو ساتھ لے گیا تھا۔ یہ بھی تاجور کی ضد تھی، اُسے لگا تھا بیٹا وہاں اکیلا رہتا تھا اس لئے بدل گیا تھا۔ ماہ نور اور اُس کا بچہ ساتھ رہیں گے تو مراد پھر وہی پہلے والا مراد ہوجائے گا۔ وہی ماں باپ پر قربان جانے والا، خوش مزاج، خوش گفتار جس کی چھیڑ خانی تاجور کو اچھی لگتی تھی اور جس کے بلند و بانگ قہقہوں پر وہ قربان جایا کرتی تھی۔
مراد نے کوئی ضد نہیں کی تھی۔ تاجور نے جیسے کہا تھا، اُس نے ویسے ہی کیا تھا۔ وہ ماہ نور کو لے کر لندن آگیا تھا۔ ماہ نور بڑی خوشی اور ولولے کے ساتھ آئی تھی۔ تاجور نے اُسے یہی کہا تھاکہ اکیلا رہ رہ کر ایسا ہوگیا ہے مراد، اب تم او ربچہ پاس رہوگے تو دیکھنا کیسے نثار ہوتاہے وہ تم پر۔
تاجور غلط تھی اور ماہ نور بے وقوف۔ مراد کے پاس لندن میں رہ کر بھی ماہ نور اُس کا دل جیت پائی نہ اُس کی چپ توڑ پائی تھی، پر اُسے لگتا تھا وہ کالے پانی کی سزا کاٹنے وہاں اُس کے ساتھ آگئی تھی جہاں وہ سارا سارا دن دو کمروں کے اُس چھوٹے سے فلیٹ کی دیواروں کو دیکھتی رہتی تھی یا پھر کھڑکیوں سے باہر نظر آنے والے لوگ اور گاڑیاں جو اُسے چلتے پھرتے نظر آتے تھے۔
اُس فلیٹ کے اندر اُس کی اور مراد کی خاموشی کو اگر کوئی توڑتا تھا تو وہ اُس کا بیٹا تھا، مگر اُس کا رونا دھونا، ہنسنا کھیلنا بھی کئی بار ماہ نور کو غصّہ دلاتا۔ اُسے لگنے لگا تھا وہ وہاں پاگل ہورہی تھی اور پاگل ہوجانے سے بچنے کے لئے اُس نے مراد سے واپس جانے کا اصرار کیا تھا اور مراد مان گیا تھا۔
ماہ نور ایک بار پھر امید سے تھی جب وہ پانچویں مہینے واپس گاؤں آگئی تھی۔ تاجور بہو اور پوتے کو واپس دیکھ کر جہاں نہال ہوئی تھی،وہاں وہ یہ جان کر پریشان بھی ہوئی تھی کہ وہ اب مراد کے پاس دوبارہ لندن نہیں جانا چاہتی تھی۔
”تیرا خیال نہیں رکھا اُ س نے؟” اُس نے پریشان ہوکر ماہ نور سے پوچھا تھا جس کے چہرے پر رونق تھی نہ آنکھوں میں چمک۔
” رکھتا تھا پھوپھو! جو چیز مانگتی تھی بغیر کہے لاکر دیتے تھے، پیار کے سوا۔ بس اُن کے پا س میرے لئے پیار کا ایک لفظ بھی نہیں ہے۔” ماہ نور غم زدہ تھی اور اُس نے اپنا غم اسی طرح تاجور کو سنایا تھا۔
”مرد ایسے ہی ہوتے ہیں ، بیویوں سے کہاں پیار محبت کی باتیں کرتے ہیں؟ کہاں اُن کے قصیدے پڑھنے بیٹھتے ہیں۔ تو نے تو پریشان ہی کردیا مجھے ماہ نور۔ میں سمجھی پتہ نہیں کتنا ستایا ہے مراد نے۔”
تاجور نے ہنس کر ماہ نور کو بہلایا تھا جو چپ چاپ تاجور کو دیکھتی رہی ، پھر جب وہ خاموش ہوکر اُس کا بیٹا گود میں لے کر اُس کے ساتھ کھیلنے لگی تو ماہ نور نے کہا:
”پر مراد میرے لئے گونگابنا ہے، اُس کے لئے تو نہیں۔”
تاجور نے اُس کا چہرہ چونک کر دیکھا تھا۔ ماہ نور کی آنکھوں میں عجیب سی آگ تھی، آنسو نہیں تھے۔
”وہ نیند میں اُس کا نام لے لے کر باتیں کرتے ہیں اُس کی۔ اُس کے حسن کے قصیدے پڑھتے ہیں۔”
وہ اب وہ نظم سُنا رہی تھی تاجور کو جو اُس نے نیند میں مراد کو کئی بار پڑھتے سنی تھی۔ وہ اُس کے پہلو میں نیند کی وادیوں میں بھی موتیا کے ساتھ پھرتا، اُسے پکارتا اور اُس کے حسن پر مرمٹنے کی باتیں کرتا اور ماہ نور بستر پر بیٹھی اُس کا چہرہ دیکھتی، اُس رقیب کے قصیدے سنتی جو اُن دونوں کے بیچ سے کبھی ہٹی ہی نہیں تھی۔
اُس کے نین غزالی دلبر
اُس کے گال گلابی
تاجور نے ساکت بیٹھے ماہ نور کی زبان سے داستانِ امیر حمزہ کی طرح داستانِ موتیا و مراد سنی تھی اور وہ بھی ماہ نور کے سامنے گونگی ہوگئی تھی۔ اُسے اب کیا تاویل اور توجیہہ دیتی اُس کی سمجھ میں نہیں آیا تھا۔ اب تو دو سال گزرنے کو تھے۔ اب تو اُن دونوں کے درمیان کوئی رابطہ بھی نہیں تھا۔ اب تو وہ ایک بیٹے کا باپ بن چکا تھا۔ دوسرا اُس کے گھر آنے والا تھا۔اُس کے پاس بہت سارے ”اب تو” تھے اور کوئی بھی مراد کے لئے رسّی نہیں بنا تھا۔اُس نے موتیا کو کھُرچ کھُرچ کر اُس کے دل سے اُتارا تھا۔ اُس کی کوئی پرچھائیں تک نہیں رہنے د ی تھی پھر مراد پر اس کا سایہ کیسے ہوگیا تھا؟
”لوگ جادو ٹونے کردیتے ہیں۔بڑا کاری وار کرتے ہیں۔ تجھے یاد ہے نا آدم کی دفعہ تجھے خوشبو آیا کرتی تھی ہر طرف موتیا کی۔ اُن لوگوں نے ہی ٹونے کئے ہیں مراد پر۔ دل باندھ دیا ہے اُس کا۔”
تاجور نے لمبی چپ کے بعد وہی سب کچھ کہنا شروع کیا جواُس کی سمجھ میں آیا تھا۔ پیار محبت کی طاقت اُسے سمجھ میں نہیں آتی تھی، جادو ٹونے کا اثر اُسے سمجھ میں آتاتھا۔ اُس نے ماہ نور کے سامنے وہی راگ الاپا تھا جو اُس نے ہمیشہ سنا تھا۔
”پھوپھو! اُس کا کوئی توڑ نہیں؟” ماہ نور نے عجیب بے بسی کے ساتھ اُس سے پوچھا تھا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

پنج فرمان — سحر ساجد

Read Next

سعی — سحر ساجد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!