لکھ منتاں منیاں پر لاحاصل
اک منت کیتی من یار گیا
اک مسئلہ زیر، زبر دا سی
جو سمجھ گیا لنگھ پار گیا
موتیا نے بے اختیار چیخ ماری اور پھر وہ چیختی ہی چلی گئی تھی۔ اُس کی پہلی چیخ نے مراد کے قدموں میں جیسے زنجیر ڈال دی تھی۔
”ابّا سانپ! وہاں سانپ!”
موتیا اب تھر تھر کانپتے ہوئے ہاتھ سے مراد کے پیروں کی طرف اشارہ کررہی تھی۔ مراد، اللہ وسائی اور گامو نے بہ یک وقت وہ سانپ دیکھا تھا۔
مراد کچھ خوف کے عالم میں پیچھے ہٹا تھا مگر گامو نے لپک کر ہاتھ میں پکڑ ی لاٹھی سے سانپ پروار کیا تھا۔ سانپ ضرب کھا کر تڑپا اور اُس کی لاٹھی کے گرد لپٹنے لگا۔ گامو لاٹھی سے اُسے پٹخ پٹخ کر تب تک مارتا رہا جب تک وہ مر نہیں گیا۔
پیر ابراہیم کے ڈیرے کے لوگ موتیا کی چیخیں سن کر جب تک وہاں پہنچے تھے تب تک گامو سانپ مار چکا تھا۔
”تو تم موتیا ہو، گامو چاچا کی بیٹی۔ ”
وہ پہلا جملہ تھا جو مراد نے خود سے کچھ فاصلے پر کھڑی تھر تھر کانپتی موتیا کو دیکھ کر کہا تھا ۔ گامو اور اللہ وسائی دونوں اس سانپ کے پاس کھڑے اب اُسے لاٹھی اور چھڑی سے ایک درخت کے تنے کی جڑ میں ڈھیر کررہے تھے اور موتیا کی چیخوں پر آنے والے مزارعے اُن کی مدد کررہے تھے۔موتیا ساکت کھڑی تھی۔
وہ مراد کا سوال نہیں تھا جس نے زرد پڑتی کانپتی موتیا کو ساکت کیا تھا۔ وہ اُس کی نظریں تھیں جن میں پہچان کا ایسا گوڑھا (گہرا) رنگ تھا جو مہندی کے رنگ کی طرح جوبن دکھا رہا تھا۔
”تم نے میری جان بچالی۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
وہ مراد کا دوسرا جملہ تھا۔ وہ بس اتنا نہیں کہنا چاہتا تھا۔ جو کچھ کہنا چاہتا تھا وہ یہاں کہہ نہیں سکتا تھا۔ نہ وقت تھا نہ موقع اور پھروہاں ”دنیا” بھی تھی۔ یہ دُنیا ہر جگہ کیوں آجاتی ہے۔ مراد نے عجیب کسک سے ایک ہاتھ کی مٹھی بند کرکے مسلی تھی۔
”پتر! تو تو ٹھیک ہے نا؟” گامو اُس کی طرف آیا اور مراد موتیا سے نظر ہٹانے پر مجبور ہوگیا تھا۔
”میں ٹھیک ہوں چاچا۔” مراد نے آگے بڑھ کر گامو کو لپٹا کر اُس کا شکریہ ادا کیا تھا۔
”بڑا لمبا اور زہریلا سانپ تھا۔ ”گامو نے اُسے تھپکتے ہوئے دور سانپ کے مردہ وجود کی طرف اشارہ کیا جو اب بے جان پڑا تھا۔
”یہ تو موتیا کی نظر پڑگئی ورنہ اتنی لمبی گھاس میں مجھے کہاں نظر آتا۔”
گامو نے کہا تھا اور جیسے مراد کو ایک اور موقع دیا موتیا کو دیکھنے کا۔ اُن دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تھا اور نظریں چرالی تھیں۔
مراد کو سانپ نہیں لڑاتھا، پیار لڑگیا تھا۔ اور پیار کا کاٹا پانی نہیں مانگتا۔
…٭…
پیر ابراہیم کے ڈیرے پر مراد پر سانپ کے حملے کی خبر مراد کے واپس پہنچنے سے پہلے ہی پہنچ چکی تھی اورتاجور حواس باختہ پیر ابراہیم کے ساتھ لپکتی ہوئی آئی تھی مگر تب تک مراد گامو کے خاندان کے ساتھ واپس پہنچ چکا تھا۔ تاجور نے اُسے سینے سے لگا کر جیسے اُس کے جسم کے ایک ایک حصّے کو چھو کر اس کے خیر وعافیت سے ہونے کی تسلی کی تھی اور اس وقت اُسے یہ بھی بھول گیا تھا کہ وہاں موتیا بھی تھی جسے مراد کی نظر سے دور رکھنے کے لئے اُس نے سوجتن کئے تھے۔
”تمہارا بڑا احسان آگیا ہے ہمارے کندھوں پر گامو!”
پیر ابراہیم نے وہاں کھڑے کھڑے بے حد ممنون انداز میں گامو کے دونوں ہاتھوں کو تھام کے کہا تھا اور گامو جیسے پانی پانی ہوگیا تھا۔ کہاں وہ کہاں پیر صاحب، اُس کی کیا اوقات تھی کہ وہ اُن پر احسان کرتا۔
”نہیں نہیں پیر صاحب! آپ گناہ گار نہ کریں ہمیں، ہم نے کیا احسان کرنا ہے آپ پر۔ احسان تو آپ کے ہیں ہمارے سر۔” گامو نے دونوں ہاتھ جوڑ کر کہا تھا۔
”ہمیں بس معاف کردیں۔ موتیا سے گناہ ہوگیا ایک۔ آپ کے درخت سے ایک امرود اتار کر کھا لیا اس نے۔” گامو نے بندھے ہاتھوں کے ساتھ پیر ابراہیم سے کہا تھا اور اس بار اُس کے جملے پر تاجور نے چونک کر جیسے پہلی بار موتیا کو دیکھا اور پھر اُس نے مراد کو دیکھا جس کی نظریں موتیا پر ٹکی ہوئی تھیں اور اُن میں جوتاثر تھا، اُس نے تاجور کو ہلا دیا تھا۔
”کھا یا نہیں تھا ابھی، سانپ آگیا تھا تو میرے ہاتھ سے گرگیا۔” موتیا نے جیسے وضاحت دی تھی او رپیر ابراہیم نے بے حد محبت سے اُس کے سر پر ہاتھ رکھ کر اُسے تھپکتے ہوئے کہا:
”موتیا کو اجازت ہے گا مو ہمارے باغ کے جس بھی درخت کا پھل چاہے توڑ کے کھالے۔”
اُن کے لہجے کی شفقت اور احترام تاجور کو جیسے کانٹے کی طرح چبھا تھا۔ اس نے اپنے باپ کے لہجے میں ایسا احترام اپنے علاوہ کبھی کسی کے لئے نہیں دیکھا تھا۔
”میری موتیا کے لئے دعا کریں پیر صاحب! اللہ اُس کے نصیب کھولے اور کسی بڑی اچھی جگہ رشتہ ہوجائے اس کا۔” اللہ وسائی نے کھڑے کھڑے پیر ابراہیم سے بیٹی کے نصیب کے لئے دعا کرنے کا کہا تھا۔
اس سے پہلے کہ پیر ابراہیم کچھ کہتے، تاجور نے مداخلت کی تھی۔
”ہاں ہاں! میں کروں گی کسی نہ کسی سے بات۔ مزارعوں کی بیویاں اپنے بچوں کے رشتوں کے لئے مجھ سے کہتی رہتی ہیں۔ تو اسے حویلی لایا کر اللہ وسائی!” تاجور کے جملے پر پیر ابراہیم نے بیٹی کو دیکھا تھا پھر عجیب سی مسکراہٹ کے ساتھ انہوں نے ایک بار پھر موتیا کے سر پر ہاتھ رکھ کے کہا تھا۔
”کسی مزارع کے گھر نہیں جائے گی موتیا۔ اونچے درجہ پر رہے گی ہمیشہ اونچا ہی رتبہ رہے گا۔”
تاجور کو باپ کی بات نے جیسے ایک بار پھر تکلیف پہنچائی تھی۔ وہ پیر ابراہیم تھے، سات گاؤں جن کے مرید تھے اور وہ ایک ماشکی کی بیٹی کے سر پر ہاتھ رکھ کر اُس کے رتبے اور درجے کی بشارتیں دے رہے تھے۔ کیوں؟ کس لئے؟ صرف اس لئے کہ اُس کے باپ نے مراد کی جان بچائی تھی۔ تاجور جل کر بھسم ہونے سے پہلے کوئلہ ہوئی تھی۔ پر باپ کے سامنے وہ کچھ کہہ نہیں سکتی تھی۔
گامور اور اللہ وسائی کے چہرے پر وہ چمک موتیا نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی جو اُس نے پیر ابراہیم کی دعا پر دیکھی تھی ۔ پیر ابراہیم نے اُسے نظربھر کے بھی نہیں دیکھا تھا۔ موتیا کے سامنے وہ نظریں جھکائے ہی رہے تھے اور موتیا نے اُن کا چہرہ بغور دیکھا تھا۔اُن کی دعا اورالفاظ اس کی سمجھ میں نہیں آئے تھے۔ وہ اُسے بس یہ دعا دے دیتے کہ اُسے مراد مل جائے گا تو موتیا کی ڈکشنری وہیں شروع اور ختم ہوجاتی۔ ایک لمحہ کو اس کا دل چاہا تھا وہ پیر ابراہیم سے کہے وہ اسے مراد کا ساتھ نصیب ہونے کی دعا دیں جس کی نظریں اس وقت بھی اس کے چہرے کا طواف کررہی تھیں۔ جو اس سے بس پندرہ قدم دور کھڑا تھا موتیا جیسے فاصلہ ناپ چکی تھی اور اب پندرہ قدموں میں مراد اور اس کے بیچ بس تاجور تھی۔ وہ نہ ہوتی تو وہ اس سے چودہ قدم دور ہوتا۔
وہ مراد کی طرح دلیر نہیں تھی کہ وہاں کھڑی اُس کو اُسی طرح دیکھتی جیسے وہ دیکھ رہا تھا۔ پر وہ پھر بھی اُسے دیکھ رہی تھی۔ سفید شلوار قمیص میں ہاتھ سینے پر لپیٹے وہ چپ چاپ کھڑا تھا۔ اُس نے ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ پر اُس سے پندرہ قدم دور کھڑی موتیا جیسے پھر بھی وہ ساری گفتگو سن رہی تھی جو اس کی نظریں کررہی تھیں۔
وہ مرد کی نگاہ نہیں تھی، محبوب کی نگاہ تھی۔ جس میں بس قربان ہوجانے، نثار ہوجانے کی آرزو تھی۔ پروانہ بن کر جل جانے کی تمنا تھی۔ جو اس پر جمی اس سے کہہ رہی تھی ۔ تجھ سا کوئی دوسرا ہے ہی نہیں موتیا اور نہ کبھی ہوگا۔
وہ گامو اور اللہ وسائی کے ساتھ اس بولتی نگاہ کے جواب میں کچھ بھی کہے بغیر پیر ابراہیم کے ڈیرے سے واپس آئی تھی اور مراد کا چین قرار ایک بار پھر لوٹ کر چلی گئی تھی۔
حسن اس نے بے پناہ دیکھا تھا پر موتیا سا نہیں دیکھا تھا۔ وہ اپنے گھمنڈ میں رہنے والا مرد تھا جس کو لگتا تھا وہ کبھی کسی عورت پر فدانہیں ہوسکتا۔ کنگز کالج میں وکالت پڑھتے ہوئے جو آخری چیز کبھی اس کے دماغ میں آتی تھی، وہ محبت ہی ہوسکتی تھی اور یہاں ایک نظر میں لٹا تھا اور ایک نظر میں لٹنے والا تو کبھی کسی کو بتا بھی نہیں سکتا کہ اُس کے ساتھ ہوا کیا۔ دل کیسے گیا؟ جاں کہاں گئی ؟ وہ پری چہرہ کیا کیا لے گئی؟
…٭…
”اُس رات بخار کے علا ج کے لئے بھی آپ نے موتیا کو بلوایا تھا؟ ”
تاجور مراد کے ساتھ اپنے گاؤں واپس آرہی تھی جب مراد نے رستے میں ٹانگے پر بیٹھے اُس سے پوچھا اور تاجور کو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا۔ وہ کہاں کہاں آکر کھڑی ہوجاتی تھی اُس کے اور اُس کے بیٹے کے بیچ۔
”تمہیں کس نے بتایا؟” تاجور نے اُس سے نگاہ ملائے بغیر باہر کھیتوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔
”مجھے بے ہوشی میں وہ نظر آئی تھی۔ مجھے لگا میرا وہم تھا۔ ” سیدھے سادے لہجے میں کہے گئے جملے نے تاجور کو کہیں کا نہیں رہنے دیا تھا۔ وہ اُس کے بیٹے کو بے ہوشی میں بھی نظر آنے لگی تھی جس کو وہ ہوش میں چھپانے کے جتن کررہی تھی۔
”چاچا گامو نے بڑا اچھا کیا موتیا کو میڈیکل پڑھارہے ہیں۔ گاؤں کو بڑی ضرورت ہے ڈاکٹر کی۔” مراد نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔
”یہ تمہارے باپ کا احسان ہے کہ گامو پڑھا رہا ہے بیٹی کو ورنہ میرے بس میں ہوتا تو میں تو کبھی گاؤں کی کسی لڑکی کو لڑکوں کے ساتھ شہر میں نہ پڑھنے دیتی۔ بے حیائی سی بے حیائی ہے۔”
”امّی ماہ نور بھی تو پڑھ رہی ہے شہرجاکر۔”
تاجور اس کے جملے پر جیسے تڑپ اٹھی۔ وہ اس کی بھتیجی کا مقابلہ موتیا سے کررہا تھا۔
”ماہ نور اور موتیا کا کیا مقابلہ؟ تو اُس کی ذات اور اوقات تو دیکھ۔”
تاجور خفا ہوئی تھی اور مراد ماں کے جملے پر کچھ اور حیران۔
”یہ ذات اور اوقات کیا ہوتی ہے امّی؟”
تاجور کو اس سوال کا جواب نہیں آیا یا پھر شاید وہ موتیا کے ذکر سے تنگ آگئی تھی۔ اُس نے یک دم بات بدل دی۔
”تمہیں ماہ نور کیسی لگی؟” مراد اُس کے سوال پر ایک بار پھر حیران ہوا۔
”ماہ نور اچھی ہے۔ سب کزنز کی طرح۔ آپ کیوں پوچھ رہی ہیں؟ ”
مراد نے ماں کو کریدا، اس کی چھٹی حس نے اُسے کوئی عجیب سا سگنل دیا تھا۔ تاجور بڑے پراسرار انداز میں مسکرائی تھی۔
”بتادوں گی۔ بتادوں گی۔ ایسی جلدی کیا ہے ؟”
مراد ماں کے چہرے کو بغور دیکھتا رہا لیکن اُس نے مزید کوئی سوال نہیں کیا تھا۔
…٭…
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});