دانہ پانی — قسط نمبر ۲

عشق فقیری جد لگ جائے
پاک کرے ناپاکاں نوں
عشق دی آتش لے جاندی اے
عرشاں تیکر خاکاں نوں
وہ ایک سانپ تھا، تاریک رات کی طرح سیاہ ، تارکول جیسی چمک لئے شاید چھ فٹ یا سات فٹ لمبا یا شاید اس سے بھی زیادہ، اس کی سیاہ رنگت میں بھی اس کی جلد کے نقش و نگار یوں نمایاں تھے جیسے کسی انسان کے تیکھے نقوش۔ اس کی گول چمک دار سیاہ آنکھوں میں وحشت کے علاوہ کوئی تاثر نہیں تھا اور اس کا کسی تاج کی طرح تنا ہو اپھن اس کے کنڈلی مارے ہوئے وجود پر کسی چھتری کی طرح جھک جھک کر تن رہا تھا۔
وہ اس جنگل میں کب سے اس کا پیچھا کررہا تھا لیکن کیوں، یہ اندازہ اسے نہیں ہوا تھا پر اس کے وجود کی سرسراہٹ اس کے کانوں سے کسی سیٹی کی گونج کی طرح چپکی ہوئی تھی۔
اس نے اسے بل کھاتے، لہراتے، برق رفتاری سے اپنے پیچھے آتے بھی دیکھا تھا اور اب جب وہ ان درختوں کے بیچوں بیچ اپنے عقب میں آنے والے اس دشمن کا سامنا کرنے کے لئے رُک گئی تھی تو وہ اپنا پھن اٹھائے کنڈلی مار کر اُس کے سامنے بیٹھ گیاتھا۔
وہ دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ساکت تھے۔ اس سانپ کو اگر اس کی آنکھوں میں خوف دیکھنے کی خواہش تھی تو اس کی خواہش پوری نہیں ہوئی تھی۔ وہ خوف زدہ نہیں تھی اور پھر اس نے سانپ کے عقب میں کسی کے قدموں کی چاپ سنی تھی، سانپ برق رفتاری سے پلٹا اور اپنے عقب میں کھڑے اس مرد کو دیکھ کر پھنکارا۔
اس مرد کی نظر موتیا پر تھی۔ وہ جیسے اس کے حسن سے مبہوت تھا۔ موتیا نے اس سانپ کو اس مرد کے پیروں کی جانب جاتے دیکھا اور تب اس نے پہلی بار خوف محسوس کیا تھا اور تب ہی اسے یہ احساس بھی ہوا تھا کہ وہ ناگن تھی۔ ”کوبرا” اس نے چلانا چاہا لیکن وہ چلانہیں پائی۔ وہ ناگن اس مرد کے پیروں کے پاس پہنچ چکی تھی۔ اُس نے اپنا پھن اُٹھایا اور کاٹنے کے لئے جُھکی۔
موتیا ایک جھٹکے سے اٹھ کر بیٹھی تھی۔ وہ لرز رہی تھی اور اس کا جسم پسینے سے شرابور تھا۔ وہ آنکھیں کھول کر بھی جیسے خواب ہی دیکھ رہی تھی اور اس کا حلق خشک ہورہا تھا۔ صحن میں گامو اور اللہ وسائی اس کے دائیں بائیں اپنی اپنی چارپائیوں پر رات کے اس پچھلے پہر گہری نیند سو رہے تھے۔ دور کہیں کسی کتے کے بھونکنے کی آواز آئی تھی۔ پتا نہیں وہ کتا تھا یا گیدڑ، موتیا نے جیسے عجیب سی کیفیت میں آواز سنی تھی۔
ٹھنڈی ہوا کے جھونکے جو گامو کے گھر میں لگے ہوئے موتیا کے پھولوں سے مہکے ہوئے تھے، انہوں نے اندھیرے میں چارپائی پر بیٹھی موتیا کو جیسے سہلایا تھا۔
موتیا ٹانگوں پر پڑے کھیس کو ہٹاتے ہوئے زمین پر کھڑی ہوگئی تھی۔ اپنی چپل کو پاؤں سے ٹٹولتے ہوئے اس نے ایک دم چپل پہننے کا ارادہ ترک کردیا، اس کی چپلوں کی آواز سے گامو اور اللہ وسائی جاگ جاتے۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

ننگے پاؤں وہ صحن میں پڑے لکڑی کے اس اسٹینڈ کی طرف گئی تھی جس پر پانی کا ایک کچا مٹکا رکھا تھا اور مٹکے کے منہ کے گرد موتیا کے پھولوں کا ایک ہار لپٹا ہوا تھا جو اللہ وسائی صبح سویرے ہی پرو کر چڑھا دیتی۔ موتیانے گلاس اٹھا کر مٹکے پر پڑا ڈھکن ہٹایا اور مٹکا جھکاتے ہوئے گلاس میں پانی بھرا اور پھر غٹاغٹ پی گئی۔ پانی نے جیسے اس کی اکھڑی ہوئی سانس بحال کی تھی پر اس کی نیند اڑ گئی تھی۔
گلاس واپس رکھ کے موتیا نے سر اٹھا کر چودھویں کے چمکتے ہوئے چاند کو دیکھا جس کی روشنی نے اس کے گھر کے صحن کو عجیب سحر انگیز چاندنی سے روشن کررکھا تھا۔ اسی طرح دبے پاؤں وہ اپنی چارپائی کی طرف آکر لیٹ گئی تھی۔
پورا آسمان ستاروں سے بھرا ہوا تھا اور چاند ان کے جھرمٹ میں کسی بادشاہ کی طرح لگ رہا تھا۔ بالکل گول، روشن، حسین وہ چاند پر نظریں جمائے اسے دیکھتی رہی۔ مگر اس کا ذہن وہیں اٹکا ہوا تھا۔ اس خواب میں نظر آنے والے مرد پر اور اس سانپ پر جوناگن تھی۔
”پاگل ہے تو موتیا! خوامخواہ فکر کرنے بیٹھ جاتی ہے۔ خواب ہے خواب، نہ دنیا میں یہ مرد ہے نہ وہ سانپ۔ سوجا۔”
اس نے ہمیشہ کی طرح زیرِ لب اس خواب کو بڑبڑاتے ہوئے جھٹلایا۔ پر آسمان پر نظر آنے والے اس خوب صورت چاند پر یک دم جیسے اسی مرد کا چہرہ ابھرنے لگا تھا۔ اُس کی آنکھیں، ناک، مسکراتے ہوئے لب، اٹھی ہوئی ٹھوڑی، لمبی گردن۔
وہ عجیب حیرت سے چاند میں ابھرنے والی شبیہہ دیکھنے لگی۔ پھر اس نے ہاتھ اٹھا کر چاند میں ابھرنے والے اس چہرے کو جیسے چھونے کی کوشش کی تھی۔ اور وہ چھوپائی تھی، موتیا کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آئی تھی۔
اس نے آنکھیں بند کرکے دوبارہ کھولیں، چاند اب بھی وہی چہرہ بنا آسمان پر براجمان تھا اور تارے اسے اپنے جھرمٹ میں لئے ہوئے تھے۔ وہ آنکھیں کھولے آسمان پر چاند کو دیکھتی رہی، اس چکور کی طرح جسے وہ اکثر رات کو اڑتے دیکھتی تھی۔
موتیا نے آسمان پر اس چاند کو دیکھتے ہوئے کلمہ پڑھنا شروع کردیا۔ زیرِ لب ایک، پھر دوسرا، پھر تیسرا، چوتھا،پانچواں،چھٹااور پھر وہ ساری سورتیں جو اس کو بچپن سے حفظ تھیں اور وہ آیات جو مسجد کے مولوی صاحب نے اسے رٹوائی تھیں۔ پھر وہ سارے اسمِ الٰہی جنہیں اس نے اسمِ اعظم ڈھونڈنے کے لئے یاد کیا تھا۔ پھر وہ سارے اسمِ محمدۖجو اس نے اس لئے رٹے تھے کیونکہ اللہ کے نام کے ساتھ نبی ۖ کا نام نہ آئے یہ کیسے ممکن تھا۔
اور یہ سب پڑھتے پڑھتے وہ نیند کی وادی میں اترنے لگی تھی مگر وہ چہرہ اب بھی وہیں تھا، اس کے دل کے آسمان پر چاند بن کے بیٹھا ہوا، پر وہ ناگن؟ وہ ناگن کیوں آگئی تھی اس کے اور اس کے چاند کے بیچ۔
…٭…
کھل کے بہتے پانی میں ڈوبے موتیا کے خوب صورت پاؤں کسی جوہری کی دکان کے شیشے میں سجے ہیرے جواہرات جیسے لگ رہے تھے۔
بتول نے بڑی حسرت سے ان نازک دو دھیا پیروں کو دیکھا جن پر اس کی نظر ہمیشہ ہی اٹک جاتی تھی اور پھر اٹکی ہی رہتی تھی۔
”پھر کیا ہوا بتول؟”
موتیا نے اب ہاتھ سے کھل کا پانی مٹھی میں لے کر بتول پر پھینکا تھا اور جیسے اس کو اپنی طرف متوجہ کیا تھا۔ وہ دونوں کنویں پر اس جگہ آکر بیٹھی ہوئی تھیں جہاں گاؤں کی عورتیں کپڑے دھونے آتی تھیں۔ چلتے ہوئے رہٹ کو کھینچتے بیل دو وقت باری باری کنویں سے کھیتوں کے لئے پانی نکالتے تھے اور جب تک وہ رہٹ چلتا رہتا، عورتیں وقفے وقفے سے وہاں آکر کپڑے دھوتی رہتیں۔
”کیا ہونا تھا؟” بتول نے بھی جیسے بدلہ لیتے ہوئے پانی دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں میں لے کر اس پر اچھالا تھا۔
”سنا تو دیا تجھے سب کچھ۔”
وہ اب اپنی چیزیں سمیٹ رہی تھی۔ بالٹی میں گیلے کپڑے او رپھر وہ ڈنڈا جو کپڑوں پر مار مار کے اس نے کھیس دھوئے تھے۔
”بڑا کمینہ ہوا پھر تو سعید۔” موتیا نے جیسے برا مناتے ہوئے بتول سے کہا تھا جس نے کچھ دیر پہلے اسے اپنی اور سعید کے درمیان ہونے والی ملاقات کی کہانی سنائی تھی۔ سعید بتول کے چاچے کا بیٹا تھا۔ وہ کویت میں کام کرتا تھا اور بتول اس پر مرتی تھی پر وہ ڈرپوک تھا اور ڈرپوک مرد سے پیار گلے میںپھانسی کے پھندے کی طرح ہوتا ہے۔
”نہیں! وہ کمینہ نہیں ہے، چاچا زیادہ کمینہ ہے۔ وہ بس ڈرپوک ہے۔ ” بتول نے جیسے موتیا کو سعید کا مسئلہ سمجھانے کی کوشش کی تھی۔
”لو تو پھر پیار کرنے کی کیا ضرورت تھی؟”موتیا قائل نہیں ہوئی تھی۔
”اس نے تھوڑی پیار کیا تھا۔ وہ تو میرا دماغ خراب ہوا تھا۔ ”
بتول نے بڑے اطمینان سے اسے بتایا۔ موتیا اس کا چہرہ دیکھتی رہ گئی۔
”یعنی بس تو پیار کرتی ہے اتنے سالوں سے وہ نہیں کرتا؟”
اس نے جیسے مذاق اڑانے والے انداز میں بتول سے کہا تھا۔ اس نے گہرا سانس لے کر موتیا کو دیکھا۔
”جب پہل عورت کی طرف سے ہوئی ہو نا تو پھر ساری عمر یہی سنتی رہتی ہے عورت کہ تجھے ہوا تھا نا پیار میں تو سمجھاتا تھا تجھے، تو بس سعید پیار کرکے بھی اپنا پیار چھپاتا رہتا ہے۔”
موتیا کے سر کے اوپر سے اس کی باتیں گزری تھیں۔
”تو پھر دفع کر سعید کو۔” موتیا نے جیسے کچھ خفا ہوکر کہا، بتول قہقہہ مار کر ہنسی۔
”پیار میں دفع کرنا ہی تو مشکل ہوتا ہے۔” وہ اب اپنی قمیص کا گیلا دامن نچوڑ رہی تھی۔
”میں کرتی ہوں سعید سے بات اور اسے کہتی ہوں کہ یوں لارے نہ لگائے تجھے۔ آر کر ے یا پار۔ ماں باپ کو نہیں مناسکتا تو۔۔۔”
بتول نے موتیا کی بات بیچ میں کاٹی۔
”تو مجھے چھوڑدے۔ یہ حل مجھے قابلِ قبول نہیں ہے موتیا اور تو یہ باتیں نہیں سمجھ سکتی۔ تو نے پیار نہیں کیا نا اس لئے۔”
بتول اب اپنی بالٹی اٹھا کر اٹھ کھڑی ہوئی تھی جس میں کپڑے تھے۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

کتنی صدیاں بند ہیں —- فائزہ افتخار

Read Next

میری ڈائریاں میرے خواب —- محسن علی شامی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!