حضرت موسیٰ کے وصال کے بعد بنی اسرائیل نے کچھ عرصہ تو راہِ ہدایت پر گزارا۔ لیکن بعد میں وہ بدعت اور گمراہی کے راستے پر چل پڑے۔ ان میں معمولی معمولی باتوں پر لڑائی جھگڑے شروع ہوگئے۔ جب ان کی بے باکیاں حد سے بڑھ گئیں تو حملہ آوروں نے ان کو پریشان کرنا شروع کردیا۔ ہمسایہ قوموں کی لوٹ مار نے بنی اسرائیل کی زندگیوں میں تلخی بڑھا دی اور پھر آہستہ آہستہ دشمن ان پر غالب آگیا۔ رب کریم نے ان پر ان کی کوتاہیوں کے سبب اس طرح سختی فرمائی کہ قوم عمالقہ جو فلسطین اور مصر کے ساحلی علاقوں پر آباد تھی، بنی اسرائیل پر حملہ آور ہوگئی اور ان کو گروہ در گروہ قتل کردیا۔ بنی اسرائیل کے بہت سے علاقے ان کے ہاتھ سے نکل گئے اور یہ غالب سے مغلوب ہوئے۔ بے شک اللہ کا راستہ چھوڑنے والوں کے لیے تباہی و بربادی ہے۔
قوم عمالقہ کے جنگجوؤں نے تابوتِ سکینہ بھی بنی اسرائیل سے چھین لیا۔ بنی اسرائیل کا یہ دور بہت نازک تھا۔ تابوتِ سکینہ کے اس طرح ہاتھ سے چلے جانے نے ان کی کمر توڑ دی تھی۔ تورات کی برکات اور تابوتِ سکینہ کی موجودگی بنی اسرائیل کے لیے باعث غلبہ تھی لیکن ان کی سرکشیوں کی انتہا نے دشمنوں کو ان پر حاوی کردیا اور یہ پستی کا شکار ہوئے۔
بنی اسرائیل تابوتِ سکینہ کو ”عہد کا صندوق” کہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں تابوتِ سکینہ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ”آل موسیٰ اور آل ہارون کے چھوڑے ہوئے تبرکات” اس صندوق میں رکھے گئے تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ اس میں وہ تختیاں تھیں، جو طور سینا پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کے حوالے کی تھیں۔ اس کے علاوہ اس میں تورات کا اصل نسخہ بھی موجود تھا جس کو حضرت موسیٰ نے خود لکھوا کر بنی لاوی کے سپرد کیا تھا۔ اس میں مَن (من و سلویٰ) بھی ایک بوتل میں بند کرکے رکھا گیا تھا تاکہ آنے والی نسلیں رب کریم کے اس احسان کو یاد کریں اور شکر گزاری کریں رب کریم کے اس احسان کی جو ان کے آباؤ اجداد پر صحرا میں کیا گیا تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس میں حضرت موسیٰ کا وہ عصا بھی شامل تھا جو بہت سے معجزات کا سبب بنا تھا۔
کچھ لوگ خیال کرتے ہیں کہ اس تابوت کا منہ تھا جیسے انسان کا منہ ہوتا ہے۔ اور اس میں روح بھی تھی، ہوا بھی تھی، دو سَر بھی تھے، دو پَر بھی تھے اور دُم بھی تھی۔ وہب بن منبہ کے مطابق اس تابوت میں مردہ بلی کا سر تھا۔ جب وہ تابوت کے اندر بولتا تو بنی اسرائیل کو اپنی فتح کا یقین ہو جاتا تھا۔ اور بعض خیال کرتے ہیں کہ تابوت سکینہ ایک سونے کا طشت تھا جس میں انبیاء کرام کے دل دھوئے جاتے تھے اور یہ حضرت موسیٰ کو عطا کیا گیا تھا۔ (واللہ اعلم)
سورة البقرہ میں ارشاد ہوتا ہے: ”کیا تو نے حضرت موسیٰ کے بعد بنی اسرائیل کی جماعت کو نہیں دیکھا؟ جب کہ انہوں نے اپنے پیغمبر سے کہا کہ کسی کو ہمارا بادشاہ بنا دیجئے تاکہ ہم اللہ کی راہ میں جہاد کریں۔”
جس نبی کا ان آیات میں ذکر کیا گیا ہے خیال کیا جاتا ہے کہ وہ حضرت شمویل تھے۔ مجاہدان کا شجرۂ نسب اس طرح بتاتے ہیں: حضرت شمویل بن یالی بن حلقمہ بن صفیہ بن علقمہ بن ابو ہاشف بن قارون بن یصر بن فاحث بن لاوی بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم خلیل اللہ۔ بعض اسلاف نے سموئیل بھی لکھا ہے۔
عمالقہ نے جب بنی اسرائیل پر اپنا تسلط قائم کرلیا اور اسرائیلیوں کا قتل عام کیا تو لاوی کی جس نسل میں پیغمبری چلی آرہی تھی وہ سب کے سب مختلف لڑائیوں میں ختم ہوگئے۔ صرف ایک حاملہ عورت بچی، سب کی امیدیں اس عورت سے وابستہ ہوگئیںکہ اس عورت سے لڑکا پیدا ہو اور وہ نبی بنے۔ وہ عورت بھی بارگاہِ خداوندی میں گڑ گڑاتی کہ اللہ رب عزت اس کو لڑکے سے نوازے، تاکہ وہ نبی بنے اور بنی اسرائیل کے لیے راہِ نجات ہو۔ اس کی دعا مقبول ہوئی اور رب کریم نے اس کو ایک لڑکا عطا کیا۔ اس کا نام شموئیل رکھا گیا جس کے لفظی معنی ہیں کہ ”اللہ نے میری دعا قبول فرمائی” نبوت کی عمر تک پہنچ کر آپ کو نبوت سے سرفراز فرمایا گیا۔ آپ بنی اسرائیل کو راہِ راست پر لانے کیلئے تبلیغ کرتے رہے لیکن بنی اسرائیل روز بہ روز زبوں حالی کا شکار ہوتے جارہے تھے۔ تابوتِ سکینہ دشمنوں کے قبضے میں تھا۔ دشمنوں کی قہر سمانیاں جاری تھیں۔ تبھی اپنے نبی سے درخواست کرتے ہیں کہ ہمارے لیے کوئی بادشاہ مقرر کردیں۔ تاکہ اس کی معیت میں ہم اللہ کی راہ میں جہاد کریں اور دشمنوں کا خاتمہ کریں۔ وہ نادان نہ جان سکے کہ بادشاہ تو ظاہر ہوچکا۔ بنی اسرائیل حضرت موسیٰ کی تعلیمات کو بھول چکے تھے تبھی وہ خلافت اور بادشاہی کے فرق کو فراموش کر بیٹھے۔ بجائے اس کے کہ وہ خود اُٹھتے اور اپنے زورِ بازو پر بھروسہ کرتے ہوئے دشمنوں کا مقابلہ کرتے، وہ نبی کی موجودگی میں بادشاہ کی چاہ کررہے تھے ان کا یہ فیصلہ درست تھا یا غلط، اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں بذاتِ خود اس پر کوئی روشنی نہیں ڈالی۔ اس ذکر کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان اس سے عبرت حاصل کریں اور اپنے اندر ان کمزوریوں کو جگہ نہ دیں۔
اللہ رب العزت یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے آگے فرماتے ہیں: ”پیغمبر نے کہا ممکن ہے کہ جہاد فرض ہو جانے کے بعد تم جہاد نہ کرو۔” انہوں نے کہا ہم راہِ اللہ میں جہاد کیوں نہ کریں گے؟ ہم تو اپنے گھر سے اجاڑے گئے ہیں اور بچوں سے دور کردیئے گئے ہیں۔ پھر ان پر جہاد فرض ہوا تو سوائے تھوڑے سے لوگوں کے سب پھر گئے۔ اللہ تعالیٰ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔” (سورة البقرہ، آیت 246)
پیغمبر اپنی قوم کے مزاج کو سمجھتے تھے، تبھی انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ اگر جہاد فرض ہوگیا تو یہ نہ ہوکہ تم لوگ منہ پھیر لو… لیکن قوم نے پورے یقین سے کہا ایسا ہرگز نہ ہوگا کیوں کہ ہم زبوں حالی کا شکار ہوچکے ہیں، کوئی پرسانِ حال نہیں، اہل و ایال ختم ہوچکے۔ اب ہم مرنے مارنے سے ڈرنے والے نہیں۔ لیکن جب جہاد کی فرضیت کا حکم ہوا تو سب منہ موڑ گئے سوائے چند لوگوں کے۔ چوں کہ بنی اسرائیل کی خواہش تھی کہ ان پر بادشاہ مقرر کی جائے تو پیغمبر نے طالوت کو بادشاہ مقرر فرما دیا۔ تو لوگوں نے اعتراض کیا اور کہا: ”کیوں کر ہوسکتا ہے اسے حکومت کا حق، ہم حالاں کہ زیادہ حق دار ہیں حکومت کے اس سے اور نہیں دی گئی اسے فراخی مال و دولت کی۔”
طالوت ایک مفلس شخص تھے اور ان کا تعلق شاہی خاندان سے بھی نہیں تھا۔ شاہی خاندان یہودا تھا۔ اسی لیے قوم بگڑ گئی اور امارتِ طعن کرنے لگی اور وہ خیال کرتی ہے کہ بادشاہ سے زیادہ وہ خود حق دار ہیں۔
پیغمبر ان کی بات ماننے سے انکار کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ حکمِ خداوندی ہے، اس میں تبدیلی کی گنجائش نہیں، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے طالوت کو بہت نوازا ہے اور ”اسے تمہارے مقابلے میں اور زیادہ دی ہے اسے کشادگی علم میں اور جسم میں۔” کیوں کہ حضرت طالوت قوی و طاقت ور، شکیل، جلیل، شجاع و بہادر اور لڑائی میں سب سے آگے تھے۔ ایک قول کے مطابق علمی کشادگی کا مطلب جنگی امور میں کشادگی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت طالوت بنی اسرائیل کے مقابلے میں ہر میدان میں ان سے برتر تھے۔ تبھی تو رب کریم سورة البقرہ میں فرماتا ہے: ”اور اللہ تعالیٰ عطا کرتا ہے اپنا ملک جسے چاہتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ وسعت والا اور سب جاننے والا ہے۔” (آیت 247)
حضرت طالوت کے متعلق یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ آپ منصبِ نبوت پر فائز کیے گئے تھے یا نہیں۔ محض بادشاہی کے لیے نامزدگی اس بات کو ثابت نہیں کرتی کہ آپ نبی کی میراث تک بھی پہنچے۔
حضرت طالوت کی بادشاہت کی پہلی حکمت یہ تھی کہ کھویا ہوا تابوتِ سکینہ دوبارہ حاصل ہونے کی خوش خبری دی گئی۔ جس میں بنی اسرائیل کا وقار و عزت و جلالت تھی کیوں کہ بنی اسرائیل نے اپنے پیغمبر سے بادشاہ کی نشانی مانگی تھی تو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”اس بادشاہ کی نشانی یہ ہے کہ آئے گا تمہارے پاس ایک صندوق اس میں تسلی (کا سامان) ہو گا تمہارے رب کی طرف سے اور (اس میں) بچی ہوئی چیزیں ہوں گی جنہیں چھوڑ کر گئے ہیں اولاد موسیٰ اور اولاد ہارون، اٹھا لائیں گے اس صندوق کو فرشتے بے شک اس میں بڑی نشانی ہے تمہارے لیے اگر تم ایمان دار ہو۔” (سورة البقرہ، آیت 248)
حضرت عباس فرماتے ہیں کہ فرشتے اللہ کے آسمان سے وہ تابوت لائے اور اس کو انہوں نے حضرت طالوت کے سامنے لا رکھا۔ جس سے لوگوں کو ان کی بادشاہت اور نبی کی سچائی کا یقین ہوگیا۔ کچھ کے خیال میں وہ تابوت گائے پر لایا گیا۔
کہا جاتا ہے کہ جب کفار نے بنی اسرائیل پر غلبہ حاصل کیا تو وہ تابوت اپنے ساتھ لے گئے اور اس کو بت کے نیچے رکھ دیا۔ اگلے دن وہ صُبح گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ بت نیچے پڑا ہے۔ انہوں نے پھر بت کو اس تابوت کے اوپر رکھ دیا۔ اس سے اگلے دن جب کفارِ اپنے بت خانے میں آئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ بت نیچے چکنا چور پڑا ہے۔ اور وہ سمجھ گئے کہ یہ تابوتِ سکینہ کی کرامات ہیں۔ اس دوران وہاں ایک وباء بھی پھوٹ پڑی۔ درحقیقت اللہ تعالیٰ نے وہ تابوت سکینہ بنی اسرائیل کو واپس پہنچانا تھا۔ وہ تابوت جس جس علاقے میں بھیجا گیا وہاں وباء پھوٹ پڑی۔ تو ناچار ہوکر انہوں نے دو بیلوں پر وہ تابوت لا کر اس کو ہانک دیا۔ فرشتے ان بیلوں کو ہانک کر حضرت طالوت کے پاس لائے جب بنی اسرائیل نے وہ تابوت طالوت کے پاس دیکھا تو تب ان کو طالوت کی بادشاہی کا یقین آگیا۔
حضرت طالوت نے بنی اسرائیل کو جمع کیا اور ان کی لشکر سازی فرمائی۔ پھر وہ اپنے لشکر کو لے کر نکلے۔ حضرت سدی کا قول ہے کہ لشکرِ طالوت کی تعداد اَسی ہزار تھی۔ ابھی وہ منزل سے دور تھا کہ حضرت طالوت نے اپنے لشکر کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ تمہیں ایک نہر سے آزمائے گا جس نے اس میں سے پانی پی لیا وہ میرا نہیں، اور جو اسے ہاتھ سے نہ چکھے وہ میرا ہے، ہاں یہ اور بات ہے کہ اپنے ہاتھ سے ایک چلو بھر لے۔” (سورة البقرہ، آیت 249)
حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ یہ نہر اردن اور فلسطین کے درمیان تھی اس کا نام نہر الشریعہ تھا۔ لیکن جب لشکر وہاں پہنچا تو پیاس کی شدت سے نہر پر جھک گئے اور خوب سیر ہوکر پانی پیا مگر ایسے پختہ ایمان لوگ بھی تھے کہ جنہوں نے ایک چلو بھر بھی پانی نہیں پیا۔ اس طرح وہ جہاد کرنے والوں میں شامل ہوئے لیکن پیٹ بھر کر پانی پینے والوں کی نہ تو پیاس بجھی اور نہ ہی وہ قابلِ جہاد رہے۔
سدی کے قول کے مطابق چھہتر ہزار نے اَسی ہزار میں سے پانی پیا صرف چار ہزار ہی فرماں بردار رہے۔ حضرت طالوت جانتے تھے کہ ان کے لشکر میں صبر و ضبط کی کمی ہے اس لیے شاید انہوں نے لوگوں کی کانٹی چھانٹی کے لیے یہ آزمائش تجویز کی تاکہ وہی لوگ ان کے ساتھ رہیں جو آگے چل کر ڈٹ کر جواں مردی سے دشمن کا مقابلہ کر سکیں اور ان کو شکست فاش دیں۔ اصحابِ حضرت محمدۖ فرمایا کرتے تھے کہ غزوۂ بدر میں ہماری تعداد حضرت طالوت بادشاہ کے لشکر کی سی تھی۔ جس نے آپ کے ساتھ نہر پار کی اور جہاد کیا اور دشمن پر غلبہ پایا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ چھوٹی جماعتیں مددِ خداوندی سے دشمن پر غلبہ حاصل کرتی ہیں کیوں کہ یقینِ کامل ہی اصل دولت ہے اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
جب لشکرِ طالوت نے نہر کو عبور کرلیا تو کچھ لوگ کہنے لگے کہ آج ہم میں جالوت کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ہے۔ وہ جالوت کو طاقت ور خیال کرتے ہیں اور اس کے لشکر کی زیادہ تعداد سے پریشان ہو جاتے ہیں۔ جالوت دشمن کی فوج کا سردار تھا اور ایک دیوہیکل شخص تھا۔ لیکن جن لوگوں کو یقین تھا کہ اللہ تبارک تعالیٰ ان کی مدد فرمائیں گے انہوں نے کہا: ”بسا اوقات چھوٹی اور تھوڑی جماعتیں بڑی اور بہت سی جماعتوں پر اللہ کے حکم سے غلبہ پالیتی ہیں۔” پس انہوں نے صبر کیا اور اللہ تعالیٰ کی مدد ان کے شاملِ حال رہی۔
پھر دونوں لشکر سامنے آگئے۔ لشکرِ طالوت کا مقابلہ لشکرِ جالوت سے ہوا تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا فرمائی: ”اے پروردگار! ہمیں صبر دے، ثابت قدمی دے اور قوم کفار پر ہماری مدد فرما۔” اللہ تعالیٰ کی مدد سے مسلمانوں نے جالوتیوں کو شکست فاش دی اور حضرت داؤد نے جالوت کا سر قلم کردیا اور اللہ تعالیٰ نے انعام میں آپ کو مملکت، حکمت اور جتنا کچھ چاہا ان کو علم میں عطا کیا۔ اس میں بہت زیادہ مال غنیمت ہاتھ لگا۔
حضرت داؤد اپنے بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ حضرت طالوت نے اعلان کیا کہ جو شخص جالوت کو قتل کرے گا میں اپنی بیٹی کی شادی اس سے کروں گا اور اس کو اپنی سلطنت سے بھی نوازوں گا۔ درحقیقت آپ لوگوں کو جالوت کے قتل پر اُبھار رہے تھے۔ حضرت داؤد کے پاس ایک غلیل تھی۔ آپ کو غلیل کے ساتھ پتھر پھینکنے میں کافی مہارت حاصل تھی۔ جب صفیں ترتیب پا گئیں اور جالوت آگے آیا تو اس نے کہا کون ہے جو مجھ سے لڑے گا؟ حضرت داؤد آگے بڑھے، جب اس نے ایک کم سن بچے کو اپنے مقابلے پر دیکھا تو بولا کہ تو چلا جا میں تجھ سے لڑنا پسند نہیں کرتا۔ حضرت داؤد نے فرمایا ٹھیک ہے اگر تم پسند نہیں کرتے کہ مجھے قتل کرو لیکن میں تو پسند کرتا ہوں کہ تم میرے ہاتھوں قتل ہو۔ آپ نے پتھر کو فلاحن میں رکھ کر جالوت پر چلایا تو وہ اسی سے مارا گیا… آپ کی شادی حضرت طالوت کی بیٹی سے انجام پائی۔ بعد میں حضرت داؤد سلطنت کے مستقل سلطان ہوئے۔ اللہ رب العزت نے اس وقت ابھی نبوت کے مقام سے سرفراز نہیں کیا تھا، پھر آپ کو علم، حکمت اور سلطنت عطا فرمائی۔ یوں اللہ تعالیٰ نے پست لوگوں کی پستی کو حضرت داؤد کی نبوت اور حضرت طالوت کی بادشاہی سے ختم کیا۔
ابنِ ابی حاتم، حضرت ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ اس قصے میں جو احوال و اقوال منکور ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں تین قسم کے لوگ تھے۔ پہلے ناقص الایمان جو امتحان میں پورے نہ اُترے، دوسرے کامل جو امتحان میں پورے اترے، مگر اپنی قلت کی فکر ہوئی، تیسرے اکمل جن کو یہ فکر بھی نہ ہوئی۔
اللہ تعالیٰ نے زمین کا انتظام و انصرام چلانے کے لیے یہ ضابطہ ترتیب دے رکھا ہے کہ وہ انسانوں کے مختلف گروہوں کو ایک حد سے زیادہ زمین پر غلب حاصل کرنے نہیں دیتا۔مگر جب گروہ اس حد تک تجاوز کرتا ہے تو دوسرے گروہ سے اس کا زور تڑوا دیتا ہے۔ اگر زمین میں ہمیشہ ایک گروہ ہی برسراقتدار ہوتا تو عجب قہر کا سماں ہوتا اور فساد ہی برپا رہتا۔
رب تعالیٰ کس طرح فقیر کو بادشاہ بنا دیتا ہے اور بادشاہ کو فقیر یہ بات حضرت طالوت اور جالوت کے قصے سے ظاہر ہوتی ہے۔ جسمانی طاقت اور دولت کی فراوانی بھی اکثر بے فائدہ ہو جاتی ہے۔ یہ رب کریم کی شان اور مرضی ہے کہ جس کو چاہے نواز دے۔ اور لینے پر آئے سب کچھ لے لے۔ انسان کو تنگی اور آسائش دونوں حالات میں شکر خداوندی کو نہیں بھولنا چاہیے اور اس کی ذات پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔ اور نہ ہی میدان جنگ میں اپنی قلت سے گھبرائے اور نہ کثرت پر مغرور ہو۔ انشاء اللہ فتح و نصرت مددگار ہوگی۔
٭…٭…٭