اب چڑنے اور کوفت میں مبتلا ہونے کے دن خالد صاحب کے تھے کیونکہ لانج میں زیادہ تر انہی کا بسیرا ہوتا. اخبارات و رسائل پڑھنے اور خبریں سننے کے شیدائی تھے۔ ساتھ میں چائے وقفے وقفے سے درکار ہوتی۔ کبھی حسنہ کو آواز دیتے اور کبھی خود ہی الیکٹرک کیٹل کی مدد سے بنا لیتے۔
"یار، کیا ہے یہ؟ جب دیکھو سوا سات… سوا سات…تنگ آ گیا ہوں میں اس سوا سات سے. بلا اس ویک اینڈ پر انس کو. یہ گھڑی بھی ٹھیک کروائے اور ماہانہ سودا سلف لانے کا وقت بھی آ گیا ہے. کچھ نہیں ہوتا ایک دن کی چھٹی سے. امتحانات کی ساری تیاری اسی ایک دن میں تھوڑی کر لے گا. مجھ سے نہیں ہوتا اب یہ سب.” حسنہ نے بمشکل مسکراہٹ دبائی.
” یہ جو آپ اتنے سارے آرٹیکلز اپنے موبائل فون پر پڑھتے ہیں اور سیل فون ہر وقت آپ کی نگاہوں کے سامنے ہوتا ہے تو پوچھنا یہ چاہتی ہوں، سر، کہ یہ فون وقت نہیں بتاتا کیا؟” حسنہ کا لہجہ شرارتی تھا.
"بتاتا ہو گا لیکن میں…” خالد صاحب سے آگے کوئی بات بن نہ پائی تو دونوں ہی کھلکھلا کر ہنس دیے.
٭…٭…٭
ویک اینڈ پر انس آیا تو گھڑی مکینک کے پاس لے گیا. مکینک نے چیک کر کے مایوسی کا اظہار کیا.
"مما، اس کی مشینری خراب ہو گئی ہے. وہ کہتا ہے بدلوانا چاہیں تو ٹھیک، ورنہ میرا مشورہ ہے کہ نئی گھڑی لے لیں. اس کا رنگ روپ بھی اتنا اچھا نہیں رہا.” انس وہیں سے کال کر کے حسنہ کو بتا رہا تھا.
"ایسا کرو انس، سٹور میں پانچ چھ گھڑیاں اور بھی پڑی ہیں، یہ لے جا اور اس سے کہو جو مشینری ٹھیک ہے اسے کسی قبول صورت گھڑی میں ڈال کر کم از کم ایک گھڑی تو تیار کر ہی دے.”
لیکن بات تب بھی نہ بنی. دکاندار کا کہنا تھا کہ جو گھڑیاں مختلف کمپنیاں اپنی مشہوری کے لیے بنواتی ہیں ان کی کوالٹی بس گزارے لائق ہی ہوتی ہے. ان سب پر فاتحہ پڑھ لیں اور کوئی نئی گھڑی خرید لیں. انس نے ایسا ہی کیا. نئی گھڑی کا ڈیزائن حسنہ کو زیادہ نہ بھایا اس لیے اس نے وہ لانج میں لگوا دی اور اپنے کمرے میں پرانی والی ہی رہنے دی.
انس کے ساتھ دن بھرپور گزرا تھا. چار پانچ گھنٹے کچن میں حسنہ اور انس نے اکٹھے گزارے. پزا اور کیک بیک کیا. خالد صاحب بھی بار بار چکر لگا کر ماں بیٹے کو کام کرتے اور خوش ہوتے دیکھتے رہے. ساتھ ہی ساتھ دریافت کرتے رہے کہ پزا بیک ہونے میں کتنا وقت باقی ہے. خالد صاحب حسنہ سے عمر میں کافی بڑے تھے لہذا حسنہ کے مشاغل میں زیادہ تر انس ہی اس کا ساتھ دیتا. ویسے بھی انس کی تعلیم و تربیت اور شخصیت سازی میں زیادہ ہاتھ حسنہ کا ہی تھا.
٭…٭…٭
فائنل امتحانات مکمل ہوئے. چند ماہ بعد رزلٹ آ گیا. اور اس دن تو انس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا جب ہائیر سٹڈیز سکالر شپ کے لیے منتخب کیے گئے طالب علموں میں ایک نام اس کا بھی تھا. انس کو توقع تو تھی، لیکن زیادہ نہیں. حسنہ بیٹے کی خوشی میں خوش تھی. انس کا چمکتا چہرہ اسے اپنے دل کی اداسی دل ہی میں چھپائے رکھنے کا مشورہ دیتا. اگلے بہت سے دن انس کی تیاریوں میں پلک جھپکتے گزر گئے.
بالآخر روانگی کا دن آ گیا. ائیر پورٹ پر جب انس اس کی نگاہوں سے اوجھل ہوا، دس پینتالیس ہوئے تھے.
گھر آکر حسنہ لائٹ آف کر کے چپ چاپ لیٹ گئی. گھر ایک دم ہی خالی ہو گیا تھا. خالد صاحب اس کی کیفیت سمجھتے تھے اسی لیے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیا. گویا بزبانِ خاموشی کہتے ہوں، "پریشان نہ ہو، ڈئیر، میں تمہارے ساتھ ہوں. تمہاری اداسی میں بھی برابر کا شریک ہوں.”
اگلے دن حسنہ سکول میں بھی چپ چپ سی رہی. دل بار بار حوصلہ ہار دیتا تھا حالانکہ دو برس کی ہی تو بات تھی. انس کوئی ہمیشہ کے لیے تھوڑی گیا تھا.
وہ ابھی ابھی سکول سے واپس آئی تھی. حسب معمول بیڈ پر بیٹھ کر پاں کو سینڈلز کی قید سے آزاد کر رہی تھی کہ نظر اچانک گھڑی پر پڑی.
دس پینتالیس!
دس پینتالیس!
وہ گھڑی کو دیکھے جا رہی تھی. "میرا دل اسی ایک وقت پر ٹھہر سا گیا ہے تو مجھے گھڑی پر بھی یہی نظر آ رہا ہے.”
وہ اٹھ کر دیوار کے نزدیک ہوئی. دس پینتالیس! گھڑی جیسے مسکرا کر اسے یقین دلا رہی تھی، "میں تمہارے احساسات سمجھتی ہوں نا. تم تنہا نہیں ہو، میں بھی تمہارے ساتھ ہوں، حسنہ.”
چھ ماہ بیتنے کو تھے. نہ حسنہ نے خالد صاحب سے اپنے کمرے کی گھڑی ٹھیک کروانے کو کہا، نہ انہیں خود ہی خیال آیا. اب دراصل اس کی ضرورت ہی نہ رہی تھی کیونکہ حسنہ کے اندر کا وقت اور گھڑی کی سوئیوں کا وقت پہلی بار ہم آہنگ ہوا تھا!
٭…٭…٭