گلانے — صوفیہ بٹ (قسط نمبر ۴ — آخری قسط)

نور الحسن گاڑی دوڑاتا اس یونیورسٹی کی طرف جا رہا تھا جہاں اس کی گُلانے کے قدم پڑے تھے ، جہاں اس کی گُلانے نے اپنا شوق بھلا کر اس کی پسند کو فوقیت دیتے ہوئے میتھ میٹکس میں ماسٹرز کیا تھا ۔
اس کا بس نہیں چلتا تھا کہ کون سا ایسا لمحہ آئے جب اس کی گُلانے اس کے سامنے ہو۔ جب تک وہ اس شہر پہنچا ، رات پڑ چکی تھی۔
وہ رات اس پر بہت بھاری تھی مگر خود وہ بہت ہلکا پھلکا تھا ۔ ساری رات ا س نے آنے والے دن کے بارے میں سوچا تھا ۔وہ مسکرا رہا تھا ۔ ایک مدت بعد یہ وقت آیا تھا جب وہ خود ہی خود مسکرا رہا تھا۔
صبح یونیورسٹی پہنچنے والا شاید وہ پہلا شخص تھا ۔ وہ میتھ میٹکس ڈیپارٹمنٹ پہنچا تھا ۔جیسے ہی ڈین آفس پہنچے ، وہ بھی بنا اجازت ان کے پیچھے پیچھے اندر آیا ۔ نائب قاصد اسے روکتا رہ گیا، ایک مہذب جج آج سارے طور طریقے بھولا ہوا تھا ۔
”مجھے … گُلانے سے ملنا ہے ۔”
ڈین پروفیسر اسفند یار جو کہ اس بندے کو گھو ر رہے تھے جو چہرے مہرے اور لباس سے تو مہذب ، پڑھا لکھا اور رکھ رکھاؤ والا لگ رہا تھا مگر ان کے آفس میں بغیر اجازت کے داخل ہو گیا تھا ۔ وہ یہ گستاخی پسند نہ کرتے ”گُلانے ” کا نام سنتے ہی ان کے چہرے کے تاثرات میں تبدیلی آئی ۔ جس طالبہ نے کل ان کا سر فخر سے بلند کیا تھا ، ان کے ڈیپارٹمنٹ کو بڑا اعزاز بخشا تھا ، اس طالبہ کا نام اور ذکر ان کا موڈ سیکنڈز میں بحال کر سکتا تھا ۔
”گُلانے … او نور… رائٹ گُلانے۔” ڈین نے جیسے خود کلامی کی اور پھر اس کی طرف دیکھتے ہوئے اسے کرسی پہ بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔
”ہماری جینئس اسٹوڈنٹ ! اصل میں وہ یہاں نور کے نام پہچان رکھتی ہے ، اس لیے مجھے سمجھنے میں کچھ دیر لگی ۔”
”نور ! ” اسے حیرت کا دھچکا لگا ۔
”ہاں …سب اسے نور کے نام ہی سے جانتے اور پکارتے ہیں، گُلانے تو صرف ٹیچرز اور اس کے کلاس میٹس کو ہی معلوم تھا کل تک ۔” ڈین مسکراتے ہوئے بتا رہے تھے اور نور الحسن گنگ بیٹھا تھا۔
”میں نے بھی اسے ایک میجر پڑھایا ہے ما شا ء اللہ، مجھے تب ہی لگتا تھا کہ وہ ضرور ٹاپ کرے گی۔ ” ڈین فخر سے اپنی قابل طالبہ کے بارے میں بتاتے رہے ، پھر اچانک انہیں خیال آیا ۔
”آپ ؟”
”Her Fiancé ”اپنی پہچان بتاتے ہوئے وہ ایک لمحے کو رکا تھا۔
”اوہ … پھر تو مجھے آپ سے کھڑے ہو کر ملنا چاہیے ۔” ڈین ایک دم اپنی کرسی سے اٹھے تھے اور اس کی طرف مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا ۔
جس لڑکی کی عزت پر اس کے گھر میں حملہ ہوا تھا ، جس لڑکی کی عزت پر اس کے بھائی نے ہاتھ ڈالا تھا ۔ وہ لڑکی کہاں کہاں اور کس کس طرح سے اس کی عزت بڑھا رہی تھی ۔ اس لمحے سے پہلے اسے ہرگزصحیح انداز ہ نہ تھا ۔
اس کی آنکھوں کی سطح نم ہوئی ۔
”میں گُلانے کا ایڈریس معلوم کرنا چاہتا ہوں ؟” اس نے مصافحہ کرنے کے بعد یہاں آنے کا مقصد بیان کیا ۔
”ایڈریس ۔” ڈین نے حیرت کے ساتھ اس شخص کو دیکھا جو ہونے والی بیوی کا پتا جاننے آیا تھا۔
”آپ کے بیچ کچھ ایشوز ہیں ؟ ” نورالحسن نے ایک مجرم کی طرح سر جھکایا تھا ۔
” آپ کی پرسنل لائف کے بارے میں ، میں کچھ نہیں جانتا مگر نور کو جس حد تک جانتا ہوں، وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ غلطی اس کی نہیں ہو گی۔ ”
ایک ایسا بندہ جس نے اسے پڑھایا تھا ، وہ اسے اس قدر جانتا تھا ۔ اور نورالحسن جو گُلانے کی روح کا ساتھی تھا، جس کا نام اس کے نام کے ساتھ جڑا تھا ۔ جس نے اپنے نام پر اس لڑکی کے چہرے پہ رنگ بکھرتے دیکھے تھے ، وہ … وہ اسے نہ جان پایا ، وہ اسے نہ سمجھ پایا اور اس کے شفاف کردار پر شک کرتا رہا۔ وہ جو سراٹھا کر جیا کرتا تھا ، اس کی نظریں جھکنے لگی تھیں ۔زندگی ہر موڑ پہ اسے شرمندہ کرنے لگی تھی۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”میں جانتا تھا تم پھر آؤ گے ۔” ڈاکٹر فضل الٰہی اسے سامنے پا کر پرسکون لہجے میں بولے تھے۔
”مگر میں نہیں جانتا تھا کہ آپ جھوٹ بھی بول لیتے ہیں ۔ ” نور الحسن سپاٹ چہرے کے ساتھ بولا۔
ڈاکٹر فضل الٰہی مسکر ا دیے، اس کا شکوہ بجا تھا ۔ اس کا غصہ بر حق تھا ۔
”گُلانے کہاں ہے ؟ ” ان کی مسکراہٹ نے اسے مزید تپایا۔
”وہ یہاں نہیں رہتی ۔” ڈاکٹر فضل الٰہی اسی پرسکون لہجے میں بولے۔
”کتنا جھوٹ بولیں گے آپ میرے ساتھ ۔”نور الحسن کی آواز اب بلند ہوگئی تھی۔
”جھوٹا نہیں ہوں میں ، قسم کا پابند ہوں ۔ ”ڈاکٹر فضل الٰہی شکست خوردہ لہجے میں بولے۔
”پلیز ڈاکٹر الٰہی …توڑ دیں ہر قسم ، میرے لیے زندگی اور مشکل نہ بنائیں ۔” نور الحسن اب اُن کے سامنے گڑگڑا رہا تھا۔
”مشکلیں تم نے دیکھیں کہاں ہیں برخودار ، جیسے جیسے امتحان سے وہ بچی گزری ہے ، تم گزرتے تو …”
”میں جانتا ہوں … میں جانتا ہوںڈاکٹر صاحب۔ ” وہ بے اختیار بولا تھا ۔ اُس کی رندھی ہوئی آواز پر ڈاکٹر فضل الٰہی اسے دیکھتے رہ گئے۔
”کیا جانتے ہو تم؟” بہت دیر بعد انہوں نے پوچھا ۔
”جو کچھ میرے بھائی نے کیا ۔ ” اس جواب پر ایک دفعہ پھر بالکل خاموشی چھا گئی تھی۔ لائبریری میں بس گھڑیال کی ٹک ٹک تھی اور پھر ایک اور آواز ابھری ، نور الحسن رو رہا تھا ۔
”اسی طرح گُلانے بھی روئی تھی۔ ” ڈاکٹر فضل الٰہی کی آنکھوں کی سطح نم ہونے لگی تھی۔ انہوں نے نورا لحسن کے سر پر ہاتھ رکھا ۔
”جاؤ جا کر مل لو اس سے ۔ ”
انہوں نے اسے گُلانے کا ایڈریس دیا تھا ۔ وہ کسی ورکنگ ویمن ہاسٹل کا پتا تھا ۔
”میں بھی کمزور تھا ۔ اسے پناہ نہ دے سکا ۔ ” انہوں نے اسے فہد عبدالکریم کے بارے میں سب کچھ بتا دیا ۔
”تم خوش نصیب ہو کہ تمہیں ایک باوفا اور بہت محبت کرنے والی لڑکی ملی، یقینا تم ایک اچھے بیٹے تھے، جو تمہیں اچھی ہم سفر ملی ۔”
وہ جس پر دنیا پانچ سالوں سے ہنس رہی تھی، گُلانے نے اسے عزت و فخر کا تاج پہنا دیا تھا ۔ ورکنگ ویمن ہاسٹل کی طرف جاتے ہوئے وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو ا کہ اس نے گُلانے کو کیا دیا ۔ آج اسے دنیا شرمندہ نہ کر رہی تھی ،، وہ خود نادم ہو رہا تھا ۔
٭…٭…٭
عروہ ابو بکر کا باپ جیتے جی بیٹی کا گھر بسانا چاہتا تھا اور بھابی تھی کہ اس کا گھر بسنے نہ دینا چاہتی تھی۔
وہ جو بستر پہ پڑے باپ کو سنبھال لیتی تھی، بجلی کا بل اور گھر کے کرائے کی آدھی رقم دے دیتی تھی، اس کی شادی ہو جاتی تو بیمار بڈھے کو بھلا راتوں کو اٹھ اٹھ کر کس نے دیکھنا تھا ؟ دیور تو جیل بیٹھا تھا ۔ شوہر کی محدود کمائی میں گیس کے بل کے ساتھ ساتھ بجلی کا بل ، پھر گھر کا پورا کرایہ کیسے ہو پاتا ۔ پہلے ہی اس اسریٰ نے گھر سے بھاگ کر زندگی مشکل کر دی تھی۔ بدنامی ہوئی تو باپ اور بھائیوں کی ہوئی ،اس کا کیا گیا تھا ۔ اس کی مشکل تو یوں بڑھی کہ گھر کے سارے کام اس کے سر پر آپڑے تھے ۔ اسریٰ تھی تو ہانڈی روٹی کرنا، صفائی کرنا ، کپڑے دھونا سب اس کے ذمے تھا ۔ وہ بڑے مزے سے سالہا سال چلنے والے ڈرامے کی ہر قسط تین تین بار دیکھ لیتی تھی۔ اب تو ایک دفعہ ہی بڑی مشکل سے دیکھ پاتی ۔
عروہ کی شادی پر بڑا مسئلہ خرچہ بھی تو تھا ۔ اب نبیل جوان ہوتی بیٹی کی فکر کرے یا بہن کودیکھے۔ اسریٰ نے بھاگ کر چلو اس خرچے سے تو بچایا تھا۔
وہ ان سارے جھنجھٹوں سے بچنے کے لیے نندوں کے لیے آنے والے ہر رشتے کو اپنی ماں کے گھر کا رستہ دکھا دیتی تھی۔ تین بہنیں بیاہی جاچکی تھیں، دو ابھی باقی تھیں ۔ بڑی بہن ہونے کے ناتے اس کا بھی تو کچھ فرض بنتا تھا جسیوہ ادا کر رہی تھی۔ عروہ کے معاملے میں ایک یہ آسانی بھی ہو گئی تھی کہ اسے دیکھنے کے لیے جو لوگ آتے ، کسی نہ کسی طرح گھما پھرا کر اسریٰ کے گھر سے بھاگ کر شادی رچا لینے کا ذکر ضرور کر دیا جاتا ۔آنے والے بھی اسی ماحول کے پروردہ تھے ، وہ سوچتے:
”بڑی بہن ایسی نکلی تو چھوٹی تو جانے کیا گل کھلائے گی۔ نوکری بھی دکان پر کرتی ہے جہاں رنگ رنگ کے مرد آتے ہیں۔”وہ پھر خاموشی سے پلٹ جانے ہی میں عافیت سمجھتے ۔
پہلے عروہ کو یہ سازشیں سمجھ نہیں آتی تھیں مگر جب بھابی کی دو بہنوں کا رشتہ ان لوگوں میں ہوا جو اسے دیکھنے آئے تھے تو سمجھنے لگی تھی۔پہلے پہل وہ دل جلاتی تھی، آنسو بہاتی تھی۔ مگر پھر ایسا ہونے لگا تھا کہ آنے والے رشتے کے لیے وہ خود ہی منع کر دیتی۔ آنکھیں کوئی اور سپنا دیکھنے لگی تھیں مگر ولید الحسن کے سچ نے ہر خواب چکنا چور کر کے رکھ دیا تھا۔
بابا کی فکر دیکھ کر وہ آئی تھی ولی کے پاس ۔
بھائی کا گھر اجاڑ کر وہ اپنا گھر کیسے بسا سکتا تھا ۔
”انتظار کر سکتی ہو تو کر لو ، ورنہ تم آزاد ہو کوئی بھی فیصلہ لینے میں ۔” ولی نے واضح الفاظ میں اسے کہہ دیا تھا ۔
٭…٭…٭
”نور کے کمرے میں بنا اجازت کسی کو جانے نہیں دیا جاتا، مگر آپ جا سکتے ہیں ۔ میں آپ کو اجازت دیتی ہوں ۔ ” ایک شوخ سی لڑکی نے شاہانہ انداز میں کہا اور اسے ساتھ لے کر سیڑھیاں چڑھنے لگی۔
” میں ہانیہ ہوں ، میں اور نور یونیورسٹی اور ہاسٹل میں ساتھ ساتھ تھے اور ابھی تک اس ہاسٹل اور جاب پر بھی ساتھ ساتھ تھے مگر اب لگتا ہے کہ یہ ساتھ چھوٹنے والا ہے ۔ ”
نور الحسن مسکرا دیا تھا۔
ہانیہ اسے دروازے پر چھوڑ کر چلی گئی تھی۔ اس کے دل کی دھڑکنیں تیز ہونے لگی تھیں ۔ دستک دیتے دیتے اس کے ہاتھ رکے اور مسکراتے ہوئے وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا ۔
سادہ سے کمرے میں سب سے قیمتی و ہی تھی جس کی تلاش میں وہ مارا مارا پھررہا تھا ، جس کو ایک بار دیکھنے کے لیے وہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر اپنے رب کے حضور سجدے میں گرا ۔ وہ اس کے سامنے تھی۔
اس کی نگاہوں کے بالکل سامنے ۔
وہ اس مہ رخ کو دیکھتا چلا گیاجو جائے نماز پر کھڑی تھی۔ سبز دوپٹے کے ہالے میں جس کا چہرہ دمک رہا تھا ۔جس لڑکی پر اس نے تین سال شک کیا، جو اسے بدکردار لگتی تھی آج اس سے زیادہ پاکیزہ اور باعصمت کو ئی اور دکھائی نہیں دیتا تھا ۔ اس کا کردار اس کے چلن کا گواہ اس کا سبز دوپٹے کے ہالے میں دمکتا ہوا چہرہ تھا ۔کسی سوال کی ضرورت ہی کہاں تھی۔
نور الحسن کا جی چاہا کہ یونہی اسے دیکھتے دیکھتے عمر بِتا دے ۔
اس نے سلام پھیر کر نگاہ جو اٹھائی تو جھکانا بھول گئی۔وہ جسے اس نے ہر دعا، ہر وقت اپنے رب سے مانگا تھا۔ وہ جو اُس کے لیے جینے کی وجہ تھا۔ وہ جو اتنا عرصہ اس کے پاس نہ ہونے کے باوجود ہر وقت اُس کے ساتھ تھا، اس کے سامنے کھڑا تھا۔ گُلانے کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔نور الحسن بے ساختہ ایک قدم اس کی طرف بڑھا اور وہ سجدے میں چلی گئی ۔
سجدہ شکر ادا کرنے کے بعد جائے نماز تہ کر کے وہ اس کے قریب چلی آئی ۔اور پھر اسے دیکھتی چلی گئی ۔
”آپ کا چہرہ میری آخری خواہش بننے لگا تھا نورالحسن ۔”روہانسی آواز میں کہا گیا نور کی طرف سے یہ پہلا جملہ تھا۔نور الحسن اپنی بخت آوری پہ جی اٹھا ۔
”میں جانتا ہوں ، میں نے بہت دیر کر دی۔” اس کا لہجہ بوجھل اور بھیگا ہوا تھا ۔
” جتنی محبت میں آپ سے کرتی ہوں ، آپ بھی کرتے تو جلد مجھ تک پہنچ جاتے ۔”وہ گلو گیر انداز میں بولی تھی۔
وہ کیسے بتاتا کہ محبت تو وہ بھی اس سے بہت کرتا تھا مگر اس محبت کا ایک ازلی دشمن ہے… شک! اسی شک نے اس کی راہ کھوٹی کر دی تھی۔ غلط راہ پر چلنے کا ادراک ہوا تو اتنی دور جا چکا تھا کہ واپسی میں بہت دیر لگا دی۔
”چلو گُلانے ! گھر چلیں ۔”وہ بس اتنا ہی کہہ پایا تھا۔
” گُلانے آپ کے دل میں تو رہ سکتی ہے نور الحسن! مگر آپ کے گھر میں نہیں ۔ ” اس کا فیصلہ آج بھی وہی تھا ۔
”گھر چلو گُلانے ، ولی ہمارے ساتھ نہیں رہے گا ۔”اس نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔
گُلانے نے ایک جھٹکے سے سرا ٹھایااور نور الحسن نے سر جھکا لیا ۔
”تمہیں گھر چھوڑنا نہیں چاہیے تھا گُلانے، مجھ پر اعتماد کر نا چاہیے تھا ، مجھے بتانا چاہیے تھا۔ ” اس نے سر جھکائے جیسے گلہ کیا ۔
”بتا دیتی تو کیا ہوتا نور الحسن؟ آپ اپنے بھائی کو کبھی نہ چھوڑتے ، گُلانے کو چھوڑدیتے ۔”وہ کرب جو اتنا عرصہ اس کے اندر پنپتا رہا ‘ آج اس کی زبان پر آگیا تھا۔
”تم نے ایسا کیوں سوچا گُلانے کہ میں تمہیں چھوڑ دیتا ۔”وہ بے یقینی سے اس سے پوچھ رہا تھا۔
”کیوں کہ آپ نے مجھے بارہا یہ تو بتایا تھا کہ ولی آپ کے لیے کیا ہے ، یہ کبھی نہیں بتایا کہ گُلانے آپ کے لیے کیا ہے ؟”
ہلکا سا گلہ ،کپکپاتے لب ، آنکھوں میں آنسو …
”گُلانے میرے لیے محبت ہے، زندگی ہے، جینے کی وجہ ہے گُلانے میرے لیے۔” نور الحسن نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے نرمی سے ایسا منتر پڑھا جس نے گُلانے کے جسم و روح سے تمام کانٹے چن لیے۔
آنسو بہ کر اس کے رخسار تک آیاجسے نورالحسن نے اپنی انگلی سے پونچھا ۔ وہ بھیگی آنکھوں سے ہلکا سا مسکراتی ہوئی مڑی اور ہاسٹل سے رخصتی کی تیاری کرنے لگی۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

گلانے — صوفیہ بٹ (قسط نمبر ۳)

Read Next

اُف یہ گرمی — فہمیدہ غوری

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!