گلانے — صوفیہ بٹ (قسط نمبر ۴ — آخری قسط)

قرةالعین غنی نے ہار مان لی تھی ۔اس نے ”امر بیل ” میں پڑھا تھا ۔
”زندگی میں کچھ چیزیں ایسی ہیں جو ہمیں نہیں مل سکتیں ، چاہے ہم روئیں ، چلائیں یا بچوں کی طرح ایڑیاں رگڑیں ، کیوں کہ وہ کسی دوسرے کے لیے ہوتی ہیں ۔ ”
اس نے قبول کر لیاتھا کہ نور الحسن اس کے لیے تھا ہی نہیں ۔ گلا نے اسے مل جاتی تو اس نے بھول ہی جانا تھا کہ قرة العین نام کی کوئی لڑکی بھی تھی۔ اور اگر گُلانے اسے نہ ملتی تو ساری عمر اس نے اس کی یادوں میں ڈوبے رہنا تھا ۔ جو بے وفا منگیتر کو آج تک بھول نہ پایا تھا وہ باوفا منگیتر کو کیسے بھول جاتا ۔ گُلانے ملتی یا نہ ملتی ، دونوں صورتوں میں نورالحسن کی زندگی میں قرة العین غنی کی جگہ کہیں نہیں بنتی تھی ۔ اس نے یہ سوچ لیا تھا۔ دو مہینے بعد اس نے اپنے ایک کزن سے منگنی کر لی تھی۔ ا س نے منیب کو نہیں چنا تھا کیوں کہ منیب لوگوں میں عیب اور نقص تلاش کرنے والا بندہ تھا ۔ ایسے شخص کو کل اپنی بیوی میں بھی عیب نظر آنے تھے ۔ وہ بیوی جس کے بارے میں کورٹ کا بندہ بندہ جانتا تھا کہ کبھی نو رالحسن کی دیوانی بنی پھرتی ہے اور کبھی ایڈووکیٹ منیب کے ساتھ دوستیاں کرتی پھرتی ہے ۔کل یہی باتیں منیب کے منہ پہ طعنہ بن کر آتیں تو اسے تکلیف ہوتی ۔اور زیادہ تکلیف تب ہوتی جب وہ نو ر الحسن کے لیے کچھ برا کہتا ۔
اس نے نور الحسن کے خواب دیکھنے چھوڑے تھے ، اس کو پسند کرنا نہیں چھوڑا تھا ۔
٭٭٭٭٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”مجھے تم اتنے بزدل نہیں لگتے تھے خزیمہ داؤد۔ ”نور اور ہانیہ اسپتال آئی تھیں اس سے ملنے۔
”مجھے بھی خزیمہ داؤد اتنا بزدل نہیں لگتا تھا ۔” وہ مضحمل سا مسکرایا ۔
”خودکشی مسئلے کا حل نہیں ہوتی ۔”نور کا لہجہ اب کافی مدھم تھا۔
”تو کیا زندگی مسئلے کا حل ہوتی ہے نور ؟” وہ کوئی جواب نہ دے پائی۔
”اگر ایسا ہے تومیں زندہ ہوں ۔ اب بتاؤ میرے مسئلے کا حل کیا ہے ؟ کیا تم مجھے قبول کرو گی ؟” اسے خاموش دیکھ کر خزیمہ نے اس سے پوچھا۔
” کیا قبول کر لینا مسئلے کا حل ہے ؟”اس نے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
”ہاں! محبت جیسے مسئلے کا حل تو یہی ہے کہ جو آپ کے دل میں ہے وہی آپ کے سنگ بھی ہو۔”خزیمہ بستر پر لیٹا لیٹا آہستہ سے بولا۔
”محبت تو میں بھی کرتی ہوں’ مگر میں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ ، حاصل کر لینا ہی محبت ہے۔ گُلانے نور الحسن سے اتنی محبت کرتی ہے کہ اپنا آپ بھلا کر ”نور ” ہو گئی ۔میں جانتی ہوں کہ میں انہیں کھو چکی ہوں، مگر میں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ خودکشی کر ڈالوں ۔میری محبت اتنی ا ر زاں نہیں ہے کہ وہ مجھ سے ایسا گناہ کروائے جس کی معافی کی مہلت بھی نہ ملے ۔”وہ اس کا چہرہ نہیں دیکھ پا رہاتھا مگر اس کی آنکھوں میں نورالحسن کی محبت کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا تھا ، اس کے لفظوں میں نور الحسن بولتا تھا ۔خزیمہ داؤد کو دل میں یہ قبول کرنا پڑا تھاکہ وہ قیس بن کر دیوانہ ہو کر پھرتا رہے ، نور کی محبت کا مقابلہ نہیں کر سکتا ۔
اسے نور الحسن نامی ایک ان دیکھے ایک انجان بندے سے حسد محسو س ہوا تھا اور اس پر رشک بھی آیا تھا ۔
٭…٭…٭
وہ ”نور ” سے بہت محبت کرتی تھی وہ نورجو اس کا سب کچھ تھا ۔ وہ نور جس نے ہر جگہ اس کی حفاظت کی ۔
اس نے پڑھا تھا کہ مرداور عورت کی تنہائی کے بیچ تیسرا شیطان ہے ۔ اس نے پڑھا بھی ہو گا تو کبھی یاد رکھنے کی کوشش نہیں کی ۔ اسے ولی کے ساتھ تنہا ہوتے ہوئے کبھی ڈر نہیں لگا ،تبھی تو رات کے اس پہر آم رکھنے اس کے کمرے میں چلی گئی تھی۔ کاش اس نے کبھی یہ سوچنے کی زحمت کی ہوتی کہ نبی اللہۖ کے منہ سے نکلنے والا کوئی لفظ مصلحت سے خالی نہیں ۔ انہوں نے تو صاف لفظوں میں پردہ کا حکم دیا اور فرمایا:
”خاوند کے بھائی تو موت ہیں۔”
اور اس بے وقوف لڑکی نے اپنے ہادی کی ہدایت پڑھ کر نظرانداز کر دی ۔ اس نے باہر کے لوگوں سے پردہ شروع کر دیا اور ولی کی طرف سے غافل رہی، حالانکہ اسے تو نور الحسن کی طرف سے بھی غافل نہیں ہونا چاہیے تھا ۔ وہ ہونے والا شوہر تھا ، شوہر تو نہیں تھا نا ۔ایک ہی گھر میں رہ کر وہ ان سے پردہ نہ کر سکتی تھی مگراٹھتے بیٹھتے ، چلتے پھرتے اپنے لباس ، اپنے دوپٹے کا تو خیال رکھ سکتی تھی۔ صرف ولی گناہ گار نہ تھا ، وہ بھی قصور وار تھی۔ وہ رات کے اس پہر ولی کے کمرے میں گئی تھی ۔ وہ اگر گناہ کا ارادہ رکھتا بھی تھا تو اسے اس نے موقع دیا تھا ۔ وہ اپنا احتساب کرنا نہیں بھولتی تھی۔
وہ اس ”نور ” سے بھی بہت محبت کرتی تھی جس کے منہ سے نکلا ہر لفظ اس کے لیے تعویذ تھا، جس کی ایک نظر اس کے لیے نویدِ حیات تھی۔ وہ جوکچی عمر میں دیکھا گیا اس کا پہلا خواب تھااور جو آج بھی خواب تھا ۔
٭…٭…٭
پت جھڑ، ساون ، بسنت آئے اور گئے ۔ نورالحسن کے لیے موسموں کی تفریق ختم ہو گئی تھی۔ اسے دن رات ایک جیسے لگتے تھے ۔ وہ بھی ایک ایسا ہی دن تھا جب وہ ایک کیس کی فائل میں گم کھانا پینا بھولا ہوا تھا۔ کل ا سے ایک بہت اہم فیصلہ کرنا تھا ۔ فیصلے کی رات اس پر ہمیشہ بھاری ہوتی تھی ۔ اس کے فیصلوں کے ساتھ کئی زندگیاں جڑی ہوتی تھیں ۔ اسے یہ ڈر ہوتا تھا کہ کہیں غلط فیصلہ نہ کر ڈالے ۔اچھا جج بننا اس کا خواب تھا ۔ اب احساس ہوتا تھا کہ جج بننا اور اچھا جج بننا بہت ہی مشکل کام ہے ۔ جج کا اک جملہ کسی کی زندگی سنوار سکتا ہے تو کسی کی بگاڑ بھی سکتا ہے ۔ اس دودھاری تلوار پر چلنا بہت مشکل امر تھا لیکن اب یہی اس کی زندگی تھی ۔ نجی زندگی میں وہ ناکام ترین مرد ٹھہرا تھا۔ اب پیشہ ورانہ زندگی میں تو کامیاب رہتا، ورنہ وہ اس دنیا میں لینے کیا آیا تھا؟
”چائے تو پی لیتے بیٹا۔” شوکت علی کپ اٹھانے آئے تو چائے یونہی پڑی تھی اور اس کی سطح پر جمی بالائی سیاہ ہونے لگی تھی۔
”اوہ!” کپ پر اس کی نظر اب پڑی تھی یا اس وقت جب شو کت علی اس کے پاس رکھ کر گیا تھا۔
”میں اور بنا لاتا ہوں ۔ ”انہوں نے کمرے سے نکلتے ہوئے کہا۔
”نہیں … بس تھوڑی دیر بعد دودھ کا گلاس دے دیجیے گا ۔”
”اور وہ جو روز اتنے پھل لے آتے ہو ، وہ کس نے کھانے ہوتے ہیں؟” انہوں نے شفقت سے اُس سے پوچھا۔
”وہ کھائے نہیں ابھی تک آپ نے ؟” اس نے انہیں دیکھتے ہوئے کہا۔
”ہم نے تو کھا لیے ۔ تمہارا حصہ پڑا ہے ۔” اس نے آم کی ٹوکری اس کے سامنے رکھ دی تھی۔ آم ولی کو بہت پسندتھے مگر اب وہ آم کو منہ بھی نہیں لگاتا تھا ۔
”آپ کھا لیں۔” اس نے آموں سے نظر ہٹا لی ۔
” عا د تیں خر اب نہ کر و بیٹا نو کر وں کی، کل دو سرا جج آیا تو ا س کے سا تھ ر ہنا مشکل لگے گا ۔’ ‘ شوکت علی کو آگے کی فکر لاحق ہوئی ۔اب ہر آنے والا نور الحسن تو نہیں ہوتا ناں ۔
کل کے بارے میں عرصہ ہوا ، نور الحسن نے سوچناچھوڑ دیا تھا ۔ اس کے مستقبل کے خواب ، اس کی پلاننگز دھری کی دھری رہ گئیں تھیں ان دو لوگوں کے پیچھے جو اس کو بہت عزیز تھے۔
ٹی و ی چل رہا تھا ۔کام کرتے ہوئے ایک اچٹتی سی نظر ا س نے ٹی وی اسکرین پر ڈالی ۔ ایک یونیورسٹی کے کانووکیشن کی رپورٹ تھی جس میں صوبہ کے گورنر اور وائس چانسلر طلبہ کو میڈل پہنا رہے تھے ، ڈگریاں دے رہے تھے۔
اس نے اپنا دھیان پھر سامنے بکھرے کاغذات کی طرف کر لیا۔اسی دوران اعتبار احمد کی کال آگئی’ تو وہ ٹی وی کا والیوم میوٹ کر کے ان سے بات کرنے لگا ۔بات کرتے کرتے اس نے یونہی اسکرین پہ نظر ڈالی اور ٹھٹک گیا ۔
یہ آنکھیں …یہ ہاتھ ۔
اس نے آنکھیں جھپک کر دیکھا ۔
ٹی وی اسکرین پر نظر آنے والی لڑکی کی آنکھیں ، مائک کو پکڑے ہوئے اس کے ہاتھ …
وہ سو سال بعد بھی ان دودھیا ہاتھوں کو، ان نیلی آنکھوں کو پہچان سکتا تھا ۔ اس نے ان ہاتھوں کو تھاما تھا ۔ اس نے ان آنکھوں میں کئی بار اپنے آپ کو دیکھا تھا ، محبت کو دیکھا تھا ۔
وہ غلط نہیں ہو سکتا تھا ۔ یہ کوئی دھوکا نہیں تھا ۔
اس نے بغیر الوداعی کلمات کہے کال ڈس کنیکٹ کر دی اور ٹی وی کی آواز کھول دی تھی۔
” آپ کی کامیابی کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے ؟ ”ٹی وی رپورٹر پوچھ رہا تھا ۔
”میری کامیابی کے پیچھے ایک ہی شخص کی محبت کا ہاتھ ہے ۔”
یہ آواز…یہ آواز۔
”ام کو کرید لو نورالحسن ۔”
ہاں … یہ آ و از وہ لاکھوں کروڑوں آوازوں میں سے پہچان سکتا تھا۔
”کیوں کہ … کیوں کہ آپ مجھے اچھے … اچھے لگتے ہیں ۔”
ہاں … یہ آواز وہ اربوں کے شور میں سے سن سکتا تھا۔
”میری کامیابی کے پیچھے ایک ہی شخص کی محبت کا ہاتھ ہے ۔”
”ہم پوچھ سکتے ہیں اس کا نام ؟” رپورٹر اشتیاق سے پوچھ رہا تھا ۔
” نور ا لحسن ۔”
نور الحسن کو لگا ، ہر طرف پھول ہی پھول کھل اٹھے ہوں ۔ ہر طرف بلبلیں چہکنے لگی ہیں ۔ وہ بے اختیار اٹھ کر ٹی وی کے قریب چلا آیا ۔
”ناظرین ابھی آپ ملے اس طالبہ سے جنہوں نے نا صرف اپنے ڈیپارٹمنٹ میں ٹاپ کیا بلکہ اٹھانوے فیصد نمبر حاصل کر کے یونیورسٹی بھر میں اوّل نمبر پر رہیں ۔آج انہیں ایک نہیں بلکہ تین تین گولڈمیڈلز پہنائے گئے ۔”
ٹی وی نمائندہ اب ناظرین سے مخاطب تھا اور نورالحسن کے ہاتھ نے پیچھے اسکرین پر نظر آتی اپنی گُلانے کو چھواتھا۔
٭…٭…٭
مبارک باد وصول کر کے گُلانے ہجوم سے باہر نکلی تو اس کی نظر کلاس فیلوز کے ساتھ کھڑے خزیمہ پر پڑی ، اسے دکھ ہوا ۔سیکنڈ پوزیشن تو کیا ، اگلی دس پوزیشنز میں بھی اس کا نام نہیں تھا ۔ وہ اس کی حالت کی ذمے دار نہیں تھی۔ اس نے کبھی اس کے جذبات کی پزیرائی نہیں کی تھی پھر بھی وہ آگے بڑھتا چلا آیا۔ یہ جانے بغیر کہ آگے ”ممنوعہ ” کابورڈ لگا ہے ۔
سرحد پار کر کے اس نے ہمیشہ سزا ہی بھگتی تھی مگر باز نہیں آتا تھا ۔ اور اس دفعہ تو کڑی سزا ملی تھی ۔
”مبارک ہو نور ” خزیمہ کی نظر بھی گُلانے پہ پڑی تو دوستوں سے ایکسکیوز کرکے اس کی طرف آیا۔
”خیر مبارک۔” نور نے آہستہ سے کہا تھا۔
” نور الحسن نظر نہیں آرہا ۔” اس کے لہجے میں ہلکا سا طنز تھا ۔
”وہ نہیں آئے ۔ ”وہ ویران لہجے میں بولی۔
”کیا وہ آئے گا ؟” وہ چپ رہ گئی تھی۔
”اگر وہ نہ آیا تو یاد رکھنا کوئی ہے جو آپ کا منتظر ہے ۔”پتا نہیں کیوں وہ اب بھی پرامید تھا۔
”انتظار بے فائدہ ہو گا۔” اس نے خالی خالی لہجے میں کہا۔
”یہی میں آپ کو کہنا چاہتا ہو ں کہ انتظار بے فائدہ ہو گا ۔”
وہ لاجواب ہو گئی کیوں کہ وہ جانتی تھی کہ خزیمہ داؤد ٹھیک کہہ رہا ہے ۔ وہ اپنی کشتیاں جلا کر نورالحسن کے گھر سے نکلی تھی اور پیچھے کوئی نشاں بھی نہیں چھوڑا تھا ۔ نور الحسن کھوجی بھی ہوتا تو شاید اسے تلاش نہ کر پاتا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

گلانے — صوفیہ بٹ (قسط نمبر ۳)

Read Next

اُف یہ گرمی — فہمیدہ غوری

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!