گلانے — صوفیہ بٹ (قسط نمبر ۴ — آخری قسط)

اس دن اس مہ رخ کو دیکھ کر فہد عبدالکریم کی نیندیں حرام ہوگئی تھیں۔ وہ بھول گیا تھا کہ اس کا اس گھر سے کیا رشتہ ہے اور بریرہ نام کی کوئی لڑکی اس کی منگیتر بھی ہے۔
بریرہ نام کی کوئی لڑکی اس کی منگیتر تھی بھی تو اس لیے نہیں کہ اس کے دل کی کوئی خواہش تھی بلکہ اندر کا لالچ تھا جو اس نے نوکری اور ریسرچ کے پیچھے اپنا رنگ روپ گنواتی ہوئی لڑکی کو قبول کیا تھا ۔اب جو گُلانے کو دیکھا تو پچھتایا کہ یہ لڑکی سال پہلے نظر کیوں نہ آئی؟ آخر شادی جیسے رشتے میں دل کا بھی کچھ رول ہونا چاہیے ۔ پھیکی سی زندگی میں حسن و دلکشی کے رنگ بکھرنے چاہئیں۔ مگر بریرہ فضل الٰہی کتابوں میں دل لگا بیٹھی تھی اور حسن و دلکشی عمر کے ساتھ ماند پڑ گئی تھی ۔وہ بتیس کی ہونے والی تھی۔ آج اسے اس کی عمر کے سال ، مہینے بلکہ دن بھی محسوس ہو رہے تھے ۔
دو دن بعد اسے پھر پھوپھی کی یاد ستانے لگی تھی۔ وہ تو نہال ہو گئیں مگر وہ مہ جبیں اسے کہیں دکھائی نہ دی ۔اس دن تو کیا اس کے بعد بھی جب وہ وہاں گیا ، اسے پری چہرہ کا دیدار نہ ہوا۔ ایک دفعہ وہ گیٹ سے اندر داخل ہوتی دکھائی دی’ مگر نقاب میں تھی اور کتابیں اٹھائے اندر جا رہی تھی۔ اس نے آگے بڑھ کر اسے مخاطب کیا۔
”کہاں ہوتی ہیں آپ ، نظر ہی نہیں آتیں ۔”
”مجھے آپ کو نظر آنے کی ضرورت ہے بھی نہیں ۔” وہ جو اسے دیکھ کر ٹھٹکی تھی، بے لچک لہجے میں بولی ۔
”کیا ہم کچھ دیر بات کر سکتے ہیں ؟”
”ہاں… ڈاکٹر فضل الٰہی کے سامنے کر سکتے ہیں۔ ” یہ کہہ کر وہ رکی نہیں بلکہ اندر چل گئی تھی۔
وہ پاگل تھا کیا جو ایسا کرتا ، وہ مایوس لوٹ گیا تھا ۔پھر اُسے ایک موقع مل گیا۔ اُس دن وہ گھر آیا تو ملازمہ نے اطلاع دی ۔
‘ ‘بی بی تو گھر پر نہیں ہیں ۔ ”
”بریرہ تو ہو گی ناں ۔ ”اس نے بلاوجہ اس کا پوچھا۔
”وہ تو رات آٹھ بجے تک آئیں گی ۔”
”اچھا … نور کہاں ہے؟” اس کے اندر کا تجسس بڑھ گیا تھا۔
”وہ اپنے کمرے میں ہیں۔”
”کمرا کون سا ہے اس کا ؟” اس نے مالکانہ لہجے میں پوچھا’ تو ملازمہ نے بتا دیا تھا ۔ وہ دستک دیے بغیر کمرے میں داخل ہوا ۔ وہ کرسی پر بیٹھی نظر آئی۔ اُس کا رخ دوسری طرف تھا ۔ اس کی پشت پر بکھرے سنہری گھنگھریالے بال گیلے ہونے کی وجہ سے اس وقت سیدھے تھے ۔ فہد کو یوں لگا کہ سنہری دھوپ نکل آ ئی ہو ۔
وہ شاید اسے یوں ہی کھڑا تکتا رہتا’ مگر گُلانے نے ایک دم چہرہ موڑا تھا ۔ اسے کچھ گڑبڑ کا احساس ہوا تھا ۔اسے پیچھے کھڑا پا کر وہ ایک دم کرسی سے اٹھی اور دوپٹا سر پہ لے کر اس کا نقاب کیا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”آپ … آپ یہاں کیا لینے آئے ہیں ۔” اس نے شعلہ بار لہجے میں پوچھا ۔
”تم سے ملنے آیا ہوں ، نور جس دن سے میں نے تمہیں دیکھا ہے ، میں … میں دیوانہ سا ہو گیا ہوں ۔ میں …”
”بس … ‘ ‘ گُلانے نے اسے ہاتھ کے اشارے سے مزید کچھ بھی کہنے سے روکا ۔
”آپ جا سکتے ہیں ۔”نور کا لہجہ خوف ناک حد تک سرد تھا۔
”نور ! مجھے خود نہیں پتا مگر میں …میں …” اس نے انور کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا۔
”آپ یہاں سے جائیں گے یا میں بلاؤں کسی کو ۔”اس نے اسے دھمکانے والے انداز میں کہا۔
”گھر میں کوئی نہیں ہے ۔ ” وہ مسکرایا تھا ۔
اسے لگا کہ اس کے سامنے ولی کھڑا ہے ، اسے لگا اس کے سامنے شیطان کھڑا ہے۔ وہ خوفزدہ ہو گئی اور چلانا شروع کر دیا ۔ فہد گھبرا کر آگے بڑھا اور اس کے منہ پر ہاتھ رکھ کر اسے روکنے کی کوشش کی ۔
”کیا ہوا نور بی بی ؟” ملازمہ کی آواز نے فہد عبدالکریم کے چھکے چھڑوا دیے ۔ اس نے فوراً گُلانے کے منہ سے ہاتھ ہٹا کر اسے اپنی گرفت سے آزاد کیا ۔ گُلانے نے پلٹ کر اس کے منہ پر تھپڑ مارا۔
”تمہاری … تمہاری اتنی جرأت ۔ ” دوسرا تھپڑ اس کے منہ پہ پڑا تھا۔
”تمہاری اتنی ہمت کہ تم مجھے ہاتھ بھی لگا سکو۔ ” تیسرا تھپڑ ۔
وہ بپھری شیرنی ہو رہی تھی۔وہ جنونی ہو رہی تھی۔ اسے لگا وہ ولی کو تھپڑ مار رہی ہے ، وہ فہد کو تھپڑ مار رہی ہے ، وہ ہر اس شخص کو تھپڑ مار رہی ہے جو بد نیت ہے ۔ جو خائن ہے ۔
ملازمہ منہ کھولے کھڑی تھی اور فہد کی حالت غیر ہو رہی تھی۔ اسی کی حماقت سے اس پر ایسا وقت آیا تھا کہ وہ اس لڑکی کے ساتھ جوابی کارروائی نہیں کر سکتا تھا ۔ وہ بے عزت ہو کر کمرے سے نکل گیا۔ گُلانے وہیں کھڑی اکھڑے اکھڑے سانس لیتی رہی۔ ملازمہ نے آگے بڑھ کر اس کے سر پر ہاتھ رکھا’ تو نیلی آنکھوں کی سطح زیرِ آب آنے لگی ۔ وہ کرسی پر بیٹھی اور دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپا کر رونے لگی تھی۔ ملازمہ اس کے سر پر ہاتھ پھیرتی رہی ۔
اُس رات وہ ڈاکٹر فضل الٰہی کے پاس گئی تھی۔ وہ اُس کی آنکھیں دیکھ کر چونک گئے تھے ۔ انہیں لگا کہ وہ کچھ کہنا چاہتی ہے ۔ وہ منتظر تھے مگر وہ لب وا کرتی اور پھر بھینچ لیتی ۔
”کچھ کہنا چاہتی ہو نور ؟ ” انہیں خود ہی اس کی جھجک دور کرنی پڑی ۔
”میں … میں ہاسٹل جانا چاہتی ہوں ۔” اس نے بنا تمہید باندھے اپنی بات کہی۔
”کیوں خیر یت؟’ یہاں کوئی پرابلم ہے کیا بیٹا ؟”وہ اِس اچانک مطالبے پر حیران تھے۔
اس نے اثبات میں سر ہلایا مگر کچھ کہہ نہ پائی ۔
” نور ! کچھ حقائق چھپانے سے نہیں بتانے سے حل ہوتے ہیں ۔ نور الحسن کا گھر چھوڑکر تم نے جو غلطی کی ، وہ اب مت دہرانا ۔”وہ سر جھکائے بیٹھی رہی ۔
”اب گھر کیوں چھوڑنا چاہتی ہو؟” انہوں نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔
”میں وہاں پرسکون محسوس کروں گی۔ پھر آپ نے بھی توانگلینڈ جانا ہے۔”اس نے بات بناتے ہوئے کہا۔
” ابھی میرے انگلینڈ جانے میں چار ماہ باقی ہیں اور یہ پرسکون رہنے کی کیا بات کی تم نے؟ یہاں آرام سے نہیں ہو ؟”اس نے سر جھکا کر نفی میں سر ہلایا ۔
”اِدھر آؤ… میر ے پا س بیٹھو۔ ” انہوں نے نرمی سے اسے پاس بلایا ۔
”بتاؤ مجھے کیا بات ہے ؟ کوئی بات ہوئی ہے ۔ خدیجہ نے کچھ کہہ دیا ؟ بریرہ نے کچھ کہا ؟”اس نے نفی میں سر ہلایا ۔
”تم نے فیصلہ کرنے میں ہمیشہ جلد بازی دکھائی ہے ، اب یہ غلطی مت کرو ۔” انہیںلگ رہا تھا کہ وہ پھر کچھ چھپا رہی تھی، پھر کوئی غلطی دہرا رہی تھی۔ اس نے روتے ہوئے انہیں سب بتا دیا ۔
”اصغری سے پوچھ لیں بھلے۔ ” اس نے ملازمہ کا نام لیا جو گواہ تھی ۔
”مجھے تمہاری بات پر یقین ہے ۔ کسی شاہد کی ضرورت نہیں ۔ ” انہوں نے اپنے اندر کی تکلیف چھپاتے ہوئے کہا ۔
”مجھے دکھ اس بات کا ہے کہ میرا گھر بھی تمہارے لیے پناہ گاہ نہ بن سکا ۔میں تو تمہاری زندگی میں ثانوی سا کردار بھی ادا نہ کر سکا ۔” وہ بہت دکھی ہوئے تھے۔
اس سے پہلے کہ وہ اس کے لیے ہاسٹل میں الاٹمنٹ کرواتے ، خدیجہ فضل نے گھر میں ہنگامہ کھڑا کر دیا تھا ۔وہ گُلانے کو اس کے بالوں سے پکڑ کر گھسیٹ کر سب کے سامنے لے آئی تھیں اور بین ڈالنے شروع کر دیے۔
”ڈائن … ذرا حیا نہ آئی تمہیں اس شخص کے ہونے والے داماد پر ڈورے ڈالنے لگی جس نے تمہیں پناہ دی ۔”
”خدیجہ … ” ڈاکٹر فضل الٰہی کی آواز خدیجہ فضل کی سماعت تک نہیں پہنچ رہی تھی۔ وہ سینہ پیٹ رہی تھیں۔ فہد عبدالکریم نے انہیں فون کر کے ہر الزام گُلانے پر رکھ دیا تھا ۔ وہ سب کے بیچ کھڑی تھرتھر کانپ رہی تھی۔
”جھوٹ ہے یہ … مجھے خود نور نے ساری بات بتائی ہے۔ بھلے اصغری سے پوچھ لو ۔” ڈاکٹر فضل الٰہی نے اس کا دفاع کرتے ہوئے ملازمہ کو آواز دی ۔اس نے آہستہ آواز میں ساری بات کہہ ڈالی۔بریر ہ سکتے کے عالم میں یہ سار ا منظر دیکھ رہی تھی۔
”نیچ ذات مل گئیں دونوں ، میرا بھتیجا جھوٹ نہیں بولتا ۔” خدیجہ فضل نے ان کی کسی ایک بات کا بھی اعتبار نہیں کیا تھا ۔
”ایسی لڑکیاں پہلے اپنے حسن کے جال میں پھنساتی ہیں ، کام نکل جائے تو ایسے ڈرامے رچا کردوسرے کو رسوا کرکے خود بچ نکلتی ہیں ۔ ”
اس عورت کے رو پ میں ڈاکٹر فضل الٰہی کے والدین نے بڑا ہی ستم کیا تھا ان پر۔ اب تو سہنے کی عادت سی ہو گئی تھی مگر اس بچی پر اور اپنی بیٹی پر وہ یہ ستم نہیں کر سکتے تھے ۔انہوں نے بریرہ کی منگنی توڑ دی اور گُلانے کی الاٹمنٹ ہاسٹل میں کروا دی۔
”نصیب میں جانے اور کتنی خواری ہے ۔ ”اس نے ہاسٹل کے گیٹ میں قدم رکھتے ہوئے سوچا تھا۔
باپ کے گھر سے پوجی کا گاؤں ، پوجی کے گاؤں سے نور الحسن کا گھر پھر اس جنت سے ڈاکٹر فضل الٰہی کے گھر اور اب وہاں سے ہاسٹل … کمرے تک پہنچتے پہنچتے پوری زند گی کی فلم اس کی نظروں کے سامنے چل گئی تھی۔باپ کے گھر کے بعد نو ر الحسن کے گھر سکون ملا مگر وہ چھت بھی نصیب میں نہ تھی شاید ۔
”میرے اللہ ! کبھی کسی لڑکی کو در در کی خاک نہ بنا ۔ اس کے نصیب میں باپ کے گھر سے شوہر کے گھر تک کا سفر لکھ بس ۔ اسی میں اس کی عزت ہے ۔” وہ اکثر روتے روتے دعا مانگا کرتی تھی۔
وہ نو ر الحسن کو چھوڑ آئی تھی مگر نور الحسن کی محبت اس کادامن نہیں چھوڑتی تھی۔ وہ ا س کے علاوہ کسی اور کے بارے میں سوچ ہی نہیں سکتی تھی، چاہے سامنے خزیمہ داؤد جیسا اچھا لڑکا ہی ہاتھ بڑھائے کیوں نہ کھڑا ہو ۔وہ اس کا ہاتھ نہیں تھام سکتی تھی کیوں کہ اس کا ہاتھ نورالحسن نے نہیں بلکہ نور الحسن کی محبت نے تھام رکھا تھا ۔ وہ محبت جو امر تھی۔
وہ نور الحسن کو نہ بھولی تھی مگر وہ شاید اسے بھول گیا تھا ۔ ا س نے تو کبھی اسے تلاش کرنے کی کوشش ہی نہیں کی تھی۔ اسے جو ایک آس تھی، ایک امید تھی ، ایک یقین تھا کہ وہ اسے ڈھونڈتا ہوا ڈاکٹر فضل الٰہی تک آ پہنچے گا ، وہ سب خواب ہوا ۔ وہ آتا بھی تو کیوں آتا،اس نے ٹھوکروں کی زد پر پڑے پتھر کو سر کے تاج میں جڑا تھا ، اور وہ اس کا شملہ نیچا کر آئی تھی۔ نورالحسن اسے تلاش کرتا بھی تو بھلا کیوں کرتا ۔
اور پھر ایک دن ڈاکٹر فضل الٰہی کا فون آیا ۔
نور الحسن اسے تلاش کرتا ہوا ان کے گھر آیا تھا ۔ انہوں نے نا چاہتے ہوئے بھی اسے مایوس لوٹا دیا تھا ۔
وہ مضحمل سا مسکرائی تھی اور اس کے بعد بہت روئی تھی۔
مسکرائی اس لیے تھی کہ اتنے سالوں بعد ہی سہی ، نور الحسن اس کی تلاش میں تو آیا ۔ روئی اس لیے تھی کہ وہ نو ر الحسن کے پاس نہیں لوٹ سکتی تھی۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

گلانے — صوفیہ بٹ (قسط نمبر ۳)

Read Next

اُف یہ گرمی — فہمیدہ غوری

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!