گلانے — صوفیہ بٹ (قسط نمبر ۴ — آخری قسط)

کافی دیر تک تو اسے یہ سمجھ نہ آیا کہ اس کے ساتھ ہوا کیا ہے اور جب سمجھ آئی تو منہ پر ہاتھ رکھ کر سسکیاں دباتی ہوئی وہ زارو قطار رو پڑی۔ امی سو رہی تھیں، وہ نہیںچاہتی تھی کہ وہ اٹھ جائیں اور اپنے بیٹے کا کالا کرتوت جان کر پھر کبھی سکون کی نیند نہ سو پائیں ۔ روتے روتے اس نے ایک فیصلہ کیا تھا ۔
وہ آج بھی نادان تھی ۔
اس نے ایک فیصلہ کیا تھا ۔ وہ جا نتی تھی کہ یہ فیصلہ قیامت ہے ۔ نور الحسن اور اس کے بیچ ہمیشہ کی جدائی ہے ۔ اس نے وہ گھر چھوڑ دیا ۔ کیوں کہ اب اس چھت تلے رہ نہ سکتی تھی جس کے نیچے ولی جیسا بھیڑیا رہتا تھا ۔ اس نے نو را لحسن کو چھوڑ دیا ۔ وہ اسے یہ بتا کر دکھ نہیں دے سکتی تھی کہ اس کا بھائی کتنا بڑا خائن نکلا ۔ وہ نور الحسن کوگُلانے یا ولی میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے جیسے امتحان میں نہیں ڈال سکتی تھی۔
پتا نہیں اس نے صحیح کیا تھا یا غلط، بہرحال نورالحسن کو ایک پیغام بھیج کر ماں جیسی پوجی پرالوداعی نظر ڈال کر وہ اس گھر سے نکل آئی تھی۔اور اسی شخص کے دروازے پر پہنچ گئی تھی جس پر اس کے باپ نے مرتے ہوئے اعتماد کیا تھا ۔باپ کی نصیحت نہ مان کر اس نے کتنی بڑی غلطی کی تھی۔ اسے ایک بار پھر پچھتاوے گھیرنے لگے ۔
”بابا کی بات مان کر ڈاکٹر فضل الٰہی کے ساتھ چلی جاتی تو نورا لحسن میری زندگی میں کیسے آتا ؟”
نورا لحسن کی یادیں تو اب جینے کا سامان تھیں ۔
ڈاکٹر فضل الٰہی اسے بس اسٹاپ پر لینے پہنچ گئے تھے ۔ وہ ا س کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اُسے ساتھ لیے اپنی گاڑی کی طرف بڑھے ۔ راستہ بھر انہوں نے اس سے کوئی سوال نہیں کیا تھا حالانکہ اس کی نیلی آنکھیں نوحہ کناں تھیں ۔وہ حزن و ملال کی تصویر بنی اس لڑکی پر نظر ڈالتے جو اِن کے اُس محسن کی اکلوتی اور لاڈلی بیٹی تھی جس نے اُن کی جان بچائی تھی۔
ڈاکٹر فضل الٰہی کے گھر میں دو افراد نے اس کا استقبال کیا جن میں سے ایک کا رویہ خشک تھا ، وہ تھیں ان کی مسز خدیجہ فضل جو کہ ڈاکٹر صاحب کی خدمتِ خلق کی عادت سے کافی بیزار تھیں ۔ گُلانے کو آنے والے اگلے چند ہی روزمیں اندازہ ہو گیا کہ کیوں ڈاکٹر فضل الٰہی جب اس سے ملنے آئے تھے تو اسے ساتھ لے جانے کے بجائے مناسب سمجھا تھا کہ وہ وہیں رہ جائے ۔دوسری لڑکی تھی ڈاکٹر فضل الٰہی کی بیٹی بریرہ جو کہ پی ایچ ڈی کر رہی تھی۔ اس کا رویہ اچھا تھا نہ ہی برا ۔اسے کسی کے آنے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا ۔گُلانے کو اس گھر میں رہنا تھا ،اس لیے رویوں پر غور کرنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا ۔
ان کے دو بیٹے اور ایک اور بیٹی بھی تھی ۔ وہ سب شادی کے بعد ملک سے باہر سیٹلڈ تھے ۔ ڈاکٹر فضل الٰہی اور ان کی فیملی بھی آدھا سال دنیا کی سیر کرتی تھی۔
بریرہ سے اس کی ملاقات اس گھر میں آنے کے دو دن بعد ناشتے کی میز پر ہوئی تھی۔
”کیا نام ہے تمہارا ؟” اس نے سلائس پر مکھن لگاتے ہوئے سرسری سے انداز میں پوچھا ۔
”نور ۔”

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

اس کے جواب نے چائے کے کپ کی طرف بڑھتا ڈاکٹر فضل الٰہی کا ہاتھ روک دیا تھا ۔وہ اس کی طرف دیکھتے رہ گئے تھے ، جس کی پلکوں پر چند موتی چمک رہے تھے اور چہرہ گلابی ہو گیا تھا ۔اس دن انہوں نے اسے اپنی اسٹڈی میں بلایا تھا ۔اور اس کے بیٹھ جانے کے بعد تمہید باندھے بغیر اس سے پوچھا تھا ۔
”تم نے بریرہ کو اپنا نام ”نور ” کیوں بتایا ؟”
”نور الحسن نے ایک بار کہاتھا کہ انہیں اچھا نہیں لگتا کہ مجھے کوئی اوردیکھے ، میرا نام کسی اور کے لبوں پہ آئے ۔” وہ ہلکا سا مسکرائی تھی۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے اس کے چہرے پر چمک تھی۔
”اب تم نو ر الحسن کی تابع نہیں ۔”ڈاکٹر فضل الٰہی نے اسے گزشتہ یادوں سے نکالنے کی خاطر کہا۔
”دل تو اسی کے تابع ہے ناں ۔”ڈاکٹر فضل الٰہی اس کو دیکھتے رہ گئے ۔
”دیکھو گُلانے ! پہلے دن جب میں نے تم سے پوچھا تو تم نے کچھ بھی بتانے سے انکار کر دیا ۔ میں نے بھی اصرار نہیں کیا ۔اور اپنے طور پر یہی نتیجہ نکالا کہ نور الحسن اور تمہارے بیچ کچھ برا ہو گیا جس کی وجہ سے تم نے وہ گھر چھوڑا ‘ مگر آج صبح ناشتے کی میز پر اندازہ ہوا کہ بات کچھ اور ہے ۔ نور الحسن اور تمہارے بیچ کچھ نہیں ہوا ۔ اس کی محبت تمہارے دل میں بھری ہوئی ہے ، تمہارے چہرے سے عیاں ہے ۔ اب مجھے سچ بتاؤ کہ کیا ہوا ہے ؟” ڈاکٹر فضل الٰہی نے نرم لہجے میں نور سے پوچھا۔
وہ سچ کیسے بتاتی ؟ ولی نور الحسن کا بھائی تھا ،وہ اس کا مکروہ فعل کیسے کسی کے سامنے لاتی؟ کیسے کسی کو بتاتی کہ نور الحسن کے بھائی نے اس کے ساتھ کیا’ کیا؟حوالے تو اس کے نور الحسن سے جا کر ہی ملتے تھے نا ۔وہ کسی طور زبان کھولنے پر راضی نہ تھی۔
”ایک اندھیری رات میں جب میرا ایکسیڈنٹ ہوا تھا تو تمہارے بابا نے مجھے اسپتال پہنچا کر میری جان بچائی تھی، اس کا بڑا قرض ہے مجھ پر۔ جو میں اس کی زندگی میں اُتار نہ پایا اور اب اللہ نے مجھے موقع دیا ہے کہ اس کی بیٹی کی اندھیر ہوتی زندگی کی روشنی کوبرقرار رکھنے میں اپنا کردار ادا کرسکوں تو مجھے اپنا فرض نبھانے دو گُلانے ۔”اب ڈاکٹر فضل الٰہی کی آنکھوں کے گوشے بھی نم تھے۔
”اس گھر میں پناہ دے دیں ، آپ کا کردار پورا ہو جائے گا ۔”
”اتنے چھوٹے موٹے ثانوی سے کردار مجھے پسند نہیں، میں صبح نور الحسن کو فون …”
”نہیں نہیں … اللہ کے واسطے ایسا مت کیجیے گا… میں انہیں کسی امتحان میں نہیں ڈالنا چاہتی ۔” ان کا ارادہ بھانپتے ہی نور نے انہیں ہاتھ جوڑ کر منع کیا۔
”کیسا امتحان ؟” انہوں نے چونکتے ہوئے پوچھا ۔ وہ چپ رہی ۔
”دیکھو گُلانے ! اگر تم چاہتی ہو کہ میں نور الحسن کو فون نہ کروں تو تمہیں مجھے سچ سچ بتانا ہو گا۔ ایسے اندھیرے میں رہ کر نہیں بہل سکتا میں ۔” ڈاکٹر فضل الٰہی پختہ لہجے میں بول رہے تھے۔
اس کی آنکھوں میں نمی ظاہر ہونے لگی تھی۔ کبھی ہونٹ کھولتی پھر بند کرتی۔ عجیب مقام پر تھی وہ۔ ڈاکٹر فضل الٰہی نے اٹھ کر اس کے سر پہ ہاتھ رکھا ۔ بس پھر کیا تھا ، وہ خود پر قابو کھو بیٹھی اور دونوں ہاتھوں میں اپنا چہرہ چھپا کررو دی ۔روتے روتے اس نے سب کچھ بتا دیا تھا ۔ ڈاکٹر فضل الٰہی پر جیسے سکتہ طاری ہو گیا تھا۔ جب یہ کیفیت ختم ہوئی تو وہ اپنی کرسی پرآ بیٹھے اور سر ہاتھوں میں تھام لیا ۔بہت دیر تک اسٹڈی میں صرف گُلانے کی سسکیوں کی آواز تھی۔کافی دیر بعد انہوں نے سر اٹھایا تھا ۔
‘تمہیں گھر چھوڑنے کے بجائے، نور الحسن کا انتظار کرنا چاہیے تھا ۔”انہوں نے آہستگی سے کہا۔
”نور الحسن کا انتظار کر کے میں کیا کرتی ؟ اسے بتاتی کہ جس بھائی کو وہ جان سے بھی زیادہ عزیز رکھتا ہے ، اس نے میرے ساتھ کیا کیا ؟ … نہیں … میں نور الحسن کا چہرہ غم سے زرد پڑتا نہیں دیکھ سکتی تھی۔” اس نے بے ساختہ نفی میں سر ہلایا تھا ۔
”جرم کا ارتکاب چھپا کر ، مجرم کو شہ دی جاتی ہے کہ وہ آگے بھی آزاد ہے ۔” ڈاکٹر فضل الٰہی نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
” مجرم ان کا بھائی تھا۔ وہ اس کو ڈانٹ سکتے تھے، مار بھی سکتے تھے’ مگر کبھی بھی چھوڑ نہیں سکتے تھے۔ گُلانے اور ولی میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوتا’ تو وہ اپنے بھائی کا کرتے۔” اس نے نظریں جھکائے اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں الجھتے ہوئے جواب دیا۔
”میں نے نور الحسن کو اس امتحان سے بچایا اور اپنی محبت کا بھرم رکھا ۔ وہ مجھے چھوڑتے تو مجھے زیادہ تکلیف ہوتی ۔” غم سے اِس کا چہرہ زرد پڑرہا تھا ۔
”آگے کیا چاہتی ہو ؟” کئی لمحوں کی خاموشی کے بعد انہوں نے پوچھا ۔
”پڑھنا … میرا ایف ایس کا رزلٹ آنے والا ہے ۔ ”
”کیا ارادہ ہے ؟”
جب وہ بہت چھوٹی تھی اور کوئی اس سے پوچھتا تھا کہ وہ بڑی ہو کر کیا بنے گی’ تو وہ بڑے مزے سے جواب دیتی ۔
”داتکر (ڈاکٹر) ۔ ”
مگر جب ڈاکٹر فضل الٰہی نے اس سے پوچھا تو اس نے جواب دیا ۔
”مجھے فزکس یا میتھ میں ماسٹرز کرنا ہے ۔ ”
ڈاکٹر فضل الٰہی نے سر ہلا دیا ۔ اس نے انہیں اللہ کی قسم دی تھی کہ اگر نور الحسن کا فون آئے یا وہ انہیں ڈھونڈتے ہوئے یہاں تک آ پہنچے’ تو وہ اسے کبھی بھی نہ بتائیں کہ گُلانے ان کے پاس ہے ۔مگر کوئی فون آیا ہی نہیں اور نہ کوئی اسے ڈھونڈتا ہوا یہاں تک پہنچا ۔
اس کا دل بہت کمزور ہو گیا تھا۔ اسے کوئی ہاتھ لگا دیتا یا سوتے سے جگا دیتا تو وہ کانپ کر رہ جاتی۔ پھر کتنی ہی دیر اس کا دل قابو میں نہ آتا ۔ اس رات کی دہشت اس کے دماغ میں مستقل رچ بس گئی تھی۔
اس نے خود کو گھر کے کاموں میں مصروف کر لیا تھا ۔خدیجہ فضل نے کبھی اسے منع نہیں کیا تھا، انہیں لگتا تھا کہ یہ اس کا فرض ہے ۔ اس کا رزلٹ آیا تو اس نے بہت اچھے نمبر لیے تھے ۔ سارا دن وہ چپکے چپکے آنسو بہاتی رہتی ۔ وہ بھیانک رات نہ آئی ہوتی تو یقینا اب تک اس کی اور نور الحسن کی شادی ہو گئی ہوتی۔ اس کو یقین تھا کہ نور الحسن نے انٹرویو پاس کر لیا ہو گا اور وہ جج بن گیا ہو گا ۔
یونیورسٹی میں اس کا داخلہ ہو گیا اور زندگی کی ایک لگی بندھی سی روٹین بن گئی۔ نور الحسن اور اس سے جڑی ہر یاد ساتھ ساتھ تھی۔ وہ ان یادوں سے پیچھا چھڑانا بھی نہیں چاہتی تھی۔ یہی یادیں تو اس کی بے رنگ زندگی میں دھنک بکھیرتی تھیں۔ اس کے اُجڑے چہرے پر مسکراہٹ لاتی تھیں۔ یہ یادیں اس کے لیے متاعِ جان تھیں ۔
بریرہ بہت مصرو ف رہتی تھی۔ اس کا کام اسے زیادہ دوستیاں بنانے کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ آتے جاتے اس کا حال پوچھ لیتی۔ خدیجہ فضل خشک مزاج خاتون تھیں ۔ اس کے ساتھ تو کیا وہ تو شاید اپنے بچوں کے ساتھ بھی کم ہی مسکرا کر بات کرتی تھیں۔ اس گھر کی سب سے مہربان شخصیت ڈاکٹر فضل الٰہی ہی تھے ۔وہ بھی اسے ”نور ” کہنے لگے تھے ۔ اس چھوٹی سی لڑکی کی عقیدت بھری محبت کی بڑی قدر تھی ان کے دل میں ۔ کبھی کبھی ان کا دل چاہتا تھا کہ وہ چپکے سے نور الحسن کو ایک فون کر ڈالیں مگر اس کی قسم سامنے آجاتی۔
زندگی قدم قدم آگے بڑھ رہی تھی۔ اس دن وہ خدیجہ فضل کے دھلے ہوئے کپڑے تہ کر کے الماری میں رکھ رہی تھی جب فہد عبد الکریم ٹھٹک کر دروازے پر رکا ۔ وہ خدیجہ فضل کا بھانجا اور بریرہ کا منگیتر تھا ۔ کپڑے تہہ کرتے ہوئے گُلا نے کی نظر جو اس پر پڑی تو دھک سے رہ گئی ۔ ہاتھ میں پکڑی قمیص وہیں چھو ڑ کر جلدی سے رخ پھیرا اور اپنا دوپٹا اوڑھ کر نقاب کیا اور تیزی سے کمرے سے نکل گئی۔ وہ جا چکی تھی مگر فہد ا بھی بھی بت بنا کھڑ ا تھا ۔
”ار ے فہد۔ ” خدیجہ فضل سر پر تولیہ لپیٹے باتھ روم سے نکلیں تو اسے دیکھ کر حیران رہ گئیں۔
” پھو پھو ! ” وہ بانہیں پھیلا کر ان کی طرف بڑھا ۔پھر جتنی دیر وہ اس گھر میں بیٹھا رہا اس کی نظریں اِدھر اُدھر بھٹکتی رہیں ۔ وہ پری پیکراسے پھر دکھائی نہ دی تھی۔ وہ اتنی دیر کبھی بھی رکتا نہیں تھا’ لیکن آج تو رات کے کھانے تک وہ وہیں بیٹھا تھا ۔
” نور کو بلاؤ۔ ” ڈاکٹر فضل الٰہی نے کھانے کی میز پر اسے نہ پا کر ملازمہ سے کہا ۔
”وہ کہہ ر ہی ہیں کہ ا نہیں بھو ک نہیں ہے ۔ ”
”انہیں بلاؤ ! کہو کہ میں نے بلایا ہے ۔ ”ڈاکٹر فضل الٰہی نے ملازمہ پر زور دیتے ہوئے کہا۔
وہ سر پر اچھی طرح سے دوپٹا لیے نظریں جھکائے چلی آئی تھی۔
” نور ! بیٹا کم کھاؤ مگر کھاؤ ضرور، حدیثِ مبارکہ ۖ کے مطابق رات کا کھانا چھوڑنا جلد بڑھاپے کا باعث بنتا ہے ۔ ” ڈاکٹر فضل الٰہی کے کہنے پر وہ سر جھکا کر اپنی پلیٹ میں چاول ڈالنے لگی جب کہ فہد اپنے سامنے پڑی پلیٹ سے نوالہ لینا بھول گیا تھا ۔
”نور ! یہ فہد ہے، میرا بھتیجا اور ہونے والا داماد اور فہد یہ نور ہے میرے عزیز دوست کی بیٹی ۔ ” ڈاکٹر فضل الٰہی نے مسکراتے ہوئے ایک دوسرے سے اُن کا تعارف کروایا ۔ فہد نے مسکرا کر اسے دیکھا جبکہ وہ نظریں جھکائے کھانے میں مصروف رہی.

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

گلانے — صوفیہ بٹ (قسط نمبر ۳)

Read Next

اُف یہ گرمی — فہمیدہ غوری

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!