گلانے — صوفیہ بٹ (قسط نمبر ۴ — آخری قسط)

و ہ گہر ی نیند میں تھا جب ا سے ا پنے ارد گر د مشک سی پھیلتی محسو س ہو ئی ۔پھر اسے سفید لبا س میں اپنی ماں نظر آئی ۔ ا ن کے ہا تھ میں ایک پھول تھا جو انہوں نے اس کی طرف بڑھایا تھا ۔ اس کی نظر پھول کے بجائے امی کے چہر ے پر تھی۔ وہ مسکرا رہی تھیں۔ پہلی بار اس نے انہیں مسکراتے دیکھا تھا ۔و رنہ جب بھی خواب میں آتیں خفا سی آتیں۔وہ خواب میں اس سے ہم کلام نہ ہوتی تھیں ۔ وہ ان کی محبت سے بھری آواز سننے کومچلتا اور تڑپتا تھا ۔ آج امی نہ صرف مسکرا رہی تھیں بلکہ اسے محبت کے ساتھ دیکھ بھی رہی تھیں ۔ اس کی طرف پھول بھی بڑھا رہی تھیں ۔وہ ا س کے قریب آ رہی تھیں۔ وہ ان کے قریب جا کر یہ پھول تھامنا چاہتا تھا ، ماں کے ہاتھ چومنا چاہتا تھا مگر وہ اس کے قریب پہنچی نہ تھیں کہ یہ حسین منظر ختم ہو گیا ۔
وہ نیند سے جاگ اُٹھا تھا۔ اس کی آنکھیں ابھی بند تھیں ، مگر وہ بید ا ر ہو چکا تھا ۔ اسے محسوس ہوا کہ اس کے بالوں میں کوئی پیار سے انگلیاں پھیر رہا ہے ۔ اسے لگاکہ یہ ا س کی ما ں کے ہا تھ ہیں ، مگر پھر احسا س ہو ا کہ یہ لمس ماں کا نہیں بلکہ اس شخص کا ہے جس سے وہ بہت پیار کرتا ہے ۔ جس کو دیکھنے کے لیے اس کی آنکھیں ترس گئی تھیں ، جس کا چہرہ دیکھنے کے لیے اس نے اللہ سے مہلت مانگی تھی۔ وہ آنکھیں کھول کر اس کا چہرہ دیکھنا چاہتا تھا مگر وجدان نے کہا کہ اگر آنکھیں کھول ڈالیں تو یہ خوب صورت احساس ختم ہو جائے گا۔ وہ سویا بنا رہا ۔
بالوں میں انگلیاں پھیرنے والے نے اس کے ماتھے پہ بوسہ دیا ۔ آنسو ظالم شے ہیں ، جان بوجھ کر وہاں بہتے ہیں جہاں بہانا ممنوع ہو ۔
اس کی آنکھ سے ایک قطرہ نکلا اور کنپٹی سے ہوتا ہوا گردن تک گیا ۔اس کے بعد آنسوؤں کی لڑی سی بن گئی۔
”ولی !” تڑپ کر اُسے پکا ر ا گیا تھا ۔
یہ آواز …یہ آواز سننے کے لیے وہ ترس گیا تھا ۔
٭٭٭٭٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

وہ دو دن سے یہاں تھا ، اس کی نگاہیں اِدھر اُدھر بھٹک بھٹک جاتیں’مگر وہ چہرہ کہیں دکھائی نہ دیتا تھا جس نے اس کے دل پر چرکے لگائے تھے ۔وہ اسے دیکھنا بھی نہیں چا ہتا تھا پھر بھی … پھر بھی ہر بار کمرے کا دروازہ کھلنے پر اس کا دل تیزی سے دھڑکنے لگتا ۔
وہ لڑکی عروہ ابوبکر تھی۔ اس کا ولی سے کیا ناتا تھا ؟ انہیں ولی کا چہرہ دیکھنے کے بعد تو پتا نہ چلا تھا’مگر اس لڑکی کی ولی پر اٹھی نگاہیں دیکھ کر وہ چونک اُٹھے تھے ۔
ولی ، وہ پہلے والا ولی تو رہا ہی نہ تھا جو اتنا بولتا تھا کہ خالہ کہتی تھیں ” کوے کی طرح کاں کاں کرتا رہتا ہے۔” اور اتنی شرارتیں کرتا تھا کہ اساتذہ اور محلے والے تنگ آجاتے تھے ۔ وہ پہلے والا زندہ دل اور شوخ ولی تو رہا ہی نہ تھا ۔ وہ تو اپنی پسند کے ہم سفر کی رفاقت میں زندگی گزار رہا ہو گا ۔ پھر کیوں وہ بہت چپ چپ ہو گیا تھا؟ بس اسے تکتا جاتا تھا ۔ اور جب بہت بے قرار ہونے لگتا تو اس کا ہاتھ تھام کر ہونٹوں سے لگا لیتا ۔ اسے لگتا تھا کہ وہ کچھ کہنا چاہتا ہے مگر کہہ نہیں پاتا ۔ وہ کچھ سننا بھی نہیں چاہتا تھا ۔
اس کا بھائی شرمندہ ہوتا ، اس سے معافی مانگتا … تو اس کی ضرورت نہیں تھی۔اسے شرمندہ وہ دیکھنا نہیں چاہتا تھااور معاف وہ بہت پہلے کر چکا تھا ۔
اس نے آتے ہی ولی کو وارڈ سے روم میں شفٹ کروا دیا تھا ۔ یہاں اس کی بہتر دیکھ بھال ہو رہی تھی۔ بے یارومددگار پڑے لڑکے اور ایک جج کے بھائی میں بہت فرق ہوتا ہے ۔ پورا عملہ مستعد ہو گیا تھا ۔عروہ دیکھتی تھی اور ہر جگہ لوگوں کے دہرے معیار پر کڑھتی تھی۔
اس نے نو رالحسن کے ساتھ عدیل کا کیس ڈسکس کیا تھا ۔ اس نے وعدہ کیا تھا کہ وہ کوشش کرے گاکہ اس کے کیس کا فیصلہ جلد ہو جائے ۔ اس دن وہ بہت پر امید ہو کر وہاں سے گئی تھی۔
”اچھی لڑکی ہے ۔ ” نور الحسن نے اس کے جانے کے بعد تبصرہ کیا ۔اور ولی کے منہ میں انگور ڈالتے ہوئے اس کا ماتھا چوما ۔
”بھائی۔” اس نے نو رالحسن کی بات نہ سنی تھی وہ تو اپنی ہی کش مکش میں تھا ۔
”ہاں! ” نور الحسن نے اس کے ماتھے پر آئے بال پیچھے کیے ۔
”بھائی…”
اس کاہاتھ تھام کر ولی نے جو الفاظ ادا کیے وہ ایسے تھے کہ نورالحسن کو اپنا آپ زمین بوس ہو تا محسوس ہوا ۔
٭٭٭٭٭
وہ سڑک پر گاڑی دوڑا رہا تھا اور بس دوڑاتا چلا جا رہا تھا ۔ وہ سمجھ دار انسان تھا ، جانتا تھا کہ گُلانے کسی سڑک کنارے کھڑی نہیں ملے گی، پھر بھی وہ گاڑ ی دوڑاتا جا رہا تھا ۔
کہاں تلاش کرے وہ اپنی گُلانے کو ؟
اس سوال کا جواب کہیں نہیں ملتا تھا ۔
”ولی ! یہ کیا کیا تم نے ؟” اسے لگ رہا تھا کہ آج پھر قیامت آئی ہے۔ یہ قیامت پہلے سے بھی بڑی تھی۔ ستم یہ تھا کہ یہ قیامت ڈھانے والااس کا اپنا پیارا بھائی تھا جو زندگی اور موت کی سرحد پر جا کر زندگی کی طرف لوٹا تھا ۔جس سے پہلے نفرت کر پایا تھا نہ ہی اب نفرت کرنے پر قادر تھا ۔
”او … گُلانے ، کہاں ہو تم ؟” اس نے اسٹیرنگ پر ہاتھ مارا اور پھر اس پہ سر ٹکا کر رو دیا ۔
کتنی بڑی غلطی ہوئی تھی اس سے ، کتنا عظیم نقصان کر بیٹھا تھا وہ اپنا ۔
سب نے کہا ۔
”گُلانے ولی کے ساتھ بھاگ گئی ۔”
تو اس نے یقین کر لیا کہ ایسا ہی ہوا ہو گا ۔ وہ جو اس وقت ایک وکیل تھا ، آج ایک جج ہے ۔ اپنی ہونے والی بیوی کے لیے لڑ سکا نا ہی درست فیصلہ کر سکا ۔ وہ کیسا منصف تھا ؟
اسے خود سے شرم آ رہی تھی۔
”مجھے معاف کر دیجیے گا نور الحسن۔ ” اس کا آخری ایس ایم یس نور الحسن کے دماغ پر ابھرا۔
معافی تو جرم کرنے والا ہی مانگتا ہے ۔ گھر آیا تو جو صورتِ حال سمجھ آئی ، اس میں گُلانے کا جرم یہی لگا کہ وہ اسے دھوکا دے کر اس کے بھائی کے ساتھ چلی گئی ۔وہ دونوں ایک ہی رات غائب ہوئے تھے ، تاثر ہی یہی بنتا تھا۔اگر لوگوں نے ایسا سوچا تھا تو کچھ غلط بھی نہ سوچا تھا’ مگر وہ … وہ تو گُلانے کو جاننے کا دعویٰ رکھتا تھا اس کے کردار پر رشک کرتا تھا ، وہ کیوں سمجھ نہ پایا ۔
”آپ سے اچھا تو ولی ہے ، مجھے وقت تو دیتا ہے ۔ ” اسے یہ تو یاد آیا ۔
اسے ولی اور گُلانے کی آپس میں کبھی دوستی کبھی جھڑپ تو یاد آئی۔ اسے ان کا آپس میں رازداری سے پشتو میں باتیں کرنا تو یاد آیا ۔ اسے اُس کا لرزتی پلکوں کے ساتھ یہ کہنا کیوں یاد نہ آیا ۔
”مجھے ہر اس شے سے عشق ہے جس کا تعلق آپ کے ساتھ ہے ۔”
اسے جھکی نظروں کے ساتھ یہ اقرار کیوں یاد نہ آیا ؟
”کیوں کہ … کیوں کہ آپ مجھے… اچھے لگتے ہیں ۔”
اس کی آنکھوں پر پردہ پڑگیاتھا ۔ اس کے بھائی نے اس معصوم لڑکی کے ساتھ برا کیا تو اس نے کون سا اچھا کیا ؟اب اسے چین نہیں ملنے والا تھا ۔کسی کو بے وفا ، دھوکے باز قرار دے کر جینا آسان تھا مگر کسی معصوم ، بے گناہ کو نا کردہ گناہ کی سزا دے کر جینا دشوار تھا ۔
”کہاں ہو گی وہ ، کس حا ل میں ہو گی ؟” اس سے سانس لینا محال ہوا جا رہا تھا ۔اب جب تک وہ سلامت مل نہیں جاتی ، زندگی اجیرن رہنی تھی ۔
”کہاں ہو گُلانے ، کہاں ہو تم ، کہاں تلاش کروں تمہیں ؟” نورالحسن کی آنکھوں سے پانی رواں تھا۔
٭…٭…٭
”مجھے ہر اس شے سے عشق ہے جس کا تعلق آپ کے ساتھ ہے ۔” اس نے پیار کے ساتھ چین پر ہاتھ پھیرا ۔
”اچھا پھر تو تمہیں اپنے آپ کے ساتھ بھی عشق ہو گیا ہو گا ۔” وہ ہلکا سا ہنسا ۔
”بہت تھک گئے یار۔” ہانیہ دھڑام سے دروازہ کھول کر کمرے میں داخل ہوئی اور بیڈ پر جا گری۔وہ ہاسٹل میں ہونے والی میوزیکل نائٹ میں خوب انجوائے کرنے کے بعد آئی تھی۔
وہ چونک اٹھی۔منظر بدل گیا تھا ، نو ر الحسن کہیں نہیں تھا ۔
”کہاں کھوئی ہوئی ہو ؟ ” ہانیہ کچھ دیر اسی طرح لیٹے رہنے کے بعد سیدھی ہو کر ہیل والی جوتی اُتارنے لگی تو اسے آئینے کے سامنے یوں کھڑا دیکھ کر پوچھا ۔ اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ اس نے چاروں طرف دیکھا ، نو ر الحسن کہیں نہیں تھا ۔
”ڈائریکٹر کے بھتیجے کو دیکھا کیسے لڑکیاں دیکھ کر پاگل ہورہا تھا۔”ہانیہ نے جمائی لیتے ہوئے تبصرہ کیا۔
اس نے ڈھونڈا ، نو ر الحسن کہیں نہیں تھا ۔
”بڑا مزہ آیا ، تم تو اٹھ کر چلی آئیں ۔” ٹرینڈز” نے ایسے زبردست نمبرز گائے کہ سب جھوم اٹھے ۔ بلاک اے والی فروا تو دیوانی ہو کر اسٹیج پر جا پہنچی ۔ زبردست ڈانس ہوا ۔”
” نور الحسن … نورالحسن۔ ” اس کے اندر پکار مچی ہوئی تھی۔
”وہ کمزور سا بندہ جو کرسی پر مہاتما گاندھی بن کر بیٹھا تھا ، وہ تو زبردست غزل گائیک نکلا ۔ مہدی حسن کی کیا غزلیں گائیں ۔ ہائے ہائے مزہ آ گیا ۔” ہانیہ اطلاع دے کر لباس تبدیل کرنے چلی گئی تھی۔
وہ پھر سے اپنی چین پر ہاتھ پھیرتے ہوئے آئینے میں دیکھنے لگی تھی۔
نورالحسن کے رنگ میں رنگی نور اکیلی نہ تھی اس کے ہر طرف نورالحسن تھا ۔
٭…٭…٭
ولی ساکت بیٹھا تھا ۔
کتنا بڑا نقصان کر دیا تھا اس نے اپنا اور اپنے بھائی کا ۔ آج تک وہ یہ سوچ کر مطمئن تھا کہ بھائی اور بھابی کی شادی ہو گئی ہو گی ۔ وہ اپنی زندگی میں مصروف ہو گئے ہوں گے ۔ بھائی کو اپنا ”ولی ” بھول گیا ہو گا ۔ گُلانے بھی وہ خوف ناک رات بھول کر بھائی کے سنگ خوش گوار زندگی گزار رہی ہو گی۔
مگر یہ کیسا جان لیوا انکشاف تھا؟گُلانے کہاں چلی گئی تھی؟
اس نے دو لوگوں کی زندگی برباد کر دی تھی۔ لوگ بھی وہ جو اس کے عزیز تھے ، اس کے پیارے تھے ۔ ان میں سے ایک اس کا بھائی تھا جس نے حالات کیسے بھی رہے ، اپنے ولی کو شہزادہ بنا کر رکھا ۔وہ اپنی ضرورتیں پس پشت ڈال کر اس کی خواہشیں پور ی کرتا تھا ۔ اور ایک وہ لڑکی تھی جو ایک بہن کی طرح اس کے ساتھ جھگڑتی تھی، اس کی پرواہ کرتی تھی اور اس کی فرمائشیں بھی پور ی کرتی تھی۔
کہاں گئی ہو گی گُلانے ؟ ابھی تو اس نے ہاتھ جوڑ کر اس سے معافی مانگنی تھی۔نورالحسن اور اس کے منہ سے سننا تھا ۔
”ہم نے تمہیں معاف کیا ۔”وہ سکون کی موت مرنا چاہتا تھا اس لیے تو اپنے رب سے معجزہ ہو جانے کی دعا مانگی تھی’ مگر اب… اب اسے لگنے لگا تھا کہ گُلانے نہ ملی تو ہزار برس بھی جی لے پھر بھی سکون نہیں پائے گا۔
دو ہفتے گزر گئے تھے ۔ وہ اسپتال سے نور الحسن کو ملے سرکاری بنگلے میں شفٹ ہو گیا تھا ۔ اس کا بھائی روز گھر سے نکلتامگر کورٹ نہیں جاتا۔ سارا دن مارا مارا پھرتا اور تھکا ہارا مضحمل سا واپس لوٹتا ۔ ولی اس کا چہرہ دیکھ کر سمجھ جاتا کہ اس کی تلاش ناکام رہی ۔ اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ اپنے بھائی کو تسلی کا ایک لفظ بھی بول دیتا ۔ بس اپنے اس رب سے دعا مانگتا تھا کہ گُلانے جہاں کہیں بھی ہو ، صحیح سلامت ہو اور بھائی کو مل جائے ۔ اس رب نے اس کے ہر گناہ ہر غلطی کے باوجود اس کی سنی تھی ، وہ دعا گو تھا کہ اب بھی وہ سمیع اس کی دعا سن لے ۔
اس دن بھی نورالحسن صبح سے گھر سے نکلا ہوا تھا ۔ اس کے انتظار میں ولی نے کھانا کھایا تھا نہ ہی سو پایا تھا ۔ رات کا دوسرا پہر تھا جب گیٹ کھلنے اور اس کی گاڑی کے اندر داخل ہونے کی آواز سنائی دی۔ ولی اٹھ کر بیساکھی کے سہارے چلتا ہوا اپنے بھائی تک جانا چاہتا تھا مگر اٹھ نہ پایا ۔ کچھ دیر بعد دوازہ کھلا اور نورالحسن اندر داخل ہو ا ۔ وہ نظریں جھکائے بیٹھا رہا ، بھائی کا چہرہ دیکھنے کی اس میں ہمت نہ تھی۔اس کی وجہ سے اس کے عزیز بھائی نے کیا کیا نہ دیکھ لیا تھا ، کیا کیا نہ سہ لیا تھا ۔اپنے منہ پر تھوکنے سے بھی اگر گُلانے ملتی تو وہ کئی دفعہ یہ کام کر چکا ہوتا ۔
جب اسے بہت دیر تک نور الحسن کی آواز سنائی نہ دی تو اس نے سر اٹھا کر جھجکتے ہوئے اسے پکارا۔
”بھائی … پتا چلا گُلانے کا ؟”
نو ر الحسن کچھ دیر اس کی طرف دیکھتا رہا پھراچانک دو قدم آگے آیا اور اس کے منہ پر تھپڑ دے مارا اور خود کرسی پر بیٹھ کر دونوں ہاتھوں میں سر تھام کر رو دیا ۔
اس کا بہت مضبوط بھائی رو رہا تھا اور اس میں اتنا حوصلہ نہ تھا کہ اپنے روتے ہوئے بھائی کے کندھے پر جا کر ہاتھ رکھ سکے ۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

گلانے — صوفیہ بٹ (قسط نمبر ۳)

Read Next

اُف یہ گرمی — فہمیدہ غوری

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!