گلانے — صوفیہ بٹ (قسط نمبر ۴ — آخری قسط)

امی کی عادت تھی کہ وہ اس کا پورا نام ولید الحسن پکارتی تھیں ،بھائی اسے پیار سے ”ولی ” کہتے تھے ۔ یہی نام پھر ہر ایک کی زبان پر آتا گیا حتیٰ کہ امی بھی آہستہ آہستہ اسی نام سے پکارنے لگی تھیں ۔
”میرے اپنے مجھے اسی نام سے پکارتے ہیں ۔” اس نے افسردہ لہجے میں عروہ کو بتایا ۔
”پھر میں بھی تمہیں اسی نام سے پکاروں گی ۔ ” اس کاا نداز حق جتاتا ہوا تھا ۔
”مرد کا کردار مضبوط ہونا چاہیے ، امیرو کبیر ، خوب صورت ،پڑھے لکھے مرد تو دنیا میں بکھرے پڑے ہیں ، قحط تو با کردار مردوں کا ہے ۔”وہ یہ الفاظبھولا نہ تھا ۔
”نہیں! تم مجھے ولید ہی کہو ۔” اس نے بے لچک انداز میں اس کے بڑھتے قدموں کو روکنے کی کوشش کی ۔
” میں تمہیں ولی ہی کہوں گی ولید الحسن … کیوں کہ مجھے تم اپنے اپنے لگتے ہو اور میں تمہاری ہونا چاہتی ہوں ۔” وہ مضبوط لہجے میں کہہ رہی تھی۔ ولی کو اس کی آنکھوں میں دیکھ کر خوف آیا، وہ سینڈوچ ہاتھ سے رکھ کر اٹھ کھڑا ہوا ۔
”ولی مجھے تم اچھے لگتے ہو ۔میری اتنی پرواہ نہ کرتے تو شاید اچھے نہ لگتے ۔ میرے دل میں اپنی محبت تم نے اپنے اوصاف سے ڈالی ہے ۔ اب میں قادر نہیں اس محبت کو نکال پھینکنے پر ۔” وہ بے باکی سے اظہارِ محبت کر رہی تھی۔
”کو ن سے اوصاف … کون سے اوصاف عروہ ابو بکر ؟ ” اس نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سوال کیا ۔
”تم میری پرواہ کرتے ہو ، میرے جرم پہ پردہ ڈالتے ہو ، میری عزت کے لیے بول اٹھتے ہو، سب سے بڑھ کر یہ کہ تم ایک مضبوط کردار کے لڑکے ہو ۔ کسی لڑکی، کسی عورت کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتے ۔ ثریا مقصود تم پر فریفتہ ہوئی ، تمہیں لاکھوں کی پیش کش کی’ مگر تم نے ثابت کیا کہ تم با کردار ہو ۔” ولی کو لگ رہا تھا کہ وہ بیچ چوراہے میں اسے تھپڑ مار رہی ہے ۔ اسے اپنی عزت بچانے کے لیے ہاتھ پاؤں مارتی ہوئی گُلانے یاد آئی ۔ ضبط سے اس کی آنکھیں سرخ ہونے لگیں ۔
”تمہیں مضبوط کردار کے لوگ پسند ہیں ناں ؟ اور تمہیں لگتا ہے کہ ولید الحسن ایک با کردار مرد ہے جس نے ثریا مقصود کی آفر ٹھکرا کر اپنی پاکیزگیکا ثبوت دیا ۔” وہ عین اس کے سامنے آکھڑا ہوا۔ ”تمہیں ایسا لگتا ہے ناں ؟” وہ اپنا سوال دہرا رہا تھا ۔
”ہاں ! ” عروہ نے پورے یقین کے ساتھ جواب دیا ۔وہ ہلکا سا ہنسا تھا اوراس کی سرخ ہوتی آنکھوں کی سطح نم ہوئی تھی۔
”تمہیں میں بتاؤں کہ ولید الحسن کیا ہے ؟ اس کا چہرہ کتنا مکرو ہ ہے ، اس کا فعل کتنا گھناؤنا ہے ؟ تمہیں میں بتاؤں ؟”اس کی آنکھوں سے شرارے نکل رہے تھے۔
وہ کوئی جواب نہ دے پائی تھی۔ ہاں یا نا میں سر تک نہ ہلا پائی تھی۔ اسے ولی کے لہجے سے لگ رہا تھاکہ وہ کچھ ایسا بتا دے گا کہ اس کے سپنوں کا محل زمین بوس ہو جائے گا ۔ اور ایسا ہی … بالکل ایسا ہی ہوا تھا۔
عروہ بے یقینی کے ساتھ اسے دیکھتی رہی ، پھرنفی میں سر ہلاتے ہوئے آنکھوں میں آئے آنسو صاف کرتی اور تیز قدم اُٹھاتی پارک سے نکل گئی۔اس دن کے بعد سے عروہ ابو بکر کسی بہانے سے ولیدالحسن سے نہیں ملی۔
٭٭٭٭٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”تمہاری وجہ سے خزیمہ نے اتنا بڑا قدم اٹھایا … تمہاری وجہ سے ۔” ہانیہ دو دن سے اسی بات پر اس سے ناراض تھی۔
”میں نے اسے کہا تھا کہ جاؤ جا کر خود کو سمندر کے حوالے کر دو؟” نور کو دکھ ہو رہا تھا ۔ ایک تو خزیمہ کے اقدامِ خودکشی نے اس کے دل پر بوجھ بڑھا دیا تھا اوپر سے ہانیہ بھی اسے سمجھنے کی کوشش نہیں کر رہی تھی۔
”تم نے اسے سمندرمیں غرق ہونے کو نہیں کہا تھا مگر سارے ڈیپارٹمنٹ کے سامنے ذلیل کر کے تو رکھ دیا تھا نا ۔”ہانیہ اسے مسلسل یہ باور کرانے کی کوشش کررہی تھی کہ خزیمہ نے یہ قدم اس کی وجہ سے ہی اٹھایا ہے۔
”ہانیہ ! وہ مجھے پریشان کر رہا تھا ، سب کے سامنے خوار کر رہا تھا ۔”نور کا انداز مدافعانہ تھا۔
”اسے آرام کے ساتھ بھی تو سمجھا سکتی تھیں نا ۔”
”کوشش کی تھی ، وہ سمجھا نہیں ” وہ بے بسی سے بولی ۔
”اب اگر … اگر مر جاتا توجانتی ہو کیا ہوتا ؟خیر تمہیں کیا فرق پڑتا ہے کہ کیا ہوتا ، تم مالا جپتی رہتیں اپنے محبوب کی ۔”ہانیہ نے طنزیہ انداز میں کہا۔
”و ہ مرا نہیں ہے ہانیہ ، اللہ نے میرے ضمیر پر ہمیشہ کا بوجھ نہیں پڑنے دیا ۔”وہ مضبوط لہجے میں بول رہی تھی۔
”تمہارے ضمیر پہ کیا بوجھ پڑنا تھا ۔ ساری کلاس اسے دیکھنے گئی مگر تم نہیں گئیں ۔”
”میں اس کی عیادت کے لیے جاؤں گی ہانیہ۔ ضرور جاؤں گی ۔” نور نے پر سوچ انداز میں کہا ، ہانیہ بے یقینی سے اسے دیکھنے لگی۔
٭٭٭٭٭
وہ ایک بدترین ایکسیڈنٹ تھا۔
کار،موٹر سائیکل اور ٹرالرکے بیچ ہونے والے تصادم میں چار جانیں چلی گئیں، سیاہ مرسڈیز میں سوار دونوں لڑکے جان کی بازی ہار چکے تھے ۔ موٹر سائیکل والا لڑکا بھی مر چکا تھا ۔صرف اس کے پیچھے بیٹھے لڑکے کی سانسیں چل رہی تھیں مگر حالت ایسی تھی کہ کوئی معجزہ ہی اسے بچا سکتا تھا۔اور حواس کھو دینے سے قبل اس نے معجزہ ہو جانے کی شدت سے دعا مانگی تھی۔
مرنے سے پہلے وہ ایک چہرہ دیکھنا چاہتا تھا ۔
مرنے سے پہلے وہ ایک لفظ کہنا چاہتا تھا ، ایک جملہ سننا چاہتا تھا ۔
اس نے معجزہ ہو جانے کی شدت سے دعا مانگی تھی۔ رب نے اس کی سن لی۔اور وہ بچ گیاتھا۔
٭ ٪ ٭ ٪ ٭ ٪ ٭ ٪ ٭
عروہ ابوبکر نکما ، سست اور غریب مرد تو قبول کر سکتی تھی مگر بدکردار نہیں ۔ اور ایسے مرد کو تو دیکھنا بھی پسند نہ کرتی تھی جس نے اپنے ہی بھائی کی ہونے والی بیوی پر بری نگاہ ڈالی ہو ۔ اصولاً تو اسے ولیدالحسن سے نفرت ہو جانی چاہیے تھی اور اس نے کوشش بھی کی تھی ۔اس نے اس پارک سے نکلتے ہوئے ہی اپنے قدم پیچھے ہٹانے کا فیصلہ کر لیاتھا ۔ یہ مشکل ضرور تھا لیکن نا ممکن تو نہیں تھا ۔
اور پھر ایسا ہوا کہ اسے خبر ملی کہ فیکٹری جاتے ہوئے اس کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ۔ موٹر سائیکل والا اس کا دوست تو موقع پر دم توڑ گیا جب کہ وہ شدید زخمی حالت میں اسپتال پڑا تھا۔وہ خود کو اسپتال جانے سے روک نہ پائی ۔اسپتال کے بستر پر بے یارومددگار پڑے ولی کو دیکھ کر وہ تڑپ اٹھی تھی ۔
”ایسے شخص کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیے ۔ ” اس نے اپنا دل سخت کرنے کی کوشش کی اور پلٹ کر جانے لگی مگر جانے کیا ہوا کہ آئی سی یو کے دروازے سے ہٹ نہ سکی ۔اسے بیالیس گھنٹوں کے بعد ہوش آیا تھا ۔اس دوران وہ صرف رات کو گھر گئی تھی۔ وہ دو راتیں اس پر بہت بھاری تھیں ۔بابا کا خیال رکھتے ہوئے اسے وہ شخص یاد آتا جس کے پاس اس وقت ا ن میں سے کوئی بھی نہ تھا جنہیں ہونا چاہیے تھا۔ سرفراز اسے دیکھنے آتا تھا مگر آدھا گھنٹا رک کر چلا جاتا ۔اس کی فیکٹری کا ایک دوست بھی آتا تھا۔ فلیٹ کے لڑکے بھی دیکھنے آئے تھے مگر دیکھتے اور چلے جاتے ۔
ولی کو آئی سی یو سے وارڈ میں شفٹ کر دیا گیا تھا ، اس کی حالت اب خطرے سے باہر تھی ۔ جس وقت اسے ہوش آیا ، اس نے اپنے بیڈ کے قریب پڑے بنچ پر عروہ ابو بکر کو بیٹھے پایا تھا۔ اس کے آنکھیں کھولتے ہی وہ اٹھی اور اس کے قریب آئی تھی۔ پھر پلٹ کر وارڈ سے نکل گئی ۔ وہ ڈاکٹر کو بلانے گئی تھی۔ جب ڈاکٹر اس کا معائنہ کر رہا تھا ، اس کی آنکھیں کسی اور کو بھی تلاش کر رہی تھیں مگر اسے مایوسی ہوئی ۔
اگلے دن اس کی طبیعت قدرے بہتر ہوئی۔ وہ بول سکتا تھا مگر خاموش تھا ۔ اس کی نگاہیں اِدھر اُدھر بھٹکتیں۔ سرفراز، فیکٹری کا دوست فرید اور فلیٹ کے لڑکے سب اس سے ملنے آئے تھے’ مگر اس کی آنکھیں کسی اور کو تلاش کر رہی تھیں ۔
وہ اس وقت صرف ایک چہرے کو دیکھنے کا متمنی تھا ۔
عروہ تازہ پھلوں کا جوس لے کر آئی تھی۔ اتنے مہینوں بعد اسے دیکھنا بھی اچھا لگ رہا تھا ۔ وہ اس کے پاس تھی ،اس کی پرواہ کر رہی تھی۔ یہ بھی اچھا لگ رہا تھا ۔ان پچھلے چند مہینوں میں کئی بار وہ پچھتایا تھا کہ کیا ضرورت تھی سچ بولنے کی ، اپنے کالے کرتوت بتانے کی ۔ماں کو ، بھائی کو ، گُلانے کو تو اس نے کھو ہی دیا تھا ، اب اس لڑکی کو بھی کھو دیاجس کی وجہ سے زندگی میں کچھ رنگ محسوس ہونے لگا تھا ۔
”مجھے یہاں دیکھ کر حیران ہونے کی ضرورت نہیں ، تمہارا بڑا ا حسا ن ہے مجھ پر ، اسی کا بدلہ چکانے کا موقع ملا ہے ۔” اسے اپنی طرف دیکھتا پاکر وہ بظاہر بے مروتی سے کہتی’ مگر لہجے کو سخت بنانے میں ناکام رہتی ۔ان چار دنوں میں اسے خوب ادراک ہو چکا تھا کہ اس محبت کی رہ گزر پر وہ اس کے سنگ سنگ اس کے ہاتھوں میں ہاتھ دیے خیالوں اور خوابوں میں ہی سہی مگر اتنا سفر طے کر چکی تھی کہ واپسی مشکل ہی نہیں ناممکن تھی۔
ولی چپ چاپ پڑا رہتا۔ اس کی نگاہیں دروازے پہ جمی رہتیں، وارڈ میں داخل دوسرے مریضوں کے گھر سے کوئی اُن کی عیادت کے لیے آتا تو حسرت سے اُنہیں تکتا ۔
”میں جانتی ہوں ، تمہیں کس کا انتظار ہے، میں لے کر آؤں گی اسے تمہارے پاس ۔ ” عروہ نے دل ہی دل میں اس سے وعدہ کیا تھا ۔
٭…٭…٭
اس دن وہ اتنا مصروف تھا کہ پانی پینا تک بھولا ہوا تھا ۔ آج چیف جسٹس آف پاکستان کا دورہ تھا اوربہت سارے انتظامات اسے بھی دیکھنے تھے اسے انٹرکام پر اطلاع دی گئی کہ کوئی لڑکی ان سے ملنا چاہتی ہے ۔
”آج میں کسی سے نہیں مل سکتا۔” اس نے معذرت کر لی تھی۔ تھوڑی دیر بعد صفی اندر آیا تھا ۔
”لڑکی کو آپ سے کوئی ضروری کام ہے ۔”
”صفی اس سے کہو کہ کل آئے ۔” اس نے فائلوں پر سے نظریں نہیں ہٹائیں تھیں۔
وہ ہوٹل جانے کے لیے چیمبر سے باہر آیا جب ایک لڑکی تیزی سے اس کی طرف بڑھی۔
” ولید الحسن آپ سے ملنا چاہتا ہے ۔”
وہ ٹھٹک کر رکا ۔اس کے قدم زمین میں دھنس چکے تھے۔
٭٭٭٭٭
ڈسا ہوانورالحسن ان دونوں کی صورت کبھی نہیں دیکھنا چاہتا تھا ۔ ایسا نہیں تھا کہ اسے ان دونوں چہروں سے نفرت ہو گئی تھی بلکہ وہ چاہتا تھا کہ ایسا نہ ہو کہ انہیں دیکھ کر اس کے منہ سے کوئی بددعا نکل جائے۔
وہ اسپتال نہیں جانا چاہتا تھا مگر اس لڑکی کے منہ سے نکلنے والے لفظوں نے اسے ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اور وہ یہاں چلا آیا تھا ۔ ریسیپشن سے معلومات لے کر اس کے وارڈ کی طرف جاتے ہوئے زندگی ایک فلم کی طرح اس کی آنکھوں کے سامنے چل رہی تھی۔ کبھی سوچتا کہ پلٹ جائے ، پھر ماں سے کیا ہوا وعدہ اس کے پیروں کی زنجیر بن جاتا۔
و ہ دروازہ کھول کر آہستہ سے وارڈ میں داخل ہوا ۔ بیڈ پر پڑے وجود پر نظر پڑتے ہی وہ اپنی جگہ وہیں رک گیا۔
وہ سو رہا تھا ۔ یہ وہ چہرہ تھا جو اسے بہت عزیز تھا ، یہی وہ چہرہ تھا جسے وہ کبھی دیکھنا نہ چاہتا تھا۔ انہی کیفیات میں گھر کر وہ اس کے قریب آیا ۔ وہ یہ چہرہ دیکھنا نہ چاہتا تھا’ مگر دیکھتا چلا گیا۔ اس کے دل میں اب اس کے لیے کوئی پیار نہیںرہ گیا تھا’ مگر اس نے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرا ۔ وہ اس کے لیے اب کوئی جذبہ دل میں نہ پاتا تھا مگر اس نے جھک کر اس کے ماتھے پر بوسہ دیا ۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

گلانے — صوفیہ بٹ (قسط نمبر ۳)

Read Next

اُف یہ گرمی — فہمیدہ غوری

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!