گلانے — صوفیہ بٹ (قسط نمبر ۴ — آخری قسط)

”تم ام کو کرید لو نور الحسن ۔”
رات آدھی سے زیادہ بیت چکی تھی۔ رات دیر تک جاگنے والے بھی گہری نیند سو چکے تھے لیکن اس کی نیند تو کب سے اس سے روٹھ چکی تھی ۔ جب بھی وہ کسی بارہ تیرا سالہ بچی کو پھول ، گجرے ، رومال ، کچنار بیچتے ہوئے دیکھتا ،ایک ہی آوازکی گونج میں گھرجاتا ۔
”تم ام کو کرید لو نور الحسن ۔”
سگریٹ کا ایک پیکٹ وہ ختم کر چکا تھا اور اب دوسرا نکال لیا تھا ۔ وہ شراب نہیں پیتا تھا مگر آج سوچ رہا تھا کہ ساتھی جج فرید سبحان کے ساتھ بیٹھ کر کچھ چڑھا لیتا تو شاید بہتر رہتا ۔ اور کچھ نہیں تو کم سے کم ہوش و خرد سے بیگانہ تو پڑا رہتا ۔
”تم ام کو کرید لو نور الحسن ۔”
سنہری بالوں والی ، نیلی آنکھوں والی نے پھر منت کی تھی۔
اس نے ریلنگ پر مکا مارا ۔ اس پر بھی قرار نہ آیا تو کمرے میں آکر بیڈ پر پڑا اپنا لیپ ٹاپ نیچے پھینکا ، تکیہ اٹھا کر دیوار پر دے مارا ، موبائل ،گھڑی، والٹ ، گلدان کچھ بھی اس کے ہاتھ سے نہ بچا ، کسی ترکیب سے بھی کانوں سے اس ایک جملے کی بازگشت جاتی نہ تھی۔ اس وقت وہ شخص پاگل لگ رہا تھا جس کی عقل ، سمجھ اور سلجھی طبیعت کی خاندان بھر میں مثالیں دی جاتی تھیں ۔
”تم ام کو کرید لو نور الحسن ۔”
اُف… بہرا کیوں نہیں ہو جاتا تھا وہ۔ اس نے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھے ۔
”تم ام کو کرید لو نور الحسن ۔”
چہار سو بازگشت تھی۔
تھک کر وہ بیڈ پر جا گرا ۔اس نے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں اپنے سر کے بالوں میں پھنسا رکھی تھیں ۔
وہ ایک نامور جج نور ا لحسن جسے دنیا رشک اور حسد کی نگاہ سے دیکھتی تھی، اس وقت ، اس حالت میں وہ ان کے سامنے ہوتا تو یہی دنیا اسے ترس بھری نگاہ سے دیکھتی۔
وہ لکھاری نہ تھا ۔
لکھاری ہوتا تو گُلانے پہ لکھتا۔
گُلانے جو دھوکا تھی، فریب تھی، بے وفائی تھی۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

اس خوب صورت جوان لڑکے کو لو اسٹوریز کبھی اچھی نہیں لگتی تھیں ، اسے پیار میں جینے پیار میں مرنے والے کردار سطحی سے لگتے تھے ۔
یہ قصہ ماضی تھا۔
اب وہ پیار میں مر رہا تھا ، لمحہ لمحہ مر رہا تھا ۔
وہ خزیمہ داؤد تھا جسے پہلے یہ یقین نہ تھا کہ اسے محبت ہو سکتی ہے اور جو یقین آیا تو اس بات پر بے یقین بیٹھا تھا کہ نور نہ صرف اس کے جذبات کو دھتکار چکی بلکہ بیسیوں لوگوں کے سامنے اسے ذلیل بھی کر چکی ہے ۔
‘نہیں! ” وہ نفی میں سر ہلاتا ، اس کے خاندان کی لڑکیاں اس کی وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ حالتِ جنگ میں رہتی تھیں۔ وہ کسی ایک کے بھی جذبات کی پزیرائی نہ کرتا تھا ۔ اسکول ، کا لج میں کئی لڑکیاں تھیں جن کا کرش ”خزیمہ داؤد ” تھا۔ بھلے اس نے کبھی مسکرا کر، نظر بھر کر بھی انہیں نہ دیکھا ہو۔ یونیورسٹی میں بھی یہی عالم تھا ۔
اتنی لڑکیوں میں اس کا دل آیا بھی تو کس پر ، وہ جس کی آنکھیں پیغام نشر کرتی تھیں کہ کسی کے لیے کوئی نرمی نہیں ، کوئی رعایت نہیں ، کوئی جگہ نہیں ۔ وہ مر مٹا بھی تو کس پر وہ جس کا نام پہلے سے کسی اور سے جڑا ہوا تھا ۔جس کے لیے اس کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا ۔ ہاں اسے اس کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ پھر وہ جی کس کے لیے رہا تھا ؟
اسے محبت میں ناکام ہو کر خودکشی کرنے والے بزدل لگتے تھے اور اس کے قدم رتیلی مٹی کو چھونے لگے تھے ۔پھر نمکین پانی اس کے گھٹنوں تک پہنچ گیا تھا ۔وہ آگے ہی آگے بڑھتا چلا گیا۔
بحیرہ عرب بانہیں وا کیے اسے بلا رہا تھا ۔
٭…٭…٭
وہ دونوں ہاتھوں کے انگوٹھوں سے مالٹا چھیلے بنا آدھا آدھا کر کے ایک حصہ اس کی طرف بڑھاتی اور ایک حصے میں سے قاش قاش نکال کر کھاتی ۔بیجوں کو منہ سے پچکاری کی طرح دور پھینکتی اور اگلی قاش منہ میں ڈال لیتی ۔ آ ج اس کاسب سے ضر و ر ی کام یہی لگ رہا تھا ۔ولید کی تو ویسے ہی بولنے کی عادت نہ رہی تھی۔پارک کے اس حصے میں ویسے بھی اِکا دُکا لوگ تھے ۔ اس لیے چپ سی چھائی ہوئی تھی ۔
”بس ۔ ” ولید نے ہاتھ کے اشارے سے مزید مالٹا لینے سے انکار کیا ۔
”کھا لو ، کمزور ہوتے جا رہے ہو ۔” اس نے ہاتھ پیچھے نہیں کیا ۔ ولید کو صحت مند ہونے کا یا رہنے کا کوئی شوق نہیں تھا مگر بغیر بحث کیے اس نے آدھا مالٹا تھا م لیا ۔ عروہ نے غور سے اس کا چہرہ دیکھا اور پھر سامنے سے آتے جوڑے کو دیکھنے لگی۔ لگ رہا تھا ان کی نئی نئی شادی ہوئی ہے ۔ دونوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام رکھا تھا۔ لڑکی زرق برق لباس میں لمبی ہیل کے ساتھ بمشکل چل پا رہی تھی ۔ اس کے چہرے پر تھکن کے آثار نہ تھے ۔ کیوں کہ وہ خوش تھی ، اس نشیب و فراز میں ساتھ دینے والا ہم سفر اس کے ساتھ تھا ۔
کیا اس کی قسمت میں بھی ایسا جیون ساتھی ہے جو ہر اونچ نیچ میں اس کا ساتھ دے ۔
اس کی نظریں پھر سامنے بیٹھے شخص پر آٹکیں ۔ عورت کا دل چاہتا ہے کہ پہل مرد کرے ۔ مگرعروہ ابو بکر کو شک نہیں یقین تھا کہ یہ شخص ساری عمر بھی اس کے ساتھ بیٹھا رہے ، اس کے ساتھ چلتا رہے ، پہل نہیں کرے گا ، اس کا ہاتھ نہیں تھامے گا ۔
”ثقلین کمال گھر تک آنے لگا ہے ؟” اس نے کھنکار کر گلا صاف کیا پھراس گفتگو کا آغاز کیا، جس کے لیے آج کی یہ ملاقات طے پائی تھی۔
”کیوں ؟” قاش اس کے منہ تک جاتے جاتے رکی ۔
”کہتا ہے ، شادی کرنا چاہتا ہے مجھ سے ۔”اس نے کن انکھیوں سے ولید کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”اس میں حرج کیا ہے ؟” بہت دیر بعد بہت آہستہ اس کے منہ سے نکلا ۔
”حرج ؟” اس نے دکھ کے ساتھ ولید کی طرف دیکھا ۔
”اس کی شکل پر لکھا ہے کہ وہ ہر دوسری لڑکی کے ساتھ فلرٹ کرتا ہے ۔”عروہ نے تنک کر کہا۔
”یہ تو امیروں کی خصوصیات میں سے ایک اہم خصوصیت ہے ۔”اس نے اسی سپاٹ لہجے میں کہا۔
”تمہاری نظر میں ہو گی خصوصیت ، مجھے تو یہ برائی لگتی ہے ۔مرد کا کردار مضبوط ہونا چاہیے ۔ امیرو کبیر ، خوب صورت ،پڑھے لکھے مرد تو دنیا میں بکھرے پڑے ہیں ، قحط تو با کردار مردوں کا ہے ۔” عروہ ابو بکر کے جملے نے اسے آئینہ دکھایا تھا ۔اور اسے یقین تھا کہ اگر یہ آئینہ اور اس میں نظر آتی ولید الحسن کی مکروہ شکل عروہ ابو بکر بھی دیکھ لیتی تو اس کے ساتھ یوں بیٹھی نظر نہ آتی۔
٭…٭…٭
صبح ہونے میں کچھ ہی وقت باقی تھا جب وہ شکستہ قدموں سے چلتا ہوا الماری کے سامنے آکھڑا ہوا اور ا س کا پٹ کھولا۔ اوپر والے خانے میں تہ کیے کپڑوں کوآگے پیچھے کر کے کچھ تلاش کرنے لگے ۔ کچھ ہی دیر بعد اس کے ہاتھ میں ہاتھ سے بُنا ہوا ایک سفید سوئیٹر تھا ۔اس نے اس سوئیٹر کو کھول کر اپنے سامنے پھیلا لیا ۔
سفید سوئیٹر کے بائیں کندھے سے کچھ نیچے لال رنگ کا دل کڑھائی کیا گیا تھا ۔ وہ اس دل پر اپنی انگلیاں پھیرنے لگے ۔
وہ اس ڈراما باز لڑکی سے چاہ کر بھی نفرت نہیں کر پایا تھا جس کی آنکھوں میں جب بھی جھانکا ، نور الحسن کو اپنا آپ نظر آیا ۔ جس کے جملوں کو جب بھی تولا، جذبوں سے مہکتے لفظوں سے میزان ایک طرف جھکتا چلا گیا ۔
”مجھے ہر اس شے سے عشق ہے جس کا تعلق آپ کے ساتھ ہے ۔”
اسے وہ زنجیر یاد آتی جو اس کی گردن میں سجی رہتی ۔ پڑھتے ہوئے، کوئی بھی کام کرتے ہوئے جس کے سنہری موتی کے ساتھ وہ کھیلتی رہتی۔ کسی موقع پر امی اسے کوئی زیور پہننے کو دیتیں تو وہ اس زنجیر کو نہ اتارتی جو نورالحسن ایک عید پر اس کے لیے لایا تھا ۔
”آپ کے کام کرنا مجھے اچھا لگتا ہے ۔”
اسے اپنے جوتے پالش کرتے دیکھ کر جب وہ غصہ کرتا تو وہ عنابی ہونٹ کا کنارا چباتے ہوئے کہتی۔
کیسے یہ ڈھونگ رچا لیتی تھی وہ مکر باز…
نور الحسن آج تک سمجھ نہ پایا تھا ۔
٭٭٭٭٭
عروہ ابو بکر کو ولید الحسن سے محبت ہو گئی تھی۔اور ولید الحسن تھا کہ اس کی نگاہ میں تو اس کے لیے پسندیدگی تھی مگر زبان سے کچھ کہتا نہ تھا ۔عروہ ابو بکر کے لیے نگاہوں سے جھلکتے جذبے کافی نہ تھے ، اسے قدم آگے بڑھانا تھا ، وہ تھک گئی تھی۔ وہ اپنا گھر بسانا چاہتی تھی۔ اسریٰ کی طرح بزدلانہ قدم اٹھا کر نہیں بلکہ عزت کے ساتھ اپنے باپ کے گھر سے رخصت ہونا چاہتی تھی۔
اس ڈھلتی شام وہ بہت دنوں بعد ملے تھے ۔ ولید کی نئی نوکری بہت محنت اور وقت مانگتی تھی۔ اس کا رنگ سانولا ہو گیا تھا اور صحت گر گئی تھی ۔ عروہ کے اندر احساس ندامت جاگا۔ اس کی وجہ سے خوار ہو رہا تھا وہ۔سنبل کمال کے آؤٹ لیٹ پر نوکری بہرحال اتنی مشکل نہ تھی۔
”عدیل کے کیس میں کچھ پیش رفت ہوئی ؟ ” عروہ نے دیکھا تھا کہ وہ خو د سے ز یا د ہ دوسروں کی پرواہ کرتا تھا۔ اس کے ساتھ ایک گفتگو میں ہی سامنے والا جان جاتا تھا کہ بڑے ہی نیک ماں باپ کی اولاد ہے ، بڑے ہی اچھے خاندان کا چشم و چراغ ہے ۔
”نہیں ! مجھے لگتا ہے کہ وکیل چاہتا ہی نہیں کہ کیس آگے بڑھے ۔ وہ اپنی ایک اولاد کو میرے خرچے پر پڑھا لکھا کر جوان کرنے کا ارادہ رکھتا ہے ۔”وہ آسمان میں گھورتے ہوئے مایوسی سے کہہ رہی تھی۔
ولیداسے دیکھتارہا ۔ اس کے پاس تسلی و تشفی کے الفاظ تو تھے مگر اب وہ ان لفظوں سے بہلتی نہ تھی۔ اس نے اتنی سی عمر میں جانے اتنا کچھ دیکھ لیا تھا کہ اب حقیقت پسند ہو گئی تھی ،اس لیے لوگوں کو اس کا مزاج کڑوا لگتا تھا ۔
”بہن سے بات ہوئی ؟”اس نے موضوع بدلا۔
”ہاں… آتا ہے فون اس کا مگر میں بات نہیں کرتی ۔”
”کر لیا کرو بات ۔ ”
”کیوں کروں اس خود غرض سے بات ؟ ہمارے سر میں خاک ڈال کر چلی گئی ،اب یاد آتی ہے اسے بہن اور باپ ؟ اتنی پرواہ ہوتی تو کسی اور کا نہیں تو بوڑھے باپ کا ہی ذرا خیال کر لیتی ۔”اس کی آواز اور زہریلی ہوگئی تھی۔
”معاف کر دو اسے ۔ ”ولید کو اپنی آواز بہت اندر سے آتی ہوئی محسوس ہوئی۔
”معاف کرنا اتنا آسان ہو تا ہے کیا ؟”اس نے طنزیہ انداز میں ولید سے پوچھا۔
”نہیں ! آسانی سے معاف کرنا اللہ غفور الرحیم کی صفت ہے ۔ انسان کے لیے معاف کرنا آسان نہیں ہوتا، مگر جو یہ ظرف دکھاتا ہے ، نفع میں رہتا ہے ۔ اس کی اپنی خطائیں ، اپنے گناہ معاف ہوتے ہیں ۔”اسے لگ رہا تھا جیسے وہ کسی کو اپنے آپ کو معاف کرنے پر راضی کررہا ہے۔
”سچ پوچھو تو مجھے وہ بڑی یاد آتی ہے ۔ ” غبار نکالنے کے بعد وہ آہستگی سے بولی ۔ اس کا لہجہ ایک دم بدلا تھا اور اس کی آنکھوں کے گوشے نم ہونے لگے تھے ۔
”تو پھر آج بات کر لینا اس سے ۔”
اس نے آنکھیں صاف کرتے ہوئے سر ہلایا تھا اور اس شام اس نے اسریٰ کو کال کی تھی ۔دو دن بعد ہی اس نے ولید سے پھر ملنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ اس کا لہجہ بشاش تھا ۔
اس دن وہ اس کے لیے ڈبل روٹی میں کباب رکھ کر لائی تھی۔ ولی کو گُلانے کے ہاتھ کے بنے دم پخت کبا ب یا دآئے ، وہ اداس ہو گیا تھا ۔
”میں نے اسریٰ کو بتایا تھا کہ تمہارے سمجھانے پر میں اسے کال کر رہی ہوں ورنہ کبھی اس سے بات نہ کرتی ۔وہ تمہاری ممنون ہوئی تھی پھر تمہارے بارے میں بڑی باتیں کی ہم نے ۔”
”اچھا !” وہ افسردہ سے انداز میں مسکرایا ۔
”پوچھو گے نہیں کہ ہم نے تمہارے بارے میں کیا کیا باتیں کیں ؟”عروہ نے ایک خاص انداز میں یہ بات کی تھی۔
”ضرورت تو نہیں پوچھنے کی ۔ ”اس نے کندھے اُچکا کر کہا۔
”ضرورت ہے ناں ولی۔ ” اس کے منہ سے ایک دم ”ولی”نکلا، پھر زبان ہونٹوں تلے دبا کر اسے دیکھا۔
”میں نے تمہیں ولی کہا ، تمہیں برا تونہیں لگا ناں ۔”اس کا انداز معذرت خواہانہ کے بجائے اجازت طلب تھا۔
نفی میں سر ہلاتے ہوئے ولید الحسن کو کیا کچھ یا د نہ آیا تھا ۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

گلانے — صوفیہ بٹ (قسط نمبر ۳)

Read Next

اُف یہ گرمی — فہمیدہ غوری

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!