گلانے — صوفیہ بٹ (قسط نمبر ۴ — آخری قسط)

اچھے کھانے ، اچھا بستر ، اچھی سواری، اچھے لباس تویاد آتے ہی مگر ان سب پر بھاری تھی ماں اور بھائی کی یاد ۔
بس کچھ لمحوں نے اس سے سب کچھ چھین لیاتھا ۔ وہ پچھتاتا تھا ، چھپ چھپ کر روتا تھا مگر کچھ خطائیں ایسی ہوتیں ہیں جو منہ کالا کر دیتی ہیں ۔ پھر وہ منہ بندہ کسی کو دکھانے کے قابل نہیں رہتا، خاص طور پر اسے جس کا یقین اور اعتماد پامال کیا ہو ۔
اب وہ گُلانے کا سامنا کبھی نہیں کر سکتاتھا ۔
اس نے اپنے بھائی کو کھو دیا تھا جو اسے اپنی جان سے زیادہ پیارا تھا ۔اس نے اپنی ماں کو ہمیشہ کے لیے کھو دیا تھا جس کے قدموں تلے جنت تھی۔
ہاںو ہ جانتا تھا کہ اب اس کی ماں اس دنیا میں نہیں رہی ۔
اپنے گھر سے نکلنے کے بعد اس نے بہت بار دوسرے نمبر سے امی کو فون کیا تھا۔ امی کی عادت تھی کہ وہ فون اٹھا کر ”السلام علیکم” کہتی تھیں ۔جیسے ہی امی کی آواز کان میں پڑتی وہ آنکھیں میچ لیتا اور خود کو امی کی گود میں سر رکھے پاتا ۔امی بعد میں ”کون … کون ؟” پوچھتی رہ جاتیں۔ وہ فون رکھ دیتا۔ امی کی آواز سن لیتا تو اس رات ذرا سکون کی نیند آجاتی۔
ایک مرتبہ امی نے ”السلام علیکم ” کہنے کے بعد یہ نہیں پوچھا تھا کہ کو ن بات کر رہا ہے ، انہوں نے کہا تھا !
”ولی ! ”وہ وہیں جم گیا تھا ۔
”میں جانتی ہوں ، تم ولی ہو ۔ کیوں کرتے ہو اب ماں کو فون ؟ تم نے ہمیں کہیں منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا ولی ۔میری اولاد ہو تو آئندہ کبھی فون مت کرنا ۔”وہ جو ماں کی آواز سن لیتا تھا ، اس کے بعد اس سے بھی محروم ہو گیا ۔”تو امی کو گُلانے نے سب کچھ بتا دیا، اس نے بھائی کو بھی بتا دیا ہو گا ۔” اس کا دل چاہتا کہ اپنے منہ پر اتنے طمانچے مارے کہ اپنا ہی چہرہ دیکھنے کے قابل نہ چھوڑے ۔ وہ خود میں ہمت نہ پاتا تھا ورنہ کسی چوراہے پر کھڑا ہو جاتا اور ہر آتے جاتے کو کہتا کہ اس کے منہ پر تھوکے۔
اس کے بعد اس نے کبھی امی کو فون نہیں کیا تھا مگر ایک رات اس نے امی کو خواب میں ابو کے ساتھ سفید کپڑوں میں دیکھا تھا ۔ وہ نیند سے بیدار ہو گیا تھا ۔ اس کا دل ڈر گیا تھا ۔ماں کی دی ہوئی قسم اس نے توڑ ڈالی اورکانپتے دل کے ساتھ انہیں فون کیا ۔ جانے اسے کیوں لگ رہا تھا کہ یہ رابطہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا ۔
امی کا نمبر بند تھا ، بھائی یا گُلانے کے نمبر پر بات کرنے کی اس میں ہمت نہ تھی ۔اس دن وہ بہت بے قرار رہا تھا ، سجدوں میں پڑ پڑ کر گڑگڑایا تھا ، توبہ کی تھی۔ تین دن اسی بے چینی میں گزرے پھر جب رہ نہ پایا تونئی سم لے کر اس نے اپنے ایک کزن کو فون کیا ۔
”ولی ! کہاں ہو تم ؟”اس کے کزن نے بے یقینی سے اس سے پوچھا۔
”سکندر ! امی کیسی ہیں ؟” اس نے سکندر کے سوال کا جواب دینے کے بجائے یہ پوچھا تھا اور دوسری طرف سے جو خبر ملی ، اس نے اسے ہلا ڈالا تھا ۔کتنا بدنصیب تھا وہ جو اپنی ماں کا آخری دیدار تک نہ کر پایا۔ اس کے گناہ کی سزا اسے دنیا ہی میں مل گئی تھی کیا؟
وہ روتا رہا ،امی کو پکارتا رہا تھا ۔اس رات اسے تیز بخار ہو گیا مگر رات رات بھر سرہانے بیٹھ کر ٹھنڈے پانی کی پٹیاں کرنے والی ماں چلی گئی تھی۔ اسے اب کبھی اپنے ماتھے پران کا لمس محسوس نہیں ہونا تھا ۔
بہت دنوں بعد وہ ایک بار گیا تھا ماں کی قبر پر ۔ وہ جانتا تھا کہ ان کی تدفین ابو کے پہلو ہی میں ہوئی ہو گی کیوں کہ یہ ان کی خواہش تھی۔ وہ ماں کی قبر سے لپٹ کر روتا رہاتھاجس پہ کتبہ لگا تھا ۔
”عائشہ خاتون زوجہ ضمیر الحسن ، ام نور الحسن و ولید الحسن۔ ”
ایک بیٹے کی خدمتوں اور کامیابیوں نے ماں کا سر فخرسے بلند کیا تھا تو دوسرے کے کالے کرتوت نے انہیں کہیں منہ دکھانے کے قابل نہ چھوڑا تھا ۔
وہ منہ چھپائے وہاں سے لوٹا تھا ۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”نور ۔” وہ کلاس اٹینڈ کر کے ہانیہ کے ساتھ کامن روم کی طرف جا رہی تھی جب خزیمہ داؤد نے ان کے پیچھے آتے ہوئے اسے پکارا ،ہانیہ رک گئی تھی مگر نور نے اپنے قدم نہ روکے تھے ۔
”نور پلیز میری بات سنو ۔” وہ تیزی سے چلتا ہوا اس کے سامنے آیا ۔وہ ویل ڈریسڈ بندہ تھا مگر اس وقت اس کا حلیہ عجیب سا ہو رہا تھا ۔ یوں جیسے اپنی ہی خبر نہ ہو ۔
”خزیمہ داؤد ! آ پ چا ہتے کیا ہیں ؟’ ‘ نور کو اس کا یوں پیچھے آنا برا لگ رہا تھا۔
”میری … میری بات سن لیں بس ۔” خزیمہ نے منت کی ۔
”آ پ کی بات میں سن چکی اور جواب بھی دے چکی ہوں ۔’ ‘ نور کے لہجے میں برہمی تھی۔
”نور میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں ، نہیں رہ سکتا تمہارے بغیر ۔”وہ التجائیہ انداز میں اسے کہہ رہا تھا۔
”بس !” اس نے ہاتھ کے اشارے سے اسے مزید ایک لفظ بھی بولنے سے منع کیا اور خود کامن روم کی طرف بڑھ گئی ۔
”نور ! تمہاری منگنی ہوئی ہے ، شادی تو نہیں۔ میرا یقین کرو ۔ میں تمہیں اس سے زیادہ چاہوں گا۔” جاتی نور کو دیکھ کر اس نے تھوڑی بلند آواز میں یہ جملہ کہا تھا۔
”خزیمہ داؤد ! ” نور اتنی اونچی آواز میں چلائی کہ کاریڈور اور لان میں بیٹھے ہر بندے نے حیران ہو کر اسے دیکھا ۔ ان میں سے اکثر تو ایسے تھے جنہوں نے اس لڑکی کی آواز ہی آج تک نہ سنی تھی ۔
”اپنی حد میں رہیں ۔ ” وہ بہت سخت لہجے میں کہہ رہی تھی۔ خزیمہ داؤد حد میں کیسے رہتا ؟ وہ لائن آف کنٹرول سے آگے آچکا تھا ۔ وہ ایک سنگین غلطی کر چکا تھا ۔
”نور میری ہر حد پر آ پ کھڑی ہیں۔ میں جہاں نظر ڈالوں وہاں آپ ہیں ، میں بے بس ہوں۔”خزیمہ کی حالت اس وقت قابل رحم لگ رہی تھی۔ ہانیہ کو ا س پر ترس آنے لگا تھا۔ پہلے پہل اِسے نہیں لگتا تھا کہ وہ اتنا سیریس ہو جائے گا ‘ لیکن آج لگ رہا تھا کہ دل نے اتنے سمجھ دار لڑکے کو خوب خوار کر ڈالا ۔
نور کوئی بھی جواب دیے بغیر رخ موڑ کر چل دی ۔ اس نے کامن روم جانے کا اردہ ترک کر دیا تھا ۔ وہ اب ڈیپارٹمنٹ سے نکل جانا چاہتی تھی ۔خزیمہ نے اس کے پیچھے آکر اس کا بازو تھام کر اسے روکنے کی کوشش کی ۔وہ جو دو دن پہلے تک ہاسٹل گیٹ کے باہر اس کا انتظار کر رہا تھا تا کہ وہ تنہا نظر آئے تو اس سے بات کرے ۔ وہ جو ڈیپارٹمنٹ میں بات کرنے سے ڈرتا تھا ، آج اسے کوئی پرواہ نہ تھی کہ کون اسے دیکھ رہا ہے ۔ کون اسے ذلیل ہوتا دیکھ کر ہنس رہا ہے ۔آج اسے کوئی پرواہ نہ تھی۔
ایک مرد… ایک غیر مرد اسے ہاتھ لگائے ، اسے چھوئے ،اس کی اتنی ہمت …
نور نے پلٹ کر اس کے منہ پر ایک زور دار تھپڑ دے مارا ۔
مسکراتے چہروں سے مسکراہٹ غائب ہوگئی ۔ بڑھتے قدم وہیں رک گئے ۔ جو اس طرف پہلے متوجہ نہ تھا وہ بھی انہیں دیکھنے لگا ۔
خزیمہ شاکڈ تھا ۔ہانیہ بھی جیسے سکتے میں آ گئی تھی۔
اس کی آنکھوں سے غصہ برس رہا تھا ۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اس شخص کا منہ نوچ ڈالے جس نے اسے ہاتھ لگانے کی جسارت کی تھی۔اسے پتا نہیں تھا کہ اب اور کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ۔ اس کام کے لیے اس کی آنکھیں ہی کافی ہیں ۔
خزیمہ چند لمحے اسے دیکھتا رہا پھر تیزی کے ساتھ ڈیپارٹمنٹ سے نکل گیا ۔
٭…٭…٭
اسے ایک فیکٹری میں ملازمت مل گئی تھی۔ مہینا بھر میں جو کچھ کماتا، اس میں سے تھوڑی سی رقم خود پر خرچ کرتا اور باقی سے اپنی پڑھائی کے اخراجات پورے کرتا ۔ وہ ایل ایل بی کر رہا تھا ۔ اسے وکیل بننا تھا۔ اپنے بھائی جیسا اچھا وکیل جس کی نیک نامی کا شہر بھر میں چرچا تھا ۔ اور اب وہ ایک جج تھا ۔ ولی کو یقین تھا کہ اس کا بھائی جج بھی بہت اچھا ہو گا ۔
ضرورت کے لیے پیسے رکھ کر وہ باقی رقم لوٹانے آیا تھا ، جو اس نے اٹھائی تھی نہ ہی خرچ کی تھی۔ منیجرکا رویہ اس کے ساتھ ایسا تھا جیسا ایک چورکے ساتھ ہو نا چاہیے ۔
”اتنی اماؤنٹ دو گے تو چھے مہینے نہیں چھے سال لگ جائیں گے رقم چکاتے چکاتے ۔” منیجرکی بات سن کر وہ خاموش رہا ۔ اس کے پاس جواب بھی کوئی نہیں تھا ۔جھوٹے وعدے کرنے کی اسے عادت نہ تھی ۔
”میری مانو تو ثریا مقصود کی آفر قبول کر لو۔ ” سر فراز نے ایک طرف لے جا کر اسے مشورہ دیا تھا۔ ”غریب عزت بچاتا رہے تو اور بہت کچھ کھو دیتا ہے ۔”
” اور بہت کچھ کھو کر عزت بچ جائے تو یہ خسارے کا سودا نہیں سر فراز ۔” اس نے جواب دیا اور آؤٹ لیٹ سے باہر نکل آیا تھا ۔
تین دن کے فاقے کے عالم میں ایک دن اس نے بھی سوچا تھا کہ وہ ثریا مقصود کی بات مان لے اور مان بھی لیتا اگر اس نے اپنی زندگی میں یہ مشاہدہ نہ کیا ہوتا کہ با لا خر خلوص کو خلوص ، وفا کو وفا ، دھوکے کو دھوکا ملتا ہے ۔
سینیٹر مقصود نثار بیوی سے بے وفائی کرتا ہے تو اس کی بیوی اپنا دل کہیں اور لگا تی ہے ۔اپنی خواہشات اور ضرورتیں کہیں اور سے پوری کرتی ہے۔ ہر چند کہ انسان کے عمل و فعل کا انجام اسی وقت دیکھنے کو نہ ملے ، اگلی نسلوں میں انجام ظاہرہو جاتا ہے ۔ایک زانی کی بیوی نہیں تو بیٹی ضرور زنا کرے گی ، یہ مکافاتِ عمل ہے ۔ امی صحیح کہتی تھیں ۔
”انسان کا ایک غلط قدم اس کی نسلوں میں ملاوٹ کر دیتا ہے ۔”
اس وقت اسے یہ باتیں سمجھ نہیں آتی تھیں ، اس وقت شیطانی باتیں د ل لبھانے لگی تھیں ۔ اب جو سمجھ آئی تھی تو اس نے اپنی اگلی نسل کو گندا ہونے سے بچانے کی کوشش اور توبہ کی تو فیق پائی تھی۔
عروہ آج پھر چھٹی پر تھی۔ پچھلے ہفتے اس کے ابو پر فالج کا حملہ ہوا تھا ۔ اس کے قدم عروہ کے گھر کی طرف اٹھنے لگے ۔ اسے دیکھ کر عروہ کی آنکھیں چمک اٹھی تھیں ۔ وہ اسے دیکھ کر حیران ہوئی اور پھر پریشان۔ اس کے گھر میں تو مہمان کو بٹھانے کے لیے کوئی خاص جگہ بھی نہ تھی ۔ولید اس کے ابو کے پاس رکھی لکڑی کی کرسی پر بیٹھ گیا جس پہ رکھی گدی پھٹی ہوئی تھی اور فوم جگہ جگہ سے نظر آ رہا تھا ۔
اس کے گھر کے حالات دیکھ کر اس نے سوچا تھا کہ شاید یہ حالات کسی کو بھی چور بنا سکتے ہیں ۔
عروہ کی بھابی ایک خوب صورت جوان کو اپنے گھر دیکھ کر چوکنا ہوئی اور تمام تر تفصیلات جاننے کے بعد مایوس بھی۔ فیکٹری میں کام کرنے والے مزدور کو بھلا ملتا ہی کیا ہو گا … یہ ان کی بہن کے لیے ٹھیک نہ تھا ۔وہ جلد ہی پاس سے اٹھ کر چلی گئی تھیں ۔ ولید کو ان سے مل کر اندازہ ہوا تھا کہ آؤٹ لیٹ پر کبھی کبھی عروہ جو اپنی بھابی کا ذکر خیر کیا کرتی تھی، ٹھیک ہی کہتی تھی ۔ ورنہ ان سے ملنے سے قبل وہ سوچا کرتا تھا کہ یہ لڑکیاں خواہ مخواہ بھابیوں کی برائیاں کرتی رہتی ہیں ۔ بھابیاں بھلا ایسی کب ہوتی ہیں ؟ بھابی تو گُلانے جیسی ہوتی ہے، پر خلوص اور پرواہ کرنے والی ۔
اس کی عروہ سے یہ آخری ملاقات نہ تھی ۔ اس دن کے بعد سے ملاقات کے لیے چھوٹی چھوٹی بات بہانہ بننے لگی تھی۔
٭…٭…٭
قرة العین اسے فون پر فون کر رہی تھی مگر وہ اٹینڈ نہیں کر رہا تھا ۔ اس کا دل ہر شے سے اچاٹ سا ہونے لگا تھا۔امی کی وفات کے بعد سے اسے اپنے ہونے کا مطلب اور مقصد سمجھ نہ آتا تھا ۔ کورٹ میں ہوتا تو مظلوم کا چہرہ دیکھ کر سمجھ آتی کہ اس کے ہونے کا کیا مقصد ہے ۔ اسے ایک مظلوم کو انصاف دلانے کی ذمے داری سونپی گئی ہے ۔مگر جب ثبوت اور جھوٹے گواہ اس راہ میں حائل ہو جاتے اور اسے فیصلہ ظالم کے حق میں دینا پڑتا تو دل کانپ اٹھتا ۔ اس کا جی چاہتا کہ وہ یہ نوکری چھوڑ دے جس کے لیے اس نے اتنی محنت کی اور وہ اس کے لیے کانٹوں کی سیج نکلی ۔ کئی فیصلے اسے رات رات بھر سونے نہیں دیتے تھے۔
نیندیں حرام کرنے کے لیے گُلانے اور ولی کی یاد کیا کم تھی جو منصف کی کرسی پر بیٹھ کر کیے گئے فیصلے بھی اسے جگائے رکھنے لگے۔
آج بھی وہ کچھ ایسا ہی فیصلہ دے کر آیا تھا ۔ اسے کٹہرے میں کھڑے اس نوجوان کی نظریں نہیں بھولتی تھیں جو فیصلہ سننے کے بعد بے یقینی کے ساتھ اسے دیکھ رہا تھا ۔ وہ اسے کیا بتاتا کہ تمہارا چہرہ گواہ ہے کہ تم بے گناہ ہو مگر چہرے کی گواہی دنیا کی کسی عدالت میں قبول نہیں کی جاتی ۔ یہاں وہ گواہ بھی ہیں، جن کا پروفیشن ”جھوٹی گواہی ” ہے ۔ ایک نیلے نوٹ پر بک جانے والے یہ گواہ کس کس کی زندگی تباہ کر دیتے ہیں ، انہیں خیال تک
نہیں آتا۔
بہت بے چین ہو کر وہ کورٹ سے نکلا تھا ۔
قرةالعین کی کال پھر آرہی تھی مگر اس نے اٹینڈ نہیں کی اور دوسری طرف وہ بھی خاصی ڈھیٹ واقع ہوئی تھی۔
سرخ اشارہ دیکھ کر اس نے گاڑ ی روکی ۔
”یہ ہار لے لو صاحب۔ ” میلے کپڑوں اور الجھے بالوں والی بچی نے موتیا کے ہار اور گجرے ان کے سامنے بڑھائے ۔وہ ٹھٹک گیا تھا ۔
”تم ام کو کرید لو نور الحسن ۔” نیلی آنکھوں ، سنہری گھنگھریالے بالوں والی گُلانے منت کر رہی تھی۔
”میری ماں کو بخار ہے ، دوائی لینی ہے ۔ میرا چھوٹا بھائی بھی بیمار ہے ۔ ” اس سے پہلے کہ ہار اور گجرے والی لڑکی باقی خاندان کو بھی بیمار کر ڈالتی ، اس نے شیشہ چڑھا دیا ۔
٭٪٭٪٭٪٭٪٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

گلانے — صوفیہ بٹ (قسط نمبر ۳)

Read Next

اُف یہ گرمی — فہمیدہ غوری

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!