گلانے — صوفیہ بٹ (قسط نمبر ۴ — آخری قسط)

ان کی شادی میں چند مہمان ہی تھے ۔ ڈاکٹر فضل الٰہی ، اعتبار احمدکی فیملی ، ہانیہ اور قرةالعین ۔
قرة العین بظاہر مسکرا رہی تھی’ مگر بجھی بجھی سی تھی۔ اس نے قبول کر لیا تھا کہ نورالحسن صرف گُلانے کی قسمت میں تھا ، اس کے نصیب میں نہیں تھا ۔
اس نے گُلانے کے ساتھ بیٹھے نور الحسن کو دیکھ کر اپنے منگیتر کے بارے میں سوچنا چاہا، لیکن وہ اس کوشش میں ناکام رہی تھی ۔
ولی نظریں جھکائے شادی کی مبارک باد دینے گُلانے کے پاس آیا تھا۔ اس نے بھی بظاہر مسکراتے ہوئے مبارکب باد وصول کر لی تھی۔ رات جب وہ آیا تھا تو اس نے ہاتھ جوڑ کر روتے ہوئے اس سے اپنے کیے کی معافی مانگی تھی۔ گُلانے اسے پہلے ہی معاف کر چکی تھی کیوں کہ نور الحسن نے اس سے اپنے بھائی کے لیے معافی کی بھیک مانگی تھی۔
”ولی نے اپنے حصے کی سزا بھگت لی ہے گُلانے … اسے معاف کر دو ۔”
اور گُلانے کو تو معاف کرنا ہی تھا ، وہ اس کے نور الحسن کا عزیز از جان بھائی جو تھا ۔
٭٭٭٭٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

بھابی اندر مہمانوں کے پاس بیٹھی تھیں’ مگر آج عروہ ابو بکر کو کوئی فکر نہیں تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ بھابی کی کوئی کنواری بہن نہیں بچی تھی ۔ ابھی دو بہنیں کنواریتھیں۔ بھابی کی اپنی بیٹی بھی جوان ہونے کو آئی تھی۔ مگر آج وہ فکر مند نہیں تھی۔ آج وہ جالی کے دروازے سے جھانک جھانک کر اندر نہیں دیکھ رہی تھی۔ اسے پتا تھا کہ جو لوگ اس کے لیے آئے ہیں ، وہ اسی کے لیے آئے ہیں ۔
وہ مسکراتے ہوئے مطمئن انداز میں چائے کپوں میں اُنڈیلنے لگی۔
”بھائی تو بڑا جج ہے کوئی ، بھابی بھی پڑھی لکھی ہے خوب۔ ” بھابی متاثر ہو کر باہر نکلی تھیں۔ وہ مسکراتی رہی ۔
”ان کپوں میں چائے لے کر جاؤ گی؟ کنارے ٹوٹے ہوئے ہیں اس کپ کے تو … فاریہ ! جا کے شو کیس سے گولڈن کناروں والے کپ نکال کے لے آ۔ ” اس نے اپنی بیٹی سے کہا تھا۔
”بھابی یہی ٹھیک ہیں۔” وہ مطمئن انداز میں ٹرے اُٹھا کر کچن سے نکل گئی ۔ بھابی نے وہیں کھڑے کھڑے بہن کو کال ملائی تھی۔ مہمان اچانک آئے تھے ورنہ دروازے پر عروہ کا چہرہ نظر آنے سے پہلے انہیں صوبیہ دکھائی دیتی۔
آدھے گھنٹے میں صوبیہ تیار ہو کر پہنچ گئی تھی’ مگر فائدہ کوئی نہ ہوا تب تک تو بیٹھک میں رشتہ پکا ہونے کے بعد دعا بھی کروائی جا چکی تھی۔
”کتنے بہن بھائی ہیں لڑکے کے ؟” صوبیہ نے اُمید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا تھا ۔
”ایک بھائی ہے جس کی پچھلے ہفتے شادی ہوئی ہے ۔”
”اچھا ۔” وہ اب مایوس ہوئی اور رشک و حسد سے عروہ کی طرف دیکھنے لگی ۔
”ارے بھابی آپ … آپ کیوں … میں خود لے آتی ۔ ” عروہ ٹرے اُٹھا کر باہر آتی گُلانے کو دیکھ کر بوکھلائی۔
”میں نے سوچا اپنی دیورانی سے کچھ باتیں کر لی جائیں ، وہاں اپنے بھائی اور نور الحسن کی موجودگی میں تو شر ماتی رہے گی۔ ” گُلانے نے کھنکتی ہوئی آواز میں کہا تو وہ شرما گئی ۔
گُلانے بیٹھک میں تو نقاب میں تھی۔ یہاں جو چہرے سے نقاب ہٹایا’ تو دونوں اس نوبیاہتا حسین دلہن کو دیکھتی رہ گئیں۔صوبیہ زیادہ دیر وہاں ٹھہری نہیں تھی ۔ خواہ مخواہ دل جلانے کا فائدہ؟ وہ دونوں باتیں کرنے لگی تھیں ۔
”ایک بات پوچھوں بھابی!” عروہ نے جھجکتے ہوئے پوچھا۔ گُلانے نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلاکر گویا اسے اجازت دی۔
”آپ نے ولید … ولید کو … معاف کر دیا ۔ ‘ ‘ اس نے ہچکچاتے ہوئے اپنے جملہ پور ا کیا تھا۔
گُلانے کے لبوں پر مسکراہٹ پل بھر کو غائب ہوئی ۔ پھر اس نے دھیما سا مسکرا کر سر ہاں میں ہلایا ۔
”ہاں ! میں نے اسے معاف کر دیا ۔ تم بھی اس کی یہ غلطی بھلا کر اس کی زندگی میں قدم رکھنا ، سکون میں رہو گی ۔”
عروہ نے مطمئن ہو کر سر ہلادیا ۔
”ولی کو معاف کر نا میری مجبوری ہے عروہ۔ وہ نور الحسن کا بھائی ہے ۔ اگر میں اسے معاف نہ کروں تو نور الحسن بے چین رہے گا اور میں اسے بے سکون نہیں دیکھ سکتی ۔” گُلانے نے سوچا ۔
عورت کبھی اس شخص کی صورت دیکھنے کی خواہش نہیں رکھتی ، اس شخص کو معاف کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتی جس نے اس پر غلط نگاہ ڈالی ہو ، دست درازی کی کوشش کی ہو۔وہ بھی دیکھنا نہیں چاہتی تھی، معاف کرنے کا حوصلہ نہیںرکھتی تھی مگر نور الحسن کی خاطر نہ صرف وہ ولی سے ملی تھی ، اسے معاف کیا تھا بلکہ اس کی شادی میں بھی اپنا کردار بھر پور انداز میں ادا کیا تھا۔اس نے ولی کو معاف کر دیا تھا مگر اس کی خطا اور اپنی غلطی بھولی نہ تھی۔
ولی تو خود۔ اب اس کے سامنے نظریں نہیں اٹھاپاتا تھا ۔ گُلانے کی موجودگی میں اس کے اندر ایک عدالت لگ جاتی تھی، جس کے کٹہرے میں وہ ہر بار کھڑا ہوتا ۔ دونوں ایک دوسرے کے سامنے آتے، ایک دوسرے سے بات کرتے مگر پہلے سی بے تکلفی کہیں دکھائی نہ دیتی ۔ شادی کے بعد ولی عروہ کو لے کر قانون کی تعلیم حاصل کرنے لندن چلا گیا ۔ یہاں رہنا اور گُلانے کا سامنا کرنا اسے بہت دشوار لگتا تھا۔ اس نے اپنے آپ کو خود سزا سنا دی تھی۔
اس کے لندن جانے کے فیصلے سے نورالحسن اداس ہوا جبکہ گُلانے نے سکون کا سانس لیا تھا۔
٭…٭…٭
نور الحسن نے گہری نیند سوئی بیوی کو دیکھا اور دیکھتا چلا گیا ۔ اس کے لبوں پہ ہلکی سی مسکان تھی۔
وہ ایسے ہی سویا کرتی تھی۔ حالانکہ نور الصیام کے آنے کے بعد اسے رات رات بھر جاگنا بھی پڑتا تھا’ مگر جب بھی سوتی یونہی پرسکون سوتی۔
یوں لگتا جیسے مدت بعد اتنی گہری اور پرسکون نیند سوئی ہے ۔
وہ اس کے عشق میں پھر سے مبتلا ہونے لگا تھا ۔ اس نے جھک کر اس کے ماتھے پر بوسہ دیا ۔اس کے لبوں پہ مسکان گہری ہو گئی ۔ جانے اسے کیسے پتا چل جاتا تھا ۔
وہ اپنی بیوی سے بہت محبت کرتا تھا ۔ شادی کے بعد جب وہ گھومنے پھرنے شمالی علاقہ جات گئے’ تو اس نے پورے ہنی مون میں ایک ہی سوئیٹر پہن رکھا تھا جس کا رنگ سفید تھا اور اُس پر ایک سرخ رنگ کا دل بنا ہوا تھا ۔ وہ جو اب جسٹس نور الحسن تھا ، جس کی عمر چالیس سے اوپر ہوگئی تھی، اپنی دلہن کی معیت میں کوئی کھلنڈرا سا لڑکا بن گیا تھا ۔ لوگ اسے حیران ہو کے دیکھتے ، کچھ ہنستے بھی تھے ۔ وہ بجائے شرمندہ ہونے کے مسکراتا تھا ۔ اسے اچھا لگ رہا تھا ۔ ان کی کئی یاد گار تصویریں اسی سوئیٹر میں تھیں ۔
گُلانے اپنی پوجی کی قبر پر بھی گئی تھی۔ اب وہ سمجھ دار ہو گئی تھی ،اسے سمجھ آگئی تھی کہ اس کی پوجی کی قسمت میںیہی اجتماعی قبر تھی۔ اُسے یقین تھا کہ اللہ اس کی پوجی کو اگلی زندگی میں بڑا سا محل عطا کرے گا۔
نو ر الحسن اس کے ہر روپ کو دیکھ کر حیران رہ جاتا تھا ۔ وہ اپنی بیوی سے بہت محبت کرتا تھا’ مگر اس کی بیوی کی محبت کمال تھی،وہ اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا ۔ وہ ہر دفعہ کوشش کرتا کہ گُلانے سے بڑھ کر اپنی محبت کا اظہار کر ے مگر ہر بار ناکام رہتا۔
وہ اس لڑکی کی محبت کا مقابلہ بھلا کیا کرتا جو اپنا نام اپنی شناخت بھول کر اس کے عشق میں نور ہو گئی ۔ ان کی پوسٹنگ جہاں ہوئی تھی وہاں اس کے علاوہ کوئی اسے گُلانے کے نام سے نہیں جانتا تھا ۔ نور الصیام کہتی تھی۔
”بابا بھی نور … اماں بھی نو ر … میں بھی نور … کیا ہمارا بھائی بھی نور ہو گا ؟” وہ اس کے سوال پر ہنس دیتی تھی۔
وہ اس لڑکی کی محبت کا مقابلہ بھلا کیا کرتا جو ڈاکٹر بننا چاہتی تھی مگر اس نے ریاضی میں ماسٹرز کیا اور اب ایک سرکاری کالج میں ریاضی پڑھاتی تھی،کیوں کہ اس نے ایک بار نو ر الحسن کے منہ سے سن لیا تھاکہ وہ چاہتا ہے کہ لڑکیاں ریاضی اور طبیعیات کے میدان میں آگے آئیں تا کہ اسکول اور کالجز میں ان مضامین کی فی میل لیکچررز کی کمی پوری ہو سکے ۔
وہ اس لڑکی کی محبت کا مقابلہ بھلا کیا کرتا جس کے سامنے اس نے ایک بار کہا تھا کہ وہ نہیں چاہتا کہ اس کے علاوہ کوئی اوراسے دیکھے ، تو اب کوئی نا محرم اسے دیکھ نہیں پاتا تھا ۔
وہ اس لڑکی کی محبت کا مقابلہ بھلا کیا کرتا جس پہ وہ شک کرتا رہا اور وہ اس سے عشق کرتی رہی ۔ جس کے ساتھ اس کا کوئی شرعی اور قانونی رشتہ نہیں تھا ۔ وہ اس کی بیوی نہیں تھی، اس کی باقاعدہ منگنی نہیں ہوئی تھی پھر بھی وہ کمٹڈ رہی ۔ پھر بھی وہ صرف اس کا نام لے لے کر جیتی رہی ۔فہد عبدالکریم ، خزیمہ داؤد جیسے چاہنے والے اس کے پیچھے مر مٹے مگر اس نے نو ر الحسن کے ساتھ اپنا رشتہ نبھایا ۔
فہد عبدالکریم کے بارے میں اسے ڈاکٹر فضل الٰہی نے بتایا تھا اور خزیمہ داؤد کے بارے میں وہ یوں جان پایا کہ نادانستہ طور پر اس نے ہانیہ اور گُلانے کی چند باتیں سن لی تھیں ۔اس کے بعد نور الحسن نے دوستانہ انداز میں اس سے خزیمہ داؤد کے بارے میں پوچھا تو اس نے اسے سب کچھ بتا دیا ۔
”تم میری پابند نہیں تھیں گُلانے ، پھر تم نے کسی اور کا بڑھا ہوا ہاتھ کیوں نہ تھاما؟” اس کا چہرہ تکتے گُلانے نے اس کا سوال اسے واپس لوٹایا تھا۔
”آپ میرے پابند نہیں تھے نور الحسن، پھر آپ نے کسی اور کا بڑھا ہوا ہاتھ کیوں نہ تھاما؟’ ‘
”کیوں کہ میں تم سے کبھی نفرت نہیں کر پایا گُلانے۔”
”کیوں کہ میں آپ سے عشق کرتی ہوں نور الحسن۔ ” اس کا جواب جاں افزا تھا ۔وہ نور الحسن اس نیلی آنکھوں ، سنہرے بالوں ، شہد کی رنگت والی لڑکی کی محبت سے جیت نہیں سکتا تھا ۔
لوگ محبت کو مختلف لفظوں میں بیان کرتے ہیں ۔محبت یہ ہے … محبت وہ ہے ، اور نور الحسن کہتا تھا ”محبت گُلانے ہے ۔”
وہ لکھاری نہ تھا ۔
لکھاری ہوتا تو گُلانے پر لکھتا۔
گُلانے جو وفا تھی، عشق تھی، داستانِ محبت تھی۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

گلانے — صوفیہ بٹ (قسط نمبر ۳)

Read Next

اُف یہ گرمی — فہمیدہ غوری

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!