گلانے — صوفیہ بٹ (قسط نمبر ۴ — آخری قسط)

نورالحسن دو دن کے لیے لاہور گیا تھا ۔ ولی اپنے آپ کو آزاد محسوس کر رہاتھا ۔ آج وہ دیر رات تک دوستوں میں بیٹھ سکتا تھا ۔ وہ آدھی رات تک مغیث ، فیضان اور دانش کے ساتھ بیٹھا رہا ۔ فیضان تو نو بجے ہی اٹھ کر چلا گیا تھا ۔ اس کے جانے کے بعد دانش نے اپنے لیپ ٹاپ پر جو فلم لگائی تھی۔ اس کے بعد ولی گھر جانا بھول گیا تھا۔ حالانکہ امی کا فون دو با ر آچکا تھا ۔
”گُلانے ! امی کو سلا دو پلیز، مجھے دیر لگے گی ۔ ضروری اسائن منٹ بنانی ہے ۔”ولی نے جھوٹ بولتے ہوئے گُلانے سے کہا۔
نور الحسن گھر نہیں تھا اور پھر ولی بھی گھر سے باہر امی کو نیند بھلا کب آنا تھی ؟گُلانے نے امی کو بڑی مشکل سے مطمئن کر کے سلایا اور خود کتابیں لے کر بیٹھ گئی ۔ وہ آج کل انٹری ٹیسٹ کی تیاری کرر ہی تھی ۔ گیارہ بجے نورالحسن کی کال آئی تھی ۔وہ بہت خوش تھا ،اس کا انٹر ویو بہت اچھا ہوا تھا ۔
”میں امی ، ولی اور تمہیں بہت خوشیاں دینا چاہتا ہوں ۔” نور الحسن کے خواب لفظ بن رہے تھے، اس کی خوشی اور طمانیت اس کے لہجے سے عیاں تھی اور گُلانے کے لیے نہال ہونے کو یہ ہی کافی تھا۔
”ان شا اللہ ”
”گُلانے ! ” کال بند کرتے کرتے اس نے دھیمے سے لہجے میں پکا ر ا ۔
”جی۔ ” وہ ہمہ تن گوش تھی۔
”لو یو یار۔” اس نے پہلی بار یوں اظہارِ محبت کیا تھا۔ گُلانے کے چہرے پر رنگ ہزار بکھرے ۔ وہ بہت کم اظہار کرتا تھا اور جب کرتا تھا تو جان لیوا کرتا تھا ۔
اب پڑھنا کیا خاک تھا ۔ ہینڈ آؤٹ پر لکھا ہوا تھا ” Coulomb’s Law” اور اسے نظر آرہا تھا ۔” لویو یار۔”
وہ موتیے کی کلیوں کو دیکھ دیکھ مسکاتی رہی ۔
ڈیڑھ بجے ولی کا میسج آیا ۔
”دروازہ کھولو مگر آہستہ سے امی نہ جاگ جائیں ۔”
” امی جاگیں نہ جاگیں ، نو ر ا لحسن کو ضر و ر بتا ؤ ں گی۔ ‘ ‘ اس نے دروازہ کھولتے ہی دھمکی دی۔
”تمہارا اور کام ہی کیا ہے ؟ ” وہ آہستہ سے قدم بڑھانے لگا ۔
”کہاں تھے ؟” وہ کمر پر ہاتھ رکھ کر تفتیش کرنے لگی تھی۔
”کمبائن اسٹڈی کر رہے تھے۔ ” وہ آہستہ سے بتا کرڈھیلے قدموں سے اپنے کمرے کی طرف بڑھا ۔
”تمہیں ذرا احساس ہے ، تم امی اور نور الحسن کو کتنا پریشان کرتے ہو ۔”گُلانے نے اسے احساس دلانے کی کوشش کی۔
”جان مت کھاؤ اور سو جاؤ ۔”وہ الہڑ پن سے بولا۔
و ہ اپنے کمرے میں چلا گیا ۔ گُلانے کو پتا تھا کہ کھانا تو وہ کھا کر ہی آیا ہو گا ۔ اس لیے اس کے لیے رکھے آم پلیٹ میں رکھ کر اس کے کمرے میں چلی آئی ۔ آم ولی کو اتنے پسند تھے کہ اسے کھانے کے لیے وقت دیکھناضروری نہیں تھا۔
”آم کھا لو ، ٹھنڈے ہیں ۔” ولی اپنے موبائل میں گم تھا جب وہ کمرے میں داخل ہوئی اور پلیٹ اس کے قریب رکھ کر مڑی اور کمرے سے باہر نکلنے لگی تھی کہ ولی نے اس کا ہاتھ تھام لیا ۔
٭٭٭٭٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

اس کے سامنے بریانی کی پلیٹ پڑی تھی۔
وہ کل صبح سے بھوکا تھا ۔ اس وقت کھانا اس کے سامنے پڑ ا تھامگر وہ نوالہ لینا بھولا ہواتھا ۔اس کی نگاہ کے سامنے ایک منظر بار بار آتا ۔
ثریا مقصود اس کی طرف بڑھ رہی تھی، اس کی آنکھوں میں ہوس تھی۔ ولید کو لگ رہا تھا کہ قیامت سر پر ہے ۔ایسے ہی ڈری ہو گی وہ بھی۔ ایسی ہی قیامت محسوس ہوئی ہو گی اُسے بھی۔
ایسے ہی اپنے آپ کو چھڑوا کر بھاگی تھی وہ بھی۔
وہ مرد تھا ، اپنی عزت بچانے کے لیے بھاگا تھا ، وہ تو عورت تھی ،اس پر کیا بیتی ہو گی۔
وہ رو دیا ۔ وہ میز پہ رکھے بازو پر سر ٹکا کر بچوں کی طرح رو دیا ۔ نورالحسن اور ماں کا لاڈلا ولی رو رہا تھا اورچپ کرانے والا کوئی نہ تھا ۔
ویٹر نے ترس بھری نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا تھا ۔
” آئی ایم سوری گُلانے … مجھے معاف کر دو… پلیز مجھے معاف کر دو۔ ” وہ روتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔
”بھائی …بھائی مجھے آپ سے بہت محبت ہے … میں آپ کو دیکھنا چاہتا ہوں … آپ کے گلے لگنا چاہتا ہو ں … آئی لو یوبھائی ۔ یو ہیٹ می ؟ آپ کا ولی بہت بُرا ہے … بہت بُرا۔ اب آپ اس کو سینے سے لگا کر اس کا سر کیسے چوم سکتے ہیں ؟پھر بھی پھر بھی میں روز خواب دیکھتا ہوں کہ آپ میرا ماتھا چوم رہے ہیں … ہا ہا ہا …” وہ ہنس دیا ۔ دوسری ٹیبل پر آرڈر لیتے ہوئے ویٹر کا دھیان پھر اس پر مبذول ہوا ۔
”پاگل ہوں نا میں … خواب بھی کیا دیکھتا ہوں … بھائی خواب بھی نہ دیکھوں تو کیا کروں؟ آپ نظر تو آتے ہیں خواب میں سہی۔ ” وہ وہیں سر رکھے بولتے بولتے سو گیا تھا ۔
ہوٹل کے عملے میں سے کسی نے اسے جگایا نہیں تھا ۔انسانیت ابھی بھی دنیا میں سانس لیتی تھی۔
٭…٭…٭
یہ جو ابلیس ہے نا اس نے ایک لڑکے کا پیچھا لے لیا تھا جس کو اس دنیا میں سب سے زیادہ عزیز اس کا بڑا بھائی تھا ۔ ابلیس سے بھائی بھائی کی محبت برداشت نہ ہوئی تھی ۔
اس نے بڑی پرانی چال چلی تھی۔
اس چال کا نام تھا … عورت
عورت … جس کے پیچھے قابیل نے ہابیل کا خون کر ڈالا ۔
شیطان کے حربے بدلتے ہیں’ مگر مہرے اکثر وہی رہتے ہیں ۔ا س نے جال بنا اور ولید الحسن پر پھینک دیا ۔
وہ لڑکی جو اس کے بھائی کی ہونے والی بیوی تھی، جس کے لیے وہ بھائیوں جیسی غیرت رکھتا تھا، اگر کوئی دوست مذاق میں بھی گُلانے کا نام لے دیتا یا اس کے حسن کا قصیدہ پڑھتا’ تو اس کا چہرہ لال ہو جاتا۔ جس نے پہلے مذاق پر ہی اپنے دوستوں کو سختی سے کہہ دیا تھا کہ آئندہ وہ گُلانے کا نام بھی اپنی زبان پر نہ لائیں ، وہ اسے اپنی بہن جیسی عزیز ہے ۔ گھر آ کر اس نے تپے ہوئے چہرے کے ساتھ گُلانے سے کئی بار کہا تھا کہ وہ پردہ کیا کرے ۔ اس کے کہنے کو وہ مذاق میں ٹال جاتی تھی مگر نور الحسن نے جانے کیا کہا تھا کہ وہ پردہ کرنے لگی تھی۔ اسے اچھا محسوس ہوا تھا ، اب اس کے دوستوں کی فضول نظریں اس لڑکی پر نہیں پڑیں گی جو اسے بہن جیسی عزیز تھی۔ جس کے لیے اس نے اپنے کزن فدا کو اتنا مارا تھا کہ وہ دس دن بستر سے نہ اٹھ سکا تھا ۔ اس کی غلطی یہ تھی کہ وہ انجان نمبروں سے کال کر کے گُلانے کو تنگ کرتا تھا ۔ اسے لگتا تھا کہ وہ پکڑا نہیں جائے گا مگر ولی اس تک پہنچ گیا تھا ۔اسے مارتے ہوئے ولی بھول گیا تھا کہ وہ اس کی خالہ کا بیٹا ہے ، اس سے چار سال بڑا ہے ۔ حرکت جو اس نے چھوٹی کی تھی۔
مگر اس نے ، ولید الحسن نے خود کیا حرکت کی تھی؟وہ بہن جیسی تھی ، بہن نہ تھی ۔تبھی تو وہ بہک گیا تھا ۔
کالج تک وہ شرارتی مگر صاف ستھرے خیالات کا مالک تھا۔ یونیورسٹی آتے ہی دانش اور مغیث کی معیت میں جو بیٹھنے لگا تو بہک گیا ۔ فیضان اسے سمجھاتا تھا ، نور الحسن اسے سمجھاتا تھا اور ڈانٹتا بھی تھا مگر اسے بھائی کی نصیحتیں اب بری لگنے لگی تھیں، فیضان کے سمجھانے پر وہ چڑنے لگا تھا ۔د ا نش کے پا س لیپ ٹاپ تھا ا و ر لیپ ٹا پ میں ا ک دنیا تھی ۔ وہ دنیا جو سمجھاتی کم اور بہکاتی زیادہ ہے۔
اس دن نو را لحسن گھر پر نہیں تھا ۔ اس لیے ولی کو بھی عیاشی کا موقع ملا تھا۔پڑھائی کا تو بہانہ تھا۔ رات گئے وہ لیپ ٹاپ پر شیطانی تماشے دیکھتے رہے ۔ جب وہ رات کو اُٹھ کر گھر کی طرف جا رہا تھا تو دماغ بہکا بہکا سا تھا ۔ پراگندہ سوچوں نے اس کے دماغ کو جکڑا ہوا تھا ۔ گُلانے نے دروازہ کھولا تھا اور اس سے سوال جواب کرنے لگی۔ اس کے کندھے سے دوپٹا سرکا تھا جسے اس نے درست کر لیا تھا’ مگر اس کی شفاف گردن پر سیاہ تل اس کی نگاہ میں آ گیا تھا ۔
وہ اس کے بھائی کی ہونے والی بیوی تھی، اس کے لیے بہن جیسی تھی۔
خود کو ڈپٹتے ہوئے وہ جلد ی سے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔ اس نے اپنی پراگندہ سوچوں سے چھٹکارہ پانے کی کوشش کی ۔ ایسی وڈیوز دیکھنے کے بعد وہ بعد میں شرمندہ ہوتا تھا ، توبہ کرتا تھا ۔ مگر جب سے موبائل ہاتھ آیا ،وہ شرمندگی بھی بھول گیا اور توبہ بھی۔
گُلانے اس کے کمرے میں آم لے کر آئی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ اسے آم بہت پسند ہیں ، وہ یہ نہ جانتی تھی کہ اس وقت وہ کس قدر بہکا ہوا ہے ۔ اس کی ذہنی پراگندگی سے بے خبر وہ آم کی پلیٹ اس کے پاس رکھ کر پلٹنے لگی۔
پتا نہیں کیا ہوا کہ ولی کو اس پل بھول گیا کہ وہ اس کی بہن جیسی ہے وہ اس کے بھائی کی ہونے والی بیوی ہے ۔گُلانے اس کو گھورتے ہوئے مڑی تھی اور پھر اس کی آنکھوں میں وحشت دیکھ کر دہشت زدہ ہو گئی ۔
اس وقت وہ ولی نہ تھا ، اس وقت وہ شیطان کی کوئی صورت تھا ۔
وہ لرز اُٹھی تھی۔
ولی نے اسے کھینچ کر اپنے قریب کیا تھا ۔
”ولی ……”
اس نے پھٹی آنکھوں بے یقینی کے عالم میں اس کانام لیا تھا اورولی نے اس کے منہ پہ ہاتھ رکھ کر مزید بولنے سے روک دیا تھا ۔
اس کی آنکھوں میں شیطانیت تھی، اس کی چہرے پر مکروہ پن تھا ۔
اس نے کبھی ولی کا یہ چہرہ نہ دیکھا تھا ۔ وہ دہل گئی تھی۔ اس نے اپنے بچاؤ کی کوشش کی ‘مگر اس کی گرفت مضبوط تھی۔
”اللہ … اللہ۔” ا س نے اپنے رب کو پکارا تھا ۔ کوئی نہ تھا جو اس کی مدد کو آتا۔
اپنے آپ کو بچانے کی کوشش میں ایک انگلی ولی کی آنکھ میں بہت زور سے لگی تھی۔ وہ اسے چھوڑ کر پیچھے ہوا اور ایک ہاتھ سے اپنی آنکھ مسلنے لگا۔ اس کے دوسرے ہاتھ کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی’تو گُلانے خود کو چھڑا کر بھاگ گئی۔
ولی ایک دم جیسے ہوش میں آیا تھا ۔اس کے اندر کے شیطان نے اس کے ا ند ر کے انسان کو مار دیا تھا ۔
وہ اپنے ہاتھوں میں سر تھام کر بیٹھ گیا ۔ کیا ، کیا تھا اس نے … کیا کرنے جا رہا تھا وہ۔وہ آدھا گھنٹا یوں ہی بیٹھا رہا تھا ۔
صبحہونے والی تھی۔ گُلانے امی کو بتائے گی ، بھائی کو بتائے گی اور پھر … پھر ۔
اس سے آگے وہ سوچ نہ سکاتھا ۔ وہ تیزی سے اُٹھا اور یوں ہی اسی حال میں گھر سے نکل گیا ۔
٭…٭…٭
ولی اس گھر سے نکل آیا تھا۔ اب کبھی وہ وہاں قدم نہیں رکھ سکتا تھا ۔ جو خطا اس سے ہوئی تھی وہ قابلِ معافی نہ تھی ۔ وہ خائن تھا، اس نے اپنے بھائی کی امانت میں خیانت کی تھی۔ وہ بھائی جس نے ایک باپ سے زیادہ اس کا خیال رکھا ۔ جس نے بن کہے اس کی ہر ذمے داری اُٹھائی ، جس کے فرائض اتنے نہ تھے جتنے اس نے نبھا ڈالے ۔ اس کی زندگی میں امی اور بھائی ہی تھے، ابو کی صورت تک اسے یاد نہ تھی۔وہ بہت چھوٹا تھا جب اُن کا انتقال ہو گیا ۔بھائی نے ہی باپ کا کردار ادا کیا ، اچھا برا سمجھایا، ضرورتیں پوری کیں ، فرمائشیں پوری کرنے کی کوشش کی ۔وہ امی اور بھائی سے بہت پیار کرتا تھا ۔
وہ خطا وار تھا ۔ ابلیس کے کھاتے اپنا گناہ ڈال کر مطمئن نہیں ہو سکتا تھا ۔
وہ دوبارہ گھر واپس نہ گیا ۔ وہ اس شہر ہی سے چلا گیا تھا، جیب میں چند ہزار تھے ۔ وہ اپنے ایک پرانے کلاس میٹ کے گھر گیا تھا ، کچھ عرصہ اس کے پاس رہا ۔ پھر احساس ہوا کہ یوں کسی پر بوجھ بن کر زندگی نہیں گزرنے والی ۔اس نے کئی چھوٹی موٹی ملازمتیں کیں اور ایک ایسے فلیٹ میں رہنے لگا تھا جہاں دوسرے شہروں سے روزی روٹی کی تلاش میں آئے لڑکے رہتے تھے ۔ ایک کمرے کا کرایہ چار لڑکے شیئر کرتے تھے۔ زمین پر سوتے ہوئے اسے اپنے گھر کے نرم گرم گدے یاد آتے ۔ بسوں پر دھکے کھاتے ہوئے وہ بائیک یاد آتی جو بھائی نے میٹرک کا اچھا رزلٹ آنے پر اسے گفٹ کی تھی۔ خود کھانا بناتے ہوئے امی کے ہاتھ کا ذائقہ یاد آتا ، گُلانے یاد آتی جو اس کی فرمائشیں پوری کرتی تھی۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

گلانے — صوفیہ بٹ (قسط نمبر ۳)

Read Next

اُف یہ گرمی — فہمیدہ غوری

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!