گلانے — صوفیہ بٹ (قسط نمبر ۳)

بینکوئٹ برقی قمقموں سے سجا ہوا تھا ۔سندھ ہائی کورٹ کے جج کے بیٹے کی شادی تھی ۔ صوبے بھر کی عد لیہ جمع تھی، کورٹ کے برعکس یہاں آپس کے تناؤ ، حسد اور کینہ کی کیفیات میں کمی تھی۔ سب مسکرا رہے تھے ۔
”آپ کب خوش خبری سنا رہے ہیں جناب؟” وہ جو چند پرانے دوستوں کے ساتھ کھڑا کسی بات پر مسکرا رہا تھا ، یک دم سنجیدہ ہو گیا ۔یہ سوال ہمیشہ اسے مشکل میں ڈال دیتا تھا ۔قرة العین نے اسے اس مشکل میں سے نکالا تھا ۔ وہ موضوع کو جسٹس عتیق سلیمان کی طرف لے آئی تھی جنہوں نے حال ہی میں دوسری شادی کی تھی اور ابھی تک اسے خفیہ رکھنے کی کوشش کررہے تھے۔
وہ اس گروپ میں سے خاموشی سے نکل آیا اور اعتبار احمد کے پاس آ کر بیٹھ گیا جو اپنی فیملی کے ساتھ آئے ہوئے تھے ۔
”آج تو قرةالعین 60s کی فلمی ہیروئن لگ رہی ہیں ۔” اعتبار احمد نے ہنستے ہوئے تبصرہ کیاتو وہ بھی اسے دیکھنے لگا ۔ دیکھا تو پہلے بھی تھا ، غور اب کیا تھا ۔
نیلی ساڑھی ، بالوں کے جوڑے اور آنکھوں میں کاجل کے ساتھ وہ واقعی بہت مختلف مگر اچھی لگ رہی تھی۔
”پاپا! مما کس دور کی ہیروئن لگ رہی ہیں ؟” اعتبار احمد کی بیٹی نے سوال کیا تو پہلے تو کچھ دیر بیگم کو غور سے دیکھتے رہے ، بیگم جھینپ سی گئیں مگر پھر شوہر نامدار کا جواب سن کر جل بھن گئیں ۔
”ہیروئن ! … دیکھو بیٹا اس عمر میں مجھ سے جھوٹ نہ بلواؤ تو اچھا ہے ۔” وہ ہنستے ہوئے کہہ رہے تھے ۔ ان کی دونوں بیٹیاں بھی ہنس دیں جبکہ بیٹا ماں کے لیے بول پڑا۔
”میری مما ہر دور کی ہیروئن ہیں ۔”
”پاپا ! دیکھا مما کا چمچہ۔” لڑکیوں میں سے ایک نے باپ کی طرف داری کی۔
”تم چمچی ہو پاپا کی۔ ”اب کی بار وار بیٹے کی طرف سے ہوا تھا۔
بہن بھائیوں میں جھڑپ شروع ہو گئی تھی۔ وہ دلچسپی سے انہیں دیکھتے ہوا جانے کہاں کھو گیا۔ ایسی جھڑپوں کے کئی منظر نگاہ کے سامنے آئے اور گئے ۔
”کتنا پاگل تھا میں ، جو یہ سمجھتا تھا کہ ان کے بیچ بہن بھائیوں والی نوک جھونک ہے ۔جج ہو کر بھی جج نہ کر پایا کہ ان کے بیچ کیا چل رہا ہے ۔” اس کا ذہن ماضی میں کھو گیا تھا۔
”بچو بور تو نہیں ہو رہے نا۔” قرة العین کی آواز اسے حال میں کھینچ لائیتو بڑی مشکل سے اس نے اپنے آپ کو نارمل کرتے ہوئے اس کی طرف دیکھا جو ان کے ساتھ آ کر بیٹھ چکی تھی۔
”پاپا آپ کو 60s کی ہیروئن کہہ رہے ہیں ۔” اعتبار احمد کی چھوٹی بیٹی کے بتانے پر وہ کھلکھلا کر ہنس دی۔ہنستے ہنستے نظر جو اس پر پڑی تو اسے اپنی جانب دیکھتا پا کر جھینپ گئی ۔
اس کے ٹرانسفر کے بعد وہ اسے پہلی باردیکھ رہی تھی۔ وہ مزید کم زور اور سنجیدہ لگ رہا تھا ۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

بچیاں کھانا بھول کر سیلفیز لینے لگی تھیں۔ انہوں نے قرة العین کو بھی ساتھ شامل کرنا چاہا۔ اسے پرانی ڈانٹ بھولی نہیں تھی اس لیے اس نے زیادہ جوش نہ دکھایا۔ ویسے بھی اس نے ساڑھی پہلی بار پہنی تھی، اسے سنبھالنا اس کے لیے دوبھر ہو رہا تھا ۔ وہ اس شادی میں شرکت کے لیے کراچی اپنے چچا کے گھر آئی ہوئی تھی۔ اپنی کزن کے اصرار پر اس نے ساڑھی اور لمبی ہیل پہن لی تھی ، مگر اب احساس ہو رہا تھا کہ اچھا، خوب صورت اور مختلف لگنے کے لیے اہتمام کرنا کوئی اتنا آسان کام نہیں ۔
وہ لوگ واپسی کے لیے نکلنے لگے تو اس نے قرةالعین کو ڈراپ کرنے کی پیش کش کی تھی جسے مسترد کرنے کی بے وقوفی بھلا وہ کیسے کر سکتی تھی؟گاڑی کی طرف جاتے ہوئے اس نے دیکھا ، قرةالعین سنبھل سنبھل کر قدم اٹھا رہی تھی۔ اسے ڈر تھا کہ کہیں پلو قدموں تلے نہ آ جائے یا ہیل میں اس کا پاؤں نہ مڑ جائے ۔
وہ ہلکا سا مسکرادیا…
”ضرورت کیا تھی اپنے آپ کو اتنی مشکل میں ڈالنے کی؟” اس کے لیے دروازہ کھولتے ہوئے وہ بولا ۔ وہ اس کی مسکراہٹ دیکھ چکی تھی اس لیے شاد تھی ۔
”میں نے سوچا شاید کسی کی نظرِ کرم پڑ جائے ۔” اس نے معنی خیز انداز میں کہا تو وہ ہونٹ بھینچ کر رہ گیا ۔
وہ کراچی کی ٹریفک پر نظریں جمائے ڈرائیونگ کر رہا تھا ، قر ة العین نے میوزک آن کر دیا ۔ لتاکی دل میں اُترتی آوازجادو سا جگانے لگی تھی۔ قرة العین غنی کو یہ لمحات بہت حسین لگ رہے تھے ۔ وہ چور نگاہوں سے اس کی طرف دیکھتی رہی ۔ آج اس کے چہرے پر بھی بہت نرم سے تاثرات تھے ۔
” آپ کوکوئی درمیانی عمر کی اچھی سلجھی ہوئی وفادار عورت ملی نہیں؟ جو بھلے بیوہ ہو یا مطلقہ۔” اس کے شہر سے جاتے جاتے اس نے کسی ایسی ہی خواہش کا ذکر کیا تھا ناں ۔
”آپ نے ڈھونڈی ہی نہیں ۔” اس نے سادگی سے جواب دیا ۔
”آپ کے دوست نے تو کئی ڈھونڈ کر بائیو ڈیٹا آپ کے سامنے رکھا تھا۔”
وہ چپ رہا ، کیا بتاتا کہ وہ ارادہ تو محض اسے کسی بھی قسم کی خوش فہمی سے نکالنے کے لیے ظاہر کیا گیا تھا ۔وہ ایک بے وفا کو بھول پاتا تو کسی وفادار پر نظر ڈالتا ۔
اسی لمحے ا س کی نظر آگے جاتے ہوئے موٹر سائیکل پر پڑی جس پر دو جوان سوار تھے ۔ پیچھے بیٹھے لڑکے کی پشت اسے نظر آ رہی تھی۔ جانے کیوں اسے لگا ہر شے جیسے ساکت ہو گئی ہو ۔ اس موٹر سائیکل کے علاوہ اسے کچھ اور نظر نہیں آ رہا تھا ۔ جب موٹر سائیکل اس کی نگاہ سے اوجھل ہونے کو آئی تو اسے ہوش آیا ۔ اس نے گاڑی کی اسپیڈ ایک دم بڑھا دی۔ وہ اس موٹر سائیکل تک پہنچنا چاہتا تھا ۔ اب جب اس کے برابر پہنچ گیا اور پیچھے بیٹھے لڑکے کو دیکھا ۔
یہ وہی تھا جس کو وہ عمر بھر دیکھنا نہیں چاہتا تھا اور جس کو دیکھنے کے لیے اس کی آنکھیں ترس گئی تھیں ۔
اس کی دلی کیفیت سے بے خبر قرةالعین نے اس کی طرف دیکھا اور کچھ کہنے کے لیے ہونٹ وا کیے ،پھر بند کر لیے ۔
”یہ عمر بھر کچھ نہ کہے گا قرة العین ، تمہیں ہی پہل کرنی ہو گی، پھر جانے کب ملاقات ہو ۔” اس نے سوچا ۔ کورٹ کے مخصوص ماحول سے نکل کر آج رومانوی سے ماحول میں یہ لمحے بیت رہے تھے اور ویسے بھی اس کی ٹرانسفر کے بعد پہلی بار وہ ملے تھے ۔اس پر اس موسم ، اس موسیقی اور ان لمحوں کا فسوں طاری ہونے لگا تھا۔ اور پھر اس نے اس کی طرف دیکھا ۔
وہ جو اچانک تیز رفتاری سے ڈرائیو کر نے لگا تھا اب ڈھیلا پڑ گیا تھا۔موٹر سائیکل سڑک پر بھاگتی ہوئی اتنا آگے نکل گئی تھی کہ اس کی نگاہ سے اوجھل ہو گئی۔
اس وقت اس کے اندر کیا اتھل پتھل ہو رہی ہے اور وہ کس کیفیت سے گزر رہا ہے ، اس سے بے خبر قرةالعین نے اپنے جذبات کے اظہار کے لیے غلط وقت کا انتخاب کر لیا تھا ۔
قرةالعین نے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا ۔اس نے چونک کر فورا ًاپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا ۔
”میں اب یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتی کہ مجھے آپ سے بہت محبت ہے ۔”وہ نادان سی لڑکی غلط وقت پر غلط بات کر بیٹھی تھی۔
”محبت کی الف ب کا بھی پتا ہے تمہیں ؟ ‘ ‘ و ہ گا ڑ ی ر و ک کر ا س کی طر ف مڑ ااور د ر شت لہجے میں بولا۔
”محبت کی تعریفمجھے نہیں پتا … اتنا جانتی ہوں کہ آپ کو دیکھ کر جو محسوس کرتی ہوں وہ محبت ہے ۔”وہ بنا رکے کہے جارہی تھی۔
”ہوں …” وہ ہنکارا مار کر سیدھا ہوا ۔
”دس سال بعد یہ بات کرنا ، شاید مجھے یقین آجائے ۔ تمہاری عمرکی لڑکیوں کے لیے محبت کھیل ہے ، مذاق ہے بس۔ ”اس نے لہجے میں کڑواہٹ بھرتے ہوئے کہا۔
”میرے لیے محبت کھیل یا مذاق نہیں ہے ، میرے لیے محبت تو زندگی ہے۔ آج سے دس سال بعد بھی میرے الفاظ یہی ہوں گے ۔”وہ استہزائیہ انداز میں ہنس دیا ۔ قرةالعین کو یہ ہنسی بہت بری لگی تھی۔
”آپ کو کیا لگتا ہے ہر کم عمر لڑکی بے وفا ہوتی ہے ؟پہلی بات تو یہ کہ میں اتنی بھی کم عمر نہیں ، دوسری بات یہ کہ ہر لڑکی گُلانے نہیں ہوتی۔ ”وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کررہی تھی۔
”شٹ اپ۔ ” وہ چلایا ۔
”اس نے آپ کے ساتھ بے وفائی کی ، احسان فراموشی کی ، شادی سے کچھ دن پہلے آپ کے بھائی کے ساتھ بھاگ گئی ۔”وہ نہیں جانتی تھی کہ اس وقت اس کے لہجے میں یہ نڈر پن کہاں سے آیا تھا۔
”نکلو … نکلو۔ ” اس کے منہ سے نکلتے الفاظ نا قابلِ برداشت ہوئے تو اس نے گاڑی سے اُترنے کا حکم دیا ۔
”کیا ہو ا؟ سچ سننا مشکل لگتا ہے نا؟لیکن میں یہ کہے بغیر نہیں رہوں گی کہ اپنی منگیتر اور اپنے بھائی کے کیے کی سزا کسی اور کو مت دیں ۔” اگر کوئی نو ر الحسن کے ماضی کے حوالے سے اس پر ہنستا تھا، افسوس کرتا تھا ، طعنہ دیتا تھا تو قرة العین غنی اس کے لیے لڑتی تھی، لیکن آج وہ اسے سنا رہی تھی۔ کب تک… آخر کب تک اپنے جذبوں کی پامالی سہتی۔
”تم … تم … پلیز میری گاڑی سے نکل جاؤ ۔” اس نے نہ صرف درشت لہجے میں اسے گاڑی سے اتر جانے کو کہا بلکہ تھوڑاسا آگے کو ہو کر اس کی جانب کا دروازہ بھی کھول دیا تھا ۔
قرة العین نے بے یقینی کے ساتھ اس مہذب بندے کو دیکھا جس کے چہرے پر صاف صاف لکھا تھا کہ وہ اس وقت اس کی صورت دیکھنا چاہتا ہے نہ ہی اس کے ساتھ مزید کلام کرنا چاہتا ہے ۔
قرةالعین اپنا بیگ اُٹھا کر اُترگئی۔وہ گاڑی آگے بڑھا لے گیا مگر اس کی تربیت ایسی نہ تھی کہ رات کے اس وقت ایک لڑکی کو تنہا سڑک پر چھوڑ کر چلا جاتا ۔کچھ آگے جا کر وہ رکا اور پھر گاڑی بیک کی اور اس کے قریب لا کر کھڑی کی ۔
”آؤ بیٹھو ۔”
احساسِ توہین نے قرة العین کا چہرہ سرخ کردیا تھا ۔ وہ اب اس بندے کی گاڑی میں بیٹھنا نہیں چاہتی تھی ۔ نو ر الحسن رکا رہا اورو ہ کھڑی رہی۔ بالآخر وہ گاڑی سے نکل کر اس کے قریب آیا اور گاڑی کا فرنٹ ڈور کھولا۔
”بیٹھو۔”
وہ گاڑی میں بیٹھ گئی۔ نو ر الحسن نے اسے اس کے چچا کے گھر کے سامنے اُتارا۔ سارے راستے دونوں نے ایک دوسرے سے بات نہیں کی تھی۔
٭…٭…٭
شوکت علی نے نہایت فکرمند ی کے ساتھ صاحب کو دیکھا اور ایک بار پھر ہمت کر کے سوال کیا ۔
”شوکت علی ! جا کر سو جاؤ ۔ مجھے بھوک لگی تو کچھ کھا لوں گا ۔”اس جواب سے شوکت علی مطمئن نہ ہوا ، لیکن وہاں سے چلا گیا۔
کل صبح صادق وہ گھر پہنچا تھا ۔ اس کے بعد آفس گیا نہ ہی گھر سے باہر نکلا تھا۔ اس نے کھانے کا ایک نوالہ تک منہ میں نہیں ڈالاتھا۔ بس سگریٹ پہ سگریٹ پھونک رہا تھا ۔
شوکت علی نے ایک دفعہ پھر ہمت کرنی چاہی مگر نورالحسن نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روک دیا ۔
”صبح ناشتے میں جو بناؤ گے ، کھا لوں گا۔”
شوکت علی اسی پر مطمئن ہو گیا ۔ اسے پتا تھا کہ اس کا صاحب جھوٹ نہیں بولتا ۔ وہ سر ہلا کر لوٹ گیاجب کہ وہ وہیں لان میں بیٹھا سگریٹ پر سگریٹ سلگاتا اور کلیجا جلاتا رہا ۔
رات چاندنی تھی مگر اسے ہر طرف اندھیرا محسوس ہورہا تھا۔ اس کی زندگی کو اندھیر کرنے والے کون تھے ۔
اس کے اپنے ہی دو پیارے ۔
وہ ، جن کے لیے وہ جیتا تھا ، جن کے لیے وہ خواب دیکھتا تھا ، جن کو بہتر پر آسائش مستقبل دینے کے لیے رات رات بھر جاگ کر پڑھتا تھا ۔دن دن بھر کورٹ میں سر کھپاتا تھا ۔
انہوں نے اس کے ساتھ کیا ، کیا ؟رات کے اندھیرے میں اس کی ذات کوقدموں تلے روند کرگھر سے نکل گئے۔ کوئی ترس بھری نگاہ سے اسے دیکھتا ، کوئی دل ہی دل میں ہنستا تو کوئی سر عام طعنہ دے ڈالتا ۔
”سیشن جج نو ر الحسن کی ہونے والی بیوی اس کے چھوٹے بھائی کے ساتھ بھاگ گئی۔”
جب بھی یہ ذکر چلتا اسے لگتا کہ اس کے زخموں پہ وقت نے جو ٹانکے لگائے تھے وہ پھر اُدھڑ گئے ہیں۔ وہ بہت چاہتا مگر نہ انہیں بھو ل پاتا ، نہ ہی اُن سے نفرت کر پاتا ۔
ایک ماں جایا تھا ، دوسری دل کی دھڑکن تھی، نہ خون سے رشتہ ختم ہوتا تھا نہ دھڑکن سے ناتا توڑنے پر قادر تھا وہ۔
وہ مختار نہ تھا۔ وہ بہادر بھی نہیں تھا ۔ ہاں وہ بزدل تھا ، وہ نہیں سن سکتا تھا ۔اس کی ہونے والی بیوی اس کے چھوٹے بھائی کے ساتھ بھاگ گئی ۔وہ نہیں سن سکتا تھا ۔ایسا کہنے والے کا منہ نوچ لینے کو جی چاہتا تھا ۔ وہ ایک جج تھا مگر یہ سچ نہیں سن سکتا تھا ۔
٭…٭…٭
قیامت کا منظر کئی کتابوں میں پڑھا تھا ، کئی فلموں میں بھی دیکھا تھا مگر جو قیامت اس گھر میں آئی تھی وہ کہیں زیادہ ہولناک تھی ۔
ہاں! جب اس کے خواب تعبیر پانے جا رہے تھے ، جب وہ بہت خوش خوش گھر لوٹنا چاہتا تھا ۔ امی کی ایک فون کال نے اس کا دل دھڑکا دیا تھا۔ وہ روتے ہوئے کہہ رہی تھیں ۔
”جلدی گھر آؤ نورالحسن۔ ”
وہ وجہ پوچھتا رہ گیا مگر جواب کوئی نہ ملا ۔اسے پہلے ہی گُلانے کی طرف سے آنے والے ایک میسج نے پریشان کر رکھا تھا ۔ رات گیارہ بجے تک تو سب کچھ ٹھیک تھا مگر صبح جب وہ اٹھا اور نمازِ فجر ادا کرنے کے بعد موبائل دیکھا تو گُلانے کا ایک میسج تھا ۔
”مجھے معاف کر دیجیے گا نور الحسن۔”
صبح تین بجے یہ میسج کیا گیا تھا وہ ہلکا سا مسکر ادیا ۔
”اب کیا کر دیا اس نے ؟”
گُلانے بہت حساس تھی۔ نور الحسن کے نزدیک جو چھوٹی سی بات ہوتی’ وہ اسے بھی سوچ سوچ کر پریشان رہتی تھی اور معافی مانگے بنا اسے سکون نہیں ملتا تھا ۔
اس نے یاد کرنے کی کوشش کی مگر اسے یاد نہیں آیا کہ رات گُلانے سے کیا گستاخی ہوئی کہ معافی مانگے بنا اسے نیند نہ آئی۔ اس نے مسکراتے ہوئے گُلانے کا نمبر ڈائل کیا مگر وہ آف جا رہا تھا ۔
”اُٹھ جائیں میم … صبح ہو گئی ہے۔” اس نے اسے میسج کیا اور صبح کی سیر کے لیے باہر نکل آیا۔ ابھی وہ واپس آکر شاور لینے کا ارادہ رکھتا تھا کہ امی کا فون آیا تھا ۔ وہ رو رہی تھیں ۔
”جلدی گھر آؤ نورالحسن۔ ”
اس نے بہت پوچھا مگر امی نے روتے ہوئے فون رکھ دیا تھا ۔ اس نے پریشانی کے عالم میں ولی اور گُلانے کا نمبر بھی ملایا تھا ۔ ولی کا نمبر بند جا رہا تھا اور گُلانے فون اٹھا نہیں رہی تھی۔ وہ بہت پریشانی کے عالم میں گھر لوٹا تھا ۔
امی کی طبیعت بہت خراب تھی ۔ ثانیہ بھابی ان کے پاس تھیں ۔اس کی نظروں نے ولی اور گُلانے کو تلاش کیا مگر دونوں نظر نہ آئے ۔وہ انہی قدموں پر ڈاکٹر کو لانے کے لیے مڑا ۔
”نو ر الحسن ! ”امی نے اسے پکارا ۔ ان سے بات نہیں ہو رہی تھی۔ انہوں نے اسے اپنے قریب بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔وہ ان کے پا س آ کر بیٹھ گیا ۔ امی کوئی بات نہیں کر رہی تھیں ، ان کی آنکھوں سے بس آنسو رواں تھے ۔
”امی ! کیا ہوا ہے آپ کو ؟ ” وہ بے حد پریشان ہوا پھر ثانیہ بھابی کی طرف مڑا ۔
” بھابی … ولی اور گُلانے کہاں ہیں ؟”
بھابی نے بھی کوئی جواب نہ دیا ۔
”ولی کہاں ہے بھابی اور یہ گُلانے کہاں چلی گئی ؟”اس کا ضبط جواب دیتا جارہا تھا۔
اس بار ثانیہ بھابی نے جواب دیا ۔ اسے کوئی دھماکا سا محسوس ہوا تھا۔ پتا نہیں چھت سرپر آگری تھی یا آسمان؟ یا شاید کوئی بم پھٹا تھا ۔ اسے بس یہ پتا چل رہا تھا کہ اس دھماکے میں اس کی ذات ، اس کے غرور ، اس کے اعتماد کے پرخچے اُڑ گئے تھے اوراس کے بعد وہ زندوں میں رہا تھا نہ مردوں میں ۔ روبوٹ سا بنا پھرتا تھا اس دنیا میں ۔
امی کوایسا غم لگا کہ پھر سنبھل ہی نہ پائیں ۔ ہر وقت آنکھیں برستی رہتیں اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ رو رو کر ان کی آنکھیں خشک ہو گئیں ۔آہستہ آہستہ خبر گھر سے نکل کر خاندان تک پہنچی۔
”میں تو کہتی تھی جوان لڑکوں کے سامنے قیامت بنی چلی پھرتی ہے ، گل کھلائے گی کسی دن۔” خالہ بہن کے دکھ کو محسوس کرنے سے زیادہ اس بات پر خوش تھیں کہ ان کی پیشین گوئیاں پوری ہوئیں اور پھر نو ر الحسن بھی تو پھر سے اپنا اپنا لگنے لگا تھا ۔
”میں تو پہلے ہی کہتی تھی کہ گُلانے اور ولی زیادہ ساتھ ساتھ رہتے ہیں، تقریباً ہم عمر بھی ہیں ، پھر ان کے بیچ دوستی بھی ہے ۔ اور آپس میں پتا نہیں کیا کیا باتیں کرتے تھے پشتو میں ، ہمیں کہاں سمجھ آتی تھیں۔ ” چچی بھی ہمدردی کی آڑ میں جانے کیا کیا سنا جاتیں،وہ امی کی حالت دیکھتا تو اس کا دل چا ہتا کہ وہ انہیں کسی ایسے جزیرے پر لے جائے جہاں کوئی رشتہ دار ، کوئی محلے دار نہ ہو ۔
وہ خود ایک جانا مانا وکیل تھا ۔ اتنی محنت سے جو نام کمایا تھا وہ اب ہنسی میں اڑنے لگا تھا ۔جو کچھ بھی ہوا ، اس کا تصور بھی وہ کبھی نہیں کر سکتا تھا ۔ اس کے اپنے دو پیارے اس کے منہ پر طمانچہ مار کر نکل گئے تھے ۔ اکیلا ہوتا تو لگتا کہ دل غم سے پھٹ جائے گا مگر مرد تھا ، مضبوط تھا ، کسی نہ کسی طور سہ لیتا تھا ۔ امی کی اسے فکر زیادہ تھی۔
اس نے کمیشن پاس کر لیا تھا ۔ اس کی زندگی کا بہت بڑا خواب پورا ہوا تھا مگر یہ خبر جان کر وہ مسکرا تک نہیں پایا تھا ۔ امی کی خشک ہوئیں آنکھیں اس دن پھر سے بہنے لگی تھیں ۔
”میں کہتی تھی ناں نور الحسن ! مت کرو کامیابی کی دوڑ میں اپنے آپ کو اتنا مصروف کہ جب منزل پر پہنچو تو پانے کے بجائے کھونے کا احساس ہو ۔” امی کو لگتا تھا کہ اس کی مصروفیات کی و جہ سے یہ سب ہوا۔ اگر وہ گُلانے کو وقت دیتا ، اس کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کا خیال رکھتا تو وہ ولی کی طرف مائل نہ ہوتی۔
”کیا کر دیا ولی تُو نے ؟” وہ دل ہی دل میں ولی سے بھی مخاطب ہوتیں ۔ اسے کبھی نہ بخشنے کی دھمکی دیتیں ۔ انہیں ولی پر غصہ تھا ، ولی سے گلہ تھا ، ولی سے ہی ہر شکوہ تھا ۔ گُلانے پر انہیں صرف غصہ تھا جس نے ان کی محبتوں کا یہ صلہ دیا ۔
بحیثیت جج اس کی پوسٹنگ ہوئی تو وہ امی کو لے کروہاں سے چلا گیا ۔ یہاں خوب صورت بنگلہ تھا ، نوکر چاکر تھے ، گاڑی ڈرائیور سب تھا۔ عزت تھی ، نام تھا ۔ہائی رینک کے آفیسرز کی طرف سے اسے کرٹسی کال دی گئی۔ بڑے بڑے سیاست دانوں کی طرف سے اسے تہنیتی پیغامات موصول ہوئے ۔ اسے وہ زندگی ملی تھی جس کے خواب وہ کبھی دیکھا کرتا تھا ۔ مگر ولی اور گُلانے کو مائنس کر کے کچھ بھی نہ بچا تھا۔ بے شک وہ دنیا کا طاقت ور ترین ، امیر ترین اور کامیاب ترین مرد بن جاتا ۔
دونوں ماں بیٹا بس جی رہے تھے ۔ امی پچھتاتی تھیں کہ کیوں محرم نا محرم کا خیال نہ کیا اور جوان لڑکی کوگھر بٹھائے رکھا ۔ چلو پہلے تو مجبوری تھی۔ ڈاکٹر فضل الٰہی کے آنے کے بعد کیا مجبوری تھی؟ تب ہی دانش مندانہ فیصلہ کرتیں اور گُلانے کو ان کے ساتھ بھیج دیتیں ۔مگر تب انہیں محرم نا محرم جیسی باتیں سمجھ نہ آتی تھیں ۔وہ ان ننانوے فیصد ماؤں جیسی تھیں جن کو لگتا تھا کہ ان کی اولاد سے تو کوئی غلطی ہو ہی نہیں سکتی ۔ انہیں اپنی تربیت پر بھروسا تھا ۔وہ جانتی تھیں کہ ان کے بیٹے نیک صفت ہیں ۔ وہ یہ نہیں جانتی تھیں کہ ابلیس نیکو کاروں ہی پر وار کر تا ہے ۔ جو پہلے بگڑے ہوں ، ان میں شیطان کو کیادلچسپی ؟ اسے تو لطف ملتا ہے صاف ستھرے پاکیزہ دلوں کو میلا کر کے ۔
امی کو ولی اور گُلانے دونوں پر بہت غصہ تھا’ مگر آہستہ آہستہ غصہ گُلانے پر رہ گیا اور ولی کی فکر ستانے لگی۔ کیا کرتیں؟ تھیں تو وہ ماں ہی۔
جانے کہاں ہو گا ؟ کس حال میں ہو گا ۔جانے کیا کھایا ہو گا ۔ کیا پیا ہو گا ؟
زیورات کے ڈبے دیکھتیں تو سوچتیں!
”یہ ہی لے جاتے تو کچھ دن اچھا گزارہ ہو جاتا ۔”
”کتنے دن ہو گئے ہیں اس کا چہرہ نہیں دیکھا ۔”آہستہ آہستہ فکر کے ساتھ یاد بھی ستانے لگی۔
پھر فکر اور یاد حسرت بننے لگی ۔
”مرنے سے پہلے ایک بار اس کو دیکھ لوں ۔”
لیکن یہ حسرت پوری نہ ہو سکی اور وہ خالقِ حقیقی سے جا ملیں ۔
ان کی طبیعت اچانک ہی کچھ خراب ہوئی، اپنے قدموں پر چل کر وہ نورالحسن کے ساتھ اسپتال جانے کے لیے نکلیں اور اسپتال پہنچنے تک اللہ کو پیاری ہو گئیں ۔ نورالحسن کے ہاتھوں ہی میں انہوں نے جان دی ۔
”ولی کو معاف کر دینا نور الحسن ، وہ چھوٹا تھا نا سمجھ تھا، ایک لڑکی کے جا ل میں پھنس گیا ۔”امی کے نزع کے عالم میں آخری الفاظ یہ تھے۔
”میں نے دونوں کو معاف کر دیا ہے امی، آپ بھی کر دیں ۔مجھے ان سے کوئی شکوہ کوئی گلہ نہیں۔”اس نے ماں کا ہاتھ پکڑ کر ہونٹوں سے لگاکر روتے ہوئے کہا ۔
امی نے اثبات میں سر ہلایا اور مزید کوئی بات نہ کر پائیں ۔
امی کیا گئیں ، اسے لگا کہ سر سے دعاؤں والا ہاتھ اُٹھ گیا ۔زندگی بوجھ سی لگنے لگی ۔ اس نے اپنے آپ کوسب سے ا لگ تھلگ کرکے اپنے کام میں جی لگا لیا ۔ وہ محض جج نہ تھا ، ایک با ضمیر جج تھا ۔ جس کی وجہ سے اسے چاہنے والے بہت تھے توحاسداور دشمن بھی بہت تھے ۔ اور ان سب باتوں سے بے نیاز نورالحسن نے اپنے آپ کو اپنے کام تک محدود کر لیا تھا ۔گھر سے کورٹ ، کورٹ سے گھر … اس کے علاوہ اس کی کوئی مصروفیت نہ بچی۔ وہ تو اعتبار احمد تھے جو اس کے چوبیس گھنٹے کی روٹین میں ذرا تبدیلی لانے کا باعث بنے ۔اس کے بعدایک جونیئر وکیل تھی قرةالعین غنی جو زبردستی اس کی زندگی میں اپنا کردار شامل کرنا چاہتی تھی۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ دل کے معاملات میں زبردستی نہیں ہوتی ورنہ شاہانہ میں کیا کمی تھی۔
٭…٭…٭
یہ جو ابلیس ہے نا یہ قبر تک انسان کی جان نہیں چھوڑتا ۔ محبت بھرے دلوں کی مسکان اس سے برداشت نہیں ہوتی۔ اس کو سازشوں سے بنے غلاظت سے لتھڑے قہقہے پسند ہیں ۔
یہ جو ابلیس ہے نا اس نے ایک لڑکے کا پیچھا لے لیا تھا جس کو اس دنیا میں سب سے زیادہ عزیز اس کا بڑا بھائی تھا ابلیس سے بھائی بھائی کی محبت برداشت نہ ہوئی ۔
اس نے بڑی پرانی چال چلی تھی۔
اس چال کا نام تھا … عورت ۔
عورت … جس کے پیچھے قابیل نے ہابیل کا خون کر ڈالا تھا۔
٭٭٭٭٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

نیلی جھیل — شفیق الرحمٰن

Read Next

گلانے — صوفیہ بٹ (قسط نمبر ۴ — آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!