”نور ۔”وہ ہاسٹل گیٹ کی طرف بڑھ رہی تھی جب خزیمہ ا س کے سا منے آ یا،وہ ایک جھٹکے سے رکی ۔
”میں بہت دیر سے آپ کا ویٹ کر رہا ہوں ۔”اس کے سامنے آکر اس نے بے ساختہ کہا۔
”کیوں ؟” نقاب سے جھانکتی آنکھیں ہی کافی تھی یہ سمجھانے کو کہ انتظار فضول ہے، مگر دل کو ایسے اشارے سمجھ نہیں آتے ۔
”مجھے آپ…آپ سے کچھ کہنا تھا ۔” خزیمہ داؤد کو جاننے والے اس کے کمال کے اعتماد کی مثال دیتے تھے ، مگر اس لڑکی کے سامنے اس کا سارا اعتماد دھواں بن کر فضا میں تحلیل ہونے لگتا تھا ۔
”جو کہنا ہے ، ڈیپارٹمنٹ میں کہیے گا ۔” وہ قدم آگے بڑھانے لگی’ مگر خزیمہ جلدی سے پھر اس کے سامنے آگیا۔ یہ موقع وہ ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا ۔
”نو ر پلیز! ” اتنے دن کے انتظار کے بعد تو یہ موقع ملا تھا ۔ ہانیہ نے صاف منع کر دیا تھا کہ وہ اس سلسلے میں اس کی کوئی مدد نہیں کر سکتی۔ان دنوں وہ گھر گئی ہوئی تھی تو خزیمہ کو لگا کہ یہی موقع ہے حالِ دل بیان کرنے کا ۔
”خزیمہ داؤد ! آپ اپنا اور میرا تماشا بنا رہے ہیں ۔” ہاسٹل گیٹ پر موجوداسٹاف اور آتی جاتی لڑکیوں کی نظریں اپنے اوپر پاکر اسے اچھا نہیں لگ رہا تھا ۔
”نہیں … میں ایسا نہیں چاہتا ، صرف آپ سے کچھ دیر بات کرنا چاہتا ہوں ۔پلیز! ” اس نے سامنے والے لان کی طرف اشارہ کیا ۔
”میرا خیال ہے مجھے آپ کی بات سن ہی لینی چاہیے تا کہ یہ قصہ تو تمام ہو۔” وہ یہ کہتے ہوئے لان کی طرف آئی اور ایک بنچ پر بیٹھ گئی ۔
وہ قصہ تمام نہیں کرنا چاہتا تھا بلکہ قصہ شروع کرنا چاہتا تھا اس لیے اسے سوچنا پڑا کہ بات کس طرح شروع کر ے ۔
”نور ! ہم فائنل ائیر میں آگئے ہیں ۔”یہ بات نور بھی جانتی تھی مگر تمہید باندھنا بھی تو ضروری تھا۔
”نور ! مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے جب میں نے پہلی بار آپ کی آواز سنی ،یقین کریں …”
”کام کی بات کریں خزیمہ داؤد ۔”نور نے تیز آواز میں کہا۔
”نور ! آپ نے مجھے ہرادیا نہ صرف پڑھائی کے میدان میں بلکہ … بلکہ … نور ! مجھے آپ سے محبت ہو گئی ہے۔ میں آپ سے … آپ سے شادی کرنا چاہتا ہوں ۔”خزیمہ نے ڈرتے ڈرتے، دھڑکتے دل کے ساتھ حالِ دل بیان کردیا تھا۔
”کہہ دیا آپ نے ۔ جو کہنا چاہتے تھے ؟”نور نے کچھ دیر اس کے مزید بولنے کا انتظار کیا پھر گویا ہوئی :
” اب میری بات غور سے سنیں اور یاد رکھیں خزیمہ داؤد … میں آپ سے شادی نہیں کروں گی۔”
”کیوں ؟” اتنے صاف صاف جواب کی امید اسے ہر گز نہ تھی۔
” میں نے آپ کے سوال کا جواب دے دیا ۔اب پلیز ذرا میچورٹی کا ثبوت دیں اور آئندہ ایسی بات ہر گز نہ کیجیے گا ۔”
”نہیں آپ نے میرے تمام سوالوں کا جواب نہیں دیا ۔”خزیمہ اسے ایسے جانے نہیں دے سکتا تھا۔
”گوکہ میں پابند نہیں آپ کے ہر سوال کا جواب دینے کے لیے ، پھر بھی آپ پوچھیں، کیا پوچھنا چاہتے ہیں ۔ ” صاف ظاہر تھا کہ وہ واقعی قصہ تمام کرنا چاہتی تھی۔
”آپ مجھ سے شادی کیوں نہیں کرنا چاہتیں ؟” اسے امید تھی کہ وہ اسے منا لے گا،اس کے ہر عذر کو ختم کر دے گا ۔
”کیوں کہ میں انگیجڈ ہوں ۔ ‘ ‘ اس نے ٹھہر ٹھہر کر ہر لفظ ادا کیا تاکہ خزیمہ داؤد کو صحیح طرح سے سمجھ آجائے ۔ وہ سکتے میں آیا تھا ۔
”آپ … آپ جھوٹ بول رہی ہیں ۔” وہ چلایا تھا ۔
”مجھے آ پ سے جھو ٹ بو لنے کی کیا ضرورت ہے؟” وہ پراعتماد لہجے میں بولی۔
”آپ ایسا … ایسا اس لیے کہہ رہی ہیں تاکہ میں آپ کا پیچھا چھوڑ دوں ۔ ” خزیمہ ابھی تک سکتے کے عالم میں تھا۔
”آپ ایک سمجھ دار انسان ہیں تو آپ کو ایسا ہی کرنا چاہیے ۔”
خزیمہ داؤد اگر سمجھ دار تھا بھی تو اس معاملے میںہر گز نہیں ۔وہ نفی میں سر ہلاتا چلا گیا ۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”گُلانے… اوہ … سوری بھابی۔ ” صبح وہ ناشتا بنا رہی تھی جب ولی کچن کے دروازے میں آکھڑا ہو ا ۔ گُلانے نے کوئی جواب نہیں دیا ۔وہ سر جھکائے آملیٹ کے لیے ہری پیاز کاٹتی رہی ۔ اسے ولی پر غصہ تھا جس نے کل نور الحسن کے ساتھ بدتمیزی کی تھی۔نورالحسن کا دھواں دھواں ہوتا چہرہ رات بھر اس کی نگاہ سے گیا نہ تھا۔
”موڈ کیسا ہے صاحب کا ؟” وہ دروازے سے ہٹ کر اس کے پاس آکھڑا ہوا۔
”تمہیں ان سے بدتمیزی نہیں کرنی چاہیے تھی۔” وہ کہے بنا نہ رہ سکی ۔
ولی نے کوئی جواب نہ دیا تو اس نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا وہ شرمندہ سا کھڑا تھا ۔
”چلو چل کر ان سے معافی مانگو ۔” اس کا دل اسے دیکھتے ہی پسیج گیا تھا۔
”تم سفارش کر دو ناں میری ۔ ”وہ واقعی شرمندہ تھا۔
”تم معافی مانگ لو گے تو شان میں کمی نہیں آجائے گی۔ ”اس نے اب بغور اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
”تم میری طرف سے معافی مانگ لو گی تو تمہاری شان میں کمی نہیں آ جائے گی ۔” اس میں بھائی کا سامنا کرنے کا حوصلہ نہ تھا وہ رات بھر سو نہیں پایا تھا ، اس نے اپنے اس بھائی کے سامنے زبان درازی کی جس نے کبھی اسے باپ کی کمی محسوس نہ ہونے دی،جو خود سے زیادہ اس کی فکر کرتا تھا ۔
”غلطی تمہاری ہے ۔ معافی بھی تمہیں مانگنی چاہیے ۔”ابھی ان دونوں کے درمیان فیصلہ ہو ہی رہا تھا کہ نور الحسن کچن میں پانی پینے کے لیے داخل ہوا، گُلانے اور ولی دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا ۔
”بولو !” گُلانے نے آنکھ اور ہاتھ سے اشارہ کیا۔ وہ کچھ دیر الفاظ ہی ڈھونڈتا رہا پھر نظریں جھکائے بھائی کے قریب آیا ۔
” بھائی …”اس نے ذہن میں جو جملہ ترتیب دیا وہ کافور ہو چکا تھا ، نو ر الحسن نے بوتل واپس فریج میں رکھتے ہوئے اس کی طرف دیکھا ۔
”بولو ولی … کچھ کہنا ہے ؟” اس نے بالکل نارمل لہجے میں پوچھا جیسے رات کچھ ہوا ہی نہیں تھا، ولی کو مزید شرمندگی نے آگھیرا ۔
”بھائی … بھائی … سوری بھائی۔ ” ولی نے بھیگے ہوئے لہجے میں معافی مانگی تو نور الحسن مسکرا دیا ۔ وہ اپنے عزیز از جان بھائی سے ناراض ہو ہی نہیں سکتا تھا ۔ اس نے ولی کا گال تھپتھپایا ۔
”بھائی … آئی لو یو بھائی ۔” وہ بے اختیار ان کے سینے سے جا لگا۔ نو ر الحسن نے اس کے سر کو چوم لیا ۔
٭…٭…٭
نو ر الحسن کامیابی کی سیڑھی کا ایک بڑا زینہ چڑھ گیا۔ اس نے تحریری ٹیسٹ پاس کر لیا تھا ،آج وہ بہت خوش تھا ۔ اس کا خواب تعبیر پانے جا رہا تھا جس کام کے لیے اس نے دن رات محنت کی تھی۔ امی کی ڈانٹ بھی کھائی تھی، گُلانے کی خفگی بھی دیکھی تھی، وہ جی جان سے انٹرویو کی تیاری کر رہا تھا ۔بس چند دن کی محنت اور اس کے بعد پھل کھانے کا وقت تھا ۔ امی ، ولی اور گُلانے کو اب وہ بہتر زندگی دے سکتا تھا۔ پہلے اس کا ہر خواب امی اور ولی کے لیے ہوتا تھا’ لیکن اب گُلانے بھی اس کے خوابوں کی دنیا میں شامل ہو گئی تھی۔
اس دن گُلانے کی خوشی بھی دیدنی تھی۔ ولی نے گُلانے سے اس خوشی میں فرنی بنوائی، وہ ایسا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتا تھا ۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ نور الحسن کے ہوتے ہوئے گُلانے کی کوئی اور کمزوری ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں ۔ اس کام کے لیے نور الحسن ہی کافی تھا ۔
”اب آپ نے مجھے کیمسٹری پڑھانی ہے ، آپ کے کوئی مصروفیات والے بہانے میں نے اب نہیں سننے۔” گُلانے اب کبھی کبھار اپنا حق جتانے لگی تھی۔
”میں تمہیں پڑھاؤں گا گُلانے مگر ابھی تو مجھے انٹر ویو کی تیاری کرنی ہے ۔”اس نے مُسکرا کر جواب دیا۔
”آپ پھر مصروف ہو جائیں گے ۔” وہ مایوس سی ہوئی ۔
”بس چند دنوں کی بات ہے ۔پتا نہیں انٹرویو کے لیے کب کال کرتے ہیں ۔تم جب تک ولی سے ہی پڑھ لو ۔”اس نے چائے کا کپ منہ سے لگائے ہوئے کہا۔
” وہ اب صحیح نہیں پڑھاتا ، اپنے موبائل میں لگا رہتا ہے ۔”وہ بے دھیانی میں کہہ رہی تھی۔ نورالحسن کی پیشانی پہ بل پڑے۔ جب سے ولی یونیورسٹی جانے لگا اور اس کے نئے دوست بنے تھے ، اس کی طرف سے کئی شکایات موصول ہو چکی تھیں ۔
وہ کلاسز اٹینڈ نہیں کرتا تھا۔ایک پروفیسر کے ساتھ اس نے بدتمیزی کی تھی۔اور ان کے گروپ نے ایک لڑکی کو چھیڑا بھی تھا جس کی بات ڈیپارٹمنٹ کے ڈین تک گئی۔ ولی کو لگتا تھا کہ نور الحسن بے خبر ہے مگر ایسا ہر گز نہیں تھا ۔
”آپ کا انٹرویو ہو جائے تو آپ نے پورا ایک دن ہمارے ساتھ گزارنا ہے ۔” گُلانے کی فرمائش پر وہ غائب دماغی کی کیفیت سے نکلا۔
”پورا ایک ہفتہ گزاروں گا ۔ ” اس نے اس کی سنہری چوٹی کو تکتے ہوئے وعدہ کیا ۔
”سچ؟” وہ بچوں کی طرح خوش ہوئی ۔
”سچ! ”نو ر الحسن نے اس کی ننھی سی ناک پکڑ کر دبائی ۔ وہ سرخ ہوگئی ۔
نو ر الحسن کو اپنے نام سے ، اپنے ذکر سے ، اپنے جملوں سے اس کے چہرے پہ رنگوں کی یہ کن من اچھی لگتی تھی، وہ مبہوت سا رہ جاتا ۔اس وقت بھی جب تک وہ شرما کر کمرے سے نکل نہ گئی، وہ اسی کیفیت میں رہااور مسکراتا تو وہ جانے کتنی دیر تک رہا تھا ۔
٭٭٭٭٭
ایک غلطی انسان کو در بدر کر دیتی ہے ، وہ بھی خوار ہو رہا تھا ۔ کبھی کہیں کبھی کہیں ، ایک ٹھکانہ تو جیسے قسمت میں رہ ہی نہیں گیا تھا ۔وہ دو ہفتوں سے ملازمت کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا تھا مگر مسلسل ناکامی کا منہ دیکھ رہا تھا ۔ثقلین کمال نے پھر کمال کی مہربانی کی تھی، اسے چھے مہینے دے دیے تھے وہ رقم لوٹانے کے لیے اور اس کا شناختی کارڈ اپنے پاس رکھ لیا تھا ۔چھے مہینے میں دو لاکھ بیس ہزار لوٹانے کے لیے بھی اچھی نوکری ضروری تھی۔
اس دن وہ ایک فیکٹری میں انٹر ویو دے کر آیا تھا اور مایوس سا بیٹھا تھا ۔ یہاں نوکری مل بھی جاتی تو تنخواہ اتنی تھی کہ اپنے ذاتی اخراجات کم سے کم کرتا پھر بھی چھے ماہ میں رقم نہ لوٹاسکتا تھا، وہ مایوسی کے اسی عالم میں تھا جب اس کے موبائل پر کسی انجان نمبر سے کال آئی۔ اس نے جاب کے لیے کئی جگہ اپلائی کیا ہوا تھا ، اس لیے پرامید ہوتے ہوئے اس نے کال اٹینڈ کی تھی۔
”ثریا مقصود ۔”
یہ نام سن کر وہ دھک سا رہ گیا ۔
”مجھے پتا چلا کہ تم نوکری سے نکالے جا چکے ہو ۔”اس کی آواز سے اس کا تجسس صاف جھلک رہا تھا۔
”آپ … آپ نے میرا نمبر کہاں سے لیا؟”وہ حیرانی سے بولا۔
”منیجرسے ۔”وہ مٹھیاں اور ہونٹ بھینچ کر رہ گیا ۔
”میرے پاس تمہارے لیے ملازمت ہے ، اچھی تنخواہ ،اچھی گاڑی ، اچھی رہائش سب ملے گا۔”
”کیا کرنا ہو گا مجھے ؟’ ‘ اس نے کچھ دیر سوچنے کے بعد سنجیدگی سے دریافت کیا ۔
”مجھ سے ملو ، باقی باتیں روبرو ۔”یہ جملہ ادا کرتے ہوئے ثریا مقصود کے لہجے میں عجیب سی شوخی تھی۔
وہ اسی شام ثریا مقصود سے ملنے گیا تھا ۔ گاڑی اسی نے بھیجی تھی۔ڈرائیور نے اسے شہر کے مہنگے ترین گیسٹ ہاؤس میں چھوڑاتھا ۔ ریسیپشن پر اس نے ”ثریا مقصود ” بتایا۔
”آپ روم نمبر ون او سیون میں چلے جائیں ۔” لڑکی نے معنی خیز نظروں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔
وہ ایلویٹر کی طرف آگیا ۔ اس کی چھٹی حس مسلسل خطرے کا الارم بجا رہی تھی، بے روزگاری نے اس حس کو تھپک کر سلانے کی کوشش کی اور وہ ایلویٹر سے باہر نکل کر روم نمبر ون او سیون کے سامنے پہنچ گیا۔ دروازہ ثریا مقصود نے کھولا تھا۔
”اندر آجاؤ” اس نے مسکرا کر اندر آنے کے لیے راستہ دیا ۔وہ کمرے میں داخل ہوا تو ثریا مقصود نے دروازہ بند کر دیا ۔
اندر کا ماحول خواب ناک تھا ۔ اسے عجیب سی گھٹن کا احساس ہونے لگا ۔
”آؤ بیٹھو ۔” ثریا مقصود نے اس کا ہاتھ تھاما اور بیڈ کی طرف اشارہ کیا ۔
وہ ہاتھ چھڑوا کر بیڈ کی ایک جانب پڑے صوفے پر جا بیٹھا ۔ وہ بھی اس کے قریب آبیٹھی۔
”میں … میں جاب کے سلسلے میں آیا ہوں۔” اس نے اٹک اٹک کر اپنے آنے کا مقصد بیان کیا۔
”تمہیں جاب مل چکی ہے ۔” ثریا مقصود اپنے کٹے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے مسکراکر بولی۔
”مجھے کیا کرنا ہو گا ؟” جانے کیوں وہ گھبراہٹ کا شکار ہو رہا تھا ۔
”مجھے اور میری ایک دوست کو خوش کرنا ہو گا ۔” ثریا مقصود نے بہکے ہوئے سے اندا ز میں اسے اس کی ڈیوٹی بتائی ۔
”کیا ؟”وہ ایک جھٹکے کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوا،ثریا مقصود بنا پیے ہی مدہوش سی ہو رہی تھی۔وہ صوفے پر نیم دراز ہو کر اسے دیکھ رہی تھی۔
”ذرا ذرا … بہکتا ہے۔ ” وہ گنگنا رہی تھی اور ولید کو لگ رہا تھا کہ اس کے منہ پر کوئی طمانچے مار رہا ہے ۔ وہ دروازے کی طرف بڑھا ۔
”سنو !میں اور میری دوست تمہیں اتنا نوازیں گے کہ تمہیں کبھی دو لاکھ بیس ہزار کی چوری نہیں کرنا پڑے گی۔”
باہر جاتے ولید کے قدم یہ سن کر رک گئے۔ اس نے پلٹ کر اسے دیکھا تھا۔
٭…٭…٭
نو ر الحسن انٹرویو دے کر باہر نکلا تو بہت مطمئن تھا، اسے یقین تھا کہ اس کی محنت کا پھل اسے ملنے والا ہے ۔اس نے گھر بات کی پھر مارکیٹ چلا گیا ۔ اس نے امی اور گُلانے کے لیے بہت خوبصورت جوڑا لیا تھا اور ولی کے لیے گھڑی اور شرٹ خریدی تھی۔
”دو ما ہ سے تینوں کو وقت نہیں دے پایا ، اب پورا ہفتہ ان کے ساتھ گزاروں گا ۔ایک دن کہیں پکنک پر بھی جائیں گے گُلانے کتنی خوش ہو گی ۔ ” اس نے سوچا تھا ۔
گُلانے کا خیال آتے ہی وہ مسکرا اُٹھا ۔اس نے موبائل اُٹھایا اور گیلری میں جا کر گُلانے کی تصویریں دیکھنے لگا ۔
سفید اور سبز پرنٹ کے لباس میں بالوں کی چوٹی آگے کیے وہ گود میں کتاب رکھے جانے کن خیالوں میں کھوئی ہوئی۔
سیاہ لباس میں دمکتی ہوئی ۔
امی کے کندھوں پہ ہاتھ رکھے ولی سے کوئی بات کرتی ہوئی۔
و ہ ایک ایک تصویر کو دیکھتا اور زیرِ لب مسکراتا رہا ، گُلانے کو تو شاید خبر بھی نہ ہو کہ اس کے موبائل میں اس کی تصویریں ہیں ۔ وہ اتنی خاموشی سے ان خوبصورت لمحوں کو قید کرتا تھا کہ وہ بے خبر رہ جاتی تھی۔
”جب میں اسے یہ تصویریں دکھاؤں گا تو کتنا حیران ہو گی۔ اپنی بڑی بڑی نیلی آنکھیں پوری کی پوری کھول کر کبھی تصویروں کو دیکھے گی تو کبھی مجھے،اپنے منہ پر حیرت سے ہاتھ بھی رکھے گی،اس کے چہرے پر رنگوں کی بارش بھی ہو گی۔ ” نو ر الحسن سوچتا جاتا اور مسکراتا جاتا سچ ہے ، تصورِ جاناں کی کوئی قید، کوئی حد نہیں ہوتی۔
”اب امی کی بات مان لوں گا ،اب شادی کے لیے منع نہیں کروں گا۔” آج اس نے یہ فیصلہ بھی کر لیا تھا ۔
آج وہ بہت مطمئن تھا۔اس کے خواب پورے ہونے جا رہے تھے ۔ سب کچھ ویسا ہی ہو رہا تھا جیسا وہ چاہتا تھا ۔
لیکن …
صبح امی کا روتے ہوئے فون آیا تھا ۔
”جلدی گھر آؤ نورالحسن ۔”
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});