گلانے — صوفیہ بٹ (قسط نمبر ۳)

آسمان ست رنگی پیراہن میں ملبوس تھا ۔گُلانے کو اپنا دیس اپنے پہاڑ یاد آئے جہاں یہ موسم عجب رنگ لے کر آتا ۔ وہ ان دھنک رنگوں کو چھونے کی کوشش میں پہاڑ چڑھتی چلی جاتی مگر یہ رنگ اس کے ہاتھ نہ آتے ۔ ان چھوئے ہی سہی ، فاصلے پہ ہی سہی اس کا عشق ان رنگوں سے کبھی کم نہ ہوا ۔
پوجی اسے آوازیں دیتیں ، ہاتھ سے اشارے کر کے بلاتیں ۔وہ دیوانی رنگوں کی قطاریں، آدھے ادھورے سے دائرے گنتی رہتی۔
موسم اس کو اداس کر گیا تھا ۔پوجی، پہاڑ ، رنگ اسے سب بہت یاد آیا ۔ آنکھیں بھر بھر آئیں۔ نورالحسن بھی تو آج کل بہت مصروف رہنے لگا تھا ۔ اس کے دروازے پر ”ڈو ناٹ ڈسٹرب ” کا نوٹ نہیں لگا تھا مگر آنکھیں اور انداز یہی پیغام دیتے تھے ۔وہ اداس سی چھت پر جاتی یا سیڑھیوں میں بیٹھی رہتی۔پڑھنے میں اس کا دل لگتا نہ ہی گھر کے کاموں میں ۔ امی نے بھی اس کی خاموشی کو محسوس کیا ،پوچھا تو ٹال دیا ۔ ولی یونیورسٹی سے واپس آیا تو گھر میں کچھ چہکار ہوئی۔
”نو ر الحسن نے صبح سے کچھ نہیں کھا یا ، پکوڑ ے ہی بنا لو ۔” جس موسم میں لوگوں کو محبوب کی یاد ستاتی ہے ،اس موسم میں عزت مآب ولی کو صرف پکوڑے یاد آتے تھے ۔ اور گُلانے کو اس کام کے لیے راضی کرنے کے لیے بس نو ر الحسن کا نام ہی کافی تھا ۔
”ہاں ! اتنا پڑھتے ہیں اور کھانا پینا تو بالکل بھولے ہوئے ہیں ۔” اس نے اثبات میں سر ہلایا ۔ اسے اور امی کو آج کل نو ر الحسن کی فکر ہو رہی تھی۔ جو آج کل سب بھولا ہوا تھا، یاد تھا تو پڑھنا، پڑھنا اور بس پڑھنا ۔ جس دن سے کمیشن اناؤنس ہوا تھا اس کی یہی حالت تھی۔
وہ پکوڑے بنانے لگی تو دل کچھ بہلا ۔ ولی پاس کھڑا چائے بنا رہا تھا ۔ اس کا بس نہ چل رہا تھا کہ کڑاہی میں ہاتھ ڈال کر پکوڑا نکال لے ۔
”ایک بات بتاؤں گُلانے ؟… سوری بھابی … بھابی۔” اس نے جلدی سے اصلاح کی، مبادا بھابی کا موڈ خراب نہ ہو جائے اور وہ پکوڑوں سے محروم رہ جائے ۔
”ہوں ۔”گُلانے کڑاہی میں پکوڑے ڈالتے ہوئے بولی۔
”اب unknown numbers سے کالز نہیں آئیں گی ۔” وہ سیدھا موضوع پر آیا تھا۔
”سچ۔ ” اس نے مڑ کر اسے دیکھتے ہوئے دل کی تسلی چاہی۔
ولی نے سر ہلایا تو اس نے دل میں اللہ کا شکر ادا کیا ۔ مہینے سے زیادہ ہوا ،لینڈلائن پر کوئی کال کر رہا تھا ۔ کوئی اور اٹھاتا تو دوسری طرف خاموشی رہتی ۔ جبکہ گُلانے کی آواز سنتے ہی ایک مردانہ آواز میں شعرسنائے جانے لگتے تھے ۔اس نے ولی کے کہنے پر فون اٹھانا چھوڑ دیا تھا ۔مگر کچھ دن بعد اس کے موبائل پر بھی انجان نمبروں سے کالز آنے لگی تھیں ۔ اس کا موبائل نمبر تو چند ہی لوگوں کے پاس تھا پھر وہ پریشان تھی کہ اس کا نمبر اس رانگ کال والے کے پاس کیسے آیا ۔نو ر الحسن بہت مصروف تھا ، ویسے بھی وہ اس وقت ایسا کوئی بھی ذکر کر کے اسے ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اس نے ولی سے شیئر کیا تھا۔اس دن چڑ کر اس نے اسی حوالے سے گُلانے کو دھمکی بھی دی تھی مگر خود اندر ہی اندر پیچ و تاپ کھاتے ہوئے اس بندے کو گردن سے دبوچ لینے کا خواہش مند تھا جو اتنی جسارت دکھا رہا تھا ۔ وہ سنجیدگی سے اس کام کے پیچھے لگا ہوا تھا اور اب دو دن سے کسی بھی انجان نمبر سے کوئی کال نہیں آ رہی تھی جس وجہ سے گُلانے سکون محسوس کر رہی تھی۔ اور اب جب ولی نے بتایا کہ اس نے مستقل حل نکال لیا ہے تو کسی حد تک پژمردگی بھی جاتی رہی۔
”ویسے تھا کون وہ گھٹیا شخص ؟” اس نے پوچھا ۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”چھوڑو … بس اطمینان رکھو اب مہینا بھر بستر سے نہیں اُٹھے گا ۔ویسے بھابی، تم پکوڑے بڑے مزے کے بناتی ہو ۔ مزہ آ گیا ۔” اس نے گرم گرم پکوڑا منہ میں ڈالتے ہوئے تعریف کی ۔جواباً وہ مسکر ا دی تھی۔
”میں اپنی اور امی کی پلیٹ بنا رہا ہوں ۔ بھا ئی کو تم دے کر آؤ ۔” ولی نے کپوں میں چائے اُنڈیلی، اپنے اور امی کے لیے پکوڑوں کی پلیٹ اور چائے کے کپ ٹرے میں رکھے اور کچن سے باہر نکل گیا۔
گُلانے مسکراتی ہوئی ٹرے اٹھائے نور الحسن کے کمرے میں آئی ۔ اس کی پڑھائی کے دوران وہ اسے تنگ نہیں کرتی تھی۔ مگر آج تو صبح ناشتے کے بعد سے جو کمرے میں قید ہوا تو پھر نکلا ہی نہیں ۔ دوپہر کا کھانا بھی نہیں کھایا ۔اسے اور امی کو اس کی بہت فکر ہو رہی تھی۔ مگر آج کل وہ کسی کی سن کب رہا تھا ۔ اس کے حواسوں پر کمیشن چھایا ہوا تھا ۔
وہ اپنے سامنے تین کتابیں کھولے ایک کتاب پر کوئی پوائنٹ ہائی لائٹ کر رہا تھا ۔اُسے دیکھ کر گُلانے کو لگا کہ یہ ایک شخص سامنے ہو تو اداسی کو بھگانے کے لیے کوئی جتن نہیں کرنا پڑتا ۔
”چائے وہ بھی گرما گرم پکوڑوں کے ساتھ۔” اس نے ٹرے میز پر بالکل اس کے سامنے لا رکھی۔
”کیا گُلانے… کبھی کھانا ، کبھی چائے، میں کوئی بچہ تھوڑی ہوں ۔ جسے ٹھونس ٹھونس کر کھلاتی ہو۔” نور الحسن نے ٹرے پر ایک نظر ڈالتے ہوئے کہا۔
”ولی کا دل چاہ رہا تھا ۔”اس نے دھیمے لہجے میں کہا۔
”ولی کا دل چاہ رہا تھا تو اسے کھلاؤ ۔” اب اس کی پوری توجہ کتاب کی جانب تھی۔
” میرا بھی دل چاہ رہا تھا آپ کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کو ۔” گُلانے نے دل کی بات کہی۔
”ساری عمر ساتھ ہی گزارنی ہے گُلانے ۔ ابھی پلیز مجھے پڑھنے دو ۔”نور الحسن کے لیے اس وقت کمیشن سے زیادہ کچھ اہم نہیں تھا۔
گُلانے نے اس کے جھکے ہوئے سر کو دیکھا،اس کی بے مروتی کو محسوس کیا، اس لمحے اسے وہ دھنک کے ان رنگوں کی مانند لگا جو ہمیشہ اس سے فاصلے پر رہتے تھے ۔ جنہیں وہ آج تک چھو نہ پائی تھی اُس کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں ۔
”آپ سے اچھا تو ولی ہے ، مجھے وقت تو دیتا ہے ۔ ” گلو گیر اندازمیں گلہ کر تی ہوئی و ہ اپنا کپ اٹھائے بغیر ٹرے رکھ کر کمرے سے باہر چلی گئی ۔نور الحسن کی نگاہوں نے اس کا پیچھا کیا ۔ وہ ناراض ہو کر جا رہی تھی مگر اس کے پاس اتنا وقت نہ تھا کہ اسے منا سکے۔
اپنے خواب کی تعبیر پانے کے لیے ا سے بہت محنت کی ضرورت تھی ہر چند کہ کچھ لوگ یہ کہہ کر مایوس کرنے کی کوشش بھی کرتے تھے ۔
”لیے دیے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا۔”
”محنت سے زیادہ بڑی سفا ر ش ضر و ر ی ہے ۔ ”
اس کے پاس سفارش تھی نا رشوت دینے کو حرام کی کمائی وہ جی جان سے محنت کر رہا تھا اسے یقین تھا کہ اللہ کی رضا ہوئی تو ہر حال میں اس کے خواب کو تعبیر ملے گی۔
٭…٭…٭
سب کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا ۔
ثقلین کمال نے بے یقینی سے سر ہلایا، جانے کیوں اسے محسوس ہو رہا تھا کہ سامنے کھڑا لڑکا جھوٹ بول رہا ہے۔ نہ صرف اسے بلکہ سب کو یہی محسوس ہو رہا تھا اور چور کو سمجھ نہیں آتی تھی کہ منہ کہاں چھپائے۔
”کس کے کہنے پر کر رہے ہو ایسا ؟” ثقلین اس کے عین سامنے آ کھڑا ہو ا۔
”کسی کے کہنے پر بھی نہیں، میں سچ بول رہا ہوں ، پیسے میں نے چرائے ہیں ۔” وہ سر جھکائے کھڑا تھا۔
”کیسے ؟تمہارے پاس لاکر کی چابی کیسے آئی ؟”ثقلین کمال غصے سے لال ہورہا تھا۔
”جب منیجرصاحب موجود نہیں ہوتے تو اماؤنٹ ریسیو میں ہی کرتا ہوں اور ان وائس میں ہی نکالتا ہوں۔”وہ بدستور سر جھکائے کھڑا تھا۔
یہ تو حقیت تھی کہ منیجرکی غیر موجودگی میں وہی اس کے کام دیکھتا تھا ۔اس کے باوجود بھی کسی اور کو تو کیامنیجرکو بھی اس پر ایک لمحے کے لیے شک نہیں گزرا تھا ۔وہ وہاں دو سال سے کام کر رہا تھا اور منیجرکے علاوہ ثقلین کمال کو بھی عملے میں اس سے زیادہ اور کوئی نظر نہیں آتا تھا اور ایمان داری کا ٹھپہ تو اس کی چوڑی پیشانی پر لگا دکھائی دیتا تھا ۔
”کس کو بچانے کی کوشش کر رہے ہو ؟”ثقلین کمال نے برہمی سے پوچھا۔
اس سوال پر عملے میں سے ایک فرد نے پہلو بدلا۔ جب کہ وہ سر جھکائے کھڑا رہا ۔
” ٹھیک ہے مان لیا کہ چوری تم نے کی ہے تو کہاں ہیں پیسے ؟”ثقلین کمال نے اگلا سوال کیا۔
اس نے کوئی جواب نہ دیا تھا ۔
”کل پیسے لے آنا ۔میں بھول جاؤں گا کہ یہاں چوری بھی ہوئی تھی۔ ” ثقلین کمال نے کمال مہربانی دکھائی۔
”پیسے نہیں ہیں ۔” اس نے سر اٹھاکر کہا ۔
”کیا ؟کہاں گئے پیسے ؟” ثقلین کمال کو پہلے ہی یقین تھا کہ جواب کیا ہوگا۔
”خرچ ہو گئے ۔”
”ہوں … خرچ ہو گئے ۔اب کیا چاہتے ہو تمہیں پولیس کے حوالے کر دوں یا رقم واپس کرو گے ۔”ثقلین کمال نے جیبوں میں ہاتھ ڈالتے ہوئے کہا۔
”رقم واپس کر دوں گا ۔”
”کب ؟”اس نے بھنویں سکیڑیں۔
”آپ میری سیلری سے کاٹ لیجیے گا ۔”ثقلین کمال کچھ دیر اس کا منہ دیکھتا رہا پھر ہنس دیا ۔
”تمہاری سیلری …تمہیں لگتا ہے کہ اب تم یہاں قدم بھی رکھ پاؤ گے ؟ ایک ہفتے کے اندر اندر یہ رقم میرے حوالے کرو ورنہ میں تمہیں پولیس کے حوالے کر دوں گا ۔”ثقلین کمال صرف دھمکی نہیں دے رہا تھا ، وہ واقعی ایسا کر گزرتا ۔ولیدکو محسوس ہوا کہ اس نے اپنے آپ کو بڑی مصیبت میں ڈال لیا ہے۔
٭…٭…٭
گُلانے نورالحسن سے خفا تھی اور اپنے طور پر اظہار بھی کر رہی تھی۔ اس نے دو دن سے ان سے بات نہیں کی تھی، بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ پڑھائی اور امتحان کے چکر میں بندہ دوسرے کوفراموش کر دے ۔ وہ خوش ہے یا اداس، یہ بھی جاننے کی کوشش نہ کرے۔ کیا تھا اگر کچھ دیر اپنے آگے پڑی کتاب بند کر کے اس کے ساتھ چند پکوڑے کھا لیتا ، چائے کا ایک کپ پی لیتا،کچھ گھڑیاں اس کے نام کر دیتا ۔
اس شام وہ اپنے اور امی کے کپڑے استری کر رہی تھی جب نور الحسن نے اس سے امی کے بارے میں پوچھا تھا ۔
”پتا نہیں ۔ ” اس نے کندھے اچکا کر جواب دیا ۔
وہ اسے گہری نظروں سے دیکھتاہوا مسکرایا اور ولی کو مخاطب کیا جس کی کتابوں کو آج اس کا دستِ شفقت حاصل ہوا تھا ۔
”امی کہاں ہیں ولی ؟”
”پڑوس میں گئی ہیں ۔پتا نہیں کسی کا پوتا دوتا (نواسا) ہوا ہے ۔انہیں مبارک باد دینے ۔” اس نے کتاب سے نظر ہٹائے بغیر جواب دیا ۔ لگ رہا تھا کہ آج ہی سال بھر کا نصاب پڑھ ڈالے گا ۔
”اچھا ۔”نورالحسن وہیں برآمدے میں بیٹھ کر ٹی وی دیکھنے لگا تھا۔ خبریں سنتے ہوئے وہ گُلانے پہ نگاہ ڈالتا اور پھر مسکرا کر ٹی وی کی طرف متوجہ ہو جاتا ۔
” اَ خکاری چے رور در سرہ منہ َاشوا( لگتا ہے بھائی کو تم سے محبت ہو گئی ہے… )” پڑھائی میں مصروف ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ اسے کچھ اور نظر نہیں آ رہا تھا ۔ کتاب رکھ کر وہ گُلانے کے پاس آیا اور اس کے کان میں سرگوشی کی ۔
کسی سے خفا ہو کر انجان بنا جا سکتا تھا مگر چہرے پر رنگوں کو بکھرنے سے کیسے روکا جا سکتا تھا ۔ نورالحسن نے بھی یہ منظر دیکھا تھا ۔
”پہ تا الہام شوے دے؟ ( تمہیں الہام ہوا ؟)” ا س نے ولی کو گھورا۔
”رشتیہ درتہ وائم ، دئی تا تہ ذیات اؤ ٹی وی لگ گُوری ۔( سچ کہہ رہا ہوں ۔ ٹی وی کم ، تمہیں زیادہ دیکھ رہے ہیں ۔)”ولی نے اس کے کان میں پھر سرگوشی کی۔
گُلانے کی مترنم ہنسی سے برآمدے میں سُر و ساز بکھر گئے تھے ۔ نورالحسن نے جو اس بار نگاہ اٹھائی تو ہٹانے کے لیے بہت مشقت کرنی پڑی۔
”چائے ملے گی ؟” اس نے ریموٹ سے ٹی وی بند کرتے ہوئے اسے پکارا ۔
”پینے کے لیے وقت ہے آپ کے پاس ؟” یہ وہ گُلانے نہ تھی جو اسے مالک سمجھ کر اس کے منہ سے نکلی ہر بات پر ” جی جی” کرتی تھی ۔ یہ نورا لحسن کی ہونے والی بیوی تھی جو کبھی کبھی حق جتانا جانتی تھی۔
وہ ہنس دیا تھا ۔ ولی بھی مسکراتے ہوئے پھر پڑھائی میں مصروف ہو گیا۔ اس کا کل اردو ، فزکس اور انگلش کا ٹیسٹ تھا ۔ اچھی شامت آئی تھی اس کی۔ پڑھائی کے دوران وہ اساتذہ کی مہربانیوں کو خراجِ تحسین بھیجنا نہ بھول رہا تھا وہ ، جنہوں نے ایک ہی دن میں اسے پڑھا لکھا دینا تھا ۔
گُلانے استری کا کام مؤخر کر کے چائے بنانے چلی آئی تھی۔ خفگی سہی ، اس کی خواہش کیسے ٹالی جا سکتی تھی۔
چائے بنا کر اس نے ولی کو دی اور نور الحسن کا کپ لیے اس کے کمرے میں چلی آئی ۔ و ہ خاموشی سے چائے کا کپ اس کے سامنے رکھ کر پلٹنے لگی۔جب نور الحسن نے اس کا ہاتھ تھام لیا ۔
اس کا چہرہ سرخ ہوگیا، نورالحسن نے ایسی جسارت پہلی بار کی تھی۔
” سبز رنگ تم پر بہت سجتا ہے ۔”نور الحسن دھیرے سے بولا۔
وہ سرگوشی کے انداز میں بولا تھا ۔ وہ ہاتھ چھڑوا کر باہر بھاگی۔ اس کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا، خوب صورت چہرے پر حیا کے رنگ تھے ، عنابی ہونٹوں پر ہلکی سی مسکان آ ٹھہری تھی۔
” سبز رنگ تم پر بہت سجتا ہے ۔”
ایک سرگوشی سی اس کے کانوں میں ہوئی ۔ اپنے ہاتھ کو دیکھتے ہوئے اس کی مسکراہٹ گہری ہو گئی ، خفگی جانے کہاں چلی گئی تھی۔
٭٭٭٭٭
”سنو ۔”
ولید ڈیوٹی آف ہونے کے بعد مال سے باہر آ رہا تھا جب عروہ ابو بکر اس کے پیچھے پیچھے آئی۔ وہ رک گیا تھا مگر اس نے مڑ کر اسے دیکھا نہیں تھا ۔
”میں جانتی ہوں ، چوری تم نے نہیں کی۔”وہ بلا تمہید بولی تھی۔
”میں جانتا ہوں ، چوری کس نے کی ۔”وہ سپاٹ لہجے میں بولا۔
عروہ نظریں چرا گئی۔
”وکیل کی فیس اور اسپتال کے بقایا جات ادا کر دیے ؟” اب وہ اس کی طرف مڑ کر پوچھ رہا تھا۔عروہ کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے ۔
”تم جانتے تھے چوری میں نے کی، پھر بھی میرانام کیوں نہیں بتایا ؟”اس نے کمزور سے لہجے میں پوچھا۔
” عروہ ابو بکر ! میں تم سے بڑا چور ہوں ، خائن ہوں میں۔ ” وہ سنجیدہ رہتا تھا مگر اس وقت حد درجہ سنجیدہ لگ رہا تھا ۔
”جب کوئی شخص اپنا گنا ہ چھپاتا ہے، اپنے منہ پر کالک لگنے سے ڈرتا ہے تو اس کا کوئی حق نہیں بنتا کہ وہ کسی اور کے جرم کی تشہیر کرتا پھرے ۔”
”ٹھیک ہے نہ بتاتے میرا جرم، مگر اپنے نام بھی تو نہ لگاتے وہ چوری جو تم نے کی ہی نہیں۔” عروہ نے ایک ناکام تجویز دیتے ہوئے کہا۔
”اگر اپنا نام نہ لگاتا تو یہ چوری اس شخص کو بھگتنی پڑتی جو اپنے گھر کا واحدکفیل ہے ۔”ولید اس وقت بلا کا سنجیدہ لگ رہا تھا۔
عروہ ابو بکر اسے دیکھتی رہ گئی۔اسے لگتا تھا کہ وہ اس کی پرواہ کرتا ہے مگر وہ تو سب کی پرواہ کرتا تھا ۔اس نے سرفراز کو اپنی آدھی تنخواہ دے دی تھی۔ اس نے اس منیجرکے لیے الزام اپنے سر لے لیا جو تین بچوں کا باپ ہو کر کسی دوسری عورت سے عشق لڑا رہا تھا ۔
”تم بہت اچھے ہو و لید ” وہ یہ کہے بغیر نہ رہ سکی تھی۔
ولید کو لگا جیسے سامنے کھڑی لڑکی نے اس کے منہ پر طمانچہ دے مارا ہو ۔اس کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا۔
٭…٭…٭
نور الحسن کئی با ر ولی کو گھر دیر سے آنے پہرسر زنش کر چکا تھا، مگر اب وہ بڑا ہو گیا تھا۔ ا س کی ہدایات ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیتا۔ اس کا خیال تھا کہ بھائی بھی امی کی طرح نصیحتیں کرنے لگے ہیں ۔اس عمر میں نصیحتیں بری لگتی ہیں ۔اسے بھی لگتی تھیں اور آج جب نو ر الحسن نے اسے گُلانے کے سامنے ڈانٹ دیا تو اس کا چہرہ سرخ ہوگیا ۔
”میں کوئی بچہ نہیں ہوں جس کی انگلی پکڑ کر آپ چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔” وہ پہلی بار نورالحسن کے سامنے اس طرح چلایا تھا ۔ نورالحسن اُسے بے یقینی سے دیکھتا رہ گیا ۔
”ولی ! ” گُلانے کو بہت برا لگا تھا اس کا یوں بڑے بھائی کے سامنے چلانا۔
” تم آپا بننے کی کوشش نہ کرو ۔ ” اس نے ہاتھ اٹھا کر گُلانے کو بھی مزید بولنے سے روکا ۔ اور ساکت کھڑے بھائی کی طرف دیکھا۔
” بھائی ! اب میں اپنا برا بھلا سمجھ سکتا ہوں ۔مجھے بھی اپنے فیصلے کرنے دیں ۔ مجھے کس کے ساتھ اُٹھنا بیٹھنا ہے ، کس کے ساتھ دوستی کرنی ہے اور کس کے ساتھ نہیں کرنی ۔ میں بھی سمجھ سکتا ہوں ۔ اب میں ساری عمر آ پ کی انگلی پکڑ کر تو نہیں چل سکتا نا ۔” وہ بدتمیزی سے کہتے ہوئے اپنے کمرے میں چلا گیا۔
گُلانے نے نورالحسن کو دیکھا جس کا چہرا تاریک ہو رہا تھا۔ وہ بھی خاموشی سے اپنے کمرے میں چلا گیا۔
کمرے میں آتے ہی کرسی پر بیٹھ کر اُس نے اپنے سامنے پڑی کتاب کھول لی ‘مگر جانے کیا ہوا کہ پھر اسے بند کر کے کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے آنکھیں موند لیں ۔گُلانے دھیرے سے کمرے میں داخل ہوئی ۔ وہ خود کو اس کے پیچھے آنے سے روک نہیں پائی تھی۔ اس نے نور الحسن کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
نور الحسن نے آنکھیں کھول دیں ، ان آنکھوں کی سرخی اور نمی دیکھ کر گُلانے تڑپ اٹھی۔
” گُلانے ! ولی میری جان ہے ، اللہ ، اس کے رسول ۖ اور امی کے بعد وہ مجھے اس دنیا میں سب سے زیادہ عزیز ہے ۔ میں نے اس کے لیے بہت خواب دیکھے ہیں ۔ مجھے ڈر ہے کہ غلط دوستوں کی صحبت اسے نقصان نہ پہنچا دے ۔اس عمر میں صحیح اور غلط کی پہچان ہر کسی کو نہیں ہوتی ۔ وہ بہک سکتا ہے۔”
ولی جس نے ابھی ابھی اس کے ساتھ بدتمیزی کی تھی ، اسے اس کی بدتمیزی پر غصہ نہیں تھا ، اسے اس کی فکر تھی ۔وہ باپ نہ تھا مگر باپ کی طرح ہی پریشان تھا ۔
گُلانے کے دل میں اس شخص کی محبت میں مزید اضافہ ہوگیا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

نیلی جھیل — شفیق الرحمٰن

Read Next

گلانے — صوفیہ بٹ (قسط نمبر ۴ — آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!