”یار لوگوں کے پاس کتنا پیسا ہے ۔ ” روحی رشک سے ان لوگوں کو دیکھتی تھی جو پندرہ بیس ہزار کا سوٹ یوں خریدتے جیسے پیسے سچ مچ درختوں پر اُگتے ہوں ۔ اتنے پیسوں میں اس کے گھر کا مہینے بھر کا راشن آتا ، چھوٹی دونوں بہنوں کے اسکول اور ٹیوشن کی فیس ادا کی جاتی ۔ اسے اس تقسیم پر اکثر اللہ سے گلہ ہوتا جس نے کسی کے ہاتھ نوٹوں کی مشین دے دی تھی او ر کسی کو روپے روپے کے لیے ترسا دیا تھا ۔ مہینا بھر بس دماغ میں گنتی ہی چلتی رہتی ، اتنے خرچ ہو گئے ، اتنے بچ گئے ، اتنے دن گزر گئے ،اتنے دن ابھی رہتے ہیں ۔
”میرے پاس اتنا پیسا ہوتا تو کپڑوں پر ضائع نہیں کرتی بلکہ غریبوں میں بانٹتی۔ ” شمسہ کے جذبے عروہ کو متاثرکرنے کے بجائے ہنسنے پر مجبور کر تے تھے ۔
”تمہارے پاس اتنا پیسا ہوتا تو یہ سوچ ہی ذہن میں نہ آتی ۔پیسا بڑا فتنہ ہے ۔ انسان کے دل و دماغ کو کنٹرول کر کے اپنے انداز میں چلاتا ہے شمسہ ڈئیر…ہماری ڈیزائنر کو دیکھو ، کتنا کما لیتی ہے ۔ اور ہمیں کیا پے کرتی ہے ؟ بانٹنا تو الگ بات محنت کا صلہ پورا نہیں دیتی۔”عرہ نے برا سا منہ بناتے ہوئے کہا۔
”واقعی یار … ایک آؤٹ لیٹ سے دن میں لاکھوں کما لیتی ہے اور ہماری سیلری بڑھانے کا نام نہیں لیتی۔ ” شمسہ نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔
”پیسا بہت کم کسی کو غنی کرتا ہے ۔ یہ ہوس کا بیج ہے ، پھلتا پھولتا ہے اور انسان کے اندر تناور درخت بن جاتا ہے۔ پھر جب تک انسان سانس لیتا ہے ، اسی درخت کی آبیاری کرتا رہتا ہے ۔ سنبل کمال بھی ان میں سے ایک ہے ۔ اسے اپنے ایمپلائز کی ضرورتوں سے کچھ لینا دینا نہیں ، اس کا بینک بیلنس بڑھ رہا ہے ، یہی کافی ہے ۔” عروہ دل گرفتہ لہجے میں کہہ رہی تھی۔ پچھلے دنوں سر فراز نے اپنی ماں کے علاج کے لیے مدد کی درخواست دی تھی مگر سنبل کمال نے اسے ایک طرف رکھ دیا تھا۔
”ایک کی مدد کی تو پھر 2تو میرا بزنس چیریٹی بن کر رہ جائے گا ۔ہر کوئی آجائے گا منہ اٹھا کر اپنے پرابلمز لیے ۔”
اس دن سر فراز رو پڑا تھا ۔سارا اسٹاف افسردہ تھا۔ ان کے دل تو تنگ نہ تھے مگرجیب اتنی تنگ تھی کہ وہ چاہ کر بھی اس کی مدد نہیں کر سکتے تھے ۔ ان کی حیثیت ہی کیا تھی بھلا؟ نچلا عملہ کیڑے مکوڑوں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا ان مالکوں کے سامنے ۔کئی سوالات اس دن سے ان کے دماغ میں کلبلا رہے تھے مگر جواب دینے کے اونچے لوگ پابند نہ تھے ۔ ان کو کیا پرواہ ہے ۔ ایک چھوڑ کر جائے گا تو دس اور آجائیں گے ۔
”میرا تو دل چاہتا ہے ، کسی دن یہ پیسے چرا لوں ۔ سنبل کمال کو کیا فرق پڑے گا مگر میں تو کچھ دن عیش کر لوں گی ناں ۔ ” آؤٹ لیٹ میں موجود باقی افراد کے کا نوں میں بھی یہ با تیں پڑ ر ہی تھیں۔ وہ روحی کی بات سن کر ہنس دیے تھے ۔ سب کے دل میں سنبل کمال کے لیے دبا دبا سا غصہ تو تھا مگر اس وقت انہیں ہر گز گمان نہ تھا کہ ا گلے ہفتے واقعی چوری ہو جا ئے گی۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
انہیں بڑے ماموں کے بیٹے کے ولیمے پر جانا تھا اور نور الحسن تھا کہ ابھی تک پہنچا نہیں تھا ۔ امی خفا ہو رہی تھیں ۔ایسی بھی کیا مصروفیت کہ بندہ خاص خاص مواقع پر بھی شمولیت نہ کر سکے ۔ ترقی کی راہ پر بھاگتے لوگ اکثر بہت سے قیمتی لمحات گنوا دیتے ہیں ۔ امی نہیں چاہتی تھیں کہ نور الحسن بھی اپنی زندگی کے حسین لمحات کو نظر انداز کر کے آگے بڑھتا چلا جائے اور کل جب وہ منزل پر پہنچے تو فتح کی خوشی کے ساتھ ساتھ کچھ کھو دینے کا احساس بھی دامن گیر ہو ۔
گُلانے آج بہت دل کے ساتھ تیار ہوئی اور بے چینی سے اس کا انتظار کر رہی تھی۔ اس کی ایک نگاہِ ستائش ہی خوش ہونے کے لیے کافی تھی اور اس رات تو نور الحسن نے جو اسے دیکھا تو پھر دیکھتا ہی رہ گیا۔
شیفون کے سیا ہ لبا س میں وہ نظر لگ جانے کی حد تک حسین لگ ر ہی تھی۔ بلیک ٹر ا ؤ ز ر شرٹ اور ڈ یپ ر یڈ د و پٹے کے سا تھ سیاہ ہیل و الی جو تی اور نا زک سی جیو لری پہنے وہ بہت بدلی بدلی سی لگ رہی تھی۔ حسن کی کمی اس میں ویسے بھی نہ تھی مگر آج چال ڈھال میں راج کماری سی آن بان تھی، اعتماد تھا ، تمکنت تھی۔دیہاتی گُلانے کی جھلک تک نظر نہ آ رہی تھی اس میں ۔
یہ وہ گُلانے تھی جسے نور الحسن بڑے اعتما د کے ساتھ اپنے شا نہ بہ شا نہ لے کر چل سکتا تھا ۔
گُلانے اس تبدیلی کا کریڈٹ ثانیہ بھابی کی چھوٹی بہن کودیتی تھی۔جسے وقت اور فیشن کے حساب سے پہننے اوڑھنے کا خوب سلیقہ تھا ۔ تقریب میں مو جو د ہر بندے کی نگا ہ بار بار گُلا نے پر جا ٹھہر تی۔
”ہمیں پتا ہوتا ، صبر کا پھل اتنا میٹھا ہوتا ہے توشادی کے لیے اتنے اتاولے نہ ہوتے ۔” نورالحسن کے ایک کزن نے گُلانے پر نظر ڈالتے ہوئے ایک آہ بھری اور پھر اپنی حجم میں پھیلی ہوئی بیوی کی طرف دیکھا جو سب سے چھوٹے بچے کو گود میں لیے بیٹھی تھی۔
نور الحسن کو اچھا نہیں لگا تھا ۔
”ہمیں دیکھواتنے خوار ہو کر بر ی ، برات اور ولیمے پر اتنا خرچا کر کے ملا کیا … یہ پھولن دیوی ۔ نور الحسن تم قسمت والے ہو۔ گھر بیٹھے بیٹھے حور مل گئی ۔وہ بھی اس عمر میں ۔ ” ماموں کے ایک بیٹے نے بھی حسرت بھری نگاہوں سے گُلانے کو دیکھتے ہوئے تبصرہ کیا تھا ۔
واپسی پر وہ کچھ چپ چپ سا تھا۔وہ ویسے بھی کم ہی باتیں کرتا تھا مگر ان کی باتوں پر مسکراتا تو رہتا تھا ۔ آ ج تو سنجیدہ بھی تھا اور جانے کس سوچ میں تھا ۔ گُلانے کن انکھیوں سے اسے دیکھتی اور پھر امی یا ولی سے بات کرنے لگتی۔
گھر آ کر سیدھا وہ اپنے کمرے میں چلا گیا ۔ ولی نے گھر آتے ہی ”چائے چائے ”کا شور مچایا تو گُلانے کچن میں چلی گئی۔ اسے خود بھی چائے کی طلب ہو رہی تھی۔ امی تو اس وقت چائے نہیں پیتی تھیں، ولی کو کپ تھما کر وہ نو ر الحسن کے لیے چائے لے کر اس کے کمرے میں چلی آئی ۔وہ کپڑے تبدیل کر کے بیڈ پر نیم دراز تھا ، اسے دیکھ کر اٹھ بیٹھا ۔اس کی نظریں گُلانے پر جم سی گئیں ۔
وہ بھی لباس تبدیل کر چکی تھی۔ سبز و سفید رنگ کی پرنٹڈ شرٹ کے ساتھ سفید ٹراؤزر میں وہ بہت سادہ لگ رہی تھی۔سادگی کے اس عالم میں بھی وہ دل میں اتر رہی تھی۔
یوں اس طرح اپنی طرف دیکھتا پا کر گُلانے لال ہوگئی۔ آج شادی میں بھی اس نے اپنے آپ کومسلسل اس کی نگاہوں کے حصار میں محسوس کیا تھا ۔ وہ شاد ہو گئی تھی۔ اور پھر واپسی پر اس کی سنجیدگی کو محسوس کر کے فکرمند تھی۔ اب جو اسے اپنی طرف ستائشی نظروں سے دیکھتا پایا تو فکر کا احساس زائل ہوا۔
”گُلانے ۔” اسے کپ تھما کر وہ پلٹنے لگی جب نو ر الحسن نے اسے پکارا تھا ۔ اس کا دل تیزی کے ساتھ دھڑکا ۔
” گُلانے ! میں بہت لبرل ہوں مگر پھر بھی پتا نہیں کیوں میرا جی چاہتا ہے کہ تمہیں کوئی اور نہ دیکھے ،تمہارا نام تک کوئی اور نہ لے ۔” گُلانے کے چہرے پر حیا نے رنگ بکھیرے ۔
نور الحسن نے پہلی بار اس لہجے، اس استحقاق سے اس سے بات کی تھی۔
” نور الحسن کو جو اچھا نہ لگے ۔، گُلانے وہ کیو ں کر کرے ۔” اس نے شرما کر کہا ۔
نو ر الحسن بس اسے دیکھتا رہ گیا تھا۔
٭…٭…٭
” بریکنگ نیوز … ” منیب نے خاصے خوشگوار موڈ میں قرةالعین اور علینہ کو سسپنس میں ڈالا۔
‘ ‘ ایڈووکیٹ نجم عظیم سدھر گیا ، اس نے کبھی بھی جھوٹ نہ بولنے کا فیصلہ کر لیا ۔” علینہ نے اندازہ لگایا ۔
”ارے نہیں ۔” منیب نے نفی میں سر ہلایا ۔
”اچھا پھر مسٹر مغرور ہنستے ہوئے پائے گئے ۔” علینہ کے نزدیک یہ بھی بڑی خبر ہی تھی۔
”نہیں ۔” منیب نے پھر نفی میں سر ہلایا ۔
”اچھا پھر تم ہی بتا دو ۔ ” اس نے زچ ہوکر کہا۔
”ہنٹ دیتا ہوں …خبر مسٹر مغرور ہی کی ہے ۔”منیب نے انہیں اشارہ دیتے ہوئے کہا۔
”شادی کر رہے ہیں؟” علینہ کا اندازہ جان لیوا تھا ۔ قرة العین دہل کر رہ گئی ۔
”نہیں … کس لڑکی کا دماغ خراب ہے کہ اس سے شادی کرے ۔” دماغ خراب والی پاس ہی بیٹھی تھی۔ یہ وہ بھی جانتا تھا مگر خود کو بہلانے میں کیا حرج تھا ۔
”پھر … اب بتا بھی دو ۔” علینہ جھنجھلائی ۔ اس سے سسپنس زیادہ دیر برداشت نہیں ہوتا تھا۔
”ٹرانسفر ہو نے والا ہے مو صوف کا ؟” منیب نے جو دھماکا کیا ، قرة العین کو لگا کہ اس کے پرخچے اڑ گئے ۔
علینہ نے بے اختیار اس کی طرف دیکھا جس کے چہرے پر ایک رنگ آ رہا تھا اور ایک جا رہا تھا۔ وہ ان لوگوں کے ساتھ مزید بیٹھ نہ پائی تھی اور اس کے چیمبر کی طرف آئی مگر وہ تو دو کیسز کی سماعت میں مصروف تھا ۔ وہ بے چینی سے وہیں بیٹھی اس کا انتظار کرنے لگی۔ جیسے ہی وہ چیمبر میں داخل ہوا ، وہ بے تابی سے اس کی طرف بڑھی ۔
”آپ کی پوسٹنگ ہو رہی ہے ؟”اس نے ایک نظر اس بے وقوف لڑکی پر ڈالی اور اپنی کرسی کی طرف بڑھ گیا ۔ ا س کے پیچھے پیچھے ریڈر بھی فائل اٹھائے آیا تھا ۔ وہ شرمندہ سی ہو کر بیٹھ گئی ۔وہ ریڈر کو کچھ بتانے لگا تھا۔ قرة العین کو اپنی بے تابی پر غصہ آنے لگا تھا ۔ کم سے کم دیکھ تو لیتی کہ کوئی پیچھے بھی آ رہا ہے ۔
ریڈر نے جاتے جاتے معنی خیز نظر اس پر ڈالی تھی۔
”اب بولیں مس غنی ! آپ کیا پوچھ رہی تھیں ؟”وہ اس کی طرف متوجہ ہو کر سنجیدگی کے ساتھ پوچھ رہا تھا۔
ہر بندہ جو اس کے ساتھ بے تکلف تھا ، اسے عینا بلاتا تھا ۔ باقی سب اسے قرة العین کہتے تھے ۔ اور یہ شخص ” مس غنی ” سے آگے ہی نہ بڑھتا تھا ۔ اک دیوار تھی جو وہ اپنے اور باقی سب کے بیچ رکھتا تھا ۔ اس کو جاننے والا ہر بندہ اپنی حد جانتا تھا مگر ایک اعتبار احمد تھے جو یہ دیوار گرا چکے تھے اور ایک وہ تھی جو اس دیوار کو گرانے میں بر سرِ پیکار تھی ۔
”مجھے پتا چلا کہ آپ کا ٹرانسفر ہو رہا ہے ، کیا یہ خبر سچ ہے ؟”اس نے ایک مرتبہ پھر بے تابی سے پوچھا۔
”سچ ہے ۔” اس نے اطمینا ن سے جواب دیا ۔
”مگر کیوں ؟” وہ بچوں والی حرکتیں اور بچوں والے سوال کر جاتی تھی۔ وہ عادی ہو گیا تھا اس لیے نرمی کے ساتھ جواب دیا ۔
”یہ سوال تو میں نے بھی سر کار سے نہیں کیا ۔ میں ایک جج ہوں ، مجھے اپنی ڈیوٹیز پرفارم کرنی ہیں، میں یہاں رہوں یا کہیں او ر چلا جاؤں ، اس سے کیا فرق پڑتا ہے ؟”وہ روایتی سپاٹ لہجے میں بول رہا تھا۔
”فرق پڑتا ہے ، بہت فرق پڑتا ہے ۔ ” قرةالعین زیرِ لب بڑبڑائی۔
اس نے سامنے پڑی فائل اٹھاتے ہوئے اس کے بجھے چہرے کو ایک نظر دیکھا ۔اسی وقت اعتبار احمد چیمبر میں داخل ہوئے تھے ۔قرةالعین وہاں سے اٹھنے لگی تو اس نے روک لیا ۔
”مس غنی ! پلیز بیٹھیں ابھی … مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے ۔” وہ حیران پریشان سی واپس کرسی پر بیٹھ گئی اور اسے الجھی نظروں سے دیکھنے لگی۔
”میں اپنے ارد گرد نظر دوڑاتا ہوں تو مجھے دو لوگ مخلص نظر آتے ہیں، جو میرے سامنے بیٹھے ہیں۔”قرةالعین غنی کا دل سکڑ کر پھیلا۔
”چلو کہیں تو ہمارا بھی نام آیا۔”
”اس لیے میں آپ سے ایک مشورہ کرنا چاہتا ہوں۔ میں شادی کرنا چاہتا ہوں ۔” قرةالعین کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا اور چہرے پر سرخی سی آ گئی جب کہ اعتبار احمد چونک گئے ۔
” آپ کی نظر میں کوئی درمیانی عمر کی اچھی سلجھی ہوئی عورت ہے تو مجھے بتائیے گا ۔ مجھے بیوہ یا مطلقہ کے ساتھ بھی کوئی ایشو نہیں اگر وہ وفادار ہے تو…”
قرةالعین اگر کسی ایسی لڑکی کو جانتی بھی تھی تو اس وقت اس کی یادداشت کا خانہ بلینک ہو چکا تھا۔ اسے تو سامنے پڑی چیزوں کی بھی سمجھ نہیں ا رہی تھی کہ انہیں کیا کہتے ہیں اور یہ کس کام آتی ہیں ورنہ کم سے کم فروٹ کاٹنے والی چھری سے ہاتھ کی رگ تو کاٹی ہی جا سکتی تھی۔
اس نے اس بیوقوف لڑکی کا دھواں ہوتا چہرہ دیکھا اور سکون کی سانس لے کر کرسی کی پشت کے ساتھ ٹیک لگائی۔
کبھی کبھی خواب دیکھنے والے کو جگانا ضروری ہو تا ہے ۔
٭…٭…٭
”گُلانے …او… گُلانے ۔” ولی اس کو ڈھونڈتا ہوا می کے کمرے میں آیا ۔
” تم یہاں بیٹھی ہو ۔ چلو شاباش ایک جگ شربت بنا کر فریج میں رکھ دو ، میرے دوست آ رہے ہیں ۔”اس نے جلدی جلدی گُلانے سے کہا۔
”کون سے دوست ہیں یہ تمہارے؟” امی نے گُلانے کے سر میں تیل لگاتے ہوئے گھور کر پوچھا ۔
”چاند سے اتر کر کوئی نئی مخلوق تو نہیں آئی امی ۔ وہی ہیں جو دوست ہیں ۔ ‘ ‘ وہ چڑ گیا ۔ امی نے نور الحسن کی سر زنش کے بعد سے کچھ زیادہ ہی پوچھ گچھ شروع کر دی تھی۔ اب تو گھر سے باہر قدم نکالتے ہوئے بھی ا ن کے دس سوالوں کے جواب دینے پڑ تے ۔
”دوستوں کے کوئی نام بھی ہوتے ہیں ۔”امی مرعوب ہوئے بغیر بولیں۔
”دوستی کا کوئی اور نا م نہیں ہوتا یور میجسٹی … اور ذرا اس کو فارغ کریں ، اس نے شربت بنانا ہے ۔” اس نے دونوں ہاتھ جوڑ کر کہا۔
”شربت بنانا کون سا مشکل کام ہے ، خود بنا لو ۔” امی نے تیل والی بوتل پر ڈھکن لگاتے ہوئے لختِ جگر کو گھورا ۔
”ایک تو امی …یار آپ بھی عجیب ساس ہیں ، بہو کو سر پر چڑھا رکھا ہے ۔ ”ولی اِس جواب پر بھنا کر رہ گیا۔
”ہی ہی…” گُلانے کو اُس کے اس انداز پر ہنسی آئی تھی۔
” چلو اٹھو … دانت مت نکالو۔شربت بناؤ۔”ولی نے اسے اُٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
”ٹھیک ہے ۔ پھر تم مجھے فزکس کا ایک پرابلم حل کر کے دو گے ۔” گُلانے نے سنہری بالوں کی چوٹی بناتے ہوئے شرط پیش کی۔
”تم بھائی سے کیوں نہیں پڑھتی ہو ؟”اس نے ناک چڑا کر کہا۔
”ان کے پاس اتنا وقت کب ہوتا ہے؟” اس نے منہ بسورا اور اٹھ کھڑی ہوئی ۔
”ویسے گُلانے …”
”مجھے بھابی کہا کرو۔” ایک دم سے نورالحسن کی کہی میٹھی سی باتیں یاد آئیں تو جلدی سے اٹھلا کر بولی ۔ولی کویہ فرمائش سن کر ہنسی آگئی ۔
”اس میں ہنسی والی کیا بات ہے ۔ کیوں امی ، اسے مجھے بھابی کہنا چاہیے ناں ؟” اس نے ساس کی فیور چاہی ۔
”بالکل کہنا چاہیے ۔ یہ بات میں اسے ایک نہیں دس بار سمجھا چکی ہوں۔”امی نے کوسنے دیتے ہوئے کہا۔
”ایک تو آپ خواتین بھی ناں … عجیب ہی ہوتی ہیں ۔ اب اپنے سے چھوٹی لڑکی کو بھابی کہوں کیا ؟”ولی نے چڑ کر کہا۔
”اپنے سے چھوٹی لڑکی کو بھابی کہتے ہوئے منہ دُکھتا ہے کیا ؟” امی نے پیار سے پوچھا۔ گُلانے نے پھر ”ہی ہی ہی ” کی ۔
”چلو کہو بھابی۔” گُلانے سر پر تلوار لیے آکھڑی ہوئی ۔
”اچھا … بھابی… شربت بنا دیں پلیز۔”ولی نے دونوں ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔
”پھر کہو …بھابی۔”گُلانے اٹھلا کر بولی۔
”بھابی …بھابی جان … عزت مآب بھابی ۔” ولی باقاعدہ تعظیم بجا لایا تو امی اور وہ دونوں ہنس پڑیں ۔
”اب آپ نے بھائی کو بھی کہنا ہے کہ وہ میری بیوی کو ”بھابی ” کہا کریں ۔”ولی نے امی کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”ہاں تو کہے گا ناں … وہ تمہاری طرح بد تہذیب تھوڑی ہے ۔” امی نے جواب دیا ۔
”شاباش… بات شروع کہیں سے بھی ہو ، ختم ولی کی گستاخیوں، بدتمیزیوں اور بدتہذیبیوں پر ہوتی ہے ۔” ولی ایک بار پھر اپنے دکھڑے لے کر بیٹھ گیا جب کہ گُلانے ہنستی ہوئی شر بت بنا نے کچن میں چلی گئی۔
٭…٭…٭
سارا اسٹاف مجرم بن کر کھڑاتھا ۔ ثقلین کمال کی تفتیش جاری تھی۔ ہر ایک کا کہنا تھا کہ وہ بے گناہ ہے ۔پھر دو لاکھ بیس ہزار کی چوری کی کس نے تھی؟
باہر سے توکسی نے آکر ڈاکا نہیں ڈالا تھا… پھر ؟
”سر فراز ! تم نے مالی مدد کے لیے درخواست دی تھی ناں ۔ تمہیں پیسے چاہئیں تھے ناں اپنی والدہ کے علاج کے لیے ؟ ” ثقلین کمال اس کے سامنے آ کھڑا ہو ا۔
”ہاں … مگر اب مجھے امداد کی ضروت نہیں رہی ۔ میری والدہ کا انتقال ہو گیا ہے ۔ ” سر فراز کے جواب نے ایک لمحے کے لیے ثقلین کمال کو خاموش کروا دیا ۔
”ہوں … دکھ ہوا سن کر ۔ کفن دفن ، سوم چہلم کے بھی بڑے اخراجات ہوتے ہیں ۔ ” ایک لمحہ خاموشی کے بعد اس نے اگلا سوال کیا۔
”ہوتے ہیں … مگر اس کے لیے میں نے چوری نہیں کی ۔میں اپنی ماں کا صحیح علاج تو کروا نہ سکا ۔ اب ایصالِ ثواب پہنچانے کی کوشش کروں گا ، ایصالِ گناہ نہیں ۔” سرفراز اتنا کڑوا کبھی نہیں ہوتا تھا مگر آج کل ہو گیا تھا ۔ثقلین کمال ہنکارا بھرتے ہوئے پھرمنیجرکے عین سامنے آکھڑا ہوا تھا ۔
”میں نہیں جانتا کہ چوری کس نے کی اور کس طرح کی۔ مجھے تم … تم جواب دہ ہو مسٹر سلیمان۔” ثقلین کمال آپے سے باہر ہوا جا رہا تھا۔
”مگر سر…” اس کے چہرے پر ہوائیاں اُڑی ہوئی تھیں ۔
”اگر مگر کیا… اماؤنٹ کس کے پاس ہوتی ہے ؟ لاکر کی چابیاں کس کے پاس ہوتی ہیں ؟ تمہارے پاس ناں ۔ پھر ذمے دار کو ن ہو ا ، تم ناں ؟”
”سر سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھ لیں ۔ ” روحی نے مشورہ دیا ۔
عملے میں سے ایک فرد کے چہرے کارنگ اڑا تھا ۔
”چور پروفیشنل لگتا ہے … اس دن والی فوٹیج ہی ڈیلیٹ کر دی گئی ہے ۔ جس سے مجھے اندازہ ہوا ہے کہ یہ کام کسی لڑکے کا ہو سکتا ہے ۔ ” ثقلین کمال نے پھر مشکوک نظروں سے سر فراز کی طرف دیکھا۔
منیجرکی نظریں بھی اس پر اٹھیں ۔ دو لاکھ بیس ہزار سنبل کمال کے لیے تو اتنی بڑی اماؤنٹ نہ تھی مگرمنیجرکے لیے بہت بڑی رقم تھی۔ اگر یہ رقم ریکور نہ ہوتی تو اس کی نوکری تو جاتی ہی ، ساتھ ہی شاید جیل کی ہوا بھی کھانی پڑ جاتی ۔ سنبل کمال یا ثقلین کمال پولیس کے حوالے نہ بھی کرتے تو اس پر اتنا بڑا الزام لگ جاتا کہ کہیں اور نوکری ملنا مشکل ہو جاتی۔
”ایک ہفتہ… ایک ہفتہ ہے آپ کے پاس ۔ مجرم کا نام اور دو لاکھ بیس ہزار میرے سامنے ہونے چاہئیں ۔ ورنہ…” جملہ ادھورا چھوڑ کر وہ چلا گیا تھا ۔
”جس نے یہ کام کیا ہے ، خود ہی میرے پاس آجائے ورنہ اس کا انجام بہت برا ہو گا۔” منیجرنے کھوکھلی بے جان سی دھمکیاں دے کر اسٹاف کو کام پر لگایا ۔ اس کو خوب احساس ہو رہا تھا کہ یہ عشق اسے مہنگا پڑنے والا ہے جس کے چکر میں وہ اکثر لنچ بریک میں غائب ہو جاتا تھا ۔چوری کے دن بھی وہ اس وقت مہ جبیں سے ملنے گیا تھا ۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});