کاش میں انسان ہوتا —- محمد شعیب

”کاش میں انسان ہوتا۔۔۔ کاش۔۔۔
اگر میں انسان ہوتا تو آج اپنے بیٹے کے آگے یوں ہاتھ نہ پھیلانے پڑتے۔ اُس کے آگے رحم کی بھیگ نہ مانگنی پڑتی۔ نہ ہی اُس کے آگے یوں منت سماجت نہ کرنی پڑتی۔۔ ایسا کبھی نہ ہوتا اگر میں انسان ہوتا مگر افسوس میں انسان نہیں ہوں ۔ نہیں ہوں میں انسان۔۔ میں تمہیں دیکھ تو سکتا ہوں مگر تمہارا درد بانٹ نہیں سکتا۔ تمہاری درد بھری آہوں کومحسوس تو کرسکتا ہوں مگر ان کا مداوا نہیں کر سکتا۔تمہارے لئے دعا کرنے کے سوا میں کچھ نہیں کر سکتااور ایسا صرف اس لئے ہے کہ میں انسان نہیں ہوں۔میں ایک شجر ہوں۔۔ ایک بوسیدہ شجر۔۔ زمانے کی آفتیں جھیل کر سوکھ جانے والا شجر ۔۔ شب و روز کا مارا ہوا شجر ۔ ایک ایسا شجر جس کی شاخوں میں اب اتنی بھی طاقت نہیں رہی کہ اپنے پتوں کا وزن ہی اٹھا سکے۔پت جھڑ کے موسم میں اپنا وجود برقرار رکھ سکے۔ جسے خود ہر پل توجہ کی ضرورت ہے وہ بھلا تمہارے لئے کیا کرسکتا ہے؟لیکن اگر آج تمہیں کچھ ہوگیا ناں تو یقین جانو تم اکیلے اس دنیا سے نہیں جائو گے میں بھی اس صفحۂ ہستی سے مٹ جائوں گا۔ میرا وجود صرف تمہارے دم سے تھا۔میری سانسیں ، صرف تمہارے لئے تھیں۔۔
اے خدایا! اے مالک! یہ کیا ہوگیا ہے؟میں اتنا بے بس کیوں ہوں؟ میرے سامنے وہ زندگی اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے اور میں فخر سے اپنا سر تانے کھڑا ہوں۔ہوا کے جھونکوں کے ساتھ جھول رہا ہوں۔اے خدایا! ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ مجھے تو اس وقت جھک جا نا چاہئے تھا مگر میں جھک کیوں نہیں پا رہا؟اپنی بوسیدہ شاخوں کا سایہ اس پر کیوں نہیں کر پارہا؟میرا درخت ہونا میرے لئے اتنا بے بسی کا باعث کیوں بن رہا ہے؟اے خدا میری مدد فرما ! اِس کے حال پر رحم فرما۔۔”رات کے سناٹے میں بوہڑ کا یہ درخت اپنے سامنے دیوار کے ساتھ ٹیک لگاکر بیٹھے شخص کو دیکھ دیکھ کر افسوس کر رہا تھا۔وہ درد سے کراہ رہا تھا مگر کوئی اس کی مدد کرنے والا نہیں تھا۔ وہ اس وقت اپنے ہی گھر میں اپنے ہی ایک کمرے کے سامنے لاوارثوں کی طرح بیٹھا اپنی آخری سانسیں لے رہا تھا۔ اندھیرا اس قدر تھا کہ کچھ دِکھائی نہیں دے رہا تھا مگر وہ اسے دیکھ سکتا تھا۔ اس کے درد کو محسوس کر سکتا تھا۔





”شہزاد! تمہیں وہ دن یاد ہے جب تم نے میرے سائے تلے اپنے بیٹے کو پہلی بار اپنی گود میں لیا تھا؟ میرے سائے تلے تم نے پہلی بار اپنے بیٹے کمال کو بوسہ دیا تھا۔۔ مجھے آج بھی وہ دن اچھی طرح یاد ہے۔ تم اُس دن کتنا خوش تھے!پورے گائوں میں اپنی خوشی بانٹنے نکل کھڑے ہوئے تھے۔ تم اتنے خوش تھے کہ اس خوشی میں تم نے مجھے بھی فراموش کر دیا تھا۔ دو دن تک تم نے مجھے پانی نہیں دیا تھا۔ ایک لمحے کے لئے تو مجھے جلن ہوئی تھی کہ میری دیکھ بھال کرنے والا آج مجھے بھول گیا لیکن پھر جب تم نے مجھے منایا تھا۔۔وہ باتیں آج بھی میری رگوں کا حصّہ ہیں۔ کیا تمہیں یاد ہے شہزاد؟” یہ درخت اب اس شخص سے سرگوشیاں کر رہا تھا۔ مُندی مُندی آنکھوں سے وہ ان سرگوشیوں کو سُن سکتا تھا۔ ہوا کے جھونکوں سے یہ آواز اس کے کانوں میں رس گھول رہی تھی۔
”میرے پیارے بوہڑ! مجھ سے ناراض ہے ناں تُو! لیکن دیکھنا میں بھی تجھے منا کر ہی چھوڑوں گا۔۔ دیکھ ناں ادھر” وہ ایسے ظاہر کر رہا تھا جیسے وہ اس کا محبوب ہو اور یہ عاشق اوروہ اپنے محبوب کو مختلف ادائوں سے منانے کی سعی کر رہا تھا۔
”دیکھ ذرا آج میں تجھے اپنے ہاتھوں سے سیراب کروں گا ۔ اپنے ہاتھوں سے تیری تشنگی بجھائوں گا۔تُو چاہے مجھ سے کتنا ہی ناراض ہوجائے مگر میں تجھے منا کر ہی دم لوں گا۔ اگر تُو مجھ سے راضی نہ ہوا ناں تومیں بھی سارا دن یہیں تیرے پہلو میں بیٹھا رہوں گا پھر آتی رہے گی کمال کے رونے کی آوازیں اور پھر اگر تیرے کانوں میں دردہوگیا ناں مجھ سے نہ کہنا۔ ۔۔ دیکھ ابھی بھی سوچ لے ۔۔ راضی ہوگیا ناں مجھ سے۔۔”
”تمہاری وہ باتیں مجھے آج بھی یاد ہیںشہزاد۔۔ اس د ن تو میں تم سے کچھ پل کے لئے ناراض ہوا تھا لیکن آج تو تم مجھ سے اتنا اتنا دور جانے لگے ہو کہ ۔۔۔” اس کی آواز بھر آئی تھی۔ ہوائوں نے بھی جھومنا بند کردیا ۔صرف سناٹا تھا جو سنا جا سکتا تھا۔
”دیکھوتم نے اپنا ہر فرض ادا کیا۔۔ اُس کی ہر جائز ضرورت کو پوری کیا مگر شاید وہ اس کا اہل نہیں تھا۔تبھی تو وہ تمہاری قربانیوں کو سمجھ نہ سکا اور تمہیں بے یار و مددگار چھوڑ گیا۔ دیکھو شیراز! اپنے اندر سے یہ ملال نکال دو کہ تمہاری پرورش میں کوئی کمی رہ گئی۔نہیں تمہاری پرورش میں کوئی کمی نہیں رہی۔ تم نے تو کوئی کسر نہ چھوڑی مگرہر شخص کو اس کے احسانوں کا صلہ اس دنیا میں مل جائے ایسا بہت کم ہوتا ہے۔یہ دنیا فریب ہے اوراس فریبی دنیا میں کوئی کسی کا نہیں بنتا۔تمہارا بیٹا بھی اسی فریبی دنیا کا حصہ ہے۔ تبھی تو تمہارے بڑھاپے میں تمہیں اکیلا چھوڑ گیا۔ دردر کی ٹھوکریں تمہاری قسمت میں لکھ گیا۔۔۔ کاش تمہارے بیٹے کی جگہ میں تمہارا بیٹا ہوتا تو شاید تمہیں یہ دن نہ دیکھنے پڑتے ۔کاش۔۔” ہوا بند ہوگئی۔سانسیں تھم گئیں۔ وہ اس کی باتیں سنتے ہوئے ایک نئے جہاں میں چلا گیااور یہ درخت بھی بے جان سا ہو کر رہ گیا۔ شاخیں جھک گئیں۔پتے بند ہوا میں بھی جھڑنے لگے اور صبح ہونے تک صرف تنا باقی بچا تھا۔
٭٭٭٭٭




Loading

Read Previous

در و دیوار —– سید ممتاز علی بخاری

Read Next

قصوروار کون —- قیصر مشتاق

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!