کچھ دنوں سے وہ جلال اور زینب کے رویے میں عجیب سی تبدیلی دیکھ رہی تھی۔ وہ دونوں اس سے بہت اکھڑے اکھڑے رہنے لگے تھے۔ ایک عجیب سا تناؤ تھا، جو وہ اپنے اور ان کے درمیان محسوس کر رہی تھی۔
اس نے ایک دوبار جلال کو ہاسپٹل فون کیا، مگر ہر بار اسے یہی جواب ملتا کہ وہ مصروف ہے۔ وہ زینب کو اگر کالج سے لینے بھی آتا تو پہلے کی طرح اس سے نہیں ملتا تھا اور اگر ملتا بھی تو صرف رسمی ہی علیک سلیک کے بعد واپس چلا جاتا۔ وہ شروع میں اس تبدیلی کو اپنا وہم سمجھتی رہی مگر پھر زیادہ پریشان ہونے پر وہ ایک دن جلال کے ہاسپٹل چلی آئی۔
جلال کا رویہ بے حد سرد تھا۔ امامہ کو دیکھ کر اس کے چہرے پر مسکراہٹ تک نہیں آئی تھی۔
”کافی دن ہوگئے تھے ہمیں ملے ہوئے، اس لیے میں خود چلی آئی۔” امامہ نے اپنے سارے اندیشوں کو جھٹکنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
”میری تو شفٹ شروع ہو رہی ہے۔”
امامہ نے حیرانی سے اسے دیکھا۔ ”زینب بتا رہی تھی کہ اس وقت آپ کی شفٹ ختم ہوتی ہے، میں اسی لیے اس وقت آئی ہوں۔”
وہ ایک لمحہ کے لیے خاموش رہا پھر اس نے کہا۔ ”ہاں صحیح ہے مگر آج میری کوئی اور مصروفیت ہے۔”
وہ اس کا منہ دیکھ کر رہ گئی۔ ”جلال! آپ کسی وجہ سے مجھ سے ناراض ہیں؟” ایک لمحے کے توقف کے بعد اس نے کہا۔
”نہیں، میں کسی سے ناراض نہیں ہوں۔” جلال نے اسی رکھائی سے کہا۔
”کیا آپ دو منٹ باہر آکر میری بات سن سکتے ہیں؟”
جلال کچھ دیر اسے دیکھتا رہا پھر اس نے اپنا اوور آل اپنے بازو پر ڈال لیا اور کچھ کہے بغیر کمرے سے باہر نکل آیا۔
باہر آتے ہی جلال نے اپنی رسٹ واچ پر ایک نظر دوڑائی۔ یہ شاید اس کے لیے بات شروع کرنے کا اشارہ تھا۔ ”آپ میرے ساتھ اس طرح مس بی ہیو کیوں کر رہے ہیں؟”
”کیا مس بی ہیو کر رہا ہوں؟” جلال نے اکھڑ انداز میں کہا۔
”آپ بہت دنوں سے مجھے اگنور کر رہے ہیں۔”
”ہاں، کر رہا ہوں۔”
”امامہ کو توقع نہیں تھی کہ وہ اتنی صفائی سے بات کا اعتراف کر لے گا۔
”کیوں کہ میں تم سے ملنا نہیں چاہتا۔” وہ کچھ لمحوں کے لیے کچھ نہیں بول سکی۔ ”کیوں؟”
”یہ بتانا ضروری نہیں ہے۔” اس نے اسی طرح اکھڑ انداز میں کہا۔
”میں جاننا چاہتی ہوں کہ آپ کا رویہ یک دم کیوں تبدیل ہوگیا ہے۔” کوئی نہ کوئی وجہ تو ہوگی اس کی۔ امامہ نے کہا۔
ہاں وجہ ہے مگر میں تمہیں بتانا ضروری نہیں سمجھتا۔ بالکل اسی طرح جس طرح تم بہت سی باتیں مجھے بتانا ضروری نہیں سمجھتیں۔”
”میں؟” وہ اس کا منہ دیکھنے لگی۔ ”میں نے کون سی باتیں آپ کو نہیں بتائیں۔”
”یہ کہ تم مسلمان نہیں ہو۔” جلال نے بڑے تلخ لہجے میں کہا۔ امامہ سانس تک نہیں لے سکی۔
”کیا تم نے یہ بات مجھ سے چھپائی نہیں؟”
”جلال! میں بتانا چاہتی تھی۔” امامہ نے شکست خوردہ انداز میں کہا۔
”چاہتی تھیں… مگر تم نے بتایا تو نہیں… دھوکا دینے کی کوشش کی تم نے۔”
”جلال! میں نے آپ کو دھوکا دینے کی کوشش نہیں کی۔” امامہ نے جیسے احتجاج کیا۔ ”میں آپ کو کیوں دھوکا دوں گی؟”
”مگر تم نے یہی کیا ہے۔” جلال نے سر جھٹکتے ہوئے کہا۔
”جلال میں” جلال نے اس کی بات کاٹ دی۔
”تم نے جان بوجھ کر مجھے ٹریپ کیا۔” امامہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
”ٹریپ کیا؟” اس نے زیر لب جلال کے لفظوں کو دہرایا۔
”تم جانتی تھیں کہ میں اپنے پیغمبر محمدﷺ سے عشق کرتا ہوں۔”
وہ شکست خوردہ انداز میں اسے دیکھتی رہی۔
”شادی تو دور کی بات ہے۔ اب جب میں تمہارے بارے میں سب کچھ جان گیا ہوں، تو میں تم سے کوئی تعلق رکھنا نہیں چاہتا۔ تم دوبارہ مجھ سے ملنے کی کوشش مت کرنا۔” جلال نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
”جلال! میں اسلام قبول کر چکی ہوں۔”امامہ نے مدھم آواز میں کہا۔
”اوہ کم آن” جلال نے تحقیر آمیز انداز میں اپنا ہاتھ جھٹکا۔ ”یہاں کھڑے کھڑے تم نے میرے لیے اسلام قبول کرلیا۔” اس بار وہ مذاق اڑانے والے انداز میں ہنسا۔
”جلال! میں آپ کے لیے مسلم نہیں ہوئی۔ آپ میرے لیے ایک ذریعہ ضرور بنے ہیں، مجھے کئی ماہ ہوگئے ہیں اسلام قبول کیے اور اگر آپ کو میری بات پر یقین نہیں ہے تو میں آپ کو ثبوت دے سکتی ہوں۔ آپ میرے ساتھ چلیں۔”
اس بار جلال کچھ الجھے ہوئے انداز میں اسے دیکھنے لگا۔
”میں مانتی ہوں میں نے آپ کی طرف پیش قدمی خود کی۔ آپ کے بقول میں نے آپ کو ٹریپ کیا۔ میں نے ٹریپ نہیں کیا۔ میں صرف بے بس تھی۔ آپ کے معاملے میں مجھے خود پر قابو نہیں رہتا تھا۔ آپ کی آواز کی وجہ سے، آپ جانتے ہیں میں نے آپ کو بتایا تھا میں نے پہلی بار آپ کو نعت پڑھتے سنا تو میں نے کیا محسوس کیا تھا۔ آپ کو اگر میرے بارے میں پہلے ہی یہ سب کچھ پتہ چل جاتا تو آپ میرے ساتھ یہی سلوک کرتے جو اب کر رہے ہیں… مجھے صرف اس بات کا اندیشہ تھا جس کی وجہ سے میں نے آپ سے بہت کچھ چھپائے رکھا۔ بعض باتوں میں انسان کو اپنے اوپر اختیار نہیں ہوتا۔ مجھے بھی آپ کے معاملے میں خود پر کوئی اختیار نہیں تھا۔”
اس نے رنجیدگی سے کہا۔
”تمہارے گھر والوں کو اس بات کا پتا ہے؟”
”نہیں۔ میں انہیں نہیں بتا سکتی۔ میری منگنی ہوچکی ہے۔ میں نے آپ کو اس بارے میں بھی نہیں بتایا…” وہ ایک لمحہ کے لیے رکی۔ ”مگر میں وہاں شادی نہیں کرنا چاہتی۔ میں آپ سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔ میں صرف اپنی تعلیم مکمل کرنے کا انتظار کر رہی ہوں۔ تب میں اپنے پیروں پر کھڑی ہو جاؤں گی اور پھر میں آپ سے شادی کروں گی۔
”چار پانچ سال بعد جب میں ڈاکٹر بن جاؤں گی تو شاید میرے پیرنٹس آپ سے میری شادی پر اس طرح اعتراض نہ کریں جس طرح وہ اب کریں گے۔ اگر مجھے یہ خوف نہ ہو کہ وہ میری تعلیم ختم کروا کر میری شادی اسجد سے کردیں گے تو شاید میں انہیں ابھی اس بات کے بارے میں بتا دیتی کہ میں اسلام قبول کرچکی ہوں مگر میں ابھی پوری طرح ان پر ڈپینڈنٹ ہوں۔ میرے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ آپ وہ واحد راستہ تھے جو مجھے نظر آیا۔ مجھے واقعی آپ سے محبت ہے پھر میں آپ کو شادی کی پیشکش نہ کرتی تو اور کیا کرتی آپ اس صورت حال کا اندازہ نہیں کرسکتے جس کا سامنا میں کر رہی ہوں… میری جگہ پرہوتے تو آپ کو اندازہ ہوتا کہ میں جھوٹ بولنے کے لیے کتنی مجبور ہوگئی تھی۔”
جلال کچھ کہے بغیر پاس موجود لکڑی کے بنچ پر بیٹھ گیا وہ اب پریشان نظر آرہا تھا۔ امامہ نے اپنی آنکھیں پونچھ لیں۔
”کیا آپ کے دل میں میرے لیے کچھ بھی نہیں ہے؟ صرف اس لیے میرے ساتھ انوالو ہیں، کیوں کہ میں آپ سے محبت کرتی ہوں؟”
جلال نے اس کے سوال کا جواب دینے کے بجائے اس سے کہا۔
”امامہ! بیٹھ جاؤ… پورا پینڈورا باکس کھل گیا ہے میرے سامنے … اگر میں تمہاری صورت حال کا اندازہ نہیں کرسکتا تو تم بھی میری پوزیشن کو نہیں سمجھ سکتیں۔”
امامہ اس سے کچھ فاصلے پر رکھی بنچ پر بیٹھ گئی۔
”میرے والدین کبھی غیر مسلم لڑکی سے میری شادی نہیں کریں گے۔ قطع نظر اس کے کہ میں اس سے محبت کرتا ہوں یا نہیں۔”
”جلال! میں غیر مسلم نہیں ہوں۔”
”تم اب نہیں ہو مگر پہلے تو تھیں اور پھر تمہار اخاندان۔۔۔”
”میں ان دونوں چیزوں کے بارے میں کچھ نہیں کرسکتی۔” امامہ نے بے بسی سے کہا۔
جلال نے جواب میں کچھ نہیں کہا کچھ دیر وہ دونوں خاموش رہے۔
”کیا آپ اپنے پیرنٹس کی مرضی کے بغیر مجھ سے شادی نہیں کرسکتے؟” کچھ دیر بعد امامہ نے کہا۔
”یہ بہت بڑا قدم ہوگا۔” جلال نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔ ”اور بالفرض میں یہ کام کرنا سوچ بھی لوں تو بھی نہیں ہوسکتا۔ تمہاری طرح میں بھی اپنے پیرنٹس پر ڈیپنڈنٹ ہوں۔” جلال نے مجبوری بتائی۔
”مگر آپ ہاؤس جاب کر رہے ہیں اور چند سالوں میں اسٹیبلش ہوجائیں گے۔” امامہ نے کہا۔
”میں ہاؤس جاب کے بعد اسپیشلائزیشن کے لیے باہر جانا چاہتا ہوں اور یہ میرے پیرنٹس کی مالی مدد کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ اسپیشلائزیشن کے بعد ہی میں واپس آکر اپنی پریکٹس اسٹیبلش کر سکتا ہوں۔ تین چار سال اپنی اسٹڈیز ختم کرنے میں بھی لگ جائیں گے۔”
جلال نے اسے یاد دلایا۔
”پھر؟” امامہ نے اسے مایوسی سے دیکھا۔
”پھر یہ کہ مجھے سوچنے کا وقت دو۔ شاید میں کوئی رستہ نکال سکوں، میں تمہیں چھوڑنا نہیں چاہتا مگر میں اپنا کیریئر بھی خراب نہیں کرسکتا۔ میرا پرابلم صرف یہ ہے کہ میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے جو کچھ ہے ماں باپ کا ہے اور وہ اپنی ساری جمع پونجی مجھ پر خرچ کر رہے ہیں یہ سوچ کر کہ میں کل کو ان کے لیے کچھ کروں گا۔”
وہ بات کرتے کرتے رکا۔ ”کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ تمہارے والدین اپنی مرضی سے تمہاری شادی مجھ سے کردیں۔ اس صورت میں کم از کم میرے والدین کو یہ اعتراض تو نہیں ہوگا کہ تم نے اپنے والدین کی مرضی کے خلاف انہیں بتائے بغیر مجھ سے شادی کی ہے۔”
وہ جلال کا چہرہ دیکھنے لگی۔ ”میں نہیں جانتی… ایسا ہوسکتا ہے یا نہیں۔ میں کچھ بھی نہیں کہہ سکتی۔ وہ میری بات مانیں گے یا نہیں۔ میں …” امامہ نے کچھ مایوسی کے عالم میں بات ادھوری چھوڑ دی۔ جلال بات مکمل ہونے کا انتظار کرتا رہا۔
”میری فیملی میں آج تک کسی لڑکی نے اپنی مرضی سے باہر کسی لڑکے سے شادی نہیں کی۔ اس لیے میں یہ نہیں بتا سکتی کہ ان کا رد عمل کیا ہوگا مگر میں یہ ضرور بتا سکتی ہوں کہ ان کا رد عمل بہت برا ہوگا بہت برا۔ وہ مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں لیکن مجھے یہ اجازت نہیں دے سکتے کہ میں اتنا بڑا قدم اٹھاؤں۔ آپ کو اندازہ ہونا چاہیے کہ میرے بابا کو کتنی شرمندگی اور بے عزتی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ صرف میرے لیے تو وہ سب کچھ نہیں بدل دیں گے۔
”اگر مجھے اپنی فیملی سے مدد کی توقع ہوتی تو میں گھر سے باہر سہاروں کی تلاش میں ہوتی۔ نہ ہی آپ سے اس طرح مدد مانگ رہی ہوتی۔”
دھیمے لہجے میں اپنی آواز کی لرزش پر قابو پاتے ہوئے اس نے جلال سے کہا۔
”امامہ! میں تمہاری مدد کروں گا… میرے پیرنٹس میری بات نہیں ٹالیں گے۔ سمجھانے میں کچھ وقت لگے گا مگر میں تمہاری مدد کروں گا۔ میں انہیں منالوں گا۔ تم ٹھیک کہتی ہو کہ مجھے تمہاری مدد کرنی چاہیے۔”
وہ پرسوچ مگر کچھ الجھے ہوئے انداز میں اس سے کہہ رہا تھا۔ امامہ کو عجیب سی ڈھارس ہوئی۔ اسے جلال سے یہی توقع تھی۔
اِمامہ نے سوچا ”میرا انتخاب غلط نہیں ہے۔”
٭…٭…٭