امامہ کے لیے وہ ایک نئے سفر کا آغاز تھا۔ وہ پہلے کی طرح باقاعدگی سے صبیحہ کے پاس جانے لگی۔ ان اجتماعات میں شرکت نے اسے اگر ایک طرف اپنے فیصلے پر استقامت بخشی تو دوسری طرف اس کے باقی ماندہ شبہات کو بھی دور کر دیا۔
مذہب تبدیل کرنے کا فیصلہ امامہ کے لیے کوئی چھوٹا یا معمولی فیصلہ نہیں تھا، اس ایک فیصلے نے اس کی زندگی کے ہر معاملے کو متاثر کیا تھا۔ وہ اب اسجد سے شادی نہیں کرسکتی تھی کیوں کہ وہ غیر مسلم تھا۔ اسے جلد یا بدیر اپنے گھر والوں سے علیحدگی بھی اختیار کرنی تھی کیوں کہ وہ اب ایسے کسی ماحول میں رہنا نہیں چاہتی تھی جہاں اسلامی شعائر او عقائد میں اتنے دھڑلے سے تحریفات کی جاتی تھیں۔ وہ اس پیسے کے بارے میں بھی شکوک کا شکا رہونے لگی تھی جو اسے اپنی تعلیم اور دوسرے اخراجات کے لیے ہاشم مبین کی طرف سے ملتے تھے۔ چند سال پہلے تک پریوں کی کہانی نظر آنے والی زندگی یک دم ہی ایک ڈراؤنے خواب میں تبدیل ہوگئی تھی اور زندگی کے اس مشکل راستے کا انتخاب اس نے خود کیا تھا۔ اسے بعض دفعہ حیرت ہوتی کہ اس نے اتنا بڑا فیصلہ کس طرح کرلیا۔ اس نے اللہ سے استقامت ہی مانگی تھی اوراسے استقامت سے نوازا گیا تھا مگر وہ ابھی اتنی کم عمر تھی کہ خدشات اوراندیشوں سے مکمل طور پر پیچھا چھڑا لینا اس کے لیے ممکن نہیں تھا۔
”امامہ! تم فی الحال اپنے والدین کو مذہب کی تبدیلی کے بارے میں نہ بتاؤ۔ اپنے پیروں پر کھڑی ہو جاؤ۔ اس وقت نہ صرف تم آسانی سے اسجد سے شادی سے انکار کرسکتی ہو بلکہ تم انہیں اپنے مذہب کی تبدیلی کے بارے میں بھی بتا سکتی ہو۔”
صبیحہ نے ایک بار ا س کے خدشات سننے کے بعد اسے مشورہ دیا تھا۔
”میں اس پیسے کو اپنے اوپر خرچ کرنا نہیں چاہتی جو میرے بابا مجھے دیتے ہیں، اب جب کہ میں جانتی ہوں کہ میرے والد ایک جھوٹے مذہب کی تبلیغ کر رہے ہیں یہ جائز تو نہیں ہے کہ میں ایسے شخص سے اپنے اخراجات کے لیے رقم لوں؟”
”تم ٹھیک کہتی ہو مگر تمہارے پاس فی الحال کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ بہتر ہے تم اپنی تعلیم مکمل کرلو، اس کے بعد تمہیں اپنے والد سے کچھ بھی نہیں لینا پڑے گا۔” صبیحہ نے اسے سمجھایا۔ صبیحہ اگر اسے یہ راہ نہ دکھاتی تب بھی امامہ اس کے علاوہ اورکچھ نہیں کرسکتی تھی۔ اس میں فی الحال اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ اپنی زندگی کی سب سے بڑی خواہش چھوڑ دیتی۔
٭…٭…٭
اس وقت رات کے دس بجے تھے جب وہ سینما سے باہر نکل آیا تھا۔ اس کے ہاتھ میں اب بھی پاپ کا رن کا پیکٹ تھا اوروہ کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا پاپ کارن کھاتے ہوئے سڑک پرچل رہا تھا۔
آدھ گھنٹہ تک سڑکیں ناپتے رہنے کے بعد اس نے ایک بہت بڑے بنگلے کی گھنٹی بجائی تھی۔
”صاحب کھانا لگاؤں؟” لاؤنج میں داخل ہونے پر ملازم نے اسے دیکھ کر پوچھا۔
”نہیں۔” اس نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔
”دودھ۔”
”نہیں۔” وہ رُکے بغیروہاں سے گزرتا چلا گیا۔ اپنے کمرے میں داخل ہوکر اس نے دروازہ بند کرلیا۔ کمرے کی لائٹ آن کر کے وہ کچھ دیر بے مقصد ادھر ادھر دیکھتا رہا پھر باتھ روم کی طرف بڑھ گیا۔ شیونگ کٹ نکال کر اس کے اندر سے ایک ریزر بلیڈ نکال لیا اوراسے لے کر بیڈ روم میں آگیا۔ اپنے بیڈ پر بیٹھ کر اس نے سائیڈ ٹیبل پر پڑا ہوا لیمپ جلا لیا اور بیڈ روم کی ٹیوب لائٹ بند کردی۔ ریزر بلیڈ کے اوپر موجود ریپر کو اُتار کر وہ کچھ دیر لیمپ کی روشنی میں اس کی تیز دھار کو دیکھتا رہا پھر اس نے بلیڈ کے ساتھ اپنے دائیں ہاتھ کی کلائی کی رگ کو ایک تیز جھٹکے سے کاٹ دیا۔اس کے منہ سے ایک سسکی سی نکلی اور پھر اس نے ہونٹ بھینچ لیے۔ وہ اپنی آنکھوں کو کھلا رکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس کی کلائی بیڈ سے نیچے لٹک رہی تھی اورخون کی دھار اب سیدھا کارپٹ پرگر گر کر اس میں جذب ہو رہی تھی۔
اس کا ذہن جیسے کسی گہری کھائی میں جا رہا تھا پھر اس نے کچھ دھماکے سنے۔ تاریکی میں جاتا ہوا ذہن ایک با رپھر جھماکے کے ساتھ روشنی میں آگیا۔ شور اب اور بڑھتا جارہا تھا۔ وہ فوری طور پر شو رکی وجہ سمجھ نہیں پا رہا تھا۔ اس نے ایک با رپھر اپنی آنکھیں کھول دیں مگر وہ کسی چیز کو سمجھ نہیں پا رہا تھا۔
٭…٭…٭
وہ سو رہی تھی جب ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔ کوئی اس کا دروازہ بجا رہا تھا۔
”امامہ امامہ!” وسیم دروازہ بجاتے ہوئے بلند آواز میں اس کا نام پکار رہا تھا۔
”کیا ہوا ہے؟’ کیوں چلا رہے ہو؟” دروازہ کھولتے ہی اس نے کچھ حواس باختگی کے عالم میں وسیم سے پوچھا، جس کا رنگ اُڑا ہوا تھا۔
”فرسٹ ایڈ باکس ہے تمہارے پاس؟” وسیم نے اسے دیکھتے ہی فوراً پوچھا۔
”ہاں، کیوں؟” وہ مزید پریشان ہوئی۔
”بس اسے لے کر میرے ساتھ آجاؤ۔” وسیم نے کمرے کے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا۔
”کیا ہوا؟” اس کے پیروں کے نیچے سے جیسے زمین کھسکنے لگی۔
”چوچو نے پھر خو دکشی کی کوشش کی ہے۔ اپنی کلائی کاٹ لی ہے اس نے۔ ملازم آیا ہوا ہے نیچے اس کا، تم میرے ساتھ چلو۔” امامہ نے بے اختیار ایک اطمینان بھرا سانس لیا۔
”تمہارے اس دوست کو مینٹل ہاسپٹل میں ہونا چاہیے، جس طرح کی حرکتیں یہ کرتا پھرتا ہے۔” امامہ نے ناگواری سے اپنے بیڈ پر پڑا ہوا دو پٹہ اوڑھتے ہوئے کہا۔
”میں تو اسے دیکھتے ہی بھاگ آیا ہوں، ابھی وہ ہوش میں تھا۔” اس نے مڑ کر امامہ کو بتایا۔ وہ دونوں اب آگے پیچھے سیڑھیاں اُتر رہے تھے۔
”تم اسے پاسپٹل لے جاتے۔” اِمامہ نے آخری سیڑھی پر پہنچ کر کہا۔
”وہ بھی لے جاؤں گا، پہلے تم اس کی کلائی وغیرہ تو باندھو، خون تو بند ہو۔”
”وسیم! میں اسے کوئی بہت اچھی قسم کی فرسٹ ایڈ نہیں دے سکتی۔ پتا نہیں اس نے کس چیز سے کلائی کاٹی ہے اورزخم کتنا گہرا ہے۔ اس کے اپنے گہر والے کہاں ہیں؟” بات کرتے کرتے امامہ کو خیال آیا۔
”اس کے گھر میں کوئی بھی نہیں ہے، صرف ملازم ہیں۔ وہ تو کوئی فون کال آئی تھی جس پر ملازم اسے بلانے کے لیے گیا اورجب اندر سے کوئی جواب نہیں آیا تو پریشان ہوکر دوسرے ملازموں کے ساتھ مل کر اس نے دروازہ توڑ دیا۔” وہ دونوں ساتھ چلتے ہوئے اب اپنے گھر سے باہر نکل آئے تھے۔
”تمہارا یہ دوست جو ہے نا…” امامہ نے کچھ ناراضی کے عالم میں وسیم کے ساتھ چلتے ہوئے سالار کے بارے میں کچھ کہنا چاہا مگر وسیم نے غصے میں پلٹ کر اس کو جھڑک دیا۔
”فار گاڈ سیک۔ اپنی لعنت ملامت بند نہیں کرسکتیں تم۔ اس کی حالت سیریس ہے اورتم اس کی برائیوں میں مصروف ہو۔”
”ایسی حرکتیں کرنے والوں کے لیے میرے پاس کوئی ہمدردی نہیں ہے۔” وہ دونوں اب سالار کے لاؤنج میں پہنچ چکے تھے۔
چند قدم چلنے کے بعد وسیم ایک موڑ مڑا اورکمرے کے اندر داخل ہوگیا۔ اِمامہ اس کے پیچھے ہی تھی مگر پھر جیسے کرنٹ کھا کر رک گئی۔ کمرے کے دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی سامنے قد آدم کھڑکیوں پرکچھ ماڈلز اور ایکٹریسز کی بڑی بڑی عریاں تصویریں اس طرح لگائی گئی تھیں کہ ایک لمحے کے لیے امامہ کو یوں لگا جیسے وہ تمام لڑکیاں حقیقی طور پر اس کمرے میں موجود ہوں۔ اس کا چہرہ سرخ ہوگیا۔ ایک طر ف بیڈ پر پڑے ہوئے زخمی کے بارے میں اس کی رائے کچھ اورخراب ہوگئی۔ وہ تصویریں اس کے کردا رکی پستی کا ایک اور ثبو ت تھیں اورکمرے میں تین چا رلوگوں کی موجودگی میں اس کے لیے وہ تصویریں خاصی خفت اورشرمندگی کا باعث بن رہی تھیں۔ ان تصویروں سے نظریں چراتے ہوئے وہ تیز رفتاری سے ڈبل بیڈ کی طرف آگئی جہاں سالار سکندر لیٹا ہوا تھا۔ وسیم اس کے پاس بیڈ پر بیٹھا فرسٹ ایڈ باکس کھول رہا تھا جب کہ امامہ کا بڑا بھائی سالار کی اس کلائی کو بیڈ شیٹ کے ایک لٹکتے ہوئے کونے کے ساتھ دبا کر خون روکنے کی کوشش کر رہا تھا جب کہ خود سالار نشے میں ڈوبے ہوئے کسی انسان کی طرح اپنا ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کر رہا تھا۔ وہ وسیم اوروہاں موجود ملازموں سے کچھ کہہ بھی رہا تھا۔
اِمامہ کے آگے بڑھتے ہی اس کے بڑے بھائی نے اس کرسی کو چھوڑ دیا، جس پر وہ بیٹھے ہوئے تھے۔
”اس کے زخم کو دیکھو، میں نے چاد رسے خون روکنے کی کوشش کی ہے مگر میں کامیاب نہیں ہوا۔” انہوں نے اس کی کلائی اِمامہ کو تھماتے ہوئے کہا۔ امامہ نے کرسی پر بیٹھتے ہی اس کی کلائی کے گرد لپٹا ہوا چادر کا کونہ ہٹایا۔ زخم بہت گہرا اورلمبا تھا۔ ایک نظر ڈالتے ہی اسے اندازہ ہو گیا تھا۔
سالار نے پھر ایک جھٹکے کے ساتھ اپنا ہاتھ کھینچنے کی کوشش کی مگر اِمامہ مضبوطی سے کلائی کے کچھ نیچے سے اس کا بازو پکڑے رہی۔
”وسیم! بس بینڈیج نکال دو، یہ زخم بہت گہرا ہے۔ یہاں کچھ نہیں ہوسکتا۔ بینڈیج کرنے سے خون رک جائے گا پھر تم لوگ اسے پاسپیٹل لے جاؤ۔” اس نے ایک نظر نیچے کارپٹ پر جذب ہوتے خون پر ڈالی۔ وسیم تیزی سے فرسٹ ایڈ باکس میں سے بینڈیج نکالنے لگا۔
سالار نے بیڈ پر لیٹے لیٹے اپنے سر کو جھٹکا دیا اورآنکھیں کھولنے کی کوشش کی۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اب دھندلاہٹ سی تھی مگر اس کے باوجود اس نے اپنے بیڈ سے کچھ فاصلے پر بیٹھی ہوئی اس لڑکی اور اس کے ہاتھ میں موجود اپنے بازو کو دیکھا تھا۔
کچھ مشتعل ہوکر اس نے ایک اورجھٹکے کے ساتھ اپنا ہاتھ اس لڑکی کے ہاتھ سے آزاد کروانے کی کوشش کی۔ ہاتھ آزاد نہیں ہوا مگر درد کی ایک تیز لہر نے بے اختیار اسے کراہنے پر مجبور کیا تھا۔ اسے چند لمحوں کے لیے یہ ہی محسوس ہوا تھا جیسے اس کی جان نکل گئی مگر اگلے ہی لمحے وہ ایک با رپھر ہاتھ چھڑانے کی کوشش کر رہا تھا۔
”تم لوگ دفع ہو… جاؤ… کہاں سے … آگئے … ہو؟” اس نے کچھ مشتعل ہوکر لڑکھڑاتے لہجے میں کہا۔ ”یہ میرا… کمرہ … ہے… تم … لوگوں … کو اندر … آنے کی جرأت کیسے… ہوئی … تم… تم… وسیم … تم… دفع… ہو جاؤ… گیٹ لاسٹ … جسٹ … گیٹ لاسٹ … بلڈی باسٹرڈ۔”
اس نے بلند آواز میں مگر لڑکھڑاتی زبان سے کہا۔ امامہ نے اس کے منہ سے نکلنے والی گالی کو سنا۔ ایک لمحہ کے لیے اس کے چہرے کا رنگ بدلا مگر وہ پھراس کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑے بیٹھی رہی۔ اس نے وسیم سے کاٹن لے کر کراہتے ہوئے سالار کی کلائی کے زخم پر رکھ دی جو ہاتھ کو کھینچنے اورہلانے سے باز نہیں آرہا تھا اوروسیم کے ہاتھ سے بینڈیج لے کرلپیٹنا شروع کر دیا۔ سالار نے دھندلائی آنکھوں کے ساتھ اپنی کلائی کے گرد کسی چیز کی نرمی کو محسوس کیا۔
کچھ بے بسی اورجھنجلاہٹ کے عالم میں سالار نے اپنے بائیں ہاتھ کے زور سے اپنے دائیں ہاتھ کو چھڑانے کی کوشش کی تھی۔ دھندلائی ہوئی آنکھوں کے ساتھ اس کا آگے بڑھنے والا بایاں ہاتھ لڑکی کے سر سے ٹکرایا تھا۔ اس کے سر سے نہ صرف دو پٹہ اُترا تھا بلکہ اس کے بال بھی کھل گئے تھے۔
امامہ نے ہڑبڑا کر اسے دیکھا جو ایک با رپھر اپنا بایاں ہاتھ آگے لا رہا تھا۔ امامہ نے اپنے بائیں ہاتھ سے اس کی کلائی کو پکڑے رکھا جب کہ دائیں ہاتھ میں پکڑی ہوئی بینڈیج چھوڑ کر اپنی پوری قوت سے اپنا دایاں ہاتھ اس کے بائیں گال پر دے مارا۔ تھپڑ اتنا زناٹے دار تھا کہ ایک لمحہ کے لیے سالار کی آنکھوں کے سامنے چھائی ہوئی دھند چھٹ گئی۔ کھلے منہ اور آنکھوں کے ساتھ دم بخود اس نے اس لڑکی کو دیکھا تھا جو سرخ چہرے کے ساتھ بلند آواز میں اس سے کہہ رہی تھی۔
”اب اگر تم ہلے تو میں تمہارا دوسرا ہاتھ بھی کاٹ دوں گی، سنا تم نے۔”
سالا رنے اس لڑکی کے عقب میں وسیم کو بلند آواز میں کچھ کہتے ہوئے سنا مگر وہ کچھ سمجھ نہیں پایا۔ اس کا ذہن مکمل طورپر تاریکی میں ڈوب رہا تھا، مگر اس نے پھر ایک آواز سنی تھی، نسوانی آواز۔ ”اس کا بلڈ پریشر چیک کرو…” سالار کو بے اختیار چند لمحے پہلے اپنے گال پر پڑنے والا تھپڑ یاد آیا۔ وہ چاہنے کے باوجود آنکھیں نہیں کھول سکا۔ وہی نسوانی آواز ایک با رپھر گونجی تھی مگر اس بار وہ اس آواز کو کوئی مفہوم نہیں پہنا سکا۔ اس کا ذہن مکمل طور پر تاریکی میں ڈوب گیا تھا۔
٭…٭…٭
اگلی بار جب اسے ہوش آیا تو وہ ایک پرائیویٹ کلینک میں موجود تھا۔ آنکھیں کھول کر اس نے ایک بار اپنے ارد گرد دیکھنے کی کوشش کی۔ کمرے میں اس وقت ایک نرس موجود تھی جو اس کے پاس کھڑی ڈرپ کو صحیح کرنے میں مصروف تھی۔ سالار نے اسے مسکراتے دیکھا تھا وہ اس سے کچھ کہنا چاہ رہا تھا مگر اس کا ذہن ایک بار پھر تاریکی میں ڈوب گیا۔
دوسری بار اسے کب ہوش آیا، اسے اندازہ نہیں ہوا مگر دوسری بار آنکھیں کھولنے پر اس نے اس کمرے میں کچھ شناسا چہرے دیکھے تھے۔ اسے آنکھیں کھولتے دیکھ کر ممی اس کی طرف بڑھ آئیں۔
”کیسا محسوس کر رہے ہو تم؟” انہوں نے اس پر جھکتے ہوئے بے تابی سے کہا۔
”جسٹ فائن” سالار نے دور کھڑے سکندر عثمان کو دیکھتے ہوئے دھیمے لہجے میں کہا۔ اس سے پہلے کہ اس کی ممی کچھ اور کہتیں کمرے میں موجود ایک ڈاکٹر آگے آگیا تھا۔ وہ اس کی نبض چیک کرنے لگا تھا۔
ڈاکٹر نے انجکشن لگانے کے بعد ایک بار پھر اسے ڈرپ لگائی۔ سالار نے کچھ بیزاری کے ساتھ یہ کارروائیاں دیکھیں۔ ڈرپ لگانے کے بعد وہ سکندر عثمان اور ان کی بیوی سے باتیں کرنے لگا۔ سالار اس گفتگو کے دوران چھت کو گھورتا رہا پھر کچھ دیر بعد ڈاکٹر کمرے سے نکل گیا۔
کمرے میں اب بالکل خاموشی تھی۔ سکندر عثمان اور ان کی بیگم اپنا سر پکڑے بیٹھے تھے۔ ان کی تمام کوششوں اور احتیاط کے باوجود یہ سالار سکندر کی خود کشی کی چوتھی کوشش تھی اور اس بار وہ واقعی مرتے مرتے بچا تھا۔ ڈاکٹرز کے مطابق اگر چند منٹوں کی تاخیر ہو جاتی تو وہ اسے نہیں بچا سکتے تھے۔
سکندر اور ان کی بیوی کو رات کے دو بجے ملازم نے سالار کی خود کشی کی اس کوشش کے بارے میں بتایا تھا اور وہ دونوں میاں بیوی پوری رات سو نہیں سکے تھے۔ سکندر عثمان نے صبح فلائٹ ملنے تک تقریباً ڈیڑھ سو سگریٹ پھونک ڈالے تھے، مگر اس کے باوجود ان کی بے چینی اور اضطراب میں کمی نہیں ہو پا رہی تھی۔
“میری سمجھ میں نہیں آتا یہ آخر اس طرح کی حرکتیں کیوں کرتا ہے، آخر اس پر ہماری نصیحتوں اور ہمارے سمجھانے کا اثر کیوں نہیں ہوا۔” سکندر عثمان نے دوران سفر کہا۔ ”میرا تو دماغ پھٹنے لگتا ہے جب میں اس کے بارے میں سوچتا ہوں۔ کیا نہیں کیا میں نے اس کے لیے۔ ہر سہولت، بہترین تعلیم حتی کہ بڑے سے بڑے سائیکا ٹرسٹ تک کو دکھا چکا ہوں مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات… میری تو سمجھ میں نہیں آتا کہ مجھ سے کیا غلطی ہوگئی ہے، جو مجھے یہ سزا مل رہی ہے۔ جاننے والوں کے درمیان مذاق بن گیا ہوں میں اس کی وجہ سے۔” سکندر عثمان بہت پریشان تھے۔ ”ہر وقت میرا دم حلق میں اٹکا رہتا ہے پتا نہیں وہ کس وقت کیا کر گزرے۔ اتنی احتیاط برتنے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ایک بار ہم غافل ہوئے اور وہ وہی حرکت کر گزرا ہے۔” طیبہ نے اپنی آنکھوں میں امڈتے ہوئے آنسوؤں کو ٹشو کے ساتھ صاف کیا۔
وہ دونوں اسی طرح کی باتیں کرتے ہوئے کراچی سے اسلام آباد آئے تھے مگر سالار کے سامنے آکر دونوں کو چپ لگ گئی تھی۔ ان دونوں ہی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اس حالت میں اس سے کیا کہیں۔
سالار کو ان کی دلی اور ذہنی کیفیات کا اچھی طرح اندازہ تھا اور ان کی خاموشی کو وہ غنیمت جان رہا تھا۔
انہوں نے اس دن اس سے کچھ نہیں کہا تھا۔ اگلے دن بھی وہ دونوں خاموش ہی رہے تھے
مگر تیسرے دن ان دونوں نے اپنی خاموشی توڑ دی تھی۔
”مجھے صرف یہ بتاؤ کہ آخر تم یہ سب کیوں کر رہے ہو؟” سکندر نے اس رات بڑی تحمل مزاجی سے اس کے ساتھ گفتگو کا آغاز کیا تھا۔ ”آخر تمہارے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟ تم نے وعدہ کیا تھا کہ تم ایسی کوئی حرکت نہیں کروگے۔ میں نے اسی وعدہ پر تمہیں اسپورٹس کار بھی لے کر دی۔ ہر بات مان رہے ہیں ہم لوگ تمہاری، پھر بھی تمہیں قطعاً احساس نہیں ہے ہم لوگوں کا، نہ خاندان کی عزت کا۔” سالار اسی طرح چپ بیٹھا رہا۔
”کسی اور کا نہیں تو تم ہم دونوں کا ہی خیال کرو، تمہاری وجہ سے ہماری راتوں کی نیندیں اڑ گئی ہیں۔” طیبہ نے کہا۔ ”تمہیں کوئی پریشانی، کوئی پرابلم ہے تو ہم سے ڈسکس کرو، ہم سے کہو… مگر اس طرح مرنے کی کوشش کرنا … تم نے کبھی سوچا ہے کہ اگر تم ان کوششوں میں کامیاب ہوجاتے تو ہمارا کیا ہوتا۔” سالار خاموشی سے ان کی باتیں سنتا رہا۔ ان کی باتوں میں کچھ بھی نیا نہیں تھا۔ خود کشی کی ہر کوشش کے بعد وہ ان سے اسی طرح کی باتیں سنتا تھا۔
”کچھ بولو، چپ کیوں ہو؟ کچھ سمجھ میں آرہا ہے تمہیں؟” طیبہ نے جھنجلا کر کہا۔ وہ انہیں دیکھنے لگا۔ ”ماں باپ کو اس طرح ذلیل کر کے بڑی خوشی ملتی ہے تمہیں۔”
”کس قدر شاندار مستقبل ہے تمہارا اور تم اپنی احمقانہ حرکتوں سے اپنی زندگی ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہو۔ لوگ ترستے ہیں اس طرح کے اکیڈمک ریکارڈ کے لیے۔” سکندر عثمان نے اسے اس کا اکیڈمک ریکارڈ یاد دلانے کی کوشش کی۔ سالار نے بے اختیار ایک جما ہی لی۔ وہ جانتا تھا اب وہ اس کے بچپن سے لے کر اس کی اب تک کی کامیابیوں کو دہرانا شروع کر دیں گے۔ ایسا ہی ہوا تھا۔ اگلے پندرہ منٹ اس موضوع پر بولنے کے بعد انہوں نے تھک کر پوچھا۔
”آخر تم کچھ بول کیوں نہیں رہے، بولو؟”
”میں کیا بولوں، سب کچھ تو آپ دونوں نے کہہ دیا ہے۔” سالار نے کچھ اکتائے ہوئے انداز میں کہا۔ ”میری زندگی میرا پرسنل معاملہ ہے پھر بھی میں نے آپ کو بتایا ہے کہ در اصل میں مرنے کی کوشش نہیں کر رہا تھا…” سکندر نے اس کی بات کاٹی۔
”تم جو بھی کر رہے تھے، وہ مت کرو، ہم پر کچھ رحم کھاؤ۔” سالار نے ناراضی سے باپ کو دیکھا۔
”تم آخر یہ کیوں نہیں کہہ دیتے کہ تم آئندہ ایسی کوئی حرکت نہیں کروگے۔ فضول میں بحث کیوں کرتے جا رہے ہو؟” اس بار طیبہ نے اس سے کہا۔
”اچھا ٹھیک ہے، نہیں کروں گا، ایسی کوئی بھی حرکت۔” سالار نے بے زاری سے جیسے ان دونوں سے جان چھڑانے کے لیے کہا۔ سکندر نے گہری سانس لی۔ وہ اس کے وعدے پر مطمئن نہیں ہوئے تھے۔ نہ وہ … نہ ان کی بیوی … مگر ایسے وعدے لینے کے علاوہ ان کے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ وہ بچپن سے اپنے اس بیٹے پر فخر کرتے آرہے تھے، مگر پچھلے کچھ سالوں سے ان کا وہ فخر ختم ہوگیا تھا۔ جتنا پریشان انہیں سالار نے کیا تھا اتنا ان کے باقی بچوں نے مل کر بھی نہیں کیا تھا۔
٭…٭…٭