رابعہ اورجویریہ ایک دوسرے کا منہ دیکھ رہی تھیں اور امامہ اپنے پاؤں کے انگوٹھے کے ساتھ فرش کو رگڑتے ہوئے کسی سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی۔
”تمہیں یہ سب کچھ ہمیں پہلے ہی بتا دینا چاہیے تھا۔” جویریہ نے ایک طویل وقفے کے بعد اس خاموشی کو توڑا۔ امامہ نے سر اٹھاکر اسے دیکھا اور پرسکون انداز میں کہا۔
”اس سے کیا ہوتا؟”
”کم از کم ہم تمہارے بارے میں کسی غلط فہمی کا شکار تو نہ ہوتے اور تمہاری مدد کرسکتے تھے ہم دونوں۔”
اِمامہ سر جھٹکتے ہوئے عجیب سے انداز میں مسکرائی۔ “اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔”
”مجھے تو بہت خوشی ہے امامہ! کہ تم نے ایک صحیح راستے کا انتخا ب کیا ہے۔ دیر سے سہی مگرتم غلط راستے سے ہٹ گئی ہو۔” جویریہ نے اس کے پاس بیٹھتے ہوئے نرم لہجے میں کہا۔ ”اِمامہ چپ چاپ اسے دیکھتی رہی۔
”تمہیں اگر ہم دونوں کی طرف سے کسی بھی مدد کی ضرورت ہو تو ہچکچانا مت، تمہاری مدد کرکے ہمیں خوشی ہوگی۔”
”مجھے واقعی تم لوگوں کی مدد کی بہت ضرور ت ہے، بہت زیادہ ضرورت ہے۔” امامہ نے کہا۔
”میری وجہ سے اگر تم نے اپنے مذہب کی اصلیت جانچ کر اسے چھوڑ دیا ہے تو …” جویریہ کہہ رہی تھی۔
”امامہ اس کا چہرہ دیکھنے لگی۔ ”تمہاری وجہ سے؟” اس نے جویریہ کا چہرہ دیکھتے ہوئے سوچا۔ اس کا ذہن اسے کہیں اور لے جا رہا تھا۔
دُھند میں اب ایک اورچہرہ اُبھر رہا تھا۔ وہ اسے دیکھتی رہی، وہ چہرہ آہستہ آہستہ واضح ہو رہا تھا، زیر آب ابھرنے والے کسی نقش کی طرح … چہرہ اب واضح ہوگیا تھا۔ امامہ مسکرائی، وہ اس چہرے کو پہچان سکتی تھی۔ اس نے اس چہرے کے ہونٹوں کو ہلتے دیکھا۔ آہستہ آہستہ وہ آواز سن سکتی تھی۔ وہ آواز سن رہی تھی۔
قطرہ مانگے جو تو اسے دریا دے دے
مجھ کو کچھ اورنہ دے اپنی تمنا دے دے
”میں صرف یہ چاہتی ہوں کہ تم لوگ کسی کو کچھ نہ بتاؤ، زینب کو بھی نہیں۔ ”اپنے سر کو جھٹکتے ہوئے اس نے جویریہ اور رابعہ سے کہا تھا۔ ان دونوں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
کچھ نہیں مانگتا شاہوں سے یہ شیدا تیرا
اس کی دولت ہے فقط نقشِ کفِ پا تیرا
پورے قد سے میں کھڑا ہوں تو یہ تیرا ہے کرم
مجھ کو جھکنے نہیں دیتا ہے سہارا تیرا
لوگ کہتے ہیں کہ سایہ تیرے پیکر کا نہ تھا
میں تو کہتا ہوں جہاں بھر پہ ہے سایہ تیرا
وہ اس آواز کو پہچانتی تھی۔ یہ جلال انصر کی آواز تھی۔
٭…٭…٭
امامہ کو میڈیکل کالج میں چند روز ہوئے تھے جب ایک ویک اینڈ پر اسلام آباد آنے کے بعد اس نے رات کو زینب کے گھر لاہور فون کیا۔
”بیٹا! میں زینب کو بلاتی ہوں، تم ہولڈ رکھو۔” زینب کی امی فون رکھ کر چلی گئیں۔ وہ ریسیور کان سے لگائے ہوئے انتظار کرنے لگی۔
کچھ نہیں مانگتا شاہوں سے یہ شیدا تیرا
اس کی دولت ہے فقط نقشِ کفِ پا تیرا
مردانہ آواز میں فون پر سنائی دینے والی وہ نعت امامہ نے پہلے بھی سنی تھی مگر اس وقت جو کوئی بھی اسے پڑھ رہا تھا وہ کمال جذبے سے اسے پڑھ رہا تھا۔
پورے قد سے کھڑا ہوں تو یہ تیر اہے کرم
مجھ کو جھکنے نہیں دیتا ہے سہارا تیرا
اسے اندازہ نہیں تھا کہ کسی مرد کی آواز اتنی خوب صورت ہوسکتی ہے۔ اس قدر خوب صورت کہ پوری دنیا اس آواز کی قید میں لگے۔ امامہ نے اپنا سانس روک لیا یا شاید وہ سانس لینا بھول گئی۔
لوگ کہتے ہیں کہ سایہ تیرے پیکر کا نہ تھا
میں کہتا ہوں جہاں بھر پہ ہے سایہ تیرا
انسان کی زندگی میں کچھ ساعتیں سعد ہوتی ہیں۔ شبِ قدرکی رات میں آنے والی اس سعد ساعت کی طرح جسے بہت سے لوگ گزر جانے دیتے ہیں، صرف چند اس ساعت کے انتظار میں ہاتھ اٹھائے اورجھولی پھیلائے بیٹھے ہوتے ہیں۔ اس ساعت کے انتظار میں جو چلتے پانی کو روک دے اور رکے ہوئے پانی کو رواں کردے، جو دل سے نکلنے والی دعا کو لبوں تک آنے سے پہلے مقدر بنا دے۔
امامہ ہاشم کی زندگی میں وہ سعد ساعت شبِ قدرکی کسی رات کو نہیں آئی تھی۔ نہ اس نے اس سعد ساعت کے لیے ہاتھ اٹھائے تھے نہ جھولی پھیلائی تھی پھر بھی اس نے زمین و آسمان کی گردش کو کچھ دیر کے لیے تھمتے دیکھا تھا۔ پوری کائنات کو ایک گنبدِ بے در میں بدلتے دیکھا تھا، جس کے اندر بس ایک ہی آواز گونج رہی تھی۔
دست گیری میری تنہائی کی تو نے ہی تو کی
میں تو مر جاتا اگر ساتھ نہ ہوتا تیرا
وہ اندھیروں سے بھی درّانہ گزر جاتے ہیں
جن کے ماتھے پہ چمکتا ہے ستارا تیرا
آواز بہت صاف اور واضح تھی۔ امامہ بت کی طرح ریسیور ہاتھ میں لیے بیٹھی رہی۔
”ہیلو اِمامہ!” دوسری طر ف زینب کی آواز گونجی اور وہ آواز گم ہوگئی۔ چند لمحوں کے لیے زمین کی رکی ہوئی گردش دوبارہ بحال ہوگئی۔
”ہیلو اِمامہ! آواز سن رہی ہو میری؟” وہ ایک جھٹکے سے ہوش کی دنیا میں واپس آئی۔
”ہاں، میں سن رہی ہوں۔”
”میں نے سوچا لائن کٹ گئی۔” دوسری طرف سے زینب نے کچھ مطمئن ہوتے ہوئے کہا۔ امامہ اگلے چند منٹ اس سے بات کرتی رہی مگر اس کا دل و دماغ کہیں اور تھا۔
٭…٭…٭
جلال انصر زینب کا بڑا بھائی تھا اورامامہ غائبانہ طور پر اس سے واقف تھی۔ زینب اس کی کلاس فیلو تھی اوراس سے امامہ کا تعارف وہیں میڈیکل کالج میں ہوا تھا۔ چند ماہ میں ہی وہ تعارف اچھی خاصی دوستی میں بدل گیا۔ اس تعارف میں اسے یہ پتا چلا کہ وہ لوگ چار بھائی بہن تھے۔ جلال سب سے بڑا تھا اور ہاؤس جاب کر رہا تھا۔ زینب کے والد واپڈا میں انجینئر تھے اوران کا گھرانہ خاصا مذہبی تھا۔
اسلام آباد سے واپسی پر اس نے زینب سے نعت پڑھنے والے اس شخص کے بارے میں پوچھا تھا۔
”زینب! اس رات میں نے تمہیں فون کیا تو کوئی نعت پڑھ رہا تھا، وہ کون تھا؟” اس نے اپنے لہجے کو حتی الامکان نارمل رکھتے ہوئے کہا۔
”وہ … وہ… جلال بھائی تھے…ایک مقابلہ میں حصہ لینے کے لیے وہ نعت یاد کر رہے تھے۔ فون کوریڈور میں ہے اور ان کے کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا اس لیے آواز تم تک پہنچ گئی۔” زینب نے تفصیل سے بتایا۔
”بہت اچھی آواز ہے ان کی۔”
”ہاں، آواز تو بہت اچھی ہے ان کی۔ قرأت تو نعت سے بھی زیادہ خوب صورت کرتے ہیں۔ بہت سے مقابلوں میں انعام بھی لے چکے ہیں، ابھی بھی کالج میں ایک مقابلہ ہونے والا ہے تم اس میں انہیں سننا۔”
زینب تب یہ نہیں جانتی تھی کہ امامہ کس مذہب کی تھی، وہ جس طرح پردے کا خیال رکھتی تھی زینب کا خیال تھا کہ وہ کسی مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتی ہے۔ خود زینب بھی خاصے مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتی تھی اورچادر اوڑھا کرتی تھی۔
دو تین دن کے بعد امامہ، جلال انصر کی نعت سننے کے لیے اپنی فرینڈز کو بتائے بغیر کلاسز بنک کر کے نعتوں کے اس مقابلے میں چلی گئی تھی۔
جلال انصر کو اس دن پہلی بار اس نے دیکھا تھا۔ کمپیئر نے جلال انصر کا نام پکارا اوراِمامہ نے تیز ہوتی ہوئی دھڑکنوں کے ساتھ زینب سے مشابہت رکھنے والے عام سی شکل و صورت اورداڑھی والے ایک چوبیس پچیس سالہ لڑکے کو اسٹیج پر چڑھتے دیکھا۔اسٹیج پر سیڑھیاں چڑھنے سے لے کر روسٹرم کے پیچھے آکر کھڑے ہونے تک امامہ نے ایک بار بھی اپنی نظر جلال انصر کے چہرے سے نہیں ہٹائی۔ اس نے اسے سینے پر ہاتھ باندھتے اورآنکھیں بند کرتے دیکھا۔
کچھ نہیں مانگتا شاہوں سے یہ شیدا تیرا
اس کی دولت ہے فقط نقشِ کفِ پا تیرا
اِمامہ کو اپنے پورے وجود میں ایک لہر سی دوڑتی محسوس ہوئی۔ ہال میں مکمل خاموشی تھی اور صرف اس کی خوب صورت آواز گونج رہی تھی۔ وہ کسی سحر زدہ معمول کی طرح بیٹھی اسے سنتی رہی۔ اس نے کب نعت ختم کی، کب وہ اسٹیج سے اتر کر واپس ہوا، مقابلے کا نتیجہ کیا نکلا، اس کے بعد کس کس نے نعت پڑھی، کس وقت سارے اسٹوڈنٹ وہاں سے گئے اورکس وقت ہال خالی ہوگیا امامہ کو پتا نہیں چلا۔
بہت دیر کے بعد اسے یک دم ہوش آیا تھا۔ اس وقت اپنے ارد گرد دیکھنے پر اسے احساس ہو اکہ وہ ہال میں اکیلی بیٹھی تھی۔
”میں نے کل تمہارے بھائی کو نعت پڑھتے سنا۔” امامہ نے اگلے دن زینب کو بتایا۔
”اچھا… انہیں پہلا انعام ملا ہے۔” زینب نے اس کی بات پر مسکرا کر اسے دیکھا۔
”بہت خوب صور ت نعت پڑھی تھی انہوں نے۔” کچھ دیر کی خاموشی کے بعد اِمامہ پھر اس موضوع پر آگئی۔
”ہاں! وہ بچپن سے نعتیں پڑھتے آرہے ہیں۔ اتنے قرأت اور نعت کے مقابلے جیت چکے ہیں کہ اب تو انہیں خود بھی ان کی تعداد یاد نہیں ہوگی۔”زینب نے تفاخر سے کہا۔
”ان کی آواز بہت خوب صور ت ہے۔” امامہ نے پھر کہا۔ ”ہاں خوب صورت تو ہے مگر ساری بات اس محبت اور عقیدت کی ہے، جس کے ساتھ وہ نعت پڑھتے ہیں۔ انہیں حضورﷺ سے عشق ہے۔ اتنی محبت کہ جس کی کوئی حد نہیں۔ قرأت اورنعت کے علاوہ انہوں نے کبھی کوئی اورچیز نہیں پڑھی، حالاں کہ اسکول اورکالج میں انہیں بہت مجبو رکیا جاتا رہا مگر ان کا ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ میں جس زبان سے حضرت محمدﷺ کا قصیدہ پڑھتا ہوں اس زبان سے کسی اور شخص کا قصیدہ نہیں پڑھ سکتا۔ محبت تو ہم بھی حضورﷺ سے کرتے ہیں مگر جیسی محبت بھائی کرتے ہیں ویسی محبت تو ہم میں سے کوئی بھی نہیں کرسکتا۔ پچھلے دس سالوں میں ایک بار بھی انہوں نے نماز قضا نہیں کی۔ ہر ماہ ایک قرآن پاک پڑھتے ہیں۔ تم تو نعت کی تعریف کر رہی ہو اگر ان سے تلاوت سن لو تو…”
وہ بڑے فخر سے بتا رہی تھی۔ اِمامہ چپ چاپ اسے دیکھ رہی تھی۔ اس نے زینب سے اس کے بعد کچھ نہیں پوچھا۔
”اگلے دن وہ صبح کالج جانے کے لیے تیار ہونے کے بجائے اپنے بستر میں گھسی رہی۔ جویریہ نے خاصی دیر کے بعد بھی اسے بستر سے برآمد نہ ہوتے دیکھ کر جھنجھوڑا۔
”اُٹھ جاؤ امامہ! کالج نہیں جانا کیا۔ دیر ہو رہی ہے۔”
”نہیں، آج مجھے کالج نہیں جانا۔” امامہ نے دوبارہ آنکھیں بند کرلیں۔
”کیوں؟” جویریہ کچھ حیران ہوئی۔
”میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔” اِمامہ نے کہا۔
”آنکھیں تو بہت سرخ ہو رہی ہیں تمہاری، کیا رات کو سوئیں نہیں تم؟”
”نہیں، نیند نہیں آئی اورپلیز اب مجھے سونے دو۔” اِمامہ نے اس کے کسی اور سوال سے بچنے کے لیے کہا۔جویریہ کچھ دیر اسے دیکھتے رہنے کے بعد اپنا بیگ اورفولڈر اٹھا کر باہر نکل گئی۔
اس کے جانے کے بعد امامہ نے آنکھیں کھول دیں۔ یہ بات ٹھیک تھی کہ وہ ساری رات سو نہیں سکی تھی اور اس کی وجہ جلال انصر کی آواز تھی۔ وہ اپنے ذہن کو اس آواز کے علاوہ اورکہیں فوکس نہیں کر پا رہی تھی۔
”جلال انصر!” اس نے زیر لب اس کا نام دہرایا۔ ”آخر ا س کی آواز کیوں مجھے اس قدر اچھی لگ رہی ہے کہ میں … میں اسے اپنے ذہن سے نکال نہیں پا رہی؟” اس نے الجھے ہوئے ذہن کے ساتھ بستر سے نکلتے ہوئے سوچا۔ وہ اپنے کمرے کی کھلی ہوئی کھڑکی میں آکر کھڑی ہوگئی۔
”میرے بھائی کی آواز میں ساری تاثیر حضرت محمدﷺ کے عشق کی وجہ سے ہے۔” اس کے کانوں میں زینب کی آواز گونجی۔
”آواز میں تاثیر… اور عشق؟” اس نے بے چینی سے پہلو بدلا۔ ”سوز، گداز، لوچ، مٹھاس… آخر تھا کیا اس آواز میں؟” وہ اٹھ کر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔ ”دنیا عشق اللہ سے شروع ہوتی ہے اور عشق رسولﷺ پر ختم ہوجاتی ہے۔”اسے ایک اورجملہ یاد آیا۔
”عشق رسولﷺ؟” اس نے حیرانی سے سوچا۔ ”عشق رسول اللہﷺ یا عشق محمدﷺ ؟” یک دم اسے اپنے اندرایک عجیب سا سناٹا اُترتا محسوس ہوا۔ اس نے اس سناٹے اورتاریکی کو کھوجنا شروع کیا، اپنے اندرسیڑہی در سیڑھی اُترنا شروع کیا۔ اسے کہیں کوئی روشنی نظر نہیں آئی۔ ”آخر وہ کیا چیز ہوتی ہے جو حضرت محمدﷺ کا نام سننے پر لوگوں کی آنکھوں میں آنسو اور لبوں پر درود لے آتی ہے۔ عقیدت، عشق، محبت… ان میں سے کیا ہے؟ مجھے کچھ کیوں محسوس نہیں ہوتا۔ میری آنکھوں میں آنسو کیوں نہیں آتے؟ میرے ہونٹوں پر درود کیوں نہیں آتا؟ میری آواز میں تاثیر …” وہ لمحہ بھر کے لیے رُکی، اس نے زیر لب پڑھا۔
کچھ نہیں مانگتا شاہوں سے یہ شیدا تیرا
اس کی دولت ہے فقط نقشِ کفِ پا تیرا
اسے اپنی آواز بھرائی ہوئی لگی۔ ”شاید ابھی جاگی ہوں، اس لیے آواز ایسی ہے۔” اس نے اپنا گلا صاف کرتے ہوئے سوچا۔ اس نے ایک بار پھر پڑھنا شروع کیا۔
”کچھ نہیں مانگتا…” وہ ایک با رپھر رک گئی۔ اس بار اس کی آواز میں لرزش تھی۔ اس نے دوبارہ پڑھنا شروع کیا۔ ”کچھ نہیں مانگتا شاہوں سے یہ شیدا تیرا” کھڑکی سے باہر نظریں مرکوز رکھتے ہوئے اس نے لرزتی، بھرائی آواز اور کانپتے ہونٹوں کے ساتھ پہلا مصرع پڑھا پھر دوسرا مصرع پڑھنا شروع کیا اور رک گئی۔ کھڑکی سے باہر خلا میں گھورتے ہوئے وہ ایک بار پھر جلال انصر کی آواز اپنے کانوں میں اُترتی محسوس کر رہی تھی۔
بلند، صاف، واضح اور اذان کی طرح دل میں اُتر جانے والی مقدس آواز … اسے اپنے گالوں پر نمی محسوس ہوئی۔
یک دم وہ اپنے ہوش و حواس میں آئی اورپتا چلا کہ وہ رو رہی تھی۔ کچھ دیر جیسے بے یقینی کے عالم میں وہ اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں دونوں آنکھوں پر رکھے دم بخود کھڑی رہی۔ اس نے اپنے آپ کو بے بسی کی انتہا پر پایا۔ آنکھوں پر ہاتھ رکھے وہ آہستہ آہستہ گھٹنوں کے بل وہیں زمین پر بیٹھ گئی اوراس نے پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دیا۔
انسان کے لیے سب سے مشکل مرحلہ وہ ہوتا ہے جب اس کا دل کسی چیز کی گواہی دے رہا ہو مگر اس کی زبان خاموش ہو جب اس کا دماغ چلا چلا کر کسی چیز کی صداقت کا اقرار کر رہا ہو مگر اس کے ہونٹ ساکت ہوں، امامہ ہاشم کی بھی اپنی زندگی اسی مرحلے پر آن پہنچی تھی، جو فیصلہ وہ پچھلے دو تین سالوں سے نہیں کر پا رہی تھی وہ فیصلہ ایک آواز نے چند دنوں میں کروا دیا تھا۔یہ جانے، یہ کھوجے، یہ پرکھے بغیر کہ آخر لوگ کیوں حضرت محمدﷺ سے اتنی عقیدت رکھتے ہیں۔ آخر کیوں عشق رسول ﷺ کی بات کی جاتی ہے۔ اس نے اتنے سال اپنے نبی کے قصیدے سنے تھے، اس پر کبھی رقت طاری نہیں ہوئی تھی، کبھی اس کا وجود موم بن کر نہیں پگھلا تھا، کبھی اسے کسی پر رشک نہیں آیا تھا مگر ہر بار حضرت محمدﷺ کا نام پڑھتے، دیکھتے اورسنتے ہوئے وہ عجیب سے کیفیات کا شکا رہوتی تھی۔ہر بار، ہر دفعہ اس کا دل اس نام کی طرف کھنچتا چلا جاتا تھا اورصبیحہ کے پا س نہ جانے کے اس کے سارے ارادے بھاپ بن کر اڑ گئے تھے۔ جلال انصر کی آواز تاریکی میں نظر آنے والے جگنو کی طرح تھی، جس کے تعاقب میں وہ بنا سوچے سمجھے چل پڑی تھی۔
میں تجھے عالمِ اشیا میں بھی پا لیتا ہوں
لو گ کہتے ہیں کہ ہے عالمِ بالا تیرا
٭…٭…٭