وسیم نے ہاشم مبین کو امامہ کے ساتھ ہونے والی بحث کے بارے میں بتا دیا تھا مگر اس نے بہت سی ایسی باتوں کو سنسر کر دیا تھا، جس پر ہاشم مبین کے بھڑک اٹھنے کا امکان تھا۔ ا سکے باوجود ہاشم مبین دم بخود رہ گئے تھے، یوں جیسے انہیں سانپ سونگھ گیا ہو۔
”یہ سب تم سے امامہ نے کہا؟ ” ایک لمبی خاموشی کے بعد انہوں نے وسیم سے پوچھا۔ اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
”اسے بلاکر لاؤ۔” وسیم کچھ جھجکتے ہوئے ان کے کمرے سے نکل گیا۔ امامہ کو خود بلا کر لانے کے بجائے اس نے ملازم کے ہاتھ پیغام بھجوا دیا اور خود اپنے کمرے میں چلا گیا۔ وہ امامہ اورہاشم مبین کی گفتگو کے دوران موجود رہنا نہیں چاہتا تھا۔
ہاشم مبین کے کمرے کے دروازے پر دستک دے کر وہ اندر داخل ہوئی تو اس وقت ہاشم اور ان کی بیگم بالکل خاموش بیٹھے ہوئے تھے۔ ہاشم مبین نے اسے جن نظروں سے دیکھا تھا اس نے اس کے جسم کی لرزش میں کچھ اور اضافہ کر دیا۔
”بابا… آپ نے … مجھے… بلوایا تھا۔” کوشش کے باوجود وہ روانی سے بات نہیں کہہ سکی۔
”ہاں، میں نے بلوایا تھا۔ وسیم سے کیا بکواس کی ہے تم نے؟” ہاشم مبین نے بلا تمہید بلند اؤاز میں اس سے پوچھا۔ وہ اپنے ہونٹوں پر زبان پھیر کر رہ گئی۔ ”کیا پوچھ رہا ہوں تم سے؟” وہ ایک با رپھر دھاڑے۔ ”شرم سے ڈوب مرنا چاہیے تمہیں، خود گناہ کرتی ہو او اپنے ساتھ ہمیں بھی گناہ گار بناتی ہو۔” امامہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ”تمہیں اپنی اولاد کہتے ہوئے مجھے شرم آرہی ہے۔ کون سی کتابیں لائی ہو تم؟” وہ مشتعل ہوگئے تھے۔ ”جہاں سے یہ کتابیں لے کر آئی ہو، کل تک وہیں دے آؤ، ورنہ میں انہیں اٹھا کر پھینک دوں گا باہر۔”
”جی بابا!” ا سنے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے صرف اتنا ہی کہا۔
”اور آج کے بعد اگر تم نے جویریہ کے ساتھ میل جول رکھا تو میں تمہارا کالج جانا ہی بند کردوں گا۔”
”بابا… جویریہ نے مجھ سے کچھ نہیں کہا۔ اس کو تو کچھ پتا ہی نہیں ہے۔” اس بار امامہ نے قدرے مضبوط آواز مین احتجاج کیا۔
”تو پھر اور کون ہے جو تمہارے دماغ میں یہ خناس بھر رہا ہے؟”وہ بری طرح چلائے۔
”میں… خود … ہی…” امامہ نے کچھ کہنے کی کوشش کی۔
”ہو کیا تم، اپنی عمر دیکھو اورچلی ہو تم عقیدے جانچنے، اپنے نبی کی نبوت کو پرکھنے۔” ہاشم مبین کا پارہ پھر ہائی ہوگیا۔ ”اپنے باپ کی شکل دیکھو جس نے ساری عمر تبلیغ میں گزار دی۔ کیا میں عقل کا اندھا ہوں یا پھر تم مجھ سے زیادہ عقل رکھتی ہو۔ جمعہ جمعہ چار دن ہوئے ہیں تمہیں پیدا ہوئے اورتم چل پڑی ہواپنے نبی کی نبوت کو ثابت کرنے۔” ہاشم مبین اب اٹھ کر کھڑے ہوگئے۔ ”تم منہ میں سونے کا چمچ لے کر اسی نبی کی وجہ سے پید اہوئی ہو، جس کی نبوت کو آج تم جانچنے بیٹھ گئی ہو۔ وہ نہ ہوتا تو سڑک پر دھکے کھا رہا ہوتا ہمارا سارا خاندان اورتم اس قدر احسان فراموش اوربے ضمیر ہوچکی ہو کہ جس تھالی میں کھاتی ہو اسی میں چھید کر رہی ہو۔”
ہاشم مبین کی آؤاز پھٹ رہی تھی۔ امامہ کی آنکھوں سے بہنے والے آنسوؤں کی رفتار میں اور اضافہ ہوگیا۔
”بند کرو یہ لکھنا پڑھنا اورگھر بیٹھو تم! یہ تعلیم حاصل کر رہی ہو جو تمہیں گمراہی کی طرف لے جا رہی ہے۔”
ان کے اگلے جملے پر امامہ کی سٹی گم ہوگئی۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ اسے گھر بٹھانے کی بات کریں گے۔
”بابا… آئی ایم سوری۔” ان کے ایک جملے نے اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا تھا۔
”مجھے تمہارے کسی ایکسکیوز کی ضرورت نہیں ہے۔ بس کہہ دیا ہے کہ گھر بیٹھو، تو گھر بیٹھو۔”
”بابا… میں … میرا … میرا یہ مطلب تو نہیں تھا۔ پتا نہیں وسیم … اس نے آپ سے کس طرح بات کی ہے۔” اس کے آنسو اورتیزی سے بہنے لگے۔ ”پھر بھی میں آپ سے کہہ رہی ہوں کہ میں آئندہ ایسا کچھ نہیں پڑھوں گی، نہ ہی ایسی کوئی بات کروں گی۔ پلیز بابا!” اس نے منت کی۔
ان معذرتوں کا سلسلہ وہیں ختم نہیں ہوا تھا، اگلے کئی دن تک وہ ہاشم مبین سے معافی مانگتی رہی اور پھر تقریباً ایک ہفتے کے بعد وہ نرم پڑ گئے تھے اور انہوں نے اسے کالج جانے کی اجازت دے دی تھی مگر اس ایک ہفتے میں وہ اپنے پورے گھر کی لعنت ملامت کا شکار رہی تھی۔ ہاشم مبین نے اسے سخت قسم کی تنبیہ کے بعد کالج جانے کی اجازت دی تھی مگر اس ایک ہفتے کے دوران ان لوگوں کے رویے نے اسے اپنے عقیدے سے مزید متنفر کیا تھا۔ اس نے ان کتابوں کو پڑھنے کا سلسلہ روکا نہیں تھا۔ بس فرق یہ تھا کہ پہلے وہ انہیں گھر لے آتی تھی اور اب وہ انہیں کالج کی لائبریری میں ہی پڑھ لیا کرتی تھی۔
ایف ایس سی میں میرٹ لسٹ پر آنے کے بعد اس نے میڈیکل کالج میں ایڈمیشن لے لیا تھا۔ جویریہ کو بھی اسی میڈیکل کالج میں ایڈمیشن مل گیا تھا، ان کی دوستی میں اب پہلے سے زیادہ مضبوطی آگئی تھی اور اس کی بنیادی وجہ امامہ کے ذہن میں آنے والی تبدیلی تھی۔
٭…٭…٭
صبیحہ سے اِمامہ کی پہلی ملاقات اتفاقاً ہوئی تھی۔ جویریہ کی ایک کزن صبیحہ کی کلاس فیلو تھی اور اسی کے توسط سے امامہ کی اس سے شناسائی ہوئی۔ وہ ایک مذہبی جماعت کی اسٹوڈنٹ ونگ سے منسلک تھی اورہفتے میں ایک بار وہ کلاس روم میں اسلام سے متعلق کسی نہ کسی ایک موضوع پر لکچر دیا کرتی تھی۔ چالیس پچاس کے لگ بھگ لڑکیاں اس لیکچر کو اٹینڈ کرتی تھیں۔
صبیحہ نے اس دن ان سے متعارف ہونے کے بعد انہیں بھی اس لیکچر کے لیے انوائٹ کیا تھا۔ وہ چاروں ہی وہاں موجود تھیں۔
”میں تو ضرور آؤں گی، کم از کم میری شرکت کے بارے میں آپ تسلی رکھیں۔” جویریہ نے صبیحہ کی دعوت کے جواب میں کہا۔
”میں کوشش کروں گی، وعدہ نہیں کرسکتی۔” رابعہ نے کچھ جھینپی ہوئی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
”میرا آنا ذرا مشکل ہے کیوں کہ میں اس دن کچھ مصروف رہوں گی۔” زینب نے معذرت کرتے ہوئے کہا۔
صبیحہ مسکراتے ہوئے امامہ کو دیکھنے لگی جواب تک خاموش تھی۔ امامہ کا رنگ کچھ فق ہوگیا۔
”اور آپ؟ آپ آئیں گی؟” امامہ کی نظر جویریہ سے ملی جو اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
”ویسے اس بار کس موضوع پر بات کریں گی آپ؟” اس سے پہلے کہ امامہ کچھ کہتی ہو، جویریہ نے صبیحہ کی توجہ اپنی طرف مبذول کرلی۔ شاید ایسا اس نے دانستہ طور پر کیا تھا۔
”اس بار اسراف کے بارے میں بات ہوگی۔ اس ایک عادت کی وجہ سے ہمارا معاشرہ کتنی تیزی سے زوال پذیر ہو رہا ہے اورا س کے س د باب کے لیے کیا کیا جاسکتا ہے۔ اسی موضوع پر گفتگو ہوگی۔” صبیحہ نے جویریہ کو تفصیل سے بتایا۔
”آپ نے بتایا نہیں امامہ! آپ آرہی ہیں؟” جویریہ سے بات کرتے کرتے صبیحہ ایک بار پھر امامہ کی طرف متوجہ ہوگئی۔ امامہ کا رنگ ایک با رپھر بدلا۔ ”میں… میں… دیکھوں گی۔” اس نے جھجکتے ہوئے کہا۔
”مجھے بہت خوشی ہوگی اگر جویریہ کے ساتھ آپ تینوں بھی آئیں۔ اپنے دین کی بنیادی تعلیمات کے بارے میں ہمیں روز نہیں تو کبھی کبھار کچھ علم حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ صرف میں ہی لیکچر نہیں دیتی ہوں، ہم جتنے لوگ بھی اکٹھے ہوتے ہیں ان میں سے کوئی بھی اس موضوع پر گفتگو کرنے کے لیے آزاد ہوتا ہے جسے ہم نے منتخب کیا ہوتا ہے اور اگر آپ میں سے بھی کوئی کسی خاص موضوع کے حوالے سے بات کرنا یا کچھ بتانا چاہے تو ہم لوگ اسے بھی ارینج کرسکتے ہیں۔” صبیحہ بڑی سہولت سے بات کر رہی تھی پھر کچھ دیر بعد جویریہ اور اس کی کزن کے ہمراہ ان کے کمرے سے باہر چلی گئی۔
کوریڈور میں صبیحہ نے جویریہ سے کہا: ”آپ کم از کم امامہ کو تو ساتھ لے آئیں۔ مجھے لگا ہے کہ وہ آنا چاہ رہی ہیں۔”
”اس کا عقیدہ بالکل الگ ہے، وہ کبھی بھی ایسی محفلوں میں شرکت نہیں کرے گی۔” جویریہ نے سنجیدگی سے اسے بتایا، صبیحہ کچھ حیران ہوئی۔
”آپ کو چاہیے کہ آپ انہیں اسلام کا مطالعہ کرنے کی دعوت دیں۔ ہوسکتا ہے اس طرح وہ صحیح اور غلط کا فرق کرسکیں۔” صبیحہ نے چلتے ہوئے کہا۔
”میں ایک بار ایسی کوشش کرچکی ہوں۔ وہ بہت ناراض ہوگئی تھی اورمیں نہیں چاہتی کہ ہم دونوں کی اتنی لمبی دوستی اس طرح ختم ہو۔” جویریہ نے کہا۔
”اچھے دوست وہی ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کو گمراہی سے بچائیں اورآپ پر بھی فرض ہے کہ آپ ایسا ہی کریں۔” صبیحہ نے کہا۔
”وہ ٹھیک ہے، مگر کوئی بات سننے پر بھی تیا رنہ ہوتو؟”
”تب بھی صحیح بات کہتے رہنا فرض ہے۔ ہوسکتا ہے کبھی دوسرا آپ کی بات پر غور کرنے پر مجبور ہو جائے۔” صبیحہ اپنی جگہ درست تھی۔ اس لیے وہ صرف مسکرا کر رہ گئی۔
٭…٭…٭
”تم جاؤگی اس کا لیکچر سننے؟” صبیحہ کے نکلنے کے بعد زینب نے رابعہ سے پوچھا۔
”نہیں، میرا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ میں ایسے لیکچر ہضم نہیں کرسکتی۔” رابعہ نے اپنی کتابیں اٹھاتے ہوئے لا پروائی سے کہا۔ امامہ، زینب اورجویریہ کے برعکس وہ قدرے آزاد خیال تھی اور زیادہ مذہبی رجحان بھی نہیں رکھتی تھی۔
”ویسے میں نے صبیحہ کی خاصی تعریف سنی ہے۔” زینب نے رابعہ کی بات کے جواب میں کہا۔
”ضرور سنی ہوگی، بولتی تو واقعی اچھا ھے اورمیں نے تو یہ بھی سنا ہے کہ اس کے والد بھی کسی مذہبی جماعت سے منسلک ہیں۔ ظاہر ہے پھر اثر تو ہوگا۔” رابعہ نے اس کی معلومات میں اضافہ کیا۔
امامہ ان سے کچھ دورایک کونے میں اپنی کتابیں لیے بیٹھی بظاہر ان کا مطالعہ کرنے میں مصروف تھی مگر ان دونوں کی گفتگو بھی ان تک پہنچ رہی تھی۔ اس نے شکر کیا تھا کہ ان دونوں نے اسے اس گفتگو میں گھسیٹنے کی کوشش نہیں کی۔
تین دن کے بعد امامہ مقررہ وقت پر ان لوگوں سے کوئی بہانہ بنا کر صبیحہ کا لیکچر اٹینڈ کرنے چلی گئی تھی۔ رابعہ، جویریہ اورزینب تینوں ہی اس لیکچر میں نہیں گئیں پھر اس کا ارادہ بدل گیا۔ امامہ نے ان لوگوں کو یہ نہیں بتایا کہ وہ صبیحہ کا لیکچر اٹینڈ کرنے جا رہی تھی۔
صبیحہ، امامہ کو دیکھ کر کچھ حیران ہوئی تھی۔
”مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے آپ کو یہاں دیکھ کر۔ مجھے آپ کے آنے کی توقع نہیں تھی۔” صبیحہ نے اس سے گرم جوشی سے ملتے ہوئے کہا۔
یہ پہلا قدم تھا اسلام کی جانب جو اِمامہ نے اٹھایا تھا۔ اس سارے عرصے میں اسلام کے بارے میں اتنی کتابیں تفاسیر اور تراجم پڑھ چکی تھی کہ کم از کم وہ کسی بھی چیز سے ناواقف اور انجان نہیں تھی۔ اسراف کے بارے میں اسلامی اورقرآنی تعلیمات اور احکامات سے بھی وہ اچھی طرح واقف تھی مگر اس کے باوجود صبیحہ کی دعوت کو رد کرنے کے بجائے قبول کرلینے میں اس کے پیش نظر صرف ایک ہی چیز تھی۔ وہ اپنے مذہب سے اسلام تک کا وہ فاصلہ طے کرنا چاہتی تھی، جو اسے بہت مشکل لگتا تھا۔
اورپھر وہ صرف پہلا اور آخری لیکچر نہیں تھا۔ یکے بعد دیگرے وہ اس کا ہر لیکچر اٹینڈ کرتی رہی۔ وہی چیزیں جنہیں وہ کتابوں میں پڑھتی رہی تھی اس کے منہ سے سن کر پر اثر ہو جاتی تھیں۔ اس کی صبیحہ سے عقیدت میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ صبیحہ نے اسے یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ اس کے عقیدے کے بارے میں جانتی تھی مگر امامہ کو ا س کے پاس آتے ہوئے دو ماہ ہوئے تھے جب صبیحہ نے ختم نبوت پر ایک لیکچر دیا۔
”قرآن پاک وہ کتاب ہے جو حضرت محمدﷺ پر نازل ہوئی۔” صبیحہ نے اپنے لیکچر کا آغاز کیا۔ ”اور قرآن پاک میں ہی اللہ نبوت کا سلسلہ حضرت محمدﷺ پر ختم کر دیتے ہیں۔ وہ کسی دوسرے نبی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رکھتے۔ اگر کسی نبی یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ نزول کا ذکر ہے بھی تو وہ بھی ایک نئے نبی کی شکل میں نہیں ہے بلکہ ایک ایسے نبی کا دوبارہ نزول ہے جن پر نبوت حضرت محمدﷺ سے بہت پہلے نازل کردی گئی تھی اورجن کا دوبارہ نزول ان کی اپنی امت کے لیے نہیں بلکہ حضرت محمدﷺ کی امت کے لیے ہی ہوگا اور آخری نبی حضرت محمدﷺ ہی رہیں گے۔ کسی بھی آنے والے دور میں یا کسی بھی گزر جانے والے دور میں یہ رتبہ اور فضیلت کسی اورکو نہیں دی گئی کیا یہ ممکن ہے کہ اللہ ایک پیغمبر کو یہ رتبہ اوردرجہ عطا کرتا اورپھر اسے اس سے چھین کر کسی دوسرے شخص کو دے دیتا۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
”بات میں اللہ سے بڑھ کر سچا کون ہے۔”
”تو کیا یہ ممکن ہے کہ وہ اپنی بات کو خود ہی رد کردیتا اور پھر اگر اللہ کی اس بات کی گواہی حضرت محمدﷺ خود دیتے ہیں کہ ہاں وہ اللہ کے آخری رسولﷺ ہیں اور ان کے بعد دوبارہ کوئی نبی نہیں آئے گا پھرکیا ہمارے لیے کسی بھی طورپر یہ جائز اورمناسب ہے کہ ہم کسی دوسرے شخص کے نبوت کے دعوے پر غور تک کریں؟ انسان اللہ کی مخلوقات میں سے وہ واحد مخلوق ہے جسے عقل جیسی نعمت سے نوازا گیا اور یہ ایسی مخلوق ہے جو اسی عقل کو استعمال کر کے سوچنے پر آئے تو خود اللہ کے وجود کے لیے ثبوت کی تلاش شروع کردیتی ہے پھر اس سلسلہ کو یہیں پر محدود نہیں رکھتی، بلکہ اسے پیغمبروں کی ذات تک دراز کردیتی ہے۔ پہلے سے موجود پیغمبروں کی نبوت کے بارے میں سوال کرتی ہے پھر انہیں پیغمبر مان لیتی ہے اور اس کے بعد قرآن کے واضح احکامات کے باوجود زمین پر مزید پیغمبروں کی تلاش شروع کردیتی ہے اور اس تلاش میں یہ بات فراموش کردیتی ہے کہ نبی بنتا نہیں تھا، بنایا جاتا تھا ، اسے مبعوث کیا جاتا تھا اورہم انسانی evolutionکی ان آخری دہائیوں میں کھڑے ہیں جہاں مزید نبیوں کی آمد کا سلسلہ اس لیے ختم کر دیا گیا کیوں کہ انسان کے لیے ایک دین اورایک نبی کا انتخاب کرلیا گیا۔
اب کسی نئے عقیدے کی ضرورت نہیں بلکہ صرف تقلید کی ہے، صرف تقلید یعنی پریکٹس … اس ایک، آخری اورمکمل دین کی جسے پیغمبر اسلام حضرت محمدﷺ پرختم کر دیا گیا۔ اب ہر وہ شخص خسارے میں رہے گا جو دین کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کے بجائے تفرقے کی راہ اختیا رکرے گا۔ اگر ہماری اعلیٰ تعلیم اور ہمارا شعور ہمیں دین کے بارے میں صحیح اور غلط کی تمیز تک نہیں دے سکتے تو پھر ہم میں اوراس جانور میں کوئی فرق نہیں، جو سبز تازہ گھاس کے ایک گٹھے کے پیچھے کہیں بھی جاسکتا ہے، اس بات کی پرواہ کیے بغیر کہ اس کا ریوڑ کہاں ہے۔”
چالیس منٹ کے اس لیکچر میں صبیحہ نے کسی اورغلط عقیدے یا فرقے کا ذکر بھی نہیں کیا تھا۔ اس نے جو کچھ کہا تھا بالواسطہ کہا تھا۔ صرف ایک چیز بلاواسطہ کہی تھی اوروہ حضرت محمدﷺ کی ختم نبوت کا اقرار تھا۔ ”اللہ کے آخری پیغمبر حضرت محمدﷺ تھے جنہوں نے چودہ سو سال پہلے مدینہ میں وفات پائی۔ چودہ سو سال سے پہلے مسلمان ایک امت کے طورپر اسی ایک شخص کے سائے میں کھڑے ہیں۔ چودہ سو سال بعد بھی ہمارے لیے وہ ایک آخری نبیﷺ ہیں جن کے بعد کوئی دوسرا نبی بھیجا گیا نہ بھیجا جائے گا اورہر وہ شخص جو کسی دوسرے شخص میں کسی دوسرے نبی کا عکس تلاش کرنے کی کوشش کرتاہے اسے ایک با راپنے ایمان کا ازسرنو جائزہ لے لینا چاہیے۔ شاید یہ کوشش اسے اس عذاب سے بچا دے جس میں وہ اپنے آپ کو مبتلا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔”
امامہ ہر لیکچر کے بعد صبیحہ سے مل کر جایا کرتی تھی۔ اس لیکچرکے بعد وہ صبیحہ سے نہیں ملی۔ ایک لمحہ بھی وہاں رکے بغیر وہ وہاں سے چلی آئی۔ عجیب سے ذہنی انتشار میں مبتلا ہوکر وہ کالج سے باہرنکل کر پیدل چلتی رہی۔ کتنی دیر فٹ پاتھ پر چلتی رہی اور اس نے کتنی سڑکیں عبور کیں، اسے اندازہ نہیں ہوا۔ کسی معمول کی طرح چلتے ہوئے وہ فٹ پاتھ سے نیچے نہر کے کنارے بنی ہوئی ایک بنچ پر جاکر بیٹھ گئی۔ سورج غروب ہونے والا تھا اوراوپر سڑک پر گاڑیوں کے شور میں اضافہ ہوگیا تھا۔ وہ چپ چاپ نہر کے بہتے ہوئے پانی کو دیکھتی رہی۔
ایک لمبی خاموشی کے بعد اس نے بڑبڑاتے ہوئے خود سے پوچھا۔
”آخر میں کر کیا رہی ہوں اپنے ساتھ۔ کیوں اپنے آپ کو الجھا رہی ہوں، آخر کس یقین کی کھوج میں سرگرداں ہوں اورکیوں؟ میں اس سب کے لیے تو یہاں لاہو رنہیں آئی۔ میں تو یہاں ڈاکٹر بننے آئی ہوں۔ مجھے آئی اسپیشلسٹ بننا ہے۔ پیغمبر … پیغمبر… پیغمبر…میرے لیے ہر چیز وہاں کیوں ختم ہو جاتی ہے۔”
اس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا۔
”مجھے اس سب سے نجات حاصل کرنی ہے، اس طرح اپنی اسٹڈیز پرکبھی توجہ نہیں دے سکتی۔ مذہب اور عقیدہ میرا مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔ صحیح یا غلط جو میرے بڑوں نے دیا وہی ٹھیک ہے۔ میں اب صبیحہ کے پاس نہیں جاؤں گی۔ میں مذہب یا پیغمبر کے بارے میں کبھی سوچوں گی بھی نہیں۔” وہاں بیٹھے بیٹھے اس نے طے کیا تھا۔
”رات کو آٹھ بجے وہ واپس آئی تو جویریہ اوررابعہ کچھ فکر مند سی تھیں۔
”بس ایسے ہی مارکیٹ چلی گئی تھی۔” اس نے ستے ہوئے چہرے کے ساتھ انہیں بتایا۔
٭…٭…٭
”ارے اِمامہ! تم تو بہت عرصے بعد آئی ہو، آخر آنا کیوں چھوڑ دیا تم نے۔” بہت دنوں کے بعد ایک با رپھر صبیحہ کے پاس پہنچ گئی تھی۔ صبیحہ کا لیکچر شروع ہونے والا تھا۔
”مجھے آپ سے کچھ باتیں کرنی ہیں، آپ اپنا لیکچر ختم کرلیں، میں باہر بیٹھ کر آپ کا انتظار کر رہی ہوں۔” اِمامہ نے اس کی بات کا جواب دینے کے بجائے اس سے کہا۔
”ٹھیک پینتالیس منٹ کے بعد جب صبیحہ اپنا لیکچر ختم کر کے باہر نکلی تو اس نے امامہ کو باہر کوریڈور میں ٹہلتے ہوئے پایا۔ وہ صبیحہ کے ساتھ دوبارہ اسی کمرے میں آن بیٹھی جواب خالی تھا۔ صبیحہ خاموشی سے اس کی طرف سے بات شروع کرنے کا انتظار کرتی رہی۔
امامہ چند لمحے کسی سوچ میں ڈوبی رہی پھر اس نے صبیحہ سے کہا۔
”آپ کو پتا ہے میں کس مذہب سے ہوں؟”
”ہاں، میں جانتی ہوں۔ جویریہ نے مجھے بتایا تھا۔” صبیحہ نے پرسکون انداز میں کہا۔
”میں آپ کو بتا نہیں سکتی کہ میں کس حد تک فرسٹرٹیڈ ہوں۔ میرا دل چاہتا ہے میں دنیا چھوڑ کر کہیں بھاگ جاؤں۔” اس نے کچھ دیر کے بعد صبیحہ سے کہنا شروع کیا۔ ”میں… میں…” اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پکڑ لیا۔ ”مجھے پتا ہے کہ …” اس نے ایک بار پھر اپنی بات ادھوری چھوڑ دی پھر خاموشی۔ ”مگر میں اپنا مذہب نہیں چھوڑ سکتی۔ میں تباہ ہوجاؤں گی، میرے ماں باپ مجھے مار ڈالیں گے۔ میر اکیریئر، میرے خواب، سب کچھ ختم ہوجائے گا۔ میں نے تو سرے سے عبادت کرنا تک چھوڑ دی ہے مگر پھر بھی پتا نہیں کیوں مجھے سکون نہیں مل رہا ہے۔ آپ میرے صورتِ حال کو سمجھیں۔ مجھے لگ رہا ہے یہ سب کچھ غلط ہے اورصحیح کیا ہے، مجھے نہیں معلوم۔”
”امامہ! تم اسلام قبول کرلو۔” صبیحہ نے اس کی با ت کے جواب میں صرف ایک جملہ کہا۔
”یہ میں نہیں کرسکتی، میں آپ کو بتا رہی ہوں، میں کتنے مسائل کا شکار ہوجاؤں گی۔”
”تو پھر تم میرے پاس کس لیے آئی ہو؟” صبیحہ نے اسی پر سکون انداز میں کہا۔ وہ اس کا منہ دیکھنے لگی پھر اس نے بے بسی سے کہا۔
”پتا نہیں میں آپ کے پاس کس لیے آئی ہوں؟”
”تم صرف یہی ایک جملہ سننے کے لیے آئی ہو جو میں نے تم سے کہا ہے۔ میں تمہیں کوئی دلیل نہیں دوں گی، کیوں کہ تمہیں کسی سوال کے جواب کی تلاش نہیں ہے۔ ہر سوال کا جواب تمہارے اندرموجود ہے۔ تم سب جانتی ہو، بس تمہیں اقرار کرنا ہے۔ ایسا ہی ہے نا۔”
امامہ کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔ ”مجھے لگ رہا ہے میرے پاؤں زمین سے اکھڑ چکے ہیں۔ میں ایسے خلا میں سفر کر رہی ہوں۔” اس نے بھرائی ہوئی اؤاز میں کہا۔
”صبیحہ نے اس کی بات کا جوا ب نہیں دیا۔ وہ بسم اللہ پڑھ رہی تھی۔ اِمامہ گیلی آنکھوں کے ساتھ اس کا چہرہ دیکھنے لگی۔
”کہیں کچھ بھی نظر نہیں آتا صبیحہ! کچھ بھی نہیں۔” اس نے اپنے ہاتھوں کی پشت سے اپنے آنسوؤں کو صاف کیا۔
”لا الہ الا اللہ” صبیحہ کے لب آہستہ آہستہ ہلنے لگے۔ امامہ دونوں ہاتھوں سے چہرہ ڈھانپ کر بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اوروہ روتے ہوئے صبیحہ کے پیچھے کلمے کے الفاظ دہرا رہی تھی۔ ”محمد رسول اللہ۔” امامہ نے اگلے الفاظ دہرائے۔ اس کی آواز بھرّا گئی۔
امامہ کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا اسے اتنا رونا کیوں آرہا تھا۔ اسے کوئی پچھتاوا، کوئی افسوس نہیں تھا مگر پھر بھی اسے اپنے آنسوؤں پر قابو پانا مشکل ہو رہا تھا۔ بہت دیر تک روتے رہنے کے بعد اس نے جب سر اُٹھایا تھا تو صبیحہ اس کے پاس ہی بیٹھی ہوئی تھی۔ امامہ گیلے چہرے کے ساتھ اسے دیکھ کر مسکرا دی۔
٭…٭…٭