اس دن وہ واپس گھر آکر اپنے کمرے میں بند ہوکر روتی رہی۔ تحریم کی باتوں نے اسے واقعی بہت دل برداشتہ اورمایوس کیا تھا۔
ہاشم مبین احمد اس دن شام کو ہی آفس سے گھر واپس آگئے تھے۔ واپس آنے پر انہیں سلمیٰ سے پتا چلا کہ امامہ کی طبیعت خراب ہے۔ وہ اس کا حال احوال پوچھنے اس کے کمرے میں چلے آئے۔ امامہ کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔ ہاشم مبین حیران رہ گئے۔
”کیا بات اِمامہ؟” انہوں نے امامہ کے قریب آکر پوچھا۔
وہ اٹھ کر بیٹھ گئی اور کچھ بہانہ کرنے کے بجائے بے اختیار رونے لگی۔ ہاشم کچھ پریشان ہوکر اس کے قریب بیڈ پر بیٹھ گئے۔
”کیا ہوا… امامہ؟”
”تحریم نے آج اسکول میں مجھ سے بہت بد تمیزی کی ہے۔” اس نے روتے ہوئے کہا۔
ہاشم مبین نے بے اختیا رایک اطمینان بھری سانس لی۔ ”پھر کوئی جھگڑا ہوا ہے تم لوگوں میں؟”
”بابا! آپ کو نہیں پتا اس نے میرے ساتھ کیا کیا ہے؟” اِمامہ نے باپ کو مطمئن ہوتے دیکھ کر کہا۔
”بابا! اس نے…” وہ باپ کو تحریم کے ساتھ ہونے والی تمام گفتگو بتاتی گئی۔ ہاشم مبین کے چہرے کی رنگت بدلنے لگی۔
”تم سے کس نے کہا تھا۔ تم اسکول کتابیں لے کر جاؤ، انہیں پڑھانے کے لیے؟” انہوں نے اِمامہ کو ڈانٹتے ہوئے کہا۔
”میں ان کی غلط فہمیاں دور کرنا چاہتی تھی۔” امامہ نے قدرے کمزو رلہجے میں کہا۔
”تمہیں ضرورت ہی کیا تھی کسی کی غلط فہمیاں دور کرنے کی۔ وہ ہمارے گھر نہیں آتیں تو نہ آئیں۔ ہمیں برا سمجھتی ہیں تو سمجھتی رہیں، ہمیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔” ہاشم مبین نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
”مگر اب تمہاری اس حرکت سے پتا نہیں وہ کیا سمجھے گی۔ کس کس کو بتائے گی کہ تم نے اسے وہ کتابیں دینے کی کوشش کی۔ خود اس کے گھر والے بھی ناراض ہوں گے۔ امامہ! ہر ایک کو یہ بتاتے نہیں پھرتے کہ تم کیا ہو۔ نہ ہی اپنے فرقے کے بارے میں بحث کرتے ہیں اگر کوئی بحث کرنے کی کوشش بھی کرے تو ہاں میں ہاں ملا دیتے ہیں ورنہ لوگ خوامخواہ فضول طرح کی باتیں کرتے ہیں اور فضول طرح کے شبہات میں مبتلا ہوتے رہتے ہیں۔” انہوں نے سمجھایا۔
”مگر بابا! آپ بھی تو بہت سارے لوگوں کو تبلیغ کرتے ہیں؟” امامہ نے کچھ الجھے ہوئے انداز میں کہا۔ ”پھر مجھے کیوں منع کر رہے ہیں؟”
”میری بات اور ہے میں صرف ان ہی لوگوں سے مذہب کی بات کرتا ہوں جن سے میری بہت بے تکلفی ہوچکی ہوتی ہے اور جن کے بارے میں مجھے یہ محسوس ہو کہ ان پر میری ترغیب اور تبلیغ کا اثر ہو سکتا ہے۔ میں دو چا ردن کی ملاقا ت میں کسی کو کتابیں بانٹنا شروع نہیں ہو جاتا۔” ہاشم مبین نے کہا۔
”بابا ان سے میری دوستی دو چار دن کی نہیں ہے۔ ہم کئی سالوں سے دوست ہیں۔” امامہ کو اعتراض ہوا۔
”ہاں مگر وہ دونوں سید ہیں اوردونوں کے گھرانے بہت مذہبی ہیں۔ تمہیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے تھی۔”
”میں نے صر ف انہیں اپنے فرقے کے بارے میں بتانے کی کوشش کی تھی تاکہ وہ ہمیں غیر مسلم تو نہ سمجھیں۔” امامہ نے کہا۔
”اگر وہ ہمیں غیر مسلم سمجھتے ہیں تو بھی ہمیں کیا فرق پڑتا ہے۔ وہ خود غیر مسلم ہیں۔” ہاشم مبین نے بڑی عقیدت سے کہا۔ ”وہ تو خود گمراہی کے راستے پر ہیں۔”
”بابا وہ کہہ رہی تھی کہ آپ کو غیر ملکی مشنریز سے روپیہ ملتا ہے۔ این جی اوز سے روپیہ ملتا ہے تاکہ آپ لوگوں کو ہمارے فرقہ کا پیرو کا ربنائیں۔”
ہاشم مبین نے تنفر سے گردن کو جھٹکا۔ ”مجھے صرف اپنی جماعت سے روپیہ ملتا ہے اوروہ بھی وہ روپیہ ہوتا ہے جو ہماری اپنی کمیونٹی، اندرون ملک اوربیرون ملک اکٹھا کرتی ہے۔ہمارے پاس اپنے روپے کی کیا کمی ہے۔ ہماری اپنی فیکٹریز نہیں ہیں، کیا اور اگر مجھے غیر ملکی مشنریز اوراین جی اوز سے روپیہ ملے بھی تو میں بڑی خوشی سے لوں گا، آخر اس میں برائی کیا ہے۔ دین کی خدمت کر رہا ہوں، اورجہاں تک اپنے مذہب کی ترویج و تبلیغ کی بات ہے تواس میں بھی کیا برائی ہے۔ اگر اس ملک میں عیسائیت کی تبلیغ ہو سکتی ہے تو ہمارے فرقے کی کیوں نہیں۔ ہم تو ویسے بھی اسلام کا ایک فرقہ ہیں۔ لوگوں کو راہِ ہدایت پر لانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔” ہاشم نے بڑی تفصیل کے ساتھ بتایا۔
”مگر تم لوگوں سے اس معاملے پر بات مت کیا کرو۔ اس بحث مباحثے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ ابھی ہم لوگ اقلیت میں ہیں جب اکثریت میں ہوجائیں گے تو پھر اس طرح کے لوگ اتنی بے خوفی کے ساتھ اس طرح بڑھ بڑھ کر بات نہیں کرسکیں گے پھر وہ اس طرح ہماری تذلیل کرتے ہوئے ڈریں گے مگر فی الحال ایسے لوگوں کے منہ نہیں لگنا چاہئے۔”
”بابا آئین میں ہمیں اقلیت اورغیر مسلم کیوں قرا ردیا گیا ہے۔ جب ہم اسلام کا ایک فرقہ ہیں تو پھر انہوں نے ہمیں غیر مسلم کیوں ٹھہرایا ہے۔” امامہ کو تحریم کی کہی ہوئی ایک اور بات یاد آئی۔
”یہ سب مولویوں کی کارستانی تھی۔ اپنے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے وہ سب ہمارے خلاف اکٹھے ہوگئے تھے۔ ہماری تعداد بھی زیادہ ہوجائے گی تو ہم بھی اپنی مرضی کے قوانین بنوائیں گے اور اس طرح کی تمام ترمیمات کو آئین میں سے ہٹا دیں گے۔” ہاشم مبین نے پرجوش انداز میں کہا۔ ”اور تمہیں اس طرح بے وقوفوں کی طرح کمرے میں بند ہوکر رونے کی ضرورت نہیں ہے۔”
ہاشم مبین نے اس کے پاس سے اٹھتے ہوئے کہا، امامہ انہیں وہاں سے جاتے ہوئے دیکھتی رہی۔
تحریم کے ساتھ وہ اس کی دوستی کا آخری دن تھا اور اس میں تحریم سے زیادہ خود اس کا رویہ وجہ تھا۔ وہ تحریم کی باتوں سے اس حد تک دل برداشتہ ہوئی تھی کہ اب تحریم کے ساتھ دوبارہ پہلے سے تعلقات قائم رکھنا اس کے لیے مشکل ہوگیا تھا۔ خود تحریم نے بھی اس کی اس خاموشی کو پھلانگنے یا توڑنے کی کوشش نہیں کی۔
ہاشم مبین احمد احمدی جماعت کے سرکردہ رہ نماؤں میں سے ایک تھے۔ ان کے بڑے بھائی اعظم مبین احمد بھی جماعت کے اہم رہ نماؤں میں سے ایک تھے۔ ان کے پورے خاندان میں سے چند ایک کو چھوڑ کر باقی تمام افراد بہت سال پہلے اس وقت قادیانیت اختیار کرگئے تھے جب اعظم مبین احمد نے اس کام کا آغاز کیا تھا جن لوگوں نے قادیانیت اختیا رنہیں کی تھی وہ باقی لوگوں سے قطع تعلق کرچکے تھے۔
اپنے بڑے بھائی اعظم مبین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہاشم مبین نے بھی یہ مذہب اختیا رکرلیا۔ اعظم مبین ہی کی طرح انہوں نے اپنے مذہب کے فروغ اور تبلیغ کے لیے کام کرنا بھی شروع کردیا۔ دس پندرہ سالوں میں وہ دونوں بھائی اس تحریک کے سرکردہ رہ نماؤں میں شمار ہونے لگے۔ اس کی وجہ سے انہوں نے بے تحاشا پیسہ کمایا اوراس پیسے سے انہوں نے سرمایہ کاری بھی کی مگر ان کی آمدنی کا بڑا ذریعہ تحریک کی تبلیغ کے لیے میسرہونے والے فنڈز ہی تھے۔ ان کا شمار اسلام آباد کی ایلیٹ کلاس میں ہوتا تھا۔ بے تحاشا دولت ہونے کے باوجود ہاشم اور اعظم مبین کے گھر کا ماحول روایتی تھا۔ ان کی خواتین باقاعدہ پردہ کیا کرتی تھیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ ان خواتین پر ناروا پابندیاں یا کسی قسم کا جبر روا رکھا گیا تھا۔
امامہ بھی اسی قسم کے ماحول میں پلی بڑھی تھی۔ وہ یقینا ان لوگوں میں سے تھی جو منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوتے ہیں اور اس نے ہاشم مبین کوکبھی کسی قسم کے مالی مسائل سے گزرتے نہیں دیکھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس کے لیے تحریم کی یہ بات ناقابل یقین تھی کہ اس کے خاندان نے پیسہ حاصل کرنے کے لیے یہ مذہب اختیا رکیا۔ غیر ملکی مشنریز اوربیرونِ ملک سے ملنے والے فنڈز کا الزام بھی اس کے لیے ناقابل قبول تھا۔وہ یہ بات اچھی طرح جانتی تھی کہ وہ ایک ایسی کلاس سے تعلق رکھی ہے جس کا لمبا چوڑا کاروبا رتھا اور اگرچہ وہ یہ بات بھی جانتی تھی کہ ہاشم مبین اس مذہب کی تبلیغ اورترویج کرتے ہیں اور تحریک کے سرکردہ رہ نماؤں میں سے ایک ہیں مگر یہ کوئی خلاف معمول بات نہیں تھی۔ وہ شروع سے ہی اس سلسلے میں اپنے تایا اور والد کی سرگرمیوں کو دیکھتی آرہی تھی۔ اس کے نزدیک یہ ایک ایسا کام تھا جو وہ ”اسلام” کی تبلیغ و ترویج کے لیے کر رہے تھے۔
اپنے گھر والوں کے ساتھ وہ کئی بار مذہبی اجتماع میں بھی جاچکی تھی اورسرکردہ رہ نماؤں کے لندن سے سیٹلائٹ کے ذریعے ہونے والے خطبات کو بھی باقاعدگی سے سنتی اوردیکھتی آرہی تھی۔ تحریم کے ساتھ ہونے والے جھگڑے سے پہلے کبھی اس نے اپنے مذہب کے بارے میں غو رکرنے کی کوشش نہیں کی۔ ا س کے لیے اپنا فرقہ ایسا ہی تھا، جیسے اسلام کا کوئی دوسرا فرقہ… اس کی برین واشنگ بھی اسی طرح کی گئی تھی کہ وہ سمجھتی تھی کہ صر ف وہی سیدھے راستے پر تھے بلکہ وہی جنت میں جائیں گے۔
اگرچہ گھر میں بہت شروع میں ہی اسے باقی بہن بھائیوں کے ساتھ یہ نصیحت کردی گئی تھی کہ وہ بلا وجہ لوگوں کو یہ نہ بتائیں کہ وہ دراصل کیا ہیں۔ اسکول میں تعلیم کے دوران ہی وہ یہ بھی جان گئی تھی کہ 1974 میں انہیں پارلیمنٹ نے ایک غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا تھا وہ سمجھتی تھی کہ یہ مذہبی دباؤ میں آکر کیا جانے والا ایک سیاسی فیصلہ ہے، مگر تحریم کے ساتھ ہونے والے جھگڑے نے اسے اپنے مذہب کے بارے میں غور کرنے اورسوچنے پر مجبور کردیا تھا۔
تحریم سے ہونے والے جھگڑے کے بعد ایک تبدیلی جو اس میں آئی وہ اپنے مذہب کا مطالعہ تھا۔ تبلیغی مواد کے علاوہ اور کتابوں کے علاوہ جنہیں اس مذہب کے ماننے والے مقدس سمجھتے تھے اس نے اور بھی بہت سی کتابوں کا مطالعہ کرنا شروع کردیا اور بنیادی طور پر اسی زمانے میں اس کی الجھنوں کا آغاز ہوا مگر کچھ عرصہ مطالعہ کے بعد اس نے ایک با رپھر ان الجھنوں اوراضطراب کو اپنے ذہن سے جھٹک دیا۔ میٹرک کے فوراً بعد اسجد سے اس کی منگنی ہوگئی وہ اعظم مبین کا بیٹا تھا۔ یہ اگرچہ کوئی محبت کی منگنی نہیں تھی مگر اس کے باوجود امامہ اوراسجد کی پسند اس پر رشتہ کا باعث بنی تھی۔ نسبت طے ہونے کے بعد اسجد کے لیے اِمامہ کے دل میں خاص جگہ بن گئی تھی۔
اپنی پسند کے شخص سے نسبت کے بعد اس کا دوسرا ٹارگٹ میڈیکل میں ایڈمیشن تھا اور اسے اس کے بارے میں زیادہ فکر نہیں تھی۔ وہ جانتی تھی کہ اس کے باپ کی پہنچ اتنی ہے کہ اگر وہ میرٹ پرنہ بھی ہوئی تب بھی وہ اسے میڈیکل کالج میں داخل کرواسکتے تھے اوراگر یہ ممکن نہ ہوتا تو بھی وہ بیرون ملک جاکر میڈیکل کی تعلیم حاصل کرسکتی تھی۔
٭…٭…٭
”تم پچھلے کچھ دنوں سے بہت پریشان ہو، کوئی پرابلم ہے؟” وسیم نے اس رات امامہ سے پوچھا۔ وہ پچھلے کچھ دن سے بہت زیادہ خاموش اورالجھی الجھی نظر آرہی تھی۔
”نہیں، ایسی توکوئی بات نہیں ہے۔ تمہارا وہم ہے۔” امامہ نے مسکرانے کی کوشش کی۔
”خیر وہم تو نہیں، کوئی نہ کوئی با ت ہے ضرور۔ تم بتانا نہیں چاہتیں تو اور بات ہے۔” وسیم نے سر جھٹکتے ہوئے کہا۔ وہ امامہ کے ڈبل بیڈ پر اس سے کچھ فاصلے پر لیٹا ہوا تھااور وہ اپنی فائل میں رکھے نوٹس الٹ پلٹ رہی تھی۔ وسیم کچھ دیر اس کے جواب کا انتظار کرتا رہا پھر اس نے ایک بار پھر اسے مخاطب کیا۔
”میں نے ٹھیک کہانا، تم بتانا نہیں چاہتیں؟”
”ہاں، میں فی الحال بتانا نہیں چاہتی۔” امامہ نے ایک گہرا سانس لے کر اعتراف کیا۔
”بتادو، ہوسکتا ہے میں تمہاری مدد کرسکوں۔” وسیم نے اسے اکسایا۔
”وسیم! میں خود تمہیں بتادوں گی مگر فی الحال نہیں اور اگر مجھے مدد کی ضرورت ہوگی تو میں خود تم سے کہوں گی۔” اس نے اپنی فائل بند کرتے ہوئے کہا۔
”ٹھیک ہے جیسے تمہاری مرضی، میں تو صرف تمہاری مدد کرنا چاہتا تھا۔” وہ بیڈ سے اٹھ گیا۔
وسیم کا اندازہ بالکل ٹھیک تھا۔ وہ واقعی جویریہ کے ساتھ اس دن ہونے والے جھگڑے کے بعد سے پریشان تھی۔ اگرچہ جویریہ نے اگلے دن اس سے معذرت کرلی تھی مگر اس کی الجھن اور اضطراب میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔ جویریہ کی باتوں نے اسے بہت پریشان کردیا تھا۔ ایک ڈیڑھ سال پہلے تحریم کے ساتھ ہونے والا جھگڑا اسے ایک با ر پھر یاد آنے لگا تھا اور اس کے ساتھ ہی اپنے مذہب کے بارے میں ابھرنے والے سوالات اورالجھنیں بھی جو اس نے اپنے مذہب کا تفصیلی مطالعہ کرنے کے بعد اپنے ذہن میں محسوس کی تھیں۔ جویریہ نے کہا تھا ”میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ کاش تم مسلمان ہوتیں۔”
”مسلمان ہوتی؟” وہ عجیب سی بے یقینی میں مبتلا ہوگئی تھی۔ ”کیا میں مسلمان نہیں ہوں؟ کیا میری بہترین دوست بھی مجھے مسلمان نہیں مانتی؟ کیایہ سب کچھ صرف اس پروپیگنڈہ کی وجہ سے ہے جو ہمارے بارے میں کیا جاتا ہے؟ آخر ہمارے ہی بارے میں یہ سب کچھ کیوں کہا جاتا ہے؟ کیا ہم لوگ واقعی کوئی غلط کام کر رہے ہیں؟ کسی غلط عقیدے کو اختیار کر بیٹھے ہیں؟ مگر یہ کیسے ہوسکتا ہے، آخر میرے گھر والے ایسا کیوں کریں گے اورپھر ہماری ساری کمیونٹی ایسا کیوں کرے گی؟ اور شاید یہ ان سوالوں سے نجات پانے کی ایک کوشش تھی کہ ایک ہفتے کے بعد اس نے ایک بہت بڑے عالم دین کی قرآن پاک کی تفسیر خریدی۔ وہ جاننا چاہتی تھی کہ ان کے بارے میں دوسرے فریق کا موقف کیا تھا۔ قرآن پاک کا ترجمہ وہ اس سے پہلے بھی پڑھتی رہی تھی مگر وہ تحریف شدہ حالت میں تھا۔ اسے اس سے پہلے اس بات کا یقین نہیں تھا کہ جو قرآن وہ پڑھتے ہیں اس میں کچھ جگہوں پر کچھ تبدیلیاں کی گئی ہیں مگر اس مشہور عالم دین کی تفسیر پڑھنے کے دوران اسے ان تبدیلیوں کے بارے میں معلوم ہوگیا جو ان کے اپنے قرآن میں موجود تھیں۔ اس نے یکے بعد دیگرے مختلف فرقوں کے اداروں سے شائع ہونے والے قرآن پاک کے نسخوں کو دیکھا۔ ان میں سے کسی میں بھی وہ تبدیلیاں نہیں تھیں جو خود ان کے قرآن میں موجود تھیں جب کہ مختلف فرقوں کی تفاسیر میں بہت زیادہ فرق تھا جوں جوں وہ اپنے مذہب اوراسلام کا تقابلی مطالعہ کر رہی تھی اس کی پریشانی میں اضافہ ہو رہا تھا۔ہر تفسیر میں آخری نبی پیغمبر اسلام ﷺ کو ہی ٹھہرایا گیا تھا۔کہیں بھی کسی ظلی یا امتی نبی کا کوئی ڈھکا چھپا اشارہ بھی موجود نہیں تھا۔ مسیح موعود کی حقیقت بھی اس کے سامنے آگئی تھی۔ اپنے مذہبی رہ نما کی جھوٹی پیش گوئیوں میں اور حقیقت میں ہونے والے واقعات کا تضاد اسے اور بھی زیادہ چبھنے لگا تھا۔ اس کے مذہبی رہ نما نے نبوت کا دعویٰ کرنے سے پہلے جن پیغمبر کے بارے میں سب سے زیادہ غیر مہذب زبان استعمال کی تھی وہ خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی روح کا حلول اس کے اندر ہوگیا ہے اور اگر اس دعوے کی سچائی کو مان بھی لیا جاتا تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے دوبارہ نزول کے بعد چالیس سال تک زندہ رہتے اورپھر جب ان کا انتقال ہوتا تو، اسلام پوری دنیا پر غلبہ پاچکا ہوتا مگر ان رہنما کی وفات کے وقت دنیا میں اسلام کا غلبہ تو ایک طرف، خود ہندوستان میں مسلمان آزادی جیسی نعمت کے لیے ترس رہے تھے۔ امامہ کو اپنے مذہبی رہنما کے گفتگو کے اس انداز پر بھی تعجب ہوتا جو اس نے اپنی مختلف کتابوں میں اپنے مخالفین یا دوسرے انبیائے کرام کے لیے اختیا رکیا تھا۔ کیا کوئی نبی اس طرح کی زبان استعمال کرسکتا تھا، جس طرح کی اس نبوت کے دعویٰ کرنے والے نے کی تھی۔
بہت غیر محسوس انداز میں اس کا دل اپنے مذہبی لٹریچر اور مقدس کتابوں سے اچاٹ ہونے لگا تھا۔ پہلے جیسا اعتقاد اوریقین تو ایک طرف اسے سرے سے ان کی صداقت پر شبہ ہونے لگا تھا۔ اس نے جویریہ سے یہ ذکر نہیں کیا تھا کہ وہ اب اپنے مذہب سے ہٹ کر دوسری کتابوں کو پڑھنے لگی تھی۔ اس کے گھر میں بھی کسی کو یہ اندازہ نہیں ہوا کہ وہ کس قسم کی کتابیں گھر لاکر پڑھ رہی تھی۔اس نے انہیں اپنے کمرے میں بہت حفاظت سے چھپا کر رکھا ہوا تھا۔ صرف ایک دن ایسا ہوا کہ وسیم اس کے کمرے میں آکر اس کی کتابوں میں سے کوئی کتاب ڈھونڈنے لگا۔ وسیم کے ہاتھ سب سے پہلے قرآن پاک کی دو ہی تفسیر لگی تھی اوروہ جیسے دم بخود رہ گیا تھا۔
”یہ کیا ہے اِمامہ؟” اس نے مڑ کر تعجب سے پوچھا۔ امامہ نے سر اٹھاکر اسے دیکھا اور دھک سے رہ گئی۔
”یہ … یہ… یہ قرآن پاک کی تفسیر ہے۔” ا س نے ایک دم اپنی زبان میں ہونے والی لڑکھڑاہٹ پر قابو پاتے ہوئے کہا۔
”میں جانتا ہوں مگر یہ یہاں کیا کر رہی ہے۔ کیا تم اسے خرید کر لائی ہو؟” وسیم نے بری سنجیدگی کے ساتھ پوچھا۔
”ہاں، میں اسے خرید کر لائی ہوں، مگر تم اتنا پریشان کیوں ہو رہے ہو؟”
”بابا کو پتہ چلے گا تو وہ کتنا غصہ کریں گے، تمہیں اندازہ ہے۔”
”ہاں، مجھے اندازہ ہے، مگر مجھے یہ کوئی اتنی قابل اعتراض بات نظر نہیں آتی۔”
”آخر تمہیں اس کتاب کی ضرورت کیوں پڑی؟” وسیم نے کتاب وہیں رکھ دی۔
”کیوں کہ میں جاننا چاہتی ہوں کہ دوسرے عقائد کے لوگ آخر قرآن پاک کی کیا تفسیر کر رہے ہیں۔ ہمارے بارے میں، قرآن کے حوالے سے ان کا نقطۂ نظر کیا ہے۔” امامہ نے سنجیدگی سے کہا۔
وسیم پلکیں جھپکائے بغیر اسے دیکھتا رہا۔
”تمہارا دماغ ٹھیک ہے؟”
”میرا دماغ بالکل ٹھیک ہے۔” امامہ نے پرسکون انداز میں کہا۔ ”کیا برائی ہے، اگر میں دوسرے فرقوں کے بارے میں جانوں اوران کے قرآن پاک کی تفسیر پڑھوں۔”
”ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے۔” وسیم نے ناراضی سے کہا۔
”تمہیں ضرورت نہیں ہوگی، مجھے ضرورت ہے۔” اِمامہ نے دو ٹوک انداز میں کہا۔ ”میں آنکھیں بند کر کے کسی بھی چیز پر یقین کی قائل نہیں ہوں۔” اس نے واضح الفاظ میں کہا۔
”تو یہ تفسیر پڑھ کر تمہارے شبہات دور ہوگئے ہیں۔” وسیم نے طنزیہ لہجے میں پوچھا۔
امامہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ ”پہلے مجھے اپنے اعتقاد کے بارے میں شبہ نہیں تھا، اب ہے۔”
وسیم اس کی بات پربھڑک اٹھا۔ ”دیکھا، اس طرح کی کتابیں پڑھنے سے یہی ہوتا ہے۔ میں اسی لیے تم سے کہہ رہا ہوں کہ تمہیں اس طرح کی کتابیں پڑہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارے لیے ہماری اپنی کتابیں کافی ہیں۔
”میں نے اتنی تفاسیر دیکھی ہیں، قرآن پاک کے اتنے ترجمے دیکھے ہیں، حیرانی کی بات ہے وسیم! کہیں بھی ہمارے نبی کا ذکر نہیں ہے، ہر تفسیر میں احمد سے مراد محمدﷺ کو ہی لیا جاتا ہے، ہمارے نبی کو نہیں اوراگر کہیں ہمارے نبی کا ذکر ہے بھی تو نبوت کے ایک جھوٹے دعوے دار کے طور پر۔” امامہ نے الجھے ہوئے انداز میں کہا۔
”یہ لوگ ہمارے بارے میں ایسی باتیں نہیں کریں گے تو اور کون کرے گا۔ ہمارے نبی کی نبوت کو مان لیں گے تو ہمارا اور ان کا تو اختلاف ہی ختم ہوجائے گا۔ یہ کبھی بھی اپنی تفاسیر میں سچ نہیں شائع کریں گے۔” وسیم نے تلخی سے کہا۔
”اورجو ہماری تفسیر ہے، کیا ہم نے سچ لکھا ہے اس میں۔”
”کیا مطلب؟” وسیم ٹھٹکا۔
”ہمارے نبی دوسرے پیغمبروں کے بارے میں غلط زبان کیوں استعمال کرتے ہیں؟”
“وہ ان لوگوں کے بارے میں اپنی بات کرتے ہیں جو ان پر ایمان نہیں لائے۔” وسیم نے کہا۔
” جو ایمان نہ لائے کیا اسے گالیاں دینی چاہئیں؟”
”ہاں، غصہ کا اظہار تو کسی نہ کسی صورت میں ہوتا ہے۔” وسیم نے کندھے جھٹکتے ہوئے کہا۔
”غصے کا اظہار یا بے بسی کا؟” امامہ کے جملے پر وہ دم بخود اسے دیکھنے لگا۔
”جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام پرلوگ ایمان نہیں لائے تو انہوں نے لوگوں کو گالیاں تو نہیں دیں۔ حضرت محمدﷺپرلوگ ایمان نہیں لائے تھے تو انہوں نے بھی کسی کو گالیاں نہیں دیں۔ محمدﷺنے تو ان لوگوں کے لیے بھی دعا کی جنہوں نے انہیں پتھر مارے، جو وحی قرآن پاک کی صورت میں حضرت محمدﷺ پر نازل ہوئی ہے اس میں کوئی گالی نہیں ملتی اور جس مجموعے کو ہمارے نبی اپنی اوپر نازل شدہ صحیفہ کہتے ہیں وہ گالیوں سے بھرا ہوا ہے۔”
” امامہ! ہر انسان کا مزاج دوسرے سے مختلف ہوتا ہے، ہر انسان الگ طرح سے ری ایکٹ کرتا ہے۔” وسیم نے تیزی سے کہا۔ امامہ نے قائل نہ ہونے والے انداز میں سر ہلایا۔
”میں ہر انسان کی بات نہیں کر رہی ہوں۔ میں نبی کی بات کر رہی ہوں جو شخص اپنے غصے پر قابو نہیں رکھ سکتا وہ نبوت کا دعویٰ کیسے کرسکتا ہے۔ جس شخص کی زبان سے گالیاں نکلتی ہوں اس کی زبان سے حق و صداقت کی بات نکل سکتی ہے؟ وسیم! مجھے اپنے مذہب اورعقیدے کے بارے میں الجھن سی ہے۔” وہ ایک لمحہ کے لیے رُکی۔ ”میں نے اتنی تفاسیر میں اگر کسی امتی نبی کا ذکر پایا ہے تو وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں اورمیں نہیں سمجھتی کہ ہمارے نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام یا مسیح موعود ہیں۔ نہیں… یہ وہ نہیں ہیں، جن کے آنے کے بارے میں قرآن پاک میں ذکر ہے۔” اس بار اس نے اپنے الفاظ کی خود ہی پرزور تردید کی۔
”تم اب اپنی بکواس بند کرلو تو بہتر ہے۔” وسیم نے ترش لہجے میں کہا۔ ”کافی فضول باتیں کرچکی ہو تم۔”
”فضول باتیں؟” امامہ نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔ ”تم کہہ رہے ہو میں فضول باتیں کر رہی ہوں۔ مسجد اقصیٰ اگر ہمارے شہر میں ہے تو پھر جو اتنے سینکڑوں سالوں سے فلسطین میں مسجد اقصیٰ ہے وہ کیا ہے۔ ایک نام کی دو مقدس جگہیں دنیا میں بنا کر خدا تو مسلمانوں کو کنفیوز نہیں کرسکتا۔ مسلمانوں کو چھوڑو، یہودی، عیسائی ساری دنیا اس مسجد کو قبلہ اول تسلیم کرتی ہے۔ اگر کوئی نہیں کرتا تو ہم نہیں کرتے، یہ عجیب بات نہیں؟”
”اِمامہ! میں ان معاملات پر تم سے بحث نہیں کرسکتا۔ بہتر ہے تم اس مسئلے کو بابا سے ڈسکس کرو۔”
وسیم نے اکتا کر کہا۔ ”ویسے تم غلطی کر رہی ہو، اس طرح کی فضول بحث شروع کرکے۔ میں بابا کو تمہاری یہ ساری باتیں بتادوں گا اور یہ بھی کہ تم آج کل کیا پڑھ رہی ہو۔” وسیم نے جاتے جاتے دھمکانے والے انداز میں کہا۔ وہ کچھ سوچ کر الجھے ہوئے انداز میں اپنے ہونٹ کاٹنے لگی۔ وسیم کچھ دیر ناراضی کا اظہار کر کے کمرے سے باہر چلا گیا۔ وہ اٹھ کر کمرے میں ٹہلنے لگی۔ وہ ہاشم مبین سے ڈرتی تھی اور جانتی تھی کہ وسیم ان سے اس بات کا ذکر ضرور کرے گا۔ وہ ان کے رد عمل سے خوف زدہ تھی۔
٭…٭…٭