پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۴

ان کے جانے کے بعد سالار کو اس وکیل کا خیال آیا جس کے ذریعے انہوں نے ہاشم مبین احمد سے رابطہ کیا تھا۔ اس وکیل کو ہائر کرنے والا بھی حسن ہی تھا اور سالار سکندر کے نام سے وہ وکیل بھی واقف نہیں تھا، مگر سالار کے لیے قابل تشویش بات اس میں حسن کا انوالو ہونا تھا، ہاشم مبین احمد اس وکیل سے حسن اور حسن سے اس تک بہت آسانی سے پہنچ سکتے تھے۔
اس نے اگلا فون حسن کو کیا اور حسن کو سارے معاملے کی نوعیت سے آگاہ کیا۔
”میں تمہیں پہلے ہی اس سب سے منع کر رہا تھا۔” اس نے چھوٹتے ہی سالار سے کہا۔ ”میں وسیم اور اس کی فیملی کو بہت اچھی طرح جانتا ہوں اور ان کے اثر و رسوخ سے بھی بخوبی واقف ہوں۔” وہ بولتا جا رہا تھا۔
سالار نے کچھ اکتاہٹ بھرے لہجے میں اسے ٹوکا۔ ”میں نے تمہیں فون اپنے مستقبل کا حال جاننے کے لیے نہیں کیا۔ میں صرف ایک خطرے سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں۔”
”کس خطرے سے؟” حسن چونکا۔ ”تم نے جو وکیل ہائر کیا تھا وہ اس کے ذریعے تم تک اور پھر مجھ تک باآسانی پہنچ سکتے ہیں۔” سالار نے اس سے کہا۔
”نہیں وہ مجھ تک نہیں پہنچ سکتے۔” حسن نے اس کی بات پر قدرے لاپروائی سے کہا۔
”کیوں…؟”
”کیوں کہ میں نے سارا کام پہلے ہی بہت محتاط ہوکر کیا ہے۔” وہ وکیل بھی میرے اصلی نام اور پتے سے واقف نہیں ہے۔ اسے جو ایڈریس اور فون نمبر میں نے دیا تھا وہ جعلی تھا۔
سالار بے اختیار مسکرایا۔ اسے حسن سے ایسی عقل مندی اور چالاکی کی توقع رکھنی چاہیے تھی۔ وہ ہر کام بڑی صفائی سے سر انجام دینے کا ماہر تھا۔
”میں صرف اس کے پاس ایک بار گیا تھا، پھر فون پر ہی رابطہ کیا اور اس ملاقات میں بھی میرا حلیہ بالکل مختلف تھا۔ میں نہیں سمجھتا کہ صرف حلیے سے ہاشم مبین احمد مجھ تک پہنچ سکتے ہیں؟”
”اور اگر وہ پہنچ گئے تو…؟”
”تو … پتا نہیں… اس تو کے بارے میں، میں نے نہیں سوچا۔” حسن نے صاف گوئی سے کہا۔
”کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ تم کچھ دنوں کے لیے کہیں غائب ہو جاؤ اور یوں ظاہر کرو کہ جیسے تمہاری یہ غیر موجودگی کچھ ضروری کاموں کے لیے تھی۔” سالار نے اسے مشورہ دیا۔
”اس سے بہتر مشورہ بھی میرے پاس ہے۔ میں اس وکیل کو کچھ روپے پہنچا کر یہ ہدایت دے دیتا ہوں کہ ہاشم مبین یا پولیس کے پہنچنے پر وہ انہیں میرا غلط حلیہ بتائے۔ کم از کم اس طرح فوری طور پر میں کسی پریشانی کا شکار نہیں ہوں گا اور ان ہی دنوں میں ویسے بھی چند ہفتوں کے لیے انگلینڈ جا رہا ہوں۔” حسن نے بتایا۔ ”پولیس اگر پہنچ بھی گئی تو تب بھی میں ان کی پہنچ سے بہت دور رہوں گا، مگر مجھے یہ یقین نہیں ہے کہ وہ مجھ تک پہنچ سکیں گے۔ اس لیے تم اطمینان رکھو۔”
”اگر تم واقعی اتنے بے فکر اور مطمئن ہو تو ٹھیک ہے، ہوسکتا ہے وہ تم تک نہ ہی آئیں، مگر میں نے پھر بھی سوچا کہ میں تمہیں بتا دوں۔” سالار نے فون بند کرتے ہوئے اس سے کہا۔
”ویسے تم اس لڑکی کو اب لاہور میں کہاں چھوڑ کر آئے ہو؟”




”لاہور کی ایک سڑک پر چھوڑ آیا ہوں اس کے علاوہ اور کہاں چھوڑ سکتا تھا۔ اس نے اپنے محل وقوع اور حدود اربعہ کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔ وہ بس چلی گئی۔”
”عجیب بے وقوف ہو، کم از کم تم تو اس سے اس کا ٹھکانہ پوچھنے کا حوصلہ رکھتے تھے۔”
”ہاں! مگر مجھے اس کی ضرورت نہیں پڑی۔” سالار نے دانستہ طور سے آخری بار ہونے والی اپنی گفتگو گول کردی۔
”میں حیران ہوں کہ تم اب کس طرح کے معاملات میں انوالو ہونے لگے ہو۔ اپنی ٹائپ کی لڑکیوں کے ساتھ انوالو ہونا دوسری بات ہے مگر وسیم کی بہن جیسی لڑکیوں کے ساتھ انوالو ہو جانا… تمہارا ٹیسٹ بھی دن بہ دن گرتا جا رہا ہے۔”
”میں ”انوالو” ہوا ہوں…؟ تم واقعی عقل سے پیدل ہو ورنہ کم از کم اس طرح کی بات مجھ سے نہ کرتے… ایڈونچر اور انوالو منٹ میں زمین وآسمان کا فرق ہوتا ہے حسن صاحب!” سالار نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
”اور آپ نے یہ فاصلہ ایک ہی چھلانگ میں طے کرلیا ہے سالار صاحب!” حسن نے بھی اسی کے انداز میں جواب دیا۔
”تمہارا دماغ خراب ہے اور کچھ نہیں۔”
”اور تمہارا دماغ مجھ سے زیادہ خراب ہے۔ ورنہ اس طرح کی حماقت کو ایڈونچر کبھی نہ کہتے۔” حسن بھی قدرے جھلایا ہوا تھا۔
”اگر تم نے میری مدد کی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تمہارے منہ میں جو آئے تم مجھے کہہ دو۔” سالار کو اس کی بات پر اچانک غصہ آگیا۔
”ابھی میں نے تمہیں کچھ بھی نہیں کہا ہے۔ تم کس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہو۔ یہ ٹیسٹ والی بات کی طرف یا دماغ خراب ہونے والی بات کی طرف؟” حسن نے اسی انداز میں اس کے غصے سے متاثر ہوئے بغیر پوچھا۔
”اچھا اب منہ بند کرلو۔ فضول بحث مت کرو۔”
”اس وقت ان تمام باتوں کو کرنے کا مطلب گڑے مردے اکھاڑنا ہے۔” حسن اب سنجیدہ تھا۔ ”فرض کرو پولیس کسی صورت ہم تک پہنچ جاتی ہے اور پھر وہ اِمامہ کا اتا پتا جاننے کی کوشش کرتے ہیں تو ہم کیا بتائیں گے اور میں نہیں سمجھتا کہ وہ کبھی بھی اس بات پر یقین کریں گے کہ امامہ کے بارے میں تمہیں کچھ پتا نہیں ہے۔ اس وقت تم کیا کروگے؟”
”کچھ بھی نہیں کروں گا۔ میں ان سے بھی وہی کہوں گا جو میں تم سے کہہ رہا ہوں۔” اس نے بلند آواز میں کہا۔
”ہاں اور سارا مسئلہ تمہارے اس بیان سے ہی شروع ہوگا۔ میں اِمامہ کے بارے میں نہیں جانتا ہوں۔” حسن نے اس کا جملہ دہرایا۔ ”تمہیں اچھی طرح اندازہ ہونا چاہیے کہ وہ ہر قیمت پر امامہ تک پہنچنا چاہیں گے۔”
”یہ بہت بعد کی بات ہے، میں امکانات اور ممکنات پر غور کر کے پریشان نہیں ہوتا۔ جب وقت آئے گا، دیکھا جائے گا۔” سالار نے لاپروائی سے کہا۔
”تم سے مجھے صرف یہ مدد چاہیے کہ تم اس سارے معاملے کو راز ہی رکھو اور پولیس کے ہتھے نہ لگو۔”
”تمہارے کہے بغیر بھی میں یہ ہی کرتا۔ ویسے بھی میں اگر پکڑا گیا تو وسیم کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہوں گا۔ اس بار تم نے مجھے واقعی بڑی embarrassing صورتِ حال سے دو چار کیا ہے۔”
”اوکے میں فون بند کر رہا ہوں کیوں کہ تم پر پھر وہی دورہ پڑنے والا ہے۔ وہی نصیحتیں اور پچھتاوا… you are acting like my father۔”
”سالار نے کھٹاک سے فون بند کر دیا۔ اس کا ذہن پچھلی رات کے بارے میں سوچ رہا تھا اور اس کے ماتھے کی تیوریاں اور بل بہت نمایاں تھے۔
٭…٭…٭
”میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھاکہ یہ اس حد تک گر جائے گا۔”
”ریڈ لائٹ ایریا، مائی فٹ، کبھی میرے خاندان کی پچھلی سات نسلوں سے بھی کوئی وہاں نہیں گیا اور یہ لڑکا… کیا ہے جو میں نے اسے نہیں دیا… کیا ہے جس کی کمی رہنے دی ہے اور اسے دیکھو کبھی یہ خودکشی کی کوشش کرتا پھرتا ہے اور کبھی ریڈ لائٹ ایریا، میرے اللہ… آخر کس حد تک جائے گا یہ؟” سکندر عثمان نے اپنا سر تھام لیا۔
”مجھے تو گھر کے ملازموں پر بھی بہت زیادہ اعتراض ہے۔ آخر کیوں اِک لڑکی کو انہوں نے اندر آنے دیا۔ گھر کے معاملات پر نظر رکھنی چاہیے انہیں۔” طیبہ نے بات کا موضوع بدلتے ہوئے کہا۔
”گھر کے معاملات اور مالک کے معاملات پر نظر رکھنے میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ یہاں معاملہ گھر کا نہیں تھا، مالک کا تھا۔” سکندر نے طنزیہ لہجے میں کہا۔ ”اور پھر ان میں سے کسی نے بھی کسی لڑکی کو یہاں آتے نہیں دیکھا۔ وہ کہتا ہے وہ اسے اسی دن لایا تھا، چوکیدار کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہوا اس نے اس کے ساتھ کسی لڑکی کو آتے نہیں دیکھا۔ ہاں! جاتے ضرور دیکھا ہے ملازموں کا بھی یہ کہنا ہے۔ انہوں نے تو نہ کسی لڑکی کو آتے دیکھا ہے نہ ہی جاتے دیکھا ہے۔” سکندر نے کہا۔
”اس کا مطلب ہے کہ وہ یقینا اس لڑکی کو اچھی طرح چھپا کر لایا ہوگا۔”
”شیطانی دماغ ہے اس کا… یہ تم جانتی ہو تم صرف یہ دعا کرو کہ یہ سارا معاملہ ختم ہوجائے۔ ہاشم مبین کی بیٹی مل جائے اور ہماری جان چھوٹ جائے تاکہ ہم اس کے بارے میں کچھ سوچ سکیں۔” سکندر عثمان نے کہا۔
”میری تو سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر مجھ سے ایسی کون سی غلطی ہوگئی ہے، جس کی مجھے یہ سزا مل رہی ہے۔ میری تو سمجھ میں نہیں آتا کہ میں کیا کروں؟ وہ بے حد بے بس نظر آرہے تھے۔
٭…٭…٭
وہ اگلے روز صبح معمول کے مطابق اٹھا اور کالج جانے کے لیے تیار ہونے لگا۔ ناشتہ کرنے کے لیے وہ ڈائننگ ٹیبل پر آیا تو اس نے خلاف معمول وہاں سکندر عثمان کو موجود پایا۔ وہ عام طور پر اس وقت ناشتہ نہیں کیا کرتے تھے۔ ذرا دیر سے فیکٹری جایا کرتے تھے۔ سالار کو اس وقت انہیں وہاں موجود پاکر کچھ حیرت ہوئی، مگر ان کے ستے ہوئے چہرے اور سرخ آنکھوں سے اندازہ ہو رہا تھا کہ شاید وہ ساری رات نہیں سو سکے۔
سالار کو صبح صبح باہر نکلنے کے لیے تیار دیکھ کر انہوں نے قدر درشتی سے اس سے کہا۔ ”تم کہاں جا رہے ہو؟”
”کالج۔”
”دماغ ٹھیک ہے تمہارا … میرے گلے میں یہ مصیبت ڈال کر تم خود کالج جا رہے ہو۔ جب تک یہ معاملہ ختم نہیں ہو جاتا تم کہیں نہیں جاؤگے۔ تمہیں پتا ہے کہ تم کتنے خطرے میں ہو؟”
”کیسا خطرہ؟” وہ ٹھٹکا۔
”میں نہیں چاہتا ہاشم مبین تمہیں کوئی نقصان پہنچائے۔ اس لیے فی الحال تمہارے لیے یہی بہتر ہے کہ تم گھر پر رہو۔” سکندر عثمان نے دو ٹوک لہجے میں کہا۔ ”اس کی بیٹی مل جائے پھر تم دوبارہ کالج جانا شروع کر دینا۔”
”اس کی بیٹی اگر ایک سال نہیں ملے گی تو کیا میں ایک سال تک اندر بیٹھا رہوں گا۔ آپ نے اسے میرے بیان کے بارے میں بتایا نہیں ہے۔” سالار نے تیز لہجے میں کہا۔
”میں اسے بتا چکا ہوں۔ سنعیہ نے بھی تمہاری بات کی تصدیق کردی تھی۔” ان کے لہجے میں سنعیہ کا نام لیتے ہوئے تلخی تھی۔ ”مگر ہاشم مبین ابھی بھی مصر ہے کہ اس کی بیٹی کو تم نے ہی اغوا کیا ہوا ہے۔”
”تو میں کیا کروں… اسے یقین نہیں آتا تو نہ آئے۔ مجھے کیا فرق پڑتا ہے۔ سالار نے لاپروائی سے کہتے ہوئے ناشتہ کی طرف ہاتھ بڑھایا۔
”تمہیں فرق نہیں پڑتا، مجھے پڑتا ہے۔ تم ہاشم مبین احمد کو نہیں جانتے۔ وہ کتنے اثر و رسوخ والا آدمی ہے اور کس حد تک جاسکتا ہے اس کا اندازہ صرف مجھے ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ وہ تمہیں کوئی نقصان پہنچائے۔ اس لیے ابھی تم گھر پر ہی رہو۔”
سکندر عثمان نے اس بار کچھ نرم لہجے میں کہا۔ شاید انہیں اندازہ ہوگیا تھا کہ ان کی سختی کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔ وہ ان کی بات نہیں مانے گا۔
”پاپا! میری اسٹڈیز کا حرج ہوگا۔ سوری! میں گھر پر نہیں بیٹھ سکتا۔” سالار سکندر عثمان کے لہجے کی نرمی سے متاثر نہیں ہوا تھا۔
”تمہارا حرج ہوتا ہے یا نہیں مجھے اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ میں صرف تمہیں گھر پر چاہتا ہوں۔ سمجھے تم۔” اس بار انہوں نے اچانک بھڑک کر بلند آواز میں اس سے کہا۔
”کم از کم آج تو مجھے جانے دیں۔ آج مجھے بہت سے ضروری کام نپٹانے ہیں۔” سالار یک دم ان کے غصے پر کچھ پزل ہوا۔
”تم وہ کام ڈرائیور کو بتا دو، وہ کردے گا یا پھر کسی دوست سے فون پر بات کرلو۔” سکندر نے حتمی انداز میں کہا۔
”مگر پاپا… آپ مجھے اس طرح…” سکندر عثمان نے اس کی بات نہیں سنی۔ وہ ڈائننگ روم سے نکل رہے تھے۔ وہ کچھ دیر بلند آواز میں بڑبڑایا پھر تنگ آکر خاموش ہوگیا۔ وہ جانتا تھا کہ سکندر عثمان اسے باہر نکلنے نہیں دیں گے مگر اسے اس بات کی توقع نہیں تھی۔ اس کا خیال تھا کہ سنعیہ کو سامنے لانے پر اس کی اپنی فیملی کے ساتھ ہاشم مبین بھی مطمئن ہوجائیں گے اور کم از کم یہ مصیبت اس کے کندھوں سے اتر جائے گی، مگر اس کے لیے سکندر عثمان کایہ انکشاف حیران کن تھا کہ ہاشم مبین نے ابھی بھی اس کے بیان پر یقین نہیں کیا تھا۔
سالار وہاں بیٹھا ناشتہ کرتے ہوئے کچھ دیر ان تمام معاملات کے بارے میں سوچتا رہا۔ کالج نہ جانے کا مطلب گھر میں بند ہو جانا تھا اور وہ گھر میں بند نہیں ہونا چاہتا تھا۔ اس کا موڈ یک دم آف ہوگیا۔ ناشتہ کرتے کرتے اس نے اسے ادھورا چھوڑ دیا اور اپنے کمرے کی طرف چل دیا۔
٭…٭…٭
”سکندر صاحب! میں آپ سے ایک بات کہنا چاہتی ہوں۔” وہ لاؤنج میں بیٹھے تھے۔ جب ملازمہ کچھ جھجکتے ہوئے ان کے پاس آئی۔
”ہاں کہو… پیسوں کی ضرورت ہے؟” سکندر عثمان نے اخبار پڑھتے ہوئے کہا۔ وہ اس معاملے میں خاصے فراخ دل تھے۔
”نہیں صاحب جی! ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ میں کچھ اور کہنا چاہتی ہوں آپ سے۔”
”بولو…” وہ ہنوز اخبار میں منہمک تھے۔ ملازمہ کچھ پریشان ہونے لگی۔ ناصرہ نے بہت سوچ سمجھ کر سالار امامہ کے بارے میں سکندر عثمان کو بتانے کا فیصلہ کیا تھا کیوں کہ اسے یہ سب کچھ اب بہت پریشان کن لگ رہا تھا وہ نہیں چاہتی تھی کہ جلد یا بدیر یہ پتا چل جائے کہ ان دونوں کے درمیان رابطے کا ذریعہ وہ تھی اور پھر اسے اور اس کے پورے خاندان کو پولیس کا سامنا کرنا پڑے۔ اسی لیے اپنے شوہر سے مشورے کے بعد اس نے سکندر عثمان کو سب کچھ بتانے کا فیصلہ کرلیا تھا تاکہ کم از کم وہ دونوں گھرانوں میں سے کسی ایک کی ہمدردی اپنے ساتھ رکھے۔
”چپ کیوں ہو، بولو…” سکندر عثمان نے اسے خاموش پاکر ایک بار پھر اس سے کہا۔ ان کی نظریں ابھی بھی اخبار پر جمی ہوئی تھی۔
”سکندر صاحب! میں آپ کو سالار صاحب کے بارے میں کچھ بتانا چاہتی ہوں۔” ناصرہ نے بالآخر ایک طویل توقف کے بعد کہا۔
سکندر عثمان نے بے اختیار اخبار اپنے چہرے کے سامنے سے ہٹا کر اسے دیکھا۔
”سالار کے بارے میں …؟ کیا کہنا چاہتی ہو؟” انہوں نے اخبار کو سامنے سینٹر ٹیبل پر پھینکتے ہوئے بہت سنجیدگی سے کہا۔
”سالار صاحب اور اِمامہ بی بی کے بارے میں کچھ باتیں بتانا چاہتی ہوں۔” سکندر عثمان کا دل بے اختیار اچھل کر حلق میں آگیا۔
”کیا…؟”




Loading

Read Previous

پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۳

Read Next

پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۵

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!