وہ رات کو کھانا کھانے میں مصروف تھا جب سکندر عثمان اور طیبہ آگئے تھے۔ ان دونوں کے چہرے ستے ہوئے تھے۔ سالار اطمینان سے کھانا کھاتا رہا۔ وہ دونوں اسے مخاطب کیے بغیر اس کے پاس سے گزر کر چلے گئے تھے۔
”کھانا ختم کر کے میرے کمرے میں آؤ۔” سکندر عثمان نے جاتے جاتے اس سے کہا تھا۔ سالار نے جواب دینے کے بجائے فروٹ ٹرائفل اپنی پلیٹ میں نکال لی۔
پندرہ منٹ بعد وہ جب ان کے کمرے میں گیا تو اس نے سکندر کو کمرے میں ٹہلتے ہوئے پایا جب کہ طیبہ فکر مندی کے عالم میں صوفے پر بیٹھی ہوئی تھیں۔
”پاپا! آپ نے بلوایا تھا؟” سالار نے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا۔
”بیٹھو پھر تمہیں بتاتا ہوں کیوں بلایا ہے۔” سکندر عثمان نے اسے دیکھتے ہی ٹہلنا بند کر دیا۔ وہ بڑے اطمینان سے طیبہ کے برابر بیٹھ گیا۔
”اِمامہ کہاں ہے؟” سکندر نے لمحہ ضائع کیے بغیر پوچھا۔
”کون امامہ؟” اس کی جگہ کوئی اور ہوتا تو اس کے چہرے پر تھوڑی بہت گھبراہٹ ضرور ہوتی، مگر وہ اپنے نام کا ایک ہی تھا۔
سکندر کا چہرہ سرخ ہوگیا۔ ”تمہاری بہن…” وہ غرائے۔
”میری بہن کا نام انیتا ہے پایا۔” سالار کے اطمینان میں کوئی کمی نہیں آئی۔
”مجھے تم صرف ایک بات بتاؤ۔ آخر تم مجھے اور کتنی بار اور کتنے طریقوں سے ذلیل کرواؤگے۔” اس بار سکندر عثمان دوسرے صوفہ پر بیٹھ گئے۔
”آپ کیا کہہ رہے ہیں، پاپا! میری سمجھ میں نہیں آرہا۔” سالار نے حیرانی سے کہا۔ ”حالاں کہ تمہاری سمجھ میں سب کچھ آرہا ہے۔” انہوں نے طنزیہ انداز میں کہا۔ ”دیکھو، مجھے آرام سے بتادو کہ امامہ کہاں ہے۔ یہ معاملہ اتنا سیدھا نہیں ہے جتنا تم نے سمجھ لیا ہے۔”
”پاپا! آپ کس امامہ کی بات کر رہے ہیں۔ میں کسی امامہ کو نہیں جانتا۔”
”میں وسیم کی بہن کی بات کر رہا ہوں۔” سکندر عثمان اس پر غرائے۔
”وسیم کی بہن؟” وہ کچھ سوچ میں پڑ گیا۔ ”اچھا… یاد آیا… وہ جس نے مجھے فرسٹ ایڈ دی تھی لاسٹ ایئر۔”
”ہاں وہی… اب چوں کہ تمہاری یاد داشت واپس آگئی ہے اس لیے مجھے یہ بھی بتا دو کہ وہ کہاں ہے۔”
”پاپا! وہ اپنے گھر میں ہوگی یا میڈیکل کالج کے ہاسٹل میں۔ میرا اس سے کیا تعلق؟” اس نے حیرانی سے سکندر سے کہا۔ “اس کے باپ نے تمہارے خلاف اپنی بیٹی کے اغوا کا کیس کروا دیا ہے۔”
”میرے خلاف… I don’t believe it میرا امامہ سے کیا تعلق ہے؟” اس نے پرسکون لہجے اور بے تاثر چہرے کے ساتھ کہا۔
”یہی تو میں جاننا چاہتا ہوں کہ تمہارا اس کے ساتھ کیا تعلق ہے؟”
”پاپا! میں اس کو جانتا تک نہیں ہوں۔ ایک دوبار کے علاوہ میں اس سے ملا تک نہیں۔ پھر اس کے اغوا سے میرا کیا تعلق اور مجھے تو یہ بھی نہیں پتا کہ وہ اغوا ہوگئی ہے۔”
”سالار! اب یہ ایکٹنگ بند کرو۔ مجھے بتادو کہ وہ بچی کہاں ہے۔ میں نے ہاشم مبین سے وعدہ کیا ہے کہ میں ان کی بیٹی کو ان تک پہنچاؤں گا۔”
”تو آپ اپنا وعدہ پورا کریں اگر ان کی بیٹی کو ان تک پہنچا سکتے ہیں تو ضرور پہنچائیں، مگر مجھے کیوں ڈسٹرب کر رہے ہیں۔” اس بار سالار نے ناگواری سے کہا۔
”دیکھو سالار! تمہارے اور امامہ کے درمیان اگر کسی بھی قسم کی انڈر اسٹینڈنگ ہے تو ہم اس معاملے کو حل کرلیں گے۔ میں خود تمہاری اس کے ساتھ شادی کروادوں گا۔ تم فی الحال یہ بتا دو کہ وہ کہاں ہے۔” سکندر عثمان نے اس بار اپنے لب و لہجے میں تبدیلی لاتے ہوئے کہا۔
”فارگاڈ سیک پاپا… اسٹاپ اٹ … کون سی انڈر اسٹینڈنگ، کیسی شادی… میری کسی کے ساتھ انڈر اسٹینڈنگ ہوتی تو میں اسے اغوا کروں گا اور میں انڈر اسٹینڈنگ ڈویلپ کروں گا امامہ جیسی لڑکی کے ساتھ… وہ میری ٹائپ ہے؟” اس بار سالار نے بلند آواز میں کہا۔
”تو پھر وہ تم پر اس کے اغوا کا الزام کیوں لگا رہے ہیں؟”
”یہ آپ ان سے پوچھیں۔ مجھ سے کیوں پوچھ رہے ہیں؟” اس نے اسی ناگواری سے جواب دیا۔
”آج ہاشم مبین کہہ رہے ہیں کل کو کوئی اور آکر کہے گا اور آپ پھر مجھ پر چلانا شروع کر دیں گے… میں نے آپ کو بتایا ہے میں سو رہا تھا جب پولیس آکر باہر کھڑی ہوگئی اور اب آپ آگئے ہیں اور آتے ہی مجھ پر… مجھے تو یہ تک نہیں پتا کہ وسیم کی بہن اغوا ہوئی ہے یا نہیں… آخر وہ لوگ مجھ پر الزام کیوں لگا رہے ہیں۔ کیا ثبوت ہے ان کے پاس کہ میں نے ان کی بیٹی کو اغوا کیا ہے اور بالفرض میں نے اغوا کیا بھی ہے تو کیا میں یہاں اپنے گھر بیٹھا رہوں گا۔ مجھے اس وقت اس لڑکی کے ساتھ ہونا چاہیے۔” سالار تلخی سے بولتا رہا۔
”مجھے ایس پی سے تمہارے کیس کی تفصیلات کا پتا چلا ہے، پھر میں نے کراچی سے ہاشم مبین کو فون کیا، وہ مجھ سے بات کرنے پر تیار نہیں تھا۔ مجھے اس سے بات کرنے کے لیے منتیں کرنی پڑیں۔ اس نے مجھے تمہاری بارے میں بتایا ہے … اس کی بیٹی رات کو غائب ہوئی ہے… اور تم بھی رات کو گئے ہو اور صبح آئے ہو۔”
”تو پاپا! اس میں اغوا کہاں سے آگیا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ میں رات کو کہیں نہیں گیا اور دوسری بات یہ ہے کہ اغوا کرنے کے لیے کسی کے گھر جاکر لڑکی کو زبردستی لے جانا ضروری ہے اور میں کسی کے گھر نہیں گیا۔”
”ہاشم مبین کے چوکیدار نے رات کو تمہیں جاتے اور صبح آتے دیکھا ہے۔”
”اس کا چوکیدار جھوٹا ہے۔” سالار نے بلند آواز میں کہا۔
”میرے چوکیدار نے تمہیں رات کو ایک لڑکی کو کار میں لے جاتے دیکھا ہے۔ سکندر نے دانت پیستے ہوئے کہا۔ سالار چند لمحے کچھ بول نہ سکا۔ سکندر یقینا گھر آتے ہی چوکیدار سے بات کرچکے تھے۔
”وہ میری ایک فرینڈ تھی جسے میں گھر چھوڑنے گیا تھا۔” اس نے طیبہ کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”کون ہے وہ فرینڈ؟ اس کا نام اور پتہ بتاؤ۔”
”سوری پاپا میں نہیں بتا سکتا۔ it’s personal۔”
”یہاں اسلام آباد چھوڑنے گئے تھے؟”
”ہاں…”
”تم اسے لاہور چھوڑ کر آئے ہو۔ ایس پی نے مجھے خود بتایا ہے۔ تم چار ناکوں سے گزرے ہو۔ چاروں پر تمہارا نمبر نوٹ کیا گیا ہے۔ رستے میں تم نے اس سروس اسٹیشن پر رک کر گاڑی چیک کروائی ہے… اس لڑکی کے ساتھ وہاں کھانا کھایا ہے۔” سکندر نے اس سروس اسٹیشن اور ہوٹل کا نام بتاتے ہوئے کہا۔ سالار کچھ دیر سکندر کو دیکھتا رہا مگر اس نے کچھ بھی نہیں کہا۔ ”ایس پی نے مجھے یہ سب کچھ خود بتایا ہے۔ اس نے ابھی ہاشم مبین کو یہ سب کچھ نہیں بتایا۔ اس نے مجھ سے کہا ہے کہ میں تم سے بات کروں اور خاموشی کے ساتھ لڑکی کو واپس پہنچادوں یا اس کے گھر والوں کو اس لڑکی کا پتا بتادوں تاکہ یہ معاملہ خاموشی سے کسی مسئلے کے بغیر ختم ہوجائے مگر وہ کب تک ہاشم مبین کو نہیں بتائے گا۔ وہ دوستی کا لحاظ کر کے سب کچھ چھپا بھی گیا تب بھی ہاشم مبین کے اور بہت سے ذرائع ہیں۔ اسے وہاں سے پتا چل جائے گا اور پھر تمہاری پوری زندگی جیل میں گزرے گی۔”
سکندر نے اسے ڈرانے کی کوشش کی۔ وہ متاثر ہوئے بغیر انہیں دیکھتا رہا۔
”اب جھوٹ بولنا چھوڑدو اور مجھے بتادو کہ وہ لڑکی کہاں ہے؟”
”وہ لڑکی ریڈ لائٹ ایریا میں ہے۔” سکندر کو اس کی بات پر کرنٹ لگا۔
”واٹ…؟”
”میں اسے وہاں سے لایا تھا، وہیں چھوڑ آیا ہوں۔”
”وہ سفید چہرے کے ساتھ سالار کو دیکھتے رہے۔
”مگر وہ امامہ نہیں تھی، میں پرسوں لاہور گیا ہوا تھا وہاں سے میں رات گزارنے کے لیے اس لڑکی کو لایا تھا، آج میں اسے وہاں چھوڑ آیا۔ میرے پاس اس کا کوئی کانٹیکٹ نمبر تو نہیں ہے، مگر آپ میرے ساتھ لاہور چلیں تو میں آپ کو اس لڑکی کے پاس لے جاتا ہوں یا پتا بتا دیتا ہوں آپ خود یا پولیس کو کہیں کہ وہ اس لڑکی سے تصدیق کرلیں۔”
کمرے میں یک دم خاموشی چھا گئی تھی۔ طیبہ اور سکندر بے یقینی سے سالار کو دیکھ رہے تھے جب کہ وہ بڑے مطمئن انداز میں کھڑکیوں سے باہر دیکھ رہا تھا۔
”مجھے یقین نہیں آتا کہ تم … تم اس طرح کی حرکت کرسکتے ہو۔ تم ایسی جگہ جاسکتے ہو؟” ایک لمبی خاموشی کے بعد سکندر نے کہا۔
”آئی ایم سوری! مگر میں جاتا ہوں… اور اس بات کا امامہ کے بھائی وسیم کو بھی پتا ہے۔ میں کئی بار ویک اینڈ پر اپنے دوستوں کے ساتھ وہاں جاتا رہا ہوں اور وسیم یہ بات جانتا ہے۔ آپ اس سے پوچھ لیں۔”
”ایڈریس دو اس لڑکی کا۔” وہ کچھ دیر بعد غرائے۔
”میں اپنے کمرے سے لے کر آتا ہوں۔” اس نے اٹھتے ہوئے کہا۔
اپنے کمرے میں آکر اس نے موبائل اٹھایا اور لاہور میں رہنے والے اپنے ایک دوست کو فون کرنے لگا۔ اسے ساری صورتِ حال بتانے کے بعد اس نے کہا۔
”اکمل! میں اپنے پاپا کو ریڈ لائٹ ایریا کے اس گھر کا پتا دے رہا ہوں، جہاں ہم جاتے رہتے ہیں۔ تم وہاں کسی بھی ایسی لڑکی کو جو مجھے جانتی ہے اس کو اس بارے میں بتادو، میں ابھی کچھ دیر میں تمہیں دوبارہ فون کرتا ہوں۔”
وہ کہتے ہوئے تیزی سے ایک چٹ پر ایک ایڈریس لکھنے لگا اور پھر اسے لے کر سکندر کے کمرے میں آگیا۔ اس نے چٹ سکندر کے سامنے کردی، جسے انہوں نے تقریباً چھین لیا۔ ایک نظر اس چٹ پر ڈال کر انہوں نے خشمگیں نظروں سے اسے دیکھا۔
”دفع ہوجاؤ یہاں سے۔” وہ اطمینان سے انداز میں وہاں سے آگیا۔
اپنے کمرے میں آکر اس نے اکمل کو دوبارہ فون کیا۔
”میں تمہیں وہاں پہنچ کر فون کرتا ہوں۔” اکمل نے اس سے کہا وہ بیڈ پر لیٹ کر اس کا انتظار کرنے لگا۔ پندرہ منٹ کے بعد اکمل نے اسے فون کیا۔
”سالار! میں نے سنعیہ کو تیار کیا ہے۔ اسے میں نے سارا معاملہ سمجھا دیا ہے۔” اکمل نے اسے بتایا وہ سنعیہ کو جانتا تھا۔
”اکمل! اب تم ایک کاغذ اور پنسل لو اور میں کچھ چیزیں لکھوا رہا ہوں، اسے لکھو۔” اس نے اکمل سے کہا اور پھر اسے اپنے گھر کے بیرونی منظر اور لوکیشن کی تفصیلات لکھوانے لگا۔
”یہ کیا، میں نے دیکھا ہوا ہے تمہارا گھر…” اکمل نے کچھ حیرانی سے اس سے پوچھا۔
”تم نے دیکھا ہے سنعیہ نے تو نہیں دیکھا۔ یہ ساری تفصیلات میں سنعیہ کے لیے لکھوا رہا ہوں اگر پولیس اس کے پاس آئی تو وہ یہ ساری چیزیں اس سے پوچھے گی صرف یہ تصدیق کرنے کے لیے کہ کیا وہ واقعی میرے ساتھ یہاں اسلام آباد میں تھی۔ وہ گاٰڑی میں چھپ کر آئی تھی اور رات کے وقت آئی تھی اس لیے اسے زیادہ تفصیل کا نہیں پتا، مگر گھر کے اندر داخل ہوتے ہوئے دائیں اور بائیں دونوں طرف لان ہے۔ میری گاڑی کا رنگ سرخ تھا۔ اسپورٹس کار اور نمبر… وہ اسے لکھواتا گیا۔
”ہم پولیس کے چار ناکوں سے گزرے تھے۔ اس نے سفید شلوار قمیص، سفید چادر اور سیاہ سوئٹر پہنا ہوا تھا، رستے میں ہم اس نام کے سروس اسٹیشن پر بھی رکے تھے۔” سالار نے نام بتایا، سروس اسٹیشن اور ہوٹل، وہ دھند کی وجہ سے صحیح طرح نہیں دیکھ سکی۔” سالار یکے بعد دیگرے ہر چیز کی تفصیل لکھواتا گیا۔ سروس اسٹیشن پر گاڑی ٹھیک کرنے والے آدمی سے لے کر چائے بنانے والے لڑکے کے حلیے اور اس کمرے کی تفصیلات… انہوں نے کیا کھایا تھا، سالار اور لڑکے کے درمیان کیا گفتگو ہوئی تھی۔ اس نے چھوٹی چھوٹی تفصیلات اسے لکھوائی تھیں۔ اس نے اپنے گھر کے پورچ سے لے کر اپنے کمرے تک کے راستے اور اپنے کمرے کا تمام حلیہ بھی اسے نوٹ کروایا تھا۔
”سنعیہ سے کہو یہ سب کچھ رٹ لے۔” اس نے اکمل کو آخری ہدایت دی اور فون بند کر دیا۔ فون بند کر کے وہ بیڈ پر بیٹھا ابھی کچھ سوچ رہا تھا جب سکندر عثمان اچانک دروازہ کھول کر اس کے کمرے میں آئے۔
”اس لڑکی کا کیا نام ہے؟”
”سنعیہ!” سالار نے بے اختیار کہا۔ سکندر عثمان مزید کچھ کہے بغیر کمرے سے نکل گئے۔
٭…٭…٭