امامہ نے نفی میں سر ہلایا۔
”پھر؟”
”بس وہ نعت ہی پڑھتا ہے… اور بہت خوب صورت پڑھتا ہے۔
سالار ہنسا۔ تم صرف اس کے نعت پڑھنے کی وجہ سے اس کی محبت میں گرفتار ہوگئیں۔ میں کم از کم اس پر یقین نہیں کرسکتا۔”
امامہ نے گردن موڑ کر اس کی طرف دیکھا۔ ”تو مت کرو… تمہارے یقین کی کس کو ضرورت ہے۔” اس کی آواز میں سرد مہری تھی۔ گاڑی میں ایک بار پھر خاموشی چھا گئی۔
”فرض کرو یہ مان لیا جائے کہ تم واقعی اس کے نعت پڑھنے سے کچھ متاثر ہوکر اتنا آگے بڑھ گئیں… تو یہ تو کوئی زیادہ پریکٹیکل بات نہیں ہے… بار براکارٹ لینڈ کے ناولز والا رومانس ہی ہوگیا یہ تو… اور تم ایک میڈیکل کی اسٹوڈنٹ ہوکر اتنا امیچیور ذہن رکھتی ہو۔” سالار نے بے رحمی سے تبصرہ کیا۔
امامہ نے ایک بار پھر گردن موڑ کر اسے دیکھا۔ ”میں بہت میچیور ہوں… بہت زیادہ… پچھلے دو چار سالوں میں مجھ سے زیادہ پریکٹیکل ہوکر کسی نے چیزوں کو نہیں دیکھا ہوگا۔”
”میری رائے محفوظ ہے… ہوسکتا ہے تمہارا پریکٹیکل ہونا میرے پریکٹیکل ہونے سے مختلف ہو۔ اینی وے میں جلال کی بات کر رہا تھا… وہ جو تم نعت وغیرہ کا ذکر کر رہی تھیں اس کی بات۔”
”بعض چیزوں پر اپنا اختیار نہیں ہوتا… میرا بھی نہیں ہے۔” اس بار امامہ کی آواز میں شکستگی تھی۔
”میں پھر تم سے اتفاق نہیں کرتا۔ ہر چیز اپنے اختیار میں ہوتی ہے… کم از کم اپنی فیلنگز، ایموشنز اور ایکشنز پر انسان کو کنٹرول ہوتا ہے… ہمیں پتا ہوتا ہے کہ ہم کس شخص کے لیے کس طرح کی فیلنگز ڈویلپ کر رہے ہیں… کیوں کر رہے ہیں، اس کا بھی پتا ہوتا ہے… اور جب تک ہم باقاعدہ ہوش و حواس میں رہتے ہوئے ان فیلنگز کو ڈویلپ نہیں ہونے دیتے… وہ نہیں ہوتیں… اس لیے یہ نہیں مان سکتا کہ ایسی چیزوں پر اپنا کنٹرول ہی نہ رہے۔”
اس نے بات کرتے ہوئے دوسری بار امامہ کو دیکھا اور اسے احساس ہوا کہ وہ اس کی بات نہیں سن رہی تھی۔ وہ پلکیں جھپکائے بغیر ونڈاسکرین کو دیکھ رہی تھی یا شاید ونڈاسکرین سے باہر دیکھ رہی تھی۔ اس کی آنکھیں متورم تھیں اور اس وقت بھی ان میں نمی نظر آرہی تھی… وہ ذہنی طور پر کہیں دور تھی… کہاں یہ وہ نہیں جان سکتا تھا۔ اسے وہ ایک بار پھر ابنارمل لگی۔
بہت دیر تک خاموشی سے گاڑی ڈرائیو کرتے رہنے کے بعد سالار نے قدرے اکتا کر ایک بار پھر اسے مخاطب کیا۔
”نعت پڑھنے کے علاوہ اس میں اور کون سی کوالٹی ہے؟” اس کی آواز بلند تھی۔ امامہ بے اختیار چونک گئی۔
”نعت پڑھنے کے علاوہ اس میں اور کیا کوالٹی ہے؟” سالار نے اپنے سوال کو دہرایا۔
”ہر وہ کوالٹی جو ایک اچھے انسان … اچھے مسلمان میں ہوتی ہے۔” امامہ نے کہا۔
”مثلاً” سالار نے بھنویں اچکاتے ہوئے کہا۔
”اور اگر نہ بھی ہوتیں تو بھی وہ شخص حضرت محمدﷺ سے اتنی محبت کرتا ہے کہ میں اسے اسی ایک کوالٹی کی خاطر کسی بھی دوسرے شخص پر ترجیح دیتی۔”
سالار عجیب سے انداز میں مسکرایا what a logic” ایسی باتوں کو میں واقعی ہی نہیں سمجھ سکتا۔” اس نے گردن کو نفی میں ہلاتے ہوئے کہا۔
”تم اپنی پسند سے شادی کروگے یا اپنے پیرنٹس کی پسند سے؟” امامہ نے اچانک اس سے پوچھا۔ وہ حیران ہوا۔
”آف کورس اپنی پسند سے… پیرنٹس کی پسند سے شادی والا زمانہ تو نہیں ہے یہ۔” اس نے کندھے اچکاتے ہوئے لاپروائی سے کہا۔
‘تم بھی تو کسی کوالٹی کی وجہ سے ہی کوئی لڑکی پسند کروگے… شکل و صورت کی وجہ سے… یا پھر جس سے تمہاری انڈر اسٹینڈنگ ہوجائے گی اس سے… ایسا ہی ہوگا نا۔” وہ پوچھ رہی تھی۔
”یقینا۔” سالار نے کہا۔
”میں بھی تو یہی کر رہی ہوں۔ اپنی اپنی ترجیحات کی بات ہوتی ہے۔ تم ان چیزوں کی بنا پر کسی سے شادی کروگے، میں بھی ایسی ہی ایک وجہ کی بنا پر شادی کرنا چاہتی تھی جلال انصر سے…” وہ رُکی۔ ”میری خواہش ہے، میری شادی اس سے ہو جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مجھ سے زیادہ محبت کرتا ہو۔ جلال انصر! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مجھ سے زیادہ محبت کرتا تھا… مجھے لگا، مجھے اسی شخص سے شادی کرنی چاہیے… میں نے تم سے کہا بعض چیزوں پر اختیار نہیں ہوتا… بعض خواہشات… بس ان سے چھٹکارا پانا ممکن نہیں ہوتا۔” اس نے افسردگی سے سر کو جھٹکتے ہوئے کہا۔
”اور اب جب وہ شادی کرچکا ہے تو اب تم کیا کروگی؟”
”پتا نہیں۔”
”تم ایسا کرو… کہ تم کسی اور نعت پڑھنے والے کو ڈھونڈلو، تمہارا مسئلہ حل ہوجائے گا۔” وہ مذاق اُڑانے والے انداز میں ہنسا۔
امامہ پلکیں جھپکائے بغیر اسے دیکھتی رہی۔ وہ سفاکی کی حد تک بے حس تھا۔ ”اس طرح کیوں دیکھ رہی ہو تم… میں مذاق کر رہا ہوں۔” وہ اب اپنی ہنسی پر قابو پاچکا تھا۔ امامہ نے کچھ کہنے کے بجائے گردن موڑ لی۔
”تمہیں تمہارے فادر نے مارا ہے۔” سالار نے پہلے کی طرح کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بولنے کا معمول جاری رکھا۔
”تمہیں کس نے بتایا۔” امامہ نے اسے دیکھے بغیر کہا۔
”ملازمہ نے۔” سالار نے اطمینان سے جواب دیا۔ ”بے چاری یہ سمجھ رہی ہے کہ تم جو شادی سے انکار کر رہی ہو وہ میری وجہ سے کر رہی ہو۔ اس لیے اس نے مجھ تک تمہاری ”حالت زار” بڑے درد ناک انداز میں پہنچائی تھی… مارا ہے تمہارے فادر نے؟”
”ہاں۔” اس نے بے اثر انداز میں کہا۔
”کیوں؟”
”میں نے پوچھا نہیں… شاید وہ ناراض تھے اس لیے۔”
”تم نے کیوں مارنے دیا”
امامہ نے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔ ”وہ میرے بابا ہیں، انہیں حق ہے، وہ مار سکتے ہیں مجھے۔”
سالار نے حیرانی سے اسے دیکھا۔ ”ان کی جگہ کوئی بھی ہوتا، وہ اس صورتِ حال میں یہی کرتا… مجھے یہ قابل اعتراض نہیں لگا۔” وہ بڑے ہموار لہجے میں کہہ رہی تھی۔
”اگر مارنے کا حق ہے انہیں تو پھر تمہاری شادی کرنے کا بھی حق ہے… اس پر اتنا ہنگامہ کیوں کھڑا کر رہی ہو تم۔” سالار نے چبھتے ہوئے لہجے میں پوچھا۔
”کسی مسلمان سے کرتے… اور چاہے جہاں مرضی کردیتے… میں کروالیتی۔”
”چاہے وہ جلال انصر نہ ہوتا۔” استہزائیہ انداز میں کہا۔
”ہاں… اب بھی آخر کون سا ہوگئی ہے اس سے۔” اس کی آنکھوں میں ایک بار پھر نمی جھلملا رہی تھی۔
”تو تم ان سے یہ کہہ دیتیں۔”
”کہا تھا… تم سمجھتے ہو میں نے نہیں کہا ہوگا۔”
”مجھے ایک بات پر بہت حیرانی ہے۔” سالار نے چند لمحوں کے بعد کہا۔ ”آخر تم نے مجھ سے مدد لینے کا فیصلہ کیوں کیا… بلکہ کیسے کرلیا، تم مجھے خاصا ناپسند کرتی تھیں۔” اس نے امامہ کے جواب کا انتظار کیے بغیر بات جاری رکھی۔
”میرے پاس تمہارے علاوہ دوسرا کوئی آپشن تھا ہی نہیں۔” امامہ نے مدھم آواز میں کہا۔ ”میری اپنی کوئی فرینڈ اس طرح میری مدد کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھی جس طرح کوئی لڑکا کرسکتا تھا۔ اسجد کے علاوہ میں صرف جلال انصر اور تم سے واقف تھی… اور سب سے قریب ترین صرف تم تھے جس سے میں فوری رابطہ کرسکتی تھی، اس لیے میں نے تم سے رابطہ کیا۔” وہ مدھم آواز میں رُک رُک کر بولتی رہی۔
”تمہیں یقین تھا کہ میں تمہاری مدد کروں گا؟”
نہیں… میں نے صرف ایک رسک لیا تھا۔ یقین کیسے ہوسکتا تھا مجھے کہ تم میری مدد کروگے۔ میں نے تمہیں بتایا نا! میرے پاس تمہارے علاوہ اور کوئی آپشن تھا ہی نہیں۔”
“یعنی تم نے ضرورت کے وقت گدھے کو باپ بنا لیا ہے۔” اس کے بے حد عجیب لہجے میں کیے گئے تبصرہ نے امامہ کو یک دم خاموش ہوجانے پر مجبور کر دیا۔ وہ بات منہ پر مارنے میں ماہر تھا مگر اس نے غلط بھی نہیں کہا تھا۔
”ویری انٹرسٹنگ” اس نے امامہ کے جواب کا انتظار کیے بغیر کہا وہ جیسے اپنے تبصرے پر خود ہی محظوظ ہوا تھا۔
٭…٭…٭
”میں گاڑی کچھ دیر کے لیے یہاں روکنا چاہ رہا ہوں۔ سالار نے سڑک کے کنارے بنے ہوئے ایک سستے قسم کے ہوٹل اور سروس اسٹیشن کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”میں ذرا ٹائر چیک کروانا چاہ رہا ہوں۔” گاڑی میں دوسرا ٹائر نہیں ہے، رستے میں اگر کہیں ٹائر فلیٹ ہوگیا تو بہت مسئلہ ہوگا۔”
امامہ نے صرف سرہلانے پر اکتفا کیا۔ وہ گاڑی موڑ کر اندر لے گیا۔ اس وقت دور کہیں فجر کی اذان ہو رہی تھی۔ ہوٹل میں کام کرنے والے دو چار لوگوں کے علاوہ وہاں اور کوئی نہیں تھا۔ اسے گاڑی اندر لاتے دیکھ کر ایک آدمی باہر نکل آیا۔ شاید وہ گاڑی کی آواز سن کر آیا تھا۔ سالار گاڑی کا دروازہ کھول کر نیچے اتر گیا۔
”وہ کچھ دیر سیٹ کی پشت سے سر ٹکائے آنکھیں بند کیے بیٹھی رہی۔ اذان کی آواز کچھ زیادہ بلند ہو گئی تھی۔ امامہ نے آنکھیں کھول دیں۔ کار کا دروازہ کھول کر وہ باہر نکل آئی۔ دروازہ کھلنے کی آواز پر سالار نے گردن موڑ کر اسے دیکھا تھا۔
”یہاں کتنی دیر رکنا ہے۔” وہ سالار سے پوچھ رہی تھی۔
”دس پندرہ منٹ… میں انجن بھی ایک دفعہ چیک کروانا چاہتا ہوں۔”
”میں نماز پڑھنا چاہتی ہوں، مجھے وضو کرنا ہے۔” اس نے سالار سے کہا۔ اس سے پہلے کہ سالار کچھ کہتا۔
”اس آدمی نے بلند آواز میں اسے پکارتے ہوئے کہا۔
”باجی! وضو کرنا ہے تو اس ڈرم سے پانی لے لیں۔”
”اور وہ نماز کہاں پڑھے گی؟” سالار نے اس آدمی سے پوچھا۔
”یہ سامنے والے کمرے میں … میں جائے نماز دے دیتا ہوں۔” وہ اب پائپ اتار رہا تھا۔
”پہلے جائے نماز دے دوں پھر انجن آکر چیک کرتا ہوں۔” اس آدمی نے اس کمرے کی طرف جاتے ہوئے کہا۔
سالار نے دور سے امامہ کو اس ڈرم کے پاس کچھ تذبذب کی حالت میں کھڑے دیکھا۔ وہ لاشعوری طور پر آگے چلا آیا۔ وہ تارکول کا ایک بہت بڑا خالی ڈرم تھا جسے ایک ڈھکن سے کور کیا گیا تھا۔
”اس میں سے پانی کیسے لوں؟” امامہ نے قدموں کی چاپ پر پیچھے مڑ کر دیکھا۔ سالار نے ادھر ادھر نظر دوڑائی۔ کچھ فاصلے پر ایک بالٹی پڑی ہوئی تھی۔ وہ اس بالٹی کو اٹھا لایا۔
”میرا خیال ہے یہ اسی بالٹی کو پانی نکالنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔” اس نے امامہ سے کہتے ہوئے ڈرم کا ڈھکن اٹھایا اور اس میں سے پانی بالٹی میں بھر لیا۔
”میں کروا دیتا ہوں وضو۔” سالار کو اس کے چہرے پر تذبذب نظر آیا مگر پھر کچھ کہنے کے بجائے وہ اپنے سوئیٹر کی آستین اوپر کرنے لگی۔ اپنی گھڑی اتار کر اس نے سالار کی طرف بڑھا دی اور پنجوں کے بل زمین پر بیٹھ گئی۔ سالار نے اس کے بڑھے ہوئے ہاتھوں پر کچھ پانی ڈالا۔ امامہ کو بے اختیار جیسے کرنٹ لگا۔ اس نے یک دم اپنے ہاتھ پیچھے کر لیے۔
”کیا ہوا؟” سالار نے کچھ حیرانی سے کہا۔
”کچھ نہیں، پانی بہت ٹھنڈا ہے… تم پانی ڈالو۔” وہ ایک بار پھر ہاتھ پھیلا رہی تھی۔
سالار نے پانی ڈالنا شروع کر دیا۔ وہ وضو کرنے لگی۔ پہلی بار سالار نے اس کے ہاتھوں کو کہنیوں تک دیکھا۔ کچھ دیر کے لیے وہ اس کی کلائیوں سے نظر نہیں ہٹا سکا، پھر اس کی نظر اس کی کلائیوں سے اس کے چہرے پر چلی گئی۔ وہ اپنی چادر کو ہٹائے بغیر بڑی احتیاط کے ساتھ سر، کانوں اور گردن کا مسح کر رہی تھی اور سالار کی نظریں اس کے ہاتھوں کی حرکت کے ساتھ ساتھ سفر کر رہی تھیں۔ اس کی گردن میں موجود سونے کی چین اور اس میں لٹکنے والے موتی کو بھی اس نے پہلی بار دریافت کیا تھا۔ سالار نے اسے جتنی بار دیکھا تھا اسی طرح کی چادر میں دیکھا تھا۔ چادر کا رنگ مختلف ہوتا مگر وہ ہمیشہ اسے ایک ہی انداز میں لپیٹے ہوتی۔ وہ کبھی اس کے خدوخال پر غور نہیں کرسکا۔
”پاؤں پر پانی میں خود ڈال لیتی ہوں۔” اس نے کھڑے ہوتے ہوئے سالار کے ہاتھ سے اس بالٹی کو پکڑ لیا جو اب تقریباً خالی ہونے والی تھی۔ سالار چند قدم پیچھے ہٹ کر محویت سے دیکھنے لگا۔
وہ وضو کرچکی تو سالار کی محویت ختم ہوئی۔ اس نے گھڑی اس کی طرف بڑھا دی۔
آگے پیچھے چلتے ہوئے وہ اس کمرے تک آئے جہاں وہ آدمی گیا تھا۔ وہ آدمی تب تک کمرے میں ایک طرف مصلی بچھا چکا تھا۔ امامہ خاموشی سے جائے نماز کی طرف بڑھ گئی۔
کمرے میں چند کرسیاں اور ایک چھوٹی سی تپائی بھی پڑی ہوئی تھی۔ سالار فوری طور پر اس کمرے کا مصرف نہیں سمجھ سکا، پھر وہ اس بڑی کھڑکی نما کاؤنٹر کی طرف بڑھ گیا۔
”دو کپ چائے بنا دو۔” اس نے اس لڑکے سے کہا۔ اس نے بڑی تابعداری سے سرہلایا اور اسٹو جلانے لگا۔ سالار کمرے میں پڑی ایک کرسی پر آن بیٹھا۔ وہ نماز شروع کرچکی تھی۔ دونوں ٹانگیں سامنے پڑی میز پر رکھ کر وہ ایک بار پھر اسے دیکھنے لگا۔
اس کا خیال تھا وہ دعا کے دوران کچھ روئے دھوئے گی جن حالات سے وہ گزر رہی تھی۔ یہ ایک لازمی امر تھا مگر اسے خاصی مایوسی ہوئی۔ وہ ہاتھ اٹھائے آنکھیں بند کیے کچھ دیر دعا مانگتی رہی اور پھر چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔ سالار نے ایک گہرا سانس لیا اور اس پر سے نظریں ہٹالیں۔
٭…٭…٭