پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۱۰ (آخری قسط)

”تمہیں پتا ہے امامہ! نوسال میں کتنے دن، کتنے گھنٹے، کتنے منٹ ہوتے ہیں؟”
خاموشی ٹوٹ گئی تھی۔ اس کی آواز میں جسم کو چٹخا دینے والی ٹھنڈک تھی۔ امامہ نے ہونٹ بھنیچتے ہوئے نل بند کردیا۔ وہ اس کے پیچھے کھڑا تھا۔ اتنا قریب کہ وہ اگر مڑنے کی کوشش کرتی تو اس کا کندھا ضرور اس کے سینے سے ٹکراجاتا۔ اس نے مڑنے کی کوشش نہیں کی۔
وہ اپنی گردن کی پشت پر اس کے سانس لینے کی مدھم آواز سن سکتی تھی۔ وہ اب اس کے جواب کا منتظر تھا۔ اس کے پاس جواب نہیں تھا۔ سنگ کے کناروں پر ہاتھ جمائے وہ نل سے گرتے ہوئے چند آخری قطروں کو دیکھتی رہی۔
”کیا ان سالوں میں ایک بار بھی تم نے میرے بارے میں سوچا؟ سالار کے بارے میں؟”
اس کے سوال مشکل ہوتے جارہے تھے۔ وہ ایک بارپھر چپ رہی۔
What is next to ecstasy?” ”وہ جواب کا انتظار کئے بغیر کہہ رہا تھا۔
”تم نے کہا تھاPainتم نے ٹھیک کہا تھاIt was pain۔”
وہ ایک لمحہ کے لئے رکا۔
”میں یہاں اس گھر میں ہرجگہ تمہیں اتنی بار دیکھ چکا ہوں کہ اب تم میرے سامنے ہو تو مجھے یقین نہیں آرہا۔”
امامہ نے سنک کے کناروں کو اور مضبوطی سے تھام لیا۔ ہاتھوں کی کپکپاہٹ کو روکنے کے لئے وہ اور کچھ نہیں کرسکتی تھی۔
”مجھے لگتا ہے، میں کوئی خواب دیکھ رہا ہوں۔ آنکھیں کھولوں گا تو۔۔۔”
وہ رکا۔ امامہ نے آنکھیں بند کرلیں۔
”تو سب کچھ ہوگا، بس تم نہیں ہوگی۔ آنکھیں بند کروں گاتو۔۔۔۔”
امامہ نے آنکھیں کھول دیں۔ اس کے گال بھیگ رہے تھے۔
”تو بھی اس خواب میں دوبارہ نہیں جاپاؤں گا۔ تم وہاں بھی نہیں ہوگی، مجھے تمہیں ہاتھ لگاتے ڈر لگتا ہے۔ ہاتھ بڑھاؤں گا تو سب کچھ تحلیل ہوجائے گا جیسے پانی میں نظر آنے والا عکس۔”
وہ اس کے اتنے قریب تھا کہ ذرا جھکتا تو اس کے ہونٹ اس کے بالوں کو چھوجاتے مگر وہ اسے چھونا نہیں چاہتا تھا۔
”اور تم ہو کون امامہ…؟ آمنہ…؟ میرا وہم…؟ یا پھر کوئی معجزہ؟”
”کیا میں تمہیں یہ بتاؤں کہ مجھے… مجھے تم سے۔۔۔”
وہ کچھ کہتے کہتے رک گیا۔ امامہ کی آنکھوں سے نکلنے والا پانی اس کے چہرے کو بھگوتا ہوا اس کی ٹھوڑی سے ٹپک رہا تھا۔ وہ کیوں رکا تھا، وہ نہیں جانتی تھی مگر اسے زندگی میں کبھی خاموشی اتنی بری نہیں لگی تھی جتنی اس وقت لگی تھی۔ وہ بہت دیر خاموش رہا۔ اتنی دیر کہ وہ اسے پلٹ کر دیکھنے پر مجبور ہوگئی اور تب اسے پتا چلاوہ کیوں خاموش ہوگیا تھا۔ اس کا چہرہ بھی بھیگا ہوا تھا۔
وہ دونوں زندگی میں پہلی بار ایک دوسرے کو اتنے قریب سے دیکھ رہے تھے۔ اتنے قریب سے کہ وہ ایک دوسرے کی آنکھوں میں نظر آنے والے اپنے اپنے عکس کو بھی دیکھ سکتے تھے پھر سالار نے اس سے نظریں چرانے کی کوشش کی تھی۔
وہ اپنے ہاتھ سے اپنے چہرے کو صاف کررہا تھا۔
”تم مجھ سے اور میں تم سے کیا چھپائیں گے سالار…! سب کچھ تو جانتے ہیں ہم ایک دوسرے کے بارے میں۔۔۔۔”
امامہ نے مدھم آواز میں کہا۔ سالار نے ہاتھ روک کر سراٹھایا۔
”میں کچھ نہیں چھپا رہا۔ میں آنسوؤں کو صاف کررہا ہوں تاکہ تمہیں اچھی طرح دیکھ سکوں۔ تم پھر کسی دھند میں لپٹی ہوئی نظر نہ آؤ۔”
وہ اس کے کان کی لو میں لٹکنے والے ان موتیوں کو دیکھ رہا تھا، جنہیں اس نے بہت سال پہلے بھی دیکھا تھا۔ فرق صرف یہ تھا آج وہ بہت قریب تھے۔ ایک بار ان موتیوں نے اسے بہت رلایا بھی تھا۔ وہ موتی آج بھی رلارہے تھے، اپنے ہر ہلکورے کے ساتھ، وہم سے جنبش… جنبش سے وہم بنتے ہوئے۔
وہ اپنے کانوں کی لوؤں پر اس کی محویت محسوس کررہی تھی۔





”میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ میں کبھی تمہارے اتنے قریب کھڑے ہوکر تم سے بات کررہا ہوں گا۔”
وہ مسکرایا تھا لیکن نم آنکھوں کے ساتھ… امامہ نے اس کے دائیں گال میں چند لمحوں کے لئے ابھرنے والا گڑھا دیکھا۔ مسکراتے ہوئے اس کے صرف ایک گال میں ڈمپل پڑتا تھا، دائیں گال میں اور نوسال پہلے امامہ کو اس ڈمپل سے بھی بڑی جھنجھلاہٹ ہوتی تھی۔ نوسال کے بعد اس ڈمپل نے پہلی بار عجیب سے انداز میں اسے اپنی طرف کھینچا تھا۔
”میں نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ میں کبھی تمہارے کان میں موجود ائیررنگ کو ہاتھ لگاؤں گا اور تم۔۔۔”
وہ اب اس کے دائیں کان میں ہلکورے لیتے ہوئے موتی کو اپنی انگلیوں کی پوروں سے روک رہا تھا۔
”اور تم… تم مجھے ایک تھپڑ نہیں کھینچ ماروگی۔”
امامہ نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔ سالار کے چہرے پر کوئی مسکراہٹ نہیں تھی۔ اگلے لمحے وہ گیلے چہرے کے ساتھ بے اختیار ہنسی تھی۔ اس کا چہرہ سرخ ہوا تھا۔
”تمہیں ابھی بھی وہ تھپڑ یاد ہے۔ وہ ایکReflex actionتھا اور کچھ نہیں۔”
امامہ نے ہاتھ کی پشت سے اپنے بھیگے ہوئے گالوں کو صاف کیا۔ وہ ایک بارپھر مسکرایا۔ ڈمپل ایک بارپھر نمودار ہوا۔ اس نے بہت آہستگی سے اپنے دونوں ہاتھوں میں اس کے ہاتھ تھام لئے۔
”تم جاننا چاہتے ہو کہ میں اتنے سال کہاں رہی، کیا کرتی رہی، میرے بارے میں سب کچھ؟”
وہ نفی میں سرہلاتے ہوئے اس کے دونوں ہاتھ اپنے سینے پر رکھ رہا تھا۔
”میں کچھ جاننا نہیں چاہتا، کچھ بھی نہیں۔ تمہارے لئے اب میرے پاس کوئی اور سوال نہیں ہے۔ میرے لئے کافی ہے کہ تم میرے سامنے کھڑی ہو، میرے سامنے تو ہو۔ میرے جیسا آدمی کسی سے کیا تحقیق کرے گا۔”
امامہ کے ہاتھ سالار کے سینے پر اس کے ہاتھوں کے نیچے دبے تھے۔ پانی نے اس کے ہاتھوں کو سرد کردیا تھا۔ وہ جانتی تھی وہ کیوں اس کے ہاتھ اپنے سینے پر رکھے ہوئے تھا۔ لاشعوری طورپر وہ اس کے ہاتھوں کی ٹھنڈک ختم کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ بالکل اسی طرح جس طرح کوئی بڑا کسی بچے کے سرد ہاتھوں میں حرارت پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
اس کے سینے پر ہاتھ رکھے وہ سویٹر کے نیچے سے اس کے دل کی دھڑکن کو محسوس کرسکتی تھی۔ وہ بے ترتیب تھی۔ تیز… پر جوش… کچھ کہتی ہوئی… کچھ کہنے کی کوشش کرتی ہوئی… اس کے سینے پر ہاتھ رکھے وہ اس وقت اس کے دل تک پہنچی ہوئی تھی، اسے شبد نہیں تھا۔
وہ شخص اس سے محبت کرتا تھا، کیوں کرتا تھا؟ اس کا جواب سامنے کھڑا ہوا شخص بھی نہیں دے سکتا تھا۔ اس نے اس شخص سے یہ سوال کیا بھی نہیں تھا۔ سالار کی آنکھیں پر سکون انداز میں بند تھیں نہ بھی ہوتیں تب بھی ان آنکھوں کو دیکھتے ہوئے اب اسے کوئی الجھن نہیں ہورہی تھی۔ ان آنکھوں میں جو کچھ نوسال پہلے تھا اب نہیں تھا۔ جواب تھا وہ نوسال پہلے نہیں تھا۔
”ہم کیا ہیں، ہماری محبتیں کیا ہیں، کیا چاہتے ہیں، کیا پاتے ہیں۔”
اس کی آنکھوں میں ایک بارپھر نمی اترنے لگی تھی۔
”جلال انصر… اور سالار سکندر… خواب سے حقیقت… اور حقیقت سے خواب… زندگی کیا اس کے سوا اور کچھ ہے؟”
امامہ نے آہستگی سے اپنے ہاتھ کھینچے۔ سالار نے آنکھیں کھول دیں۔ اس کی آنکھوں میں ایک ثانیے کے لئے ابھرنے والے تاثر کو صرف وہی پہچان سکتی تھی۔
پریشانی، اضطراب، خوف… تینوں میں سے کچھ تھا۔ امامہ نے ایک نظر اس کے چہرے کو دیکھا پھر سیاہ سوئیٹر کے گلے سے باہر نکلے ہوئے سفید کالرز کو دیکھا۔ کچھ کہے بغیر بہت نرمی کے ساتھ اس کی گردن کے گرد بازو حمائل کرتے ہوئے اس نے سالار کے سینے پر سر رکھ کر آنکھیں بند کرلیں۔ اس نے پہلی بار سالار کے کولون کی ہلکی سی مہک کو محسوس کیا۔ نوسال پہلے وہ بہت تیز قسم کے پرفیومز استعمال کرتا تھا۔ نوسال بعد…؟
سالار بالکل ساکت تھا۔ یوں جیسے اسے یقین نہیں آیا ہو۔ چند لمحوں کے بعد اس نے بڑی نرمی کے ساتھ امامہ کے گرد اپنے بازو پھیلائے۔
I am honoured” ”(یہ میرے لئے اعزاز ہے)۔
امامہ نے اسے مدھم آواز میں کہتے سنا۔ وہ اس کی بند آنکھوں کو نرمی سے چوم رہا تھا۔
٭…٭…٭
وہ سالار کے ساتھ خانہ کعبہ کے صحن میں بیٹھی ہوئی تھی۔ سالار اس کے دائیں جانب تھا۔ وہ وہاں ان کی آخری رات تھی۔ وہ پچھلے پندرہ دن سے وہاں تھے۔ کچھ دیر پہلے انہوں نے تہجد ادا کی تھی۔ وہ تہجد کے نوافل کے بعد وہاں سے چلے جایا کرتے تھے۔ آج نہیں گئے، آج وہیں بیٹھے رہے۔ ان کے اور خانہ کعبہ کے دروازے کے درمیان بہت لوگ تھے اور بہت فاصلہ تھا۔ اس کے باوجود وہ دونوں جہاں بیٹھے تھے وہاں سے وہ خانہ کعبہ کے دروازے کو بہت آسانی سے دیکھ سکتے تھے۔
وہاں بیٹھتے وقت ان دونوں کے ذہن میں ایک ہی خواب تھا۔ وہ اس رات کو اب اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ حرم پاک کے فرش پر اس جگہ گھنٹوں کے بل بیٹھتے ہوئے سالار ہورئہ رحمن کی تلاوت کررہا تھا۔ امامہ جان بوجھ کراس کے برابر میں بیٹھنے کی بجائے بائیں جانب اس کے عقب میں بیٹھ گئی۔ سالار نے تلاوت کرتے ہوئے گردن موڑ کر اسے دیکھا پھر اس کا ہاتھ پکڑ کر آہستگی سے اپنے برابر والی جگہ کی طرف اشارہ کیا۔ امامہ اٹھ کر اس کے برابر بیٹھ گئی۔ سالار نے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا۔ وہ اب خانہ کعبہ کے دروازے پر نظر جمائے ہوئے تھا۔
امامہ بھی خانہ کعبہ کو دیکھنے لگی۔ وہ خانہ کعبہ کو دیکھتے ہوئے اس خوش الحان آواز کو سنتی رہی جو اس کے شوہر کی تھی۔
فبای الاء ربکما تکذبان۔
اور تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤگے۔
”تم جو کچھ کررہی ہو امامہ! تم اس پر بہت پچھتاؤگی۔ تمہارے ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا۔”
نوسال پہلے ہاشم مبین نے اس کے چہرے پر تھپڑمارتے ہوئے کہا تھا۔
”ساری دنیا کی ذلت اور رسوائی، بدنامی اور بھوک تمہارا مقدر بن جائے گی۔”
انہوں نے اس کے چہرے پر ایک اور تھپڑ مارا۔
”تمہارے جیسی لڑکیوں کو اللہ ذلیل وخوار کرتا ہے۔ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑتا۔”
امامہ کی آنکھیں نم ہوگئیں۔
”ایک وقت آئے گا جب تم دوبارہ ہماری طرف لوٹوگی۔ منت سماجت کروگی۔ تب ہم تمہیں دھتکار دیں گے۔ تب تم چیخ چیخ کر اپنے منہ سے اپنے گناہ کی معافی مانگو گی۔ کہوگی میں غلط تھی۔”
امامہ اشکبار آنکھوں سے مسکراتی۔
”میری خواہش ہے بابا!” اس نے زیر لب کہا۔” کہ زندگی میں ایک بار میں آپ کے سامنے آؤں اور آپ کو بتادوں کہ دیکھ لیجئے، میرے چہرے پر کوئی ذلت، کوئی رسوائی نہیں ہے۔ میرے اللہ اور میرے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میری حفاظت کی۔ مجھے دنیا کے لئے تماشا نہیں بنایا، نہ دنیا میں بنایا ہے نہ ہی آخرت میں میں کسی رسوائی کا سامنا کروں گی اور میں آج اگر یہاں موجود ہوں تو صرف اس لئے کیونکہ میں سیدھے راستے پر ہوں اور یہاں بیٹھ کر میں ایک بارپھر اقرار کرتی ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے آخری رسول ہیں۔ ان کے بعد کوئی پیغمبر آیا ہے نہ ہی کبھی آئے گا۔ میں اقرار کرتی ہوں کہ وہی پیرِ کامل ہیں۔ میں اقرار کرتی ہوں کہ ان سے کامل ترین انسان دوسرا کوئی نہیں۔ ان کی نسل میں بھی کوئی ان کے برابر آیا ہے نہ ہی کبھی آئے گا اور میں اللہ سے دعا کرتی ہوں کہ وہ مجھے آنے والی زندگی میں بھی کبھی اپنے ساتھ شرک کروائے نہ ہی مجھے آخری پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے برابر کسی کو لاکھڑا کرنے کی جرأت ہو۔ میں دعا کرتی ہوں کہ اللہ زندگی بھر مجھے سیدھے راستے پر رکھے۔ بے شک میں اس کی کسی نعمت کو نہیں جھٹلا سکتی۔”
سالار نے سورئہ رحمن کی تلاوت ختم کرلی تھی۔ چند لمحوں کے لئے وہ رکا پھر سجدے میں چلاگیا۔ سجدے سے اٹھنے کے بعد وہ کھڑا ہوتے ہوئے رک گیا۔ امامہ آنکھیں بند کئے دونوں ہاتھ پھیلائے دعا کررہی تھی۔ وہ اس کی دعا ختم ہونے کے انتظار میں بیٹھ گیا۔ امامہ نے دعا ختم کی۔
سالار نے اٹھنا چاہا، وہ اٹھ نہیں سکا۔ امامہ نے بہت نرمی کے ساتھ اس کا دایاں ہاتھ پکڑلیا۔ وہ حیرت سے اسے دیکھنے لگا۔
”یہ جو لوگ کہتے ہیں کہ ناکہ جس سے محبت ہوئی وہ نہیں ملا۔ ایسا پتا ہے کیوں ہوتاہے؟”
رات کے اس پچھلے پہر نرمی سے اس کا ہاتھ تھامے وہ بھیگی آنکھوں اور مسکراتے چہرے کے ساتھ کہہ رہی تھی۔
”محبت میں صدق نہ ہو تو محبت نہیں ملتی۔ نوسال پہلے میں نے جب جلال سے محبت کی تو پورے صدق کے ساتھ کی۔ دعائیں، وظیفے، منتیں، کیا تھا جو میں نے نہیں کر چھوڑا مگر وہ مجھے نہیں ملا۔”
وہ گھٹنوں کے بل بیٹھی ہوئی تھی۔ سالار کا ہاتھ اس کے ہاتھ کی نرم گرفت میں اس کے گھٹنے پر دھرا تھا۔
”پتا ہے کیوں؟ کیونکہ اس وقت تم بھی مجھ سے محبت کرنے لگے تھے اور تمہاری محبت میں میری محبت سے زیادہ صدق تھا۔”
سالار نے اپنے ہاتھ کو دیکھا۔ اس کی ٹھوڑی سے ٹپکنے والے آنسو اب اس کے ہاتھ پر گررہے تھے۔ سالار نے دوبارہ امامہ کے چہرے کی طرف دیکھا۔
”مجھے اب لگتا ہے کہ اللہ نے مجھے بہت پیار سے بنایا تھا۔ وہ مجھے کسی ایسے شخص کو سونپنے پر تیار نہیں تھا جو میری ناقدری کرتا، مجھے ضائع کرتا اور جلال، وہ میرے ساتھ یہی سب کچھ کرتا۔ وہ میری قدر کبھی نہ کرتا۔ نوسال میں اللہ نے مجھے ہر حقیقت بتادی۔ ہر شخص کا اندر اور باہر دکھادیا اور پھر اس نے مجھے سالار سکندر کو سونپا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ تم وہ شخص ہو جس کی محبت میں صدق ہے۔ تمہارے علاوہ اور کون تھا جو مجھے یہاں لے آتا۔ تم نے ٹھیک کہا تھا تم نے مجھ سے پاک محبت کی تھی۔”
وہ بے حس وحرکت اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ اب اس کے ہاتھ کو نرمی سے چومتے ہوئے باری باری اپنی آنکھوں سے لگارہی تھی۔
”مجھے تم سے کتنی محبت ہوگی، میں نہیں جانتی۔ دل پر میرا اختیار نہیں ہے مگر میں جتنی زندگی تمہارے ساتھ گزاروں گی تمہاری وفادار اور فرمانبرداری رہوں گی۔ یہ میرے اختیار میں ہے۔ میں زندگی کے ہر مشکل مرحلے، ہر آزمائش میں تمہارے ساتھ رہوں گی۔ میں اچھے دنوں میں تمہاری زندگی میں آئی ہوں۔ میں برے دنوں میں بھی تمہیں اکیلا نہیں چھوڑوں گی۔” اس نے جتنی نرمی سے اس کا ہاتھ پکڑا تھا اسی نرمی سے چھوڑدیا۔ وہ اب سرجھکائے دونوں ہاتھوں سے اپنے چہرے کو صاف کررہی تھی۔ سالار کچھ کہے بغیر اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ وہ خانہ کعبہ کے دروازے کو دیکھ رہا تھا۔ بلاشبہ اسے زمین پر اتاری جانے والی صالح اور بہترین عورتوں میں سے ایک بخش دی گئی تھی۔ وہ عورت جس کے لئے نوسال اس نے ہر وقت اور ہرجگہ دعا کی تھی۔
کیا سالار سکندر کے لئے نعمتوں کی کوئی حد رہ گئی تھی اور اب وہ عورت اس کے ساتھ تھی تو اسے احساس ہورہا تھا کہ وہ کیسی بھاری ذمہ داری اپنے لئے لے بیٹھا تھا۔ اسے اس عورت کا کفیل بنادیا گیا تھا، جو نیکی اور پارسائی میں اس سے کہیں آگے تھی۔
امامہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ سالار نے کچھ کہے بغیر اس کا ہاتھ تھام کر وہاں سے جانے کے لئے قدم بڑھا دیئے۔ اسے اس عورت کی حفاظت سونپ دی گئی تھی، جس نے اپنے اختیار کی زندگی کو اس کی طرح کسی آلائش اور غلاظت میں نہیں ڈبویا، جس نے اپنی تمام جسمانی اور جذباتی کمزوریوں کے باوجود اپنی روح اور جسم کو اس کی طرح نفس کی بھینٹ نہیں چڑھایا۔ اس کا ہاتھ تھامے قدم بڑھاتے ہوئے اسے زندگی میں پہلی بار پارسائی اور تقویٰ کا مطلب سمجھ میں آرہا تھا۔ وہ اس سے چند قدم پیچھے تھی۔ وہ حرم پاک میں بیٹھے اور چلتے لوگوں کی قطاروں کے درمیان سے گزررہے تھے۔
وہ اپنی پوری زندگی کو جیسے فلم کی کسی اسکرین پر چلتا دیکھ رہا تھا اور اسے بے تحاشا خوف محسوس ہورہا تھا۔ گناہوں کی ایک لمبی فہرست کے باوجود اس نے صرف اللہ کا کرم دیکھا تھا اور اس کے باوجود اس وقت کوئی اس سے زیادہ اللہ کے غضب سے خوف نہیں کھارہا تھا۔ وہ شخص جس کا آئی کیولیول150 تھا اور جو فوٹو گرافک میموری رکھتا تھا نوسال میں جان گیا تھا کہ ان دونوں چیزوں کے ساتھ بھی زندگی کے بہت سارے مقامات پر انسان کسی اندھے کی طرح ٹھوکر کھا گرسکتا تھا۔ وہ بھی گرا تھا بہت بار… بہت مقامات پر… تب اس کا آئی کیولیول اس کے کام آیا تھا نہ اس کی فوٹو گرافک میموری۔
ساتھ چلتی ہوئی لڑکی وہ دونوں چیزیں نہیں رکھتی تھی۔ اس کی مٹھی میں ہدایت کا ایک ننھا سا جگنو تھا اور وہ اس جگنو سے امڈتی روشنی کے سہارے زندگی کے ہر گھپ اندھیرے سے کوئی ٹھوکر کھائے بغیر گزررہی تھی۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

معصوم سوال — ناہید حیات

Read Next

فیس بک رائٹر — فریحہ واحد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!