پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۱۰ (آخری قسط)

”لڑکیاں اتنا کچھ مانگتی ہیں… میں نے تو کچھ بھی نہیں مانگا، صرف ایک”صالح آدمی” مانگا تھا۔ اس نے مجھے وہ تک نہیں دیا۔ کیا اللہ نے مجھے کسی صالح آدمی کے قابل نہیں سمجھا۔” وہ بچوں کی طرح رورہی تھی۔
”امامہ! وہ صالح آدمی ہے۔”
”آپ کیوں اسے صالح آدمی کہتے ہیں؟ وہ صالح آدمی نہیں ہے۔ میں اس کو جانتی ہوں، میں اس کو بہت اچھی طرح جانتی ہوں۔”
”میں بھی اس کو بہت اچھی طرح جانتا ہوں۔”
”آپ اس کو اتنا نہیں جانتے جتنا میں جانتی ہوں۔ وہ شراب پیتا ہے، وہ نفسیاتی مریض ہے کئی بار خودکشی کی کوشش کرچکا ہے۔ گریبان کھلا چھوڑ کر پھرتا ہے۔ عورت کو دیکھ کر اپنی نظر تک نیچی رکھنا نہیں جانتا اور آپ کہتے ہیں وہ صالح آدمی ہے؟”
”امامہ! میں اس کے ماضی کو نہیں جانتا، میں اس کے حال کو جانتا ہوں۔ وہ ان میں سے کچھ بھی نہیں کرتا جو آپ کہہ رہی ہیں۔”
”آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وہ ایسا کچھ نہیں کرتا۔ وہ جھوٹا اور مکار ہے۔ میں اس کا جانتی ہوں۔”
”وہ ایسا نہیں ہے۔”
”ابو! وہ ایسا ہی ہے۔”
”ہوسکتا ہے اسے واقعی آپ سے محبت ہو۔ وہ آپ کی وجہ سے تبدیل ہوگیا ہو۔”
”مجھے ایسی محبت کی ضرورت نہیں ہے۔ مجھے اس کی نظروں سے گھن آتی ہے۔ مجھے اس کے کھلے گریبان سے گھن آتی ہے۔ میں ایسے کسی آدمی کی محبت نہیں چاہتی۔ وہ بدل نہیں سکتا۔ ایسے لوگ کبھی نہیں بدلتے۔ وہ صرف اپنے آپ کو چھپا لیتے ہیں۔”
”نہیں، سالار ایسا کچھ نہیں کررہا ۔”
”ابو! میں سالار جیسے کسی شخص کے ساتھ زندگی گزارنے کاسوچ بھی نہیں سکتی۔ وہ ہر چیز کا مذاق اڑاتا ہے۔ مذہب کا، زندگی کا، عورت کا… کیا ہے جسے وہ چٹکیوں میں اڑانا نہیں جانتا۔ جس شخص کے نزدیک میرا اپنے مذہب کو چھوڑ دینا ایک حماقت ہے، جس کے نزدیک مذہب پر بات کرنا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے جو صرف” ”What is next to ecstasyکا مطلب جاننے کے لئے خودکشیاں کرتا پھرتا ہو، جس کے نزدیک زندگی کا مقصد صرف عیش ہے۔ وہ میرے ساتھ محبت کرے بھی تو کیا صرف محبت کی بنیاد پہ میں اس کے ساتھ زندگی گزارسکتی ہوں؟ میں نہیں گزارسکتی۔”
”ساڑھے آٹھ سال سے وہ آپ کے ساتھ قائم ہونے والے اس اتفاقیہ رشتے کو قائم رکھے ہوئے ہے۔ آپ کو آپ کے نظریات اور عقائد کو جانتے ہوئے بھی اور وہ آپ کے انتظار میں بھی ہے۔ یہ سوچتے ہوئے کہ آپ اس کے ساتھ رہنے پر تیار ہوجائیں گی۔ کیا ان ساری خواہشوں کے ساتھ اس نے اپنے اندر کچھ تبدیلی نہیں کی ہوگی؟”
”میں نے اس کے ساتھ زندگی نہیں گزارنی۔ میں نے اس کے ساتھ نہیں رہنا۔” وہ اب بھی اپنی بات پر مصر تھی۔”مجھے حق ہے کہ میں اس شخص کے ساتھ نہ رہوں۔”
”لیکن اللہ یہ کیوں کررہا ہے کہ اس شخص کو باربار آپ کے سامنے لارہا ہے۔ دو دفعہ آپ کا نکاح ہوا اور دونوں دفعہ اسی آدمی سے۔”
وہ ان کا چہرہ دیکھنے لگی۔





”میں نے زندگی میں ضرور کوئی گناہ کیا ہوگا، اس لئے میرے ساتھ ایسا ہورہا ہے۔” اس نے بھرّائی ہوئی آواز میں کہا۔
”آمنہ! آپ کبھی ضد نہیں کرتی تھیں پھر اب کیا ہوگیا ہے آپ کو؟” ڈاکٹر سبط علی حیران تھے۔
”آپ مجھے مجبور کریں گے تو میں آپ کی بات مان لوں گی کیونکہ آپ کے مجھ پر اتنے احسانات ہیں کہ میں تو آپ کی کسی بات کو رد کرہی نہیں سکتی لیکن آپ اگر یہ کہیں گے کہ میں اپنی مرضی اور خوشی کے ساتھ اس کے ساتھ زندگی گزاروں تو وہ میں کبھی نہیں کرسکوں گی۔ مجھے کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ وہ کتنا تعلیم یافتہ ہے، کتنے اچھے عہدے پر کام کر رہاہے یا مجھے کیا دے سکتا ہے۔ آپ ایک ان پڑھ آدمی سے شادی کردیتے لیکن وہ اچھا انسان ہوتا تو میں کبھی آپ سے کوئی شکوہ نہیں کرتی لیکن سالار، وہ آنکھوں دیکھی مکھی ہے جس کو میں اپنی خوشی سے نہیں نگل سکتی۔ آپ سالار کے بارے میں وہ جانتے ہیں، جو آپ نے سنا ہے۔ میں اس کے بارے میں جو جانتی ہوں، وہ میں نے دیکھا ہے۔ ہم پندرہ سال ایک دوسرے کے ہمسائے رہے ہیں۔ آپ تو اس کو چند سالوں سے جانتے ہیں۔”
”آمنہ! میں آپ کو مجبور کبھی نہیں کروں گا۔ یہ رشتہ آپ اپنی خوشی سے قائم رکھنا چاہیں گی تو ٹھیک ہے لیکن صرف میرے کہنے پر اسے قائم رکھنا چاہو تو ایسا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ ایک بار سالار سے مل لیں پھر بھی اگر آپ کایہی مطالبہ ہوا تو میں آپ کی بات مان لوں گا۔”
ڈاکٹر سبط علی بے حد سنجیدہ تھے۔
اسی وقت ملازم نے آکر سالار کے آنے کی اطلاع دی۔ ڈاکٹر سبط علی نے اپنی گھڑی پر ایک نظر دوڑائی اور ملازم سے کہا۔
”انہیں اندر لے آؤ۔”
”یہاں؟”ملازم حیران ہوا۔
”ہاں، یہیں پر۔” ڈاکٹر سبط علی نے کہا۔
امامہ اٹھ کر کھڑی ہوگئی۔
”میں ابھی اس طرح اس سے بات نہیں کرنا چاہتی۔”
اس کا اشارہ اپنی متورم آنکھوں اور سرخ چہرے کی طرف تھا۔
”آپ نے ابھی تک اسے دیکھا نہیں ہے۔ آپ اسے دیکھ لیں۔” انہوں نے دھیمے لہجے میں اس سے کہا۔
”یہاں نہیں، میں اندر کمرے میں سے اس کو دیکھ لوں گی۔”
وہ پلٹ کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔ کمرے کا دروازہ ادھ کھلا تھا۔ اس نے اسے بند نہیں کیا۔
کمرے میں تاریکی تھی۔ ادھ کھلے دروازے سے لاؤنج سے آنے والی روشنی اتنی کافی نہیں تھی کہ کمرے کے اندر اچھی طرح سے دیکھا جاسکتا۔ وہ اپنے بیڈ پر آکر بیٹھ گئی۔
اپنے بیڈ پر بیٹھ کر اس نے اپنی انگلیوں سے اپنی آنکھوں کو مسلا۔ وہ جہاں بیٹھی تھی وہاں سے وہ لاؤنج کو بخوبی دیکھ سکتی تھی۔ نوسال کے بعد اس نے ادھ کھلے دروازے سے لاؤنج میں اس شخص کو نمودار ہوتے دیکھا جسے وہ ایک طویل عرصہ پہلے مردہ سمجھ چکی تھی جس سے زیادہ نفرت اور گھن اسے کبھی کسی سے محسوس نہیں ہوئی تھی جسے وہ بدترین لوگوں میں سے ایک سمجھتی تھی اور جس کے نکاح میں وہ پچھلے کئی سالوں سے تھی۔
تقدیر کیا اس کے علاوہ کسی اور چیز کو کہتے ہیں؟
اپنی آنکھوں میں اترتی دھند کو اس نے انگلیوں کی پوروں سے صاف کیا۔ ڈاکٹر سبط علی اس سے گلے مل رہے تھے۔ اس کی پشت امامہ کی طرف تھی۔ اس نے معانقہ کرنے سے پہلے ہاتھ میں پکڑے ہوئے پھول اور ایک پیکٹ سینٹر ٹیبل پر رکھا تھا۔ معانقے کے بعد وہ صوفے پر بیٹھ گیا اور تب پہلی بار امامہ نے اس کا چہرہ دیکھا۔
کھلا گریبان، گلے میں لٹکتی زنجیریں، ہاتھوں میں لٹکتے بینڈز، ربربینڈ میں بندھے بالوں کی پونی، وہاں ایسا کچھ نہیں تھا۔ وہ کریم کلر کے ایک سادہ شلوار سوٹ پہ واسکٹ پہنے ہوئے تھا۔
”ہاں، ظاہری طورپر بہت بدل گیا ہے۔” اسے دیکھتے ہوئے اس نے سوچا۔ اسے دیکھ کر کوئی بھی یقین نہیں کرسکتا کہ یہ کبھی… اس کی سوچ کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔ وہ اب ڈاکٹر سبط علی سے باتیں کررہا تھا۔ ڈاکٹر سبط علی اسے شادی کی مبارکباد دے رہے تھے۔ وہ وہاں بیٹھی ان دونوں کی آوازیں بآسانی سن رہی تھی اور وہ ڈاکٹر سبط علی کے استفسار پر انہیں امامہ کے ساتھ ہونے والے اپنے نکاح کے بارے میں بتارہا تھا۔ وہ اپنے پچھتاوے کا اظہار کررہا تھا کس طرح اس نے جلال کی شادی کے بارے میں اس سے جھوٹ بولا۔ کس طرح اس نے طلاق کے بارے میں اس سے جھوٹ بولا۔
”میں اس کے بارے میں سوچتا ہوں تو مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے۔ اتنی تکلیف کہ میں آپ کو بتا نہیں سکتا۔ وہ میرے ذہن سے نکلتی ہی نہیں۔”
وہ دھیمے لہجے میں ڈاکٹر سبط علی کو بتارہا تھا۔
”بہت عرصے تو میں ابنارمل رہا۔ اس نے مجھ سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطے مدد مانگی تھی۔ یہ کہہ کر کہ میں ایک مسلمان ہوں، ختمِ نبوت پر یقین رکھنے والا مسلمان۔ میں دھوکا نہیں دوں گا اسے اور میری پستی کی انتہا دیکھیں کہ میں نے اسے دھوکا دیا۔ یہ جاننے کے باوجود کہ وہ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قدر محبت کرتی ہے کہ سب کچھ چھوڑ کر گھر سے نکل آئی اور میں اس کا مذاق اڑاتا رہا، اسے پاگل سمجھتا اور کہتا رہا۔ جس رات میں اسے لاہور چھوڑنے آیا تھا، اس نے مجھ سے راستے میں کہا تھا کہ ایک دن مجھے ہر چیز کی سمجھ آجائے گی، تب مجھے اپنی اوقات کا پتہ چل جائے گا۔”
وہ عجیب سے انداز میں ہنسا تھا۔
”اس نے بالکل ٹھیک کہا تھا۔ واقعی ہر چیز کی سمجھ آگئی۔ اتنے سالوں میں، میں نے اللہ سے اتنی دعا اور توبہ کی ہے کہ۔۔۔۔”
وہ بات کرتے کرتے رک گیا۔ امامہ نے اسے سینٹر ٹیبل کے شیشے کے کنارے پر اپنی انگلی پھیرتے دیکھا۔ وہ جانتی تھی کہ وہ آنسو ضبط کرنے کی کوشش کررہا تھا۔
”بعض دفعہ مجھے لگتا تھا کہ شاید میری دعا اور توبہ قبول ہوگئی۔” وہ رکا۔
”مگر اس دن… میں آمنہ کے ساتھ نکاح کے کاغذات پر دستخط کررہا تھا تو مجھے اپنی اوقات کا پتا چل گیا۔ میری دعا اور توبہ کچھ بھی قبول نہیں ہوئی۔ ایسا ہوتا تو مجھے امامہ ملتی، آمنہ نہیں۔ خواہش پر تو اللہ انسان کو وہ دے دیتا ہے کہ معجزوں کے علاوہ کوئی چیز جسے پورا کرہی نہیں سکتی۔ میری خواہش دیکھیں میں نے اللہ سے کیا مانگا۔ ایک ایسی لڑکی جسے کسی اور سے محبت ہے، وہ جو مجھے اسفل السافلین سمجھتی ہے، جسے میں نوسال سے ڈھونڈرہا ہوں مگر اس کا کچھ پتہ نہیں ہے۔
اور میں… میں خواہش لئے پھر رہا ہوں اس کے ساتھ اپنی زندگی گزارنے کی۔ یوں جیسے وہ مل ہی جائے گی، یوں جیسے وہ مل گئی تو میرے ساتھ رہنے کو تیار ہی ہوجائے گی، یوں جیسے وہ جلال انصر کو بھلا چکی ہوگی۔ ولیوں جتنی اور ولیوں جیسی عبادت کرتا تو شاید اللہ میرے لئے یہ معجزے کردیتا پر میرے جیسے آدمی کے لئے… میری اوقات تو یہ ہے کہ لوگ خانہ کعبہ کے دروازے پر کھڑے ہوکر بخشش مانگتے ہیں۔ میں وہاں کھڑا ہوکر بھی اسے ہی مانگتا رہا۔ شاید اللہ کو یہی برا لگا۔”
امامہ کے جسم سے ایک کرنٹ گزرا تھا۔ ایک جھماکے کی طرح وہ خواب اسے یاد آیا تھا۔
”میرے اللہ!” اس نے اپنے دونوں ہاتھ ہونٹوں پر رکھ لئے۔ وہ بے یقینی سے سالار کو دیکھ رہی تھی۔ وہ خواب میں اس شخص کا چہرہ نہیں دیکھ سکی تھی۔” کیا وہ یہ شخص تھا، یہ جو میرے سامنے بیٹھا ہے۔ یہ آدمی…؟” اس نے تب خواب میں اس آدمی کو جلال سمجھا تھا مگر اسے یاد آیا تھا جلال دراز قد نہیں تھا، وہ آدمی دراز قد تھا۔ سالار سکندر دراز قد تھا۔ اس کے ہاتھ کانپنے لگے تھے۔ جلال کی رنگت گندمی تھی۔ اس آدمی کی رنگت صاف تھی۔ سالار سکندر کی رنگت صاف تھی۔ اس نے خواب میں اس آدمی کے کندھے پر ایک تیسری چیز بھی دیکھی تھی۔ وہ تیسری چیز؟
اس نے کانپتے ہاتھوں سے اپنے چہرے کو مکمل طورپر ڈھانپ لیا۔
وہ معجزوں کے نہ ہونے کی باتیں کررہا تھا اور… اندر ڈاکٹر سبط علی خاموش تھے۔ وہ کیوں خاموش تھے۔ یہ صرف وہ اور امامہ جانتے تھے، سالار سکندر نہیں۔ امامہ نے اپنی آنکھیں رگڑیں اور چہرے سے ہاتھ ہٹادئیے۔ اس نے ایک بارپھر بہتے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ اس شخص کو دیکھا۔
نہ وہ ولی تھا، نہ درویش… صرف سچے دل سے توبہ کرنے والا ایک شخص تھا۔ اسے دیکھتے ہوئے اسے پہلی بار احساس ہواکہ جلال اور اس کے درمیان کیا چیز آکر کھڑی ہوگئی تھی جس نے اتنے سالوں میں جلال کے لئے اس کی ایک بھی دعا قبول نہیں ہونے دی۔ کون سی چیز آخری وقت میں فہد کی جگہ اس کولے آئی تھی۔
اس شخص میں کوئی نہ کوئی بات تو ایسی ہوگی کہ اس کی دعائیں قبول ہوئیں، میری نہیں۔ ہر بار مجھے پلٹاکر اسی کی طرف بھیجا گیا۔
اس نے نم آنکھوں کے ساتھ اسے دیکھتے ہوئے سوچا۔ اس نے ڈاکٹر سبط علی کو اسے صالح آدمی کہتے سنا۔ وہ جانتی تھی وہ یہ بات کس کے لئے کہہ رہے تھے۔ وہ سالار کو نہیں بتارہے تھے۔ وہ امامہ کو بتارہے تھے۔ وہ اسے صالح قرار نہ بھی دیتے تب بھی وہ اسے صالح ماننے پر مجبور تھی۔
اس کے پاس جو گواہی تھی وہ دنیا کی ہر گواہی سے بڑھ کر تھی۔ اس کے پاس جو ثبوت تھا اس کے بعد اور کسی ثبوت کی ضرورت تھی نہ گنجائش۔ اسے کیا”بتا” دیا گیا تھا، اسے کیا”جتا” دیا گیا تھا۔ وہ جانتی تھی… صرف وہی جان سکتی تھی۔
افطاری کے بعد سالار اور ڈاکٹر سبط علی نماز پڑھنے کے لئے چلے گئے۔
وہ منہ ہاتھ دھوکر کچن میں چلی آئی۔ ان کے آنے سے پہلے اس نے ملازم کے ساتھ مل کر کھانا لگادیا تھا۔ سالار کی واپسی کھانے کے بعد ہوئی تھی اور اس کے جانے کے بعد ڈاکٹر سبط علی جس وقت کچن میں آئے، اس وقت امامہ کچن کی میز پر بیٹھی کھانا کھارہی تھی۔ اس کی آنکھیں اب بھی متورم تھیں مگر اس کا چہرہ پرسکون تھا۔
”میں نے سالار کو آپ کے بارے میں نہیں بتایا لیکن میں چاہتا ہوں کہ آپ اب جلد از جلد اس سے مل کر بات کرلیں۔”
ڈاکٹر سبط علی نے اس سے کہا۔
”مجھے اس سے کوئی بات نہیں کرنی۔”وہ پانی پیتے ہوئے رک گئی۔”اسے اللہ نے میرے لئے منتخب کیا ہے اور میں اللہ کے انتخاب کو رد کرنے کی جرأت نہیں کرسکتی۔ اس نے کہا ہے کہ وہ تو بہ کرچکا ہے وہ نہ بھی کرتا ویسا ہی ہوتا جیسا پہلے تھا تب بھی میں اس کے پاس چلی جاتی اگر میں جان لیتی کہ اسے اللہ نے میرے لئے منتخب کیا ہے۔”
وہ اب دوبارہ پانی پی رہی تھی۔”آپ اس سے کہیں، مجھے لے جائے۔”
٭…٭…٭
سالار جس وقت مغرب کی نماز پڑھ کر آیا تب تک امامہ فرقان کی بیوی کے ساتھ کھانے کی میز لگا چکی تھی۔ فرقان اور سالار کی عدم موجودگی میں اس بار آمنہ اصرار کرکے اس کے ساتھ کام کرنے لگی تھی۔
سالار کے آنے پر وہ اپنے فلیٹ جانے کے لئے تیار ہوگئی۔ سالار اور امامہ نے اسے روکنے کی کوشش کی تھی۔
”نہیں، مجھے بچوں کے ساتھ کھانا کھانا ہے۔ وہ بے چارے انتظار کررہے ہوں گے۔”
”آپ انہیں بھی یہیں بلوالیں۔” سالار نے کہا۔
”نہیں بھئی، میں اس قسم کی فضول حرکت نہیں کرسکتی۔ امامہ تو پھر تمہیں پتا ہے یہاں سے جانے کا نام ہی نہیں لے گی۔” نوشین نے اپنی بیٹی کا نام لیا۔
”سالار بڑا پیار کرتا ہے امامہ کے ساتھ۔”
فرقان کی بیوی نے امامہ سے کہا۔ ایک لمحے کے لئے سالار اور امامہ کی نظریں ملیں پھر سالار برق رفتاری سے مڑکر ٹیبل پر پڑے گلاس میں جگ سے پانی انڈیلنے لگا۔ نوشین نے حیرانی سے امامہ کے سرخ ہوتے ہوئے چہرے کو دیکھا مگر وہ سمجھ نہیں پائیں۔
”تم لوگ کھانا کھاؤ۔ سحری بھی میں ملازم کے ہاتھ بھجوادوں گی۔ تم لوگ کچھ تیار مت کرنا۔” ان کے جانے بعد سالار دروازہ بند کرکے واپس آگیا۔ امامہ کو مخاطب کئے بغیر وہ کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا لیکن اس نے کھانا شروع نہیں کیا۔
امامہ چند لمحے کھڑی کچھ سوچتی رہی پھر خود بھی ایک کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔ اس کے بیٹھ جانے کے بعد سالار نے اپنے سامنے پڑی پلیٹ میں چاول نکالنا شروع کئے۔ کچھ چاول نکال لینے کے بعد اس نے دائیں ہاتھ سے چاولوں کا ایک چمچہ منہ میں ڈالا۔ چند لمحوں کے لئے امامہ کی نظر اس کے دائیں ہاتھ سے ہوتی ہوئی اس کے چہرے پر گئی۔ سالار اس کی طرف متوجہ نہیں تھا مگر وہ جانتا تھا وہ کیا دیکھ رہی تھی۔
کھانا بہت خاموشی سے کھایا گیا۔ امامہ کو اس کی خاموشی اب بری طرح چبھنے لگی تھی۔ آخر وہ اس سے بات کیوں نہیں کررہا تھا؟
‘کیا مجھے دیکھ کر اتنا شاک لگا ہے اسے؟ یا پھر؟”
اسے اپنی بھوک غائب ہوتی محسوس ہوئی۔ اسے اپنی پلیٹ میں موجود کھانا ختم کرنا مشکل لگنے لگا۔ سالار اس کے برعکس بہت اطمینان اور تیز رفتاری سے کھانا کھارہا تھا۔ اس نے جس وقت کھانا ختم کیا، اس وقت عشاء کی اذان ہورہی تھی۔
امامہ کے کھانا ختم کرنے کا انتظار کئے بغیر وہ میز سے اٹھ کر اپنے بیڈروم میں چلاگیا۔ امامہ نے اپنی پلیٹ پیچھے سرکادی۔
وہ میز پر پڑے برتن سمیٹنے لگی جب اس نے سالار کو تبدیل شدہ لباس میں برآمد ہوتے دیکھا۔ ایک بار پھر اسے مخاطب کئے بغیر وہ فلیٹ سے نکل گیا تھا۔ امامہ نے بچے ہوئے کھانے کو فریج میں رکھ دیا۔ برتنوں کو سنک میں رکھنے کے بعد اس نے میز صاف کی اور خود بھی نماز پڑھنے چلی گئی۔
٭…٭…٭
وہ عشاء کی نماز کے بعد جس وقت واپس لوٹا اس وقت وہ کچن میں برتن دھونے میں مصروف تھی۔ سالار اپنے پاس موجود چابی سے فلیٹ کا دروازہ کھول کر اندر آگیا۔ سالار لاؤنج سے گزرتے ہوئے رک گیا۔ کچن کے دروازے کی طرف امامہ کی پشت تھی اور وہ سنک کے سامنے کھڑی تھی۔ اس کا دوپٹہ لاؤنج کے صوفے پر پڑا ہوا تھا۔
سالار نے پہلی بار اسے سعیدہ اماں کے ہاں کچھ گھنٹے پہلے دوپٹے کے بغیر دیکھا تھا اور اب وہ ایک بارپھر اسے دوپٹے کے بغیر دیکھ رہا تھا۔
نوسال پہلے وضو کرتے دیکھتے ہوئے اسے پہلی بار امامہ کو اس چادر کے بغیر دیکھنے کی خواہش پیدا ہوئی تھی جو وہ اوڑھے رکھتی تھی۔ نوسال بعد اس کی خواہش پوری ہوگئی تھی۔ اس نے نوسال میں کئی بار اسے اپنے گھر میں”محسوس” کیا تھا مگر آج جب وہ اسے وہاں”دیکھ” رہا تھا تو وہ دم بخود تھا۔ اس کے سیاہ بال ڈھیلے ڈھالے انداز میں جوڑے کی شکل میں لپیٹے گئے تھے اور سفید سوئیٹر کی پشت پر وہ یک دم بہت نمایاں ہوگئے تھے۔
نکاح نامے پر آمنہ مبین ولد ہاشم مبین احمد کو اپنی بیوی کے طورپر تسلیم کرنے کا اقرار کرتے ہوئے اس کے ذہن میں ایک لمحہ کے لئے بھی کوئی شک پیدا نہیں ہوا تھا نہ ہی ہاشم مبین احمد کے نام نے اسے چونکایا تھا۔ وہ سعیدہ اماں کی”بیٹی” سے شادی کررہا تھا۔ اس کا نام امامہ ہاشم بھی ہوتا تب بھی اس کے وہم وگمان میں بھی یہ کبھی نہیں آتا کہ یہ وہی امامہ تھی، کوئی اور نہیں اور اسے سعیدہ اماں کے صحن میں کھڑا دیکھ کر اسے ایک لمحہ کے لئے بھی شبہ نہیں رہا تھا کہ اس کا نکاح کس سے ہوا تھا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

معصوم سوال — ناہید حیات

Read Next

فیس بک رائٹر — فریحہ واحد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!