مریم کو چیزیں سمیٹتے ہوئے وہ ابنارمل لگی۔
اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہتی۔ کلثوم آنٹی، سعیدہ اماں کے ساتھ یک دم اندر آگئیں۔ امامہ کو ان دونوں کے چہرے بہت عجیب لگے۔ کچھ دیر پہلے کے برعکس وہ دونوں بے حد خوش نظر آرہی تھیں۔ اس کے کسی سوال سے پہلے کلثوم آنٹی نے اسے سالار کے بارے میں بتانا شروع کردیا۔ وہ دم بخود ان کی باتیں سن رہی تھی۔
”اگر تمہیں اعتراض نہ ہو تو تمہارا نکاح اس سے کردیا جائے؟” آنٹی نے اس سے پوچھا۔
”سبط علی اسے بہت اچھی طرح جانتے تھے، وہ بہت اچھا لڑکا ہے۔” وہ اسے تسلی دینے کی کوشش کررہی تھیں۔
”اگر ابو اسے جانتے ہیں تو ٹھیک ہے۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ آپ جیسا بہتر سمجھیں کریں۔”
”اس کا ایک دوست تم سے کچھ باتیں کرنا چاہتا ہے۔” وہ اس مطالبے پر کچھ حیران ہوئی تھی مگر اس نے فرقان سے ملنے سے انکار نہیں کیا۔
”میرے دوست نے آٹھ نوسال پہلے ایک لڑکی سے نکاح کیا تھا۔ اپنی پسند سے۔”
وہ چپ چاپ فرقان کو دیکھتی رہی۔
”وہ آپ سے شادی پر تیار ہے، مگر وہ اس لڑکی کو طلاق دینا نہیں چاہتا۔ کچھ وجوہات کی بنا پر وہ لڑکی اس کے ساتھ نہیں رہی لیکن وہ اب بھی اسے اپنے گھر میں رکھنا چاہتا ہے۔ اس نے مجھ سے کہا ہے کہ میں آپ کو یہ بتادوں تاکہ اگر آپ کو اس پر کوئی اعتراض ہوا تو اس بات کو یہیں ختم کردیں گے لیکن میں آپ سے یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ شاید وہ لڑکی اسے کبھی بھی نہ ملے، آٹھ نو سال سے اس کا میرے دوست کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہے۔ یہ ایک موہوم سی امید ہے، جس پر وہ اس کا انتظار کررہا ہے۔ ڈاکٹر سبط علی صاحب آپ کو اپنی بیٹی سمجھتے ہیں اور اس حوالے سے آپ میری بہن کی طرح ہیں۔ اس وقت اس صورت حال سے نکلنے کے لئے یہی بہتر ہے کہ آپ اس سے شادی کرلیں۔ وہ لڑکی اسے کبھی بھی نہیں ملے گی کیونکہ نہ تو وہ اسے پسند کرتی تھی نہ ہی آج تک اس نے اس سے کوئی رابطہ کرنے کی کوشش کی ہے اور پھر اتنا لمبا عرصہ گزرچکا ہے۔”
وہ اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔
”دوسری بیوی… تو امامہ ہاشم یہ ہے تمہاری وہ تقدیر جواب تک تم سے پوشیدہ تھی۔” اس نے سوچا۔
”اگر ڈاکٹر سبط علی اس شخص کے بارے میں یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی اس کو میرے لئے منتخب کررہے ہیں تو ہوسکتا ہے میرے لئے یہی بہتر ہو۔ میں جلال کی بھی تو دوسری بیوی بننے کے لئے تیار تھی، اس سے محبت کرنے کے باوجود… اور اس شخص کی بیوی بننے پر مجھے کیا اعتراض ہوگا جس سے مجھے محبت بھی نہیں ہے۔”
اسے ایک بارپھر جلال یاد آیا۔
”مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ ان کی بیوی جب بھی آئے وہ اسے رکھ سکتے ہیں۔ میں بڑی خوشی سے ان کو یہ اجازت دیتی ہوں۔” مدھم آواز میں کسی ملال کے بغیر اس نے فرقان سے کہا۔
پندرہ منٹ بعد اسے پہلا شاک اس وقت لگا تھا جب نکاح خواں نے اس کے سامنے سالار سکندر کا نام لیا تھا۔
”سالار سکندر… ولد سکندر عثمان۔” اسے نکاح خواں کے منہ سے نکلنے والے لفظوں سے جیسے کرنٹ لگا تھا۔ وہ نام ایسے نہیں تھے جو ہر شخص کے ہوتے۔
”سالار سکندر… سکندر عثمان؟ اور پھر اس ترتیب میں… کیا… یہ… شخص زندہ… ہے؟”
اس کے سرپر جیسے آسمان آگرا تھا۔ اس کے چہرے پر چادر کا گھونٹ نہ ہوتا تو اس وقت اس کے چہرے کے تاثرات نے سب کو پریشان کردیا ہوتا۔ نکاح خواں اپنے کلمات دوبارہ دہرا رہا تھا۔
امامہ کا ذہن ماؤف اور دل ڈوب رہا تھا اگر یہ شخص زندہ تھا تو… میں تو اب تک اس کے نکاح میں ہوں… میرے خدا… یہ سب کیا ہورہا ہے۔ ڈاکٹر سبط علی اسے کیسے جانتے ہیں۔ اس کے ذہن میں ایک فشار برپا تھا۔
”آمنہ… بیٹا! ہاں کہو۔” سعیدہ اماں نے اس کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا۔
”سالار سکندر جیسے شخص کے لئے ہاں…؟”
اس کا دل کسی نے اپنی مٹھی میں لے کر بھینچا… وہ”ہاں” کے علاوہ اس وقت کچھ اور کہہ ہی نہیں سکتی تھی۔ خوف اور شاک کے عالم میں اس نے کاغذات پر دستخط کئے تھے۔
”کاش کوئی معجزہ ہو۔ یہ وہ سالار سکندر نہ ہو۔ یہ سب ایک اتفاق ہو۔” اس نے اللہ سے دعا کی تھی۔ ان سب لوگوں کے کمرے سے چلے جانے کے بعد مریم نے اس کے چہرے سے چادر ہٹادی۔ اس کے چہرے کا رنگ بالکل سفید ہوچکا تھا۔
”کیا ہوا؟” مریم کی تشویش میں اضافہ ہوگیا۔ وہ سمجھ نہیں سکی۔ وہ اس سے کیا کہہ رہی تھی۔ اس کا ذہن کہیں اور تھا۔
”مریم !Just do me a favour” اس نے مریم کا ہاتھ پکڑلیا۔
”میں نے نکاح کرلیا ہے، مگر میں آج رخصتی نہیں چاہتی۔ تم سعیدہ اماں سے کہو کہ وہ آج میری رخصتی نہ کریں۔ پلیز۔۔۔۔”
مریم اس کا چہرہ دیکھنے لگی۔
”کیوں؟”
”بس تم اس وقت مجھ سے کچھ نہ پوچھو، کچھ بھی نہیں۔ سعیدہ اماں سے کہو میں ابھی رخصتی نہیں چاہتی۔”
اس کے لہجے میں کچھ نہ کچھ ایسا ضرور تھا کہ میریم اٹھ کر باہر نکل گئی۔ وہ بہت جلد ہی واپس آگئی۔
”امامہ رخصتی نہیں ہورہی ہے۔ سالار بھی رخصتی نہیں چاہتا۔”
امامہ کے ہاتھوں کی کپکپاہٹ کچھ کم ہوگئی۔
”ابو کا فون آنے والا ہے تمہارے لئے۔ وہ تم سے کچھ بات کرنا چاہتے ہیں۔”
اس نے امامہ کو مزید اطلاع دی۔ وہ فون سننے کے لئے دوسرے کمرے میں آگئی۔ انہوں نے کچھ دیر بعد اسے فون کیا تھا۔ وہ اسے مبارکباددے رہے تھے۔ امامہ کا دل رونے کو چاہا۔
”سالار بہت اچھا انسان ہے۔” وہ کہہ رہے تھے۔”میری خواہش تھی کہ آپ کی شادی اسی سے ہو، مگر چونکہ آپ سعیدہ آپا کے پاس رہ رہی تھیں اس لئے میں نے ان کی خواہش اور انتخاب کو مقدم سمجھا۔” وہ سانس لینے تک کے قابل نہیں رہی تھی۔
”مجھے یہ علم نہیں تھا کہ سالار نے اس سے پہلے کبھی شادی کی تھی مگر تھوڑی دیر پہلے فرقان نے مجھے اس کے بارے میں بتایا ہے۔ وہ صرف ضرورتاً کیا جانے والا کوئی نکاح تھا۔ فرقان نے مجھے تفصیل نہیں بتائی اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ میرے جاننے والوں میں سالار سے اچھا کوئی شخص ہوتا تو اس کے نکاح کے بارے میں جان لینے کے بعد میں اپ کی شادی سالار سے کرنے کے بجائے کہیں اور کردیتا لیکن میرے ذہن میں سالار کے علاوہ اور کوئی آیا ہی نہیں۔ آپ خاموش کیوں ہیں آمنہ؟”
انہیں بات کرتے کرتے اس کا خیال آیا۔
”ابو! آپ واپس کب آئیں گے؟”
”میں ایک ہفتے تک آرہا ہوں۔” ڈاکٹر سبط علی نے کہا۔
”مجھے آپ سے بہت ساری باتیں کرنی ہیں۔ مجھے آپ کو بہت کچھ بتانا ہے۔”
”آپ خوش نہیں ہیں؟” ڈاکٹر سبط علی کو اس کے لہجے نے پریشان کیا۔
”آپ پاکستان آجائیں پھر میں آپ سے بات کروں گی۔” اس نے حتمی لہجے میں کہا۔
٭…٭…٭
وہ رات کو سونے سے پہلے وضو کرنے کے لئے باتھ روم میں گئی۔ وضو کرکے واپس آتے ہوئے اپنے کمرے میں جانے کے بجائے وہ صحن میں برآمدے کی سیڑھیوں پہ بیٹھ گئی۔ گھر میں اس وقت کوئی مہمان نہیں تھا۔ وہ اور سعیدہ اماں ہمیشہ کی طرح تنہا تھے۔ سعیدہ اماں تھکاوٹ کی وجہ سے بہت جلد سوگئیں۔ وہ ملازمہ کے ساتھ گھر میں موجود کام نبٹاتی رہی۔ ساڑھے دس بجے کے قریب ملازمہ بھی اپنا کام ختم کرکے سونے کے لئے چلی گئی۔ وہ شادی کے کاموں کی وجہ سے پچھلے کچھ دنوں سے وہیں رہ رہی تھی۔ امامہ، کچن اور اپنے کمرے کے بہت سے چھوٹے چھوٹے کام نپٹاتی رہی۔
وہ جس وقت ان سب کاموں سے فارغ ہوئی اس وقت رات کے ساڑھے بارہ بج رہے تھے۔ وہ بہت تھک چکی تھی مگر سونے سے پہلے وضو کرنے کے بعد صحن سے گزرتے ہوئے یک دم ہی اس کا دل اپنے کمرے میں جانے کو نہیں چاہا۔ وہ وہیں برآمدے میں بیٹھ گئی۔ صحن میں جلنے والی روشنیوں میں اس نے اپنے ہاتھوں اور کلائیوں پر لگی ہوئی مہندی کو دیکھا۔ مہندی بہت اچھی رچی تھی۔ اس کے ہاتھ کہنیوں تک سرخ بیل بوٹوں سے بھرے ہوئے تھے۔ اس نے کل بہت سالوں کے بعد پہلی بار بڑے شوق سے مہندی لگوائی تھی۔ اسے مہندی بہت پسند تھی۔ تہواروں کے علاوہ بھی وہ اکثر اپنے ہاتھوں پر مہندی لگایا کرتی تھی مگر ساڑھے آٹھ سال پہلے اپنے گھر سے نکل آنے کے بعد اس نے کبھی مہندی نہیں لگائی تھی۔ غیر محسوس طوپر ان تمام چیزوں سے اس کی دلچسپی ختم ہوگئی تھی مگر ساڑھے آٹھ سال کے بعد پہلی بار اس نے بڑے شوق سے اپنے ہاتھوں پر نقش ونگار بنوائے تھے، نہ صرف ہاتھوں پر بلکہ پیروں پر بھی۔
وہ اپنے پیروں کو دیکھنے لگی۔ شال کو اپنے گرد لپیٹتے ہوئے اس نے اپنے ہاتھوں اور بازوؤں کو اس کے نیچے چھپالیا۔
”اسجد سے جلال… جلال سے فہد… اور فہد سے سالار… ایک شخص کو میں نے رد کیا، دونے مجھے رد کردیا اورچوتھا شخص جو میری زندگی میں شامل ہوا وہ سب سے برترین ہے… سالار سکندر۔
اس کے اندر دھواں سابھرگیا۔ وہ اپنے اسی حلیے کے ساتھ اس کے سامنے تھا۔ کھلا گریبان، گلے میں لٹکتی زنجیر، ربربینڈ میں بندھے بال، چبھتی ہوئی تضحیک آمیز نظریں، دائیں گال پر مذاق اڑاتی مسکراہٹ کے ساتھ پڑنے والا ڈمپل، کلائیوں میں لٹکتے بینڈز اور برسلیٹ، عورتوں کی تصویروں والی تنگ جینز۔
وہ جیسے اس کے زندگی کے سب سے خوب صورت خواب کی سب سے بھیانک تعبیر بن کر سامنے آیا تھا۔ اس کے دل میں سالار سکندر کے لئے ذرّہ برابر عزت نہ تھی۔
”میں نے زندگی میں بہت سی غلطیاں کی ہیں مگر میں اتنی بری نہیں ہوں کہ تمہارے جیسا برا مرد میری زندگی میں آئے۔” اس نے کئی سال پہلے فون پر اس سے کہا تھا۔
”شاید اسی لئے جلال نے بھی تم سے شادی نہیں کی کیونکہ نیک مردوں کے لئے نیک عورتیں ہوتی ہیں، تمہارے جیسی نہیں۔”
سالار نے جواباً کہا تھا۔ امامہ نے اپنے ہونٹ بھینچ لئے۔
”چاہے کچھ ہوجائے سالار! میں تمہارے ساتھ نہیں رہوں گی۔ تم واقعی مرجاتے تو زیادہ اچھا تھا۔” وہ بڑبڑاتی تھی۔
اس وقت ایک لمحے کے لئے بھی اسے خیال نہیں آیا تھا کہ سالار سکندر نے کبھی اس پر کوئی احسان کیا تھا۔
٭…٭…٭
ڈاکٹر سبط علی جس رات پاکستان واپس آئے تھے اس رات امامہ ان کے گھر پر ہی تھی مگر رات کو اس نے ان سے سالار کے بارے میں کوئی بات نہیں کی۔ مریم ابھی لاہور میں ہی تھی اس لئے وہ سب آپس میں خوش گپیوں میں مصروف رہے۔
اگلے دن صبح بھی وہ سب اسی طرح اکٹھے بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ وہ امامہ کو ان تحائف کے بارے میں بتاتے رہے جو وہ انگلینڈ سے امامہ اور سالار کے لئے لے کر آئے تھے۔ امامہ خاموشی سے سنتی رہی۔
”سالار بھائی کو تو آج افطاری پر بلائیں۔” یہ مریم کی تجویز تھی۔
ڈاکٹر سبط علی نے مریم کے کہنے پر سالار کو فون کیا۔ اِمامہ تب بھی خاموش رہی۔
وہ دوپہر کو نماز پڑھنے کے لئے باہر جانے لگے تو اِمامہ ان کے ساتھ باہر پورچ تک آگئی۔
”ابو! مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔” اس نے دھیرے سے کہا۔
”ابھی؟” ڈاکٹر سبط علی قدرے حیرانی سے بولے۔
”نہیں، آپ نماز پڑھ آئیں پھر واپسی پر۔”
وہ کچھ دیر تشویش سے اسے دیکھتے رہے اور پھر کچھ کہے بغیر باہر چلے گئے۔
٭…٭…٭
”میں سالار سے طلاق لینا چاہتی ہوں۔” وہ مسجد سے واپسی پر اسے لے کر اپنی اسٹڈی میں آگئے تھے اور اِمامہ نے بلا کسی تمہید یا توقف کے اپنا مطالبہ پیش کردیا۔
”آمنہ!” وہ دم بخود رہ گئے۔
”میں اس کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔” وہ مسلسل فرش پر گھور رہی تھی۔
”آمنہ! آپ کے ساتھ اس کی دوسری شادی ضرور ہے لیکن اس کی پہلی بیوی کا کوئی پتا نہیں ہے۔ فرقان بتارہا تھا کہ تقریباً نو سال سے ان دونوں میں کوئی رابطہ نہیں ہے اور شادی بھی نہیں، صرف نکاح ہوا تھا۔”
ڈاکٹر سبط علی، اس کے انکار کو پہلی شادی کے ساتھ جوڑ رہے تھے۔
”کون جانتا ہے وہ کہاں ہے،کہاں نہیں۔ نوسال بہت لمبا عرصہ ہوتا ہے۔”
”میں اس کی پہلی بیوی کو جانتی ہوں۔” اس نے اسی طرح سر جھکائے ہوئے کہا۔
”آپ؟” ڈاکٹر سبط علی کو یقین نہیں آیا۔
”وہ میں ہوں۔” اس نے پہلی بار سر اٹھا کر انہیں دیکھا۔
وہ بولنے کے قابل نہیں رہے تھے۔
”آپ کو یاد ہے نو سال پہلے میں ایک لڑکے کے ساتھ اسلام آباد سے لاہور آئی تھی جس کے بارے میں نے آپ کو بعد میں بتایا تھا کہ میری فیملی نے اس کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی ہے۔”
”سالار سکندر…” ڈاکٹر سبط علی نے بے اختیار اس کی بات کاٹی۔
”یہ وہی سالار سکندر ہے؟” اِمامہ نے اثبات میں سر ہلایا۔ وہ جیسے شاک میں تھے۔ سالار سکندر سے ان کی فرقان کے توسط سے پہلی ملاقات امامہ کے گھر سے چلے آنے کے چار سال بعد ہوئی تھی اور ان کے ذہن میں کبھی یہ نہیں آیا کہ اس سالار کا اِمامہ سے کوئی تعلق ہوسکتا تھا۔ چار سال پہلے سنے جانے والے ایک نام کو وہ چار سال بعد ملنے والے ایک دوسرے شخص کے ساتھ نتھی نہیں کرسکتے تھے اور کر بھی دیتے اگر وہ چار سال پہلے والے سالار سے ہی ملتے مگر وہ جس شخص سے ملے تھے، وہ حافظ قرآن تھا۔ اس کے انداز و اطوار اور گفتار میں کہیں اس ذہنی مرض کا عکس نہیں پایا جاتا تھا جس کا حوالہ انہیں امامہ نے کئی بار دیا تھا۔ ان کا دھوکا کھا جانا ایک فطری امر تھا یا پھر یہ سب اسی طرح سے ”طے کیا گیا تھا۔”
”اور آپ نے نو سال پہلے اس سے شادی کی تھی؟” وہ اب بھی بے یقینی کا شکار تھے۔
”صرف نکاح۔” اس نے مدھم آواز میں کہا۔
”اور پھر اس نے انہیں سب کچھ بتادیا۔ ڈاکٹر سبط علی بہت دیر خاموش رہے تھے پھر انہوں نے ایک گہرا سانس لیتے ہوئے کہا۔
”آپ کو مجھ پر اعتبار کرنا چاہئے تھا آمنہ! میں آپ کی مدد کرسکتا تھا۔”
امامہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
”آپ ٹھیک کہتے ہیں، مجھے آپ پر اعتبار کرلینا چاہئے تھا مگر اس وقت میرے لئے یہ بہت مشکل تھا۔ آپ کو اندازہ ہی نہیں ہے کہ میں اس وقت کس ذہنی کیفیت سے گزررہی تھی یا پھر شاید میری قسمت میں یہ آزمائش بھی لکھی تھی اسے آنا ہی تھا۔”
وہ بات کرتے کرتے رکی، پھر اس نے نم آنکھوں کے ساتھ سراٹھاکر ڈاکٹر سبط علی کو دیکھا اور مسکرانے کی کوشش کی۔
”لیکن اب تو سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ اب تو آپ طلاق لینے میں میری مدد کرسکتے ہیں۔”
”نہیں، میں اب اس طلاق میں کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ آمنہ! میں نے اس سے آپ کی شادی کروائی ہے۔”انہوں نے جیسے اسے یاددلایا۔
”اسی لئے تو میں آپ سے کہہ رہی ہوں۔ آپ اس سے مجھے طلاق دلوادیں۔”
”لیکن کیوں، میں کیوں اس سے آپ کو طلاق دلوادوں؟”
”کیونکہ… کیونکہ وہ ایک … اچھا آدمی نہیں ہے کیونکہ میں نے اپنی زندگی کو سالار جیسے آدمی کے ساتھ گزارنے کا نہیں سوچا۔ ہم دو مختلف دنیاؤں کے لوگ ہیں۔” وہ بے حد دلبرداشتہ ہورہی تھی۔
”میں نے کبھی اللہ سے شکایت نہیں کی ابو! میں نے کبھی اللہ سے شکایت نہیں کی مگر اس بار مجھے اللہ سے بہت شکایت ہے۔”
وہ گلوگیر لہجے میں بولی۔
”میں اتنی محبت کرتی ہوں اللہ سے… اور دیکھیں اللہ نے میرے ساتھ کیا کیا۔ میرے لئے دنیا کے سب سے برے آدمی کو چنا۔”
وہ اب روہی تھی۔