پنج فرمان — سحر ساجد

ایک رنگ ۔۔۔۔ ایک احساس
رنگ ہمیشہ احساسات کے ترجمان ہوا کرتے تھے۔ ہمیشہ کوئی نہ کوئی جذبہ ان سے منسوب کیا جاتا ہے۔ یہ منعکس کرتے ہیں کسی نہ کسی احساس کو۔ تو رنگ احساسات اور جذبات کے ترجمان ہوتے ہیں۔
سات رنگ۔۔۔۔
سرخ،سبز ، نیلا، پیلا،بنفشی، قرمزی،نارنجی۔۔۔۔۔
سات تشبیہات۔۔۔۔۔۔۔
محبت، فطرت ،گہرائی، ذہانت، روحانیت، اسرار، خو شی۔۔
ان سات رنگوں کو ملا ؤ تو بنتا ہے سفید رنگ۔
ان سات تشبیہات کو یکجا کرو تو کہلائے گا۔۔۔۔
”تخیل، خیال،گمان،تصور، سوچ”
جیسے سفید رنگ کئی رنگوں کا مظہر ٹھہرا، ایسے ہی ”سو چ”بھی کئی احساسات کی مترجم ہے۔ اسی لئے تو سفید رنگ۔۔۔۔سوچ کا رنگ۔۔۔تصور کا رنگ۔۔۔ گمان کا رنگ۔۔۔تخیل کا رنگ۔۔۔ خیال کارنگ کہلایا ہے۔۔۔
اور خیال ہو، سوچ ہو، تخیل ہو، گمان ہو، تصور ہو یا سوچ۔۔۔۔
یہ ایک پرندہ ہی تو ہے،چست رفتار پرندہ۔ جس کے لیے ”قرن” معنی نہیں رکھتے۔ وقت رکاوٹ نہیں بنتا۔ اور یہ سب احوال دیکھ لیتا ہے۔ اس کی ادھیڑ کر رکھ دینے والی آنکھ سے کچھ پوشیدہ نہیں۔ یہ سوئے کرداروں کو جگا ڈالتا ہے ، ایک کہانی بنا ڈالتا ہے۔ اور پھر کہانی کو احساسات کے سب رنگوں سے مزین کر دیتا ہے۔ سرخ، سبز،نیلا،پیلا، بنفشی،قرمزی،نارنجی ۔۔۔ سب رنگ۔
تو سوچ کا رنگ؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سفید رنگ۔
*****

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

دنیا میں موجود تمام عقل کو گر حکم ہوتا کہ وہ مجسم ہو کر ایک شخص کا روپ دھار لے اور سدھارتھ کی راہ میں جا حائل ہو، تو رب کعبہ کی قسم وہ بھی سدھا رتھ کو روک نہ پاتی۔
جس تن لاگے۔۔۔ وہ تن جانے۔
کہ روح کا حکم شدید۔
تڑپ کا کمال یہ کہ روح پھر روح نہیں بلکہ جلتا ہوا بھانبھڑ بن جاتی ہے۔ کبھی بے قراری کی شکل میں پیروں تلے کی آگ بن جاتی ہے تو کبھی بے چینی کے گدھ کی صورت جسم نوچ نوچ کھاتی ہے۔ روح جب اضطرار کا شکار ہو تو جسم کیسے سکون پائے ۔۔۔ ہاں۔۔۔ کیسے پائے سکون۔ یہ بھی تو پھر راحت کی تلاش میں بھٹکے گا۔
در بدر کی ٹھوکروں پہ ہو گا۔ اسے تلاش ہو گی بس سکون کی اور وہ تیار ہو گا کوئی بھی قیمت چکانے پر، ویسی ہی کہ جیسی سدھارتھ نے چکائی۔ وہ بھی تو ایسے ہی اضطرار کے ہاتھوں مجبور ہو کر آن پہنچا تھا۔۔۔ ”راج گڑھ۔”
یہ واقعی گڑھ تھا۔ راہبوں، سادھوؤں اور بھکشوؤں کی دنیا تھی۔ہر راہب۔۔۔ ہر سادھو ۔۔۔ ہر بھکشو اپنا میلہ سجائے بیٹھا تھا۔ اپنے مکتبہ فکر کی بات کرتا تھا۔ تو حضرت انسان نہ بدلے چاہے صدیوں پہلے کی بات ہو یا آج کی۔ فرق صرف جدت ہے۔ تو سدھارتھ نے بھی ایک راہب کی شاگردی اختیار کی اور اس راہب نے اس کے ہاتھ میں ”مراقبے”کی کنجی پکڑا دی کہ سب بند قفل اسی سے کھلتے ہیں۔ تم جس چیز کو ڈھونڈتے تھے وہ یہ ہی تو ہے۔ سکون ہے جس کا مطلب۔۔۔اسے مراقبہ ہی توکہتے ہیں۔ اور غافل نے سکھ کا سانس لیا کہ تلاش ختم ہوئی، جستجو تمام ہوئی۔ اذیت رخصت ہوئی۔ راحت کے دن بس شروع ہوا ہی چاہتے ہیں۔ اس نے مراقبے کئے۔ مسلسل، لگاتار، رات اور دن کی تمیز کئے بغیر۔ ایک ، دو، تین کی گنتی کئے بغیر۔۔۔ دھڑا دھڑ ۔۔۔ یوں جیسے کوئی باؤلا ہو گیا ہو اور بس کسی بھی طرح سے سکون کو پا لینا چاہتا ہو۔ ایک ہی گھونٹ میں جام چڑھا لیناچاہتا ہو۔
”سکون ”اس کی بھوک اور وہ مدتوں کا فاقہ زدہ ہو جیسے ۔
”سکون ”اس کا نخلستان اوروہ مدتوں کا صحرا نشین ہو جیسے۔۔
”سکون ”اس کی واحد طلب اور وہ مدتوں سے طلب گار ہو جیسے۔۔۔
تو اس نے مراقبے کو پی لیا۔ گھونٹ گھونٹ سے پیاس نہ بجھی تو غٹاغٹ چڑھانے لگا لیکن روح میں جلنے والا بھانبھڑ۔۔۔۔۔یہ نہیں بجھتا ۔۔۔ بہ خدا نہیں بجھتا۔ طلب اسے بھڑکاتی ہے۔ اور یہ مزید شدت اور تیزی کے ساتھ بھڑکتا ہے۔۔ بے قراری، اضطراب، بے چینی، تلاش۔۔۔۔ ان سب نے مل کر سدھارتھ کوڈھا دیا تھا ۔ جو پہلے ہی ملیامیٹ ہوکر رہ گیا تھا۔ دنیا جو پہلے ہی اس پہ تنگ تھی۔۔ وہ کچھ اور تنگ ہونے لگی تھی۔ سانس لینے کا جیسے ہر ذریعہ ختم ہونے کو آیا۔ ۔ سکون تو مراقبوں میں بھی نہ تھا ۔۔۔ آخر یہ کہا ں تھا؟ اور پھر۔۔۔ انتہا اپنی انتہا کو آئی۔ سدھارتھ نے اس راہب کی شاگردی چھوڑ دی اور ایک سادھو کے پاس آن بیٹھا۔ سادھو نے پھر اسے نیا سبق پڑھایا۔
”تپسیا۔۔۔تپسیا ہی تو سب کچھ ہے۔”
” ارے او غافل ! تو کہاں تھا۔۔۔ کہاں تھا تو؟۔ جس چیز نے تیرے من میں آگ بھڑکا رکھی ہے اور جس کی طلب نے تجھے صحرا کی پیاس بنا رکھا ہے۔ اس سب کا علاج اسی تپسیا میں ہے۔اسی سے سکون بھی ملے گا اور سب سوالوں کے جواب بھی۔”’
”جسم! یہ روح کا مکان ہے”
”جسم!یہ روح کا مقام ہے”
”جسم! یہ روح کے ٹھہرنے کی جگہ ہے۔”
”تو جب تم جسم کو تکلیف پہنچا ؤ گے تو راحت روح کو ملے گی۔ تم فاقے کا چلہ کاٹو۔۔۔ تمہاری روح ستھری ہو گی اور جب روح ستھری ہوگی تب سکون ملے گا ۔۔۔۔۔۔”
تپسیا ۔۔۔ سکون کا نام ہی تو ہے۔ زہر کا تریاق زہر ہی ہے۔ لوہے کو صرف لوہا ہی کاٹتا ہے۔ تو نفس بھوک کا نام ہے، ہر چیز کی بھوک کا ۔۔۔ مگر اسے بھوک نہیں مارے گی لہٰذا فاقہ کرو۔۔۔ فاقے کا چلہ کاٹو”۔ سدھارتھ نے سنا اور سن کر پلے سے باندھ لیا۔ پھر اس نے فاقے کرنا شروع کئے ۔ لگاتار۔۔۔ مسلسل۔۔۔ دن رات کی تمیز کئے بغیر۔ ایک دو تین کی گنتی کئے بغیر۔
انہی فاقوں کی بدولت وہ اتنا لاغر ہو گیا کہ اس کے برہنہ جسم پہ پسلیوں کی تعداد گنی جا سکتی تھی اور اس ایک چلے کے لیے کسی تردد، کسی کوشش کی ضرورت نہ پڑتی تھی۔
مگر سکون۔۔۔
یہ کہا ں تھا؟۔ کیا یہ اسی دنیا میں موجود تھا؟۔۔۔ کیا یہ اسی دنیا کی کسی چیز کا نام تھا؟۔۔۔گر تھا۔۔۔تو کہاں تھا ؟
روح میں جلتا بھانبڑ کسی طور بھی کم نہ ہوتا تھا۔ وہ اب بھی پوری شدت کے ساتھ بھڑکتا تھا۔ بے چینی،بے قراری سلگتی تھی اپنی پوری قوت کے ساتھ۔
” اے روح!تیری تڑپ سخت ۔۔۔سخت ٹھہری تیری تڑپ۔”
اب کی بار وہ چھوڑکرجاتا تو جاتا کہاں؟۔ تو وہ ڈٹ گیا،اڑ گیا اور فاقے کیے گیا۔
ایک دو تین کی گنتی کئے بغیر
دن اور رات کی تمیز کئے بغیر
لگاتار۔۔۔مسلسل۔۔۔ دھڑادھڑ۔۔۔ یوں کہ جیسے ہر چیز سے بالا ہو گیا ہو۔
*****
پھر۔۔۔ اس کے بعد یوں ہوا کہ سادھو نے ایک سفر کا قصد کیا۔ اس نے شاگردوں کی ایک جماعت تیار کی۔ اپنا ڈیرہ راج گڑھ سے اٹھایا اور دوسرے شہر کا رخ کیا۔ سدھارتھ اتنا لاغر ہو چکا تھا کہ سفر اس کے لیے مشکل تھا۔ وہ لوگ قافلے کی شکل میں یا پیادہ روانہ ہوئے تھے۔ سادھو کی پیروی میں وہ سب کسی انجان شہر کو نکلے تھے۔ راستے میں دریا آیا سب نے اس کی کم ترین سطح سے عبور کیا پانی گھٹنوں تک آتا تھا اور وہ سب آسمان کی بلندی سے ایک لکیر کی سی صورت چلتے نظر آتے تھے۔ سدھارتھ سب سے پیچھے تھا۔ فاقوں نے ہمت کو جیسے نچوڑ کر رکھ دیا تھا۔ وہ اپنی پوری کوشش میں تھا کہ قافلے والوں کے ساتھ ہم قدم ہو کر چل سکے مگر اپنے پیروں کی سکت کو ختم پاتا تھا۔ اس کا فاصلہ قافلے والوں سے ہر ساعت کے وقفے سے زیادہ ہو رہا تھا۔ فاصلہ بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ اور پھر۔۔۔۔۔
*****
سفید رنگ۔۔۔
یہ ظاہر کرتا ہے پاکیزگی کو۔ امن کو۔ حالت سکون کو۔ یہ جامعیت کو منعکس کرتا ہے۔کاملیت کو ظاہر کرتا ہے۔سفید رنگ کے اندر سارے رنگوں کی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ یہ تمام رنگوں کی منفی اور مثبت خصوصیات کو جذب کر لیتا ہے، جیسے کہ سوچ ۔ جیسے کہ خیال، تخیل، گمان ، تصور۔ سوچ کے اندر بھی تو بہت کچھ منفی اور مثبت چھپا ہوتا ہے۔ سوچ بھی اپنے بہت سے جذبات و احساسات سمو لیتی ہے ۔ لیکن یہ اپنے اند ر ایک جذبہ، ایک احساس نہیں سمو پاتی جیسے کہ سفید رنگ اپنے اندر ایک رنگ نہیں سمو پاتا، وہ اس رنگ کو اُگل دیتا ہے۔ وہ اس رنگ کوقبول نہیں کر پاتاجوجا بہ جا سوچ کے دودھیا بدن پہ ظاہر ہو تا ہے۔ چیچک کے بدنما داغوں کی طرح۔ بد صورت اور کریہہ داغ۔ یہ بگاڑ کر رکھ دیتا ہے سوچ کے خوب صورت بدن کو۔ سفید رنگ کی پاکیزگی کو آلودہ اورغلیظ کر دیتا ہے ۔جیسے سوچ اس جذبے کو قبول نہیں کر پاتی ویسے ہی سفید رنگ بھی اس رنگ سے منکر ہو جاتا ہے۔
اور وہ رنگ بھلا کون سا ہے؟
وہی رنگ جو ”غم”کا رنگ کہلاتا ہے۔
*****
وہ دریا کے عین وسط میں کھڑا تھا۔ پانی اس کے گھٹنوں کو چھو چھو کر گزر رہا تھا۔وہ چندھی آنکھوں کے ساتھ اپنے اور اپنے ساتھیوں کے بیچ کے فاصلے کو ماپتا تھا اور اپنے پیروں کی سکت کو ختم پاتا تھا۔ اس نے ایک گہرا سانس بھر کر ہمت یکجا کرنا چاہی لیکن یکایک اس کی بینائی کو اندھیرے نے ڈھانپ لیا اور اسے ہوش سے بیگانہ کر دیا۔ سدھارتھ کا سر چکرایا اور وہ دھڑام سے پانی میں جا گرا ۔ آواز ابھری تھی لیکن فاصلہ رکاوٹ بن کر اس کے اور اس کے ساتھیوں کے مابین آن کھڑا ہوا تھا۔وہ پانی کے اندر اوندھے منہ گراپڑا تھا۔ بے حسں و حرکت۔۔۔ ساکت۔۔۔نیم جان یوں کہ جیسے مر گیا ہو۔ مدہم مدہم سی چلتی سانسیں دو ہاتھوں کی منتظر تھی۔۔۔ وہ ہی دو ہاتھ جو کہ کسی مسیحا کے ہوتے ۔ اور مسیحا ۔۔۔
وہ گاؤں کی پگڈنڈی پہ ۔۔۔ پانی کی گاگر کمر سے ٹکائے۔۔۔ پیروں کو آگے پیچھے ایک توازن سے رکھتے ہوئے لہرا لہرا کر چلتی ،شاید کوئی بھجن گنگنا رہی تھی ۔ سر پہ اوڑھا دوپٹہ اس کی چال کے ساتھ ساتھ لہراتا تھا۔ وہ پانی بھرنے دریا تک آئی تھی۔ دریا کنارے بیٹھتے ہوئے اس نے گھاگھرے کو سمیٹا اور گاگر کے منہ کو دریا کے ساتھ لگا کر پانی بھرنے لگی تھی۔ وہ ابھی بھی ایک ترنگ کے ساتھ بھجن گا رہی تھی۔ اور قریب تھا کہ پانی کا کوئی ریلاسدھارتھ کو بہا لے جاتاکہ۔۔۔۔۔
گر موت کے سو بہانے ہوتے ہیں تو زندگی کے ایک سو ایک۔ زندگی خود اپنی بقا کے راستے تلاش کر لیتی ہے۔ وہ کنیا پانی بھرنے آئی تھی۔ گاگر بھر کر اٹھی اور بالکل اچانک۔۔۔ لاشعوری طور پہ اس کی نظر اس پانی میں گرے ، بے ہوش وجود پہ جا پڑی تھی جس کے نیم جان وجود میں زندگی اپنی بقا کو پکارتی تھی۔ کنیا کے ہاتھ سے یکدم گاگر چھوٹی۔ بے اختیار اس نے اپنے پاؤں پانی میں ڈالے تھے۔ گھاگھرے کو دونوں ہاتھوں سے اٹھائے وہ تیزی سے بھاگتی تھی۔ پھر اس نے سدھارتھ کو پانی سے نکالا اور اس کی جان بچانے کی سب تدابیر کی۔
وہ اس نیم مردہ شخص کو کھینچ کھانچ کرکنارے تک لائی ۔ ذرا سی کوشش کے بعد سدھارتھ کو ہوش آگیا تھا۔ کنیا نے دونوں ہاتھ جوڑ کر آسمان کی طرف منہ کر کے شکر ادا کیا تھا۔ وہ سدھارتھ کو اپنے جھونپڑے تک لے آئی تھی۔ اس نے سدھارتھ کو کھانا دیا اور وہ۔۔۔ وہ بھوکا۔۔۔ وہ جو ریاست کپل وستو کا یوراج تھا۔ وہ کہ جس کے قصر کی رسوئی سے زعفرانی کھانوں کی مہک آتی تھی۔ وہ کہ جس کا دسترخوان رنگ رنگ کے کھانوں سے بھرا رہتا تھا۔ وہ۔۔۔ وہ اس عام سے کھانے پہ ٹوٹ پڑا۔ اور وہ یوں کھاتا تھا کہ جیسے پہلی بار کھانا ملا ہو ۔ جیسے کہ پہلی بار ذائقہ چکھا ہو۔ وہ بد حواسی سے کھاتا تھا اس طرح کہ آدھا منہ میں اور آدھا نیچے۔
کہا ں کپل وستو کا محل۔۔اور۔۔کہا ں یہ جھونپڑا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

مستانی — منظر امام

Read Next

دانہ پانی — قسط نمبر ۸

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!