پنج فرمان — سحر ساجد

انسان بدلا نہیں چاہے پانچ سو قبل مسیح کاہو یا آج کا۔ فرق صرف "جدت” ہے۔لوگ تب بھی کام کیا کرتے تھے جیسے آج کیا کرتے ہیں۔راجا کے پاس ‘خبریں’ پہنچنے لگیں۔ لوگوں کے منہ افواہوں کو ہوا دینے لگے۔چہ می گوئیاں ہونے لگیں اور سب افواہوں، خبروں اور چہ می گوئیوں کے سرے سدھارتھ تک جاتے تھے۔
یوراج راتوں کو محل میں نہیںہوتے
یوراج کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں رہا
یوراج کو کوئی روگ لگ گیا ہے
یوراج بولتے نہیں ہیں۔۔۔
یوراج ریاست اور کارہائے ریاست پہ توجہ دیتے ہیں نہ ہی دل چسپی لیتے ہیں۔
یوراج کی سدھ بدھ ہی جانے لگی ہے ۔
غرض جتنے منہ اتنی ہی باتیں۔
راجا کو سب خبر تھی، وہ سب سنتا تھا ۔ وہم پھر سے اپنی جڑ اس کے دل میں پکڑتا تھا لیکن اطمینان کی ابھی ایک بات باقی تھی اور راجا اسی ایک بات سے اپنے لئے سکون کشید کرتا تھا۔
” اولاد سے بچ کر کہاں جا ؤگے پترا”
کہ اولاد بڑی چیز ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*****

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

” یوراج۔۔۔۔۔یوراج۔۔۔۔” ایک داسی اپنے گھاگھرے کو دونوں ہاتھوں سے سنبھالے، پھولی سانسوں کے ساتھ، سدھارتھ کے پیچھے بھاگتی چلی آرہی تھی اور اسے آوازیں دیتی تھی لیکن یوراج اپنی ہی دھن میں مگن ہو کر چلتے جاتے اور اس کی آواز نہ سنتے تھے۔
”یوراج۔۔۔۔ یوراج۔۔۔”وہ بھاگتی تھی اور پکارتی تھی۔
” یوراج!”اور پھر اس نے سدھارتھ کو جا لیا ۔
”یوراج۔۔۔ ” ہانپتے ہوئے ، خشک گلا تر کرتی، اپنی پھولی سانسوں پر قابو پاتی وہ سدھارتھ کے عین سامنے رک کر کہہ رہی تھی۔ سدھارتھ بھی رک کر اسے دیکھتے تھے۔
” بدھائی ہو۔۔۔ بدھائی ہو ،یوراج۔۔ آپ کا پوت اس دنیا میں آگیا ہے ۔” داسی خوشی میں ڈوبے لہجے میں اطلاع دیتی تھی اور یوراج۔۔۔ کیا وہ خوش تھے؟ کیا خوشی نے ان کے چہرے پہ بھی بہار دکھلائی تھی؟۔۔۔۔ نہیں۔۔۔۔ ایسا کچھ نہ تھا۔ یوراج تو فق رنگت کے ساتھ داسی کو بے یقینی سے دیکھتے تھے۔ خبر سنتے ہی وہ یوں ہو گئے کہ جیسے خون تک نچڑ گیا ہو۔ وہ مغموم سے نظر آتے تھے۔اولاد بڑ ی ظالم چیز ہے اور اس کی محبت۔۔۔ یہ اس سے بھی سخت چیز ہے۔ پیروں میں زنجیر کی طرح پڑتی ہے اور منہ کے بل گراتی ہے۔
یوراج کو خوشی تو تھی لیکن اس خوشی کو بھی ایک غم کھاگیا تھا۔
”مجھے اس رشتے کو بھی چھوڑنا پڑے گا!” وہ منہ ہی میں دکھ سے بڑبڑائے اور گلے سے ہار اتار کر داسی کی طرف اچھال دیا تھا۔ نوازے جانے پر وہ خوشی سے پھولی نہ سمائی ۔ نواز تو دیا تھا لیکن اب۔۔۔۔۔
” نہ زر۔۔۔نہ زن۔۔۔اور نہ زمیں۔۔۔”
*****
سات رنگ ۔۔۔دھنک کے رنگ اور یہ رنگ بھلا کیسے نکھر کر سامنے آتے ہیں۔
بارش کے شفاف قطرے پہ اگر سورج کی شعاع پڑے تو وہ اپنے اندر چھپے سارے رنگ منعکس کر دیتا ہے۔ اور قوس قزح کے رنگ نکھر کر سامنے آ جاتے ہیں۔ ۔ سات دلفریب ، دل کش ر نگ ۔ آسمان کے سینے پہ بکھرے ہوئے حسین رنگ۔ اک ننھا سا قطرہ۔۔۔ اتنا حسین منظر آسمان پہ بکھیر دیتا ہے اور۔۔۔ اور قطرے کا رنگ؟؟؟۔۔۔
بے رنگ۔۔۔ سات رنگوں سے مل کر بنا قطرہ بے رنگ۔۔۔ لیکن۔۔۔ سات رنگوں سے مل کر بنتا ہے ایک اور رنگ۔۔۔۔
وہ کہ جسے کہتے ہیں سفید رنگ۔۔۔
*****
” چنا!۔۔”
” حکم یوراج۔۔۔۔”
” رتھ تیا ر کرواؤ۔۔۔”اس حکم پہ چنا نے چونک کر یوراج کو دیکھا تھا۔ رات کے اس پہر ؟اس نے پوچھنا چاہا مگر خاموش رہا۔
”تعمیل ہوگی یوراج”۔ سدھارتھ نے ایک گہرا سانس بھر کر اس باوفا داس کو دیکھا اور محل کی جانب چل دیئے۔
رات کا دوسرا پہر۔۔۔ اپنے تیسرے پہر سے ملنے کو بے تاب تھا۔ ہوا ہلکورے لے لے کر چلتی تھی اور نیند پورے قصر پہ راج کرتی تھی۔ وہ پہرے داروں کی آنکھوں میں بھی دکھائی دیتی تھی مگر انہیں حکم’مجبور کرتا تھا۔ ایسے میں ایک خواب گاہ کا دروازہ ہلکی سی چرر کی آواز سے کھلا تھا۔ داسیاں اور راجکماری بے سدھ سوتی تھیں۔ یوراج یہاں آنا نہیں چاہتے تھے۔ لیکن اولاد۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دبے پاؤں آگے بڑھے، اپنے پوت کے قریب ہوئے جو یشودھرا کے پہلو میں سورہا تھا۔ دونوں ہاتھ پشت پہ باندھے وہ یک ٹک اپنے عزیزاز جان کو دیکھتا تھا اور درد کی لہروں کو اپنی آنکھوں سے بہنے سے روکتا تھا۔ پھر یکا یک سدھارتھ کا دل اس قدر مچلا کہ اس کے ہاتھ بے اختیار اپنے پوت کی طرف بڑھے تھے۔ باپ کی محبت نے بھرپور انگڑائی لی تھی۔ وہ اسے گود میں لینا چاہتے تھے۔ اسے چومنا چاہتے تھے۔ لیکن۔۔۔ ہاتھ جس تیزی سے بڑھے تھے اسی تیزی سے رک سے گئے تھے۔ وہ یاد کے نام پہ کوئی ”بچھو”اپنے ساتھ نہیں لے کر جانا چاہتا تھا وہ بھی ایسا کہ جس کے زہر سے وہ ساری عمر شفایاب ہی نہ ہوپاتا۔ سدھارتھ نے بڑھے ہوئے ہاتھوں کی مٹھیاں کس لیں۔ ہونٹ بھینچ کر اور کرب سے آنکھیں بند کر کے ہاتھ پیچھے ہٹا لئے۔
” نہیں۔۔۔نہیں ۔۔۔ پھر ہونٹ تر سا کریں گے اسی لمس کے واسطے۔ نہیں نہیں۔۔۔ ہرگز نہیں۔”تیزی سے وہ الٹے قدموں مڑے تھے اور خواب گاہ سے باہر نکل آئے۔ محافظوں نے یوراج کو یوں جاتا دیکھ کر حیرانی سے ایک دوسرے کو دیکھا تھا۔ اور پھر سے چو کس ہو کر کھڑے ہو گئے تھے کہ یوراج جانے اور اس کے کام۔۔۔۔
*****
”اور رات جا ملی اپنے تیسرے پہر سے۔۔۔”
ایسے میں ایک رتھ محل سے باہر کے راستوں پہ دوڑتی نظر آئی تھی۔ چندرا کی چاندنی جوبن پہ تھی۔ کیسی چٹک کر پھیلی تھی۔ ہوا مدھر سروں میں گیت گنگناتی تھی۔ رات کے اس پہر گھوڑوں کی ٹاپیں گونجتی اور دور تلک سنائی دیتی تھیں۔ چٹکی چاندنی میں رتھ پہ سوار دو افراد دیکھے جا سکتے تھے۔ ایک چنا اور دوسرے یوراج سدھارتھ۔
سدھارتھ کا سر جھکا ہوا تھا اور چہرے کے تاثرات جانچنے مشکل تھے۔ ذرا دیر بعد سدھارتھ نے آسمان کی طرف منہ اٹھا کر اک ٹھنڈا سانس بھرا تھا۔ اس کی پشت پہ محل تھا جو ہر ساعت اس سے دور ہو رہا تھا اور اس لمحہ بہ لمحہ دوری کے باعث دل سے جڑے رشتوں اور یادوں کے دھاگے ایک ایک کر کے ٹو ٹتے چلے جا رہے تھے۔ ہراک کے ٹوٹنے پہ شدید تکلیف ہوتی تھی۔ درد اٹھتا تھا۔ رنج یوراج سے کہتا تھا کہ رک جاؤ۔۔۔ ٹھہر جاؤ۔۔۔حکم دو کہ گھوڑوں کے سم روکے جائیں۔۔۔ حکم دو کہ رخ بدلا جائے اور سواری کو وہاں لے جایا جائے کہ جہاں رشتے بستے ہیں۔ مگر۔۔۔۔
تف ہے اس تلاش کی جستجو پہ۔۔۔ اس بے قراری پہ جس نے پیروں کے نیچے آگ جلا رکھی تھی۔ چار لفظو ں پہ مشتمل ایک سوال تھا ۔
”زندگی کیا ۔۔۔۔کس لئے؟۔۔۔”
چار لفظ۔۔۔ کیا یہ محض چار لفظ تھے؟۔۔۔۔ نہیں۔۔۔یہ تو ایک مقصد حیات تھا۔ وہ ہی جس کے لئے محل چھوڑا تھا۔ کیا نہیں تھا یوراج کے پاس؟؟؟ محل ، داسیاں، عیش و آرام، اولاد، ماں باپ، اور محبت۔۔۔۔ اور یوراج ہونا بذات خود ایک بڑی کشش ہے ؟ لیکن ہوا کیا؟۔۔۔ اک آگ جلی اور اس نے سب کچھ بھسم کر ڈالا۔ سکون برباد ہوا۔۔۔سکون کے سب معنی غرق ہوئے۔ اسے کیا مطلوب تھا جس کے لئے سب کچھ چھوڑا؟؟ اسے کوئی مشکل نہ تھی کہ وہ بھی ویسی ہی زندگی جی لیتے جیسی آج تک سبھی راجے،مہاراجے اور یوراج جیتے آئے ہیں۔۔۔ باپ مرتا۔۔۔ وہ تخت نشیں ہوتے۔ ایک اعلیٰ زندگی بسر کرتے۔ داسیاں، مہارانیاں ہوتیں۔۔۔اولاد ہوتی ۔۔۔حکمرانی کرتے اور پھر۔۔۔ پھر مر جاتے۔ قصہ تمام۔۔۔ ختم شد۔ لیکن ہوا کیا؟۔۔۔۔۔
"یہ جو روح ہوتی ہے نا۔۔۔ پانچ سو قبل مسیح کی ہو ، دو ہزار سولہ یا کہ تین ہزار سولہ کی ۔”
اس کا سکون۔۔۔ راحت کبھی بھی مادی چیزوں میں نہیں رہا ۔ روح عقل کو پس ِ پشت ڈال کر دل کو سامنے لے آتی ہے اور پھرانسان سے وہ کام کرواتی ہے جسے ” سکون کی تلاش” کہتے ہیں۔۔
تو ایک یوراج نے بھی اپنے حسب نسب ، عیش و عشرت اور رشتوں پہ لات ماری اور روح کے حکم پہ نکل کھڑا ہوا ۔ بیمار کو شفا چاہئے اور ہو گا کہیں علاج۔۔۔ کہیں نہ کہیں تو ہو گا ہی۔۔۔۔ اور تلاش تھی اسی علاج کی۔
*****
رَتھ نے کپل وستو کی راجدھانی کو چھوڑا۔ ہان ندی آئی۔ گھوڑے پانی میں اترے ، شڑپ کی زور دار آواز آئی اور دکھ سوا نیزے پہ آیا۔ یوراج مجبور ہوئے، مڑ کر اک نظر کپل وستو پہ ڈالی اور جب وہ یوں مڑ کر کپل وستو کو دیکھتے تھے تو وہ منظر دھندلا سا گیا تھا۔ سکت نے چاہا کہ وہ ختم ہو جائے، رنج نے چاہا کہ وہ سدھارتھ کو ڈھادے اور اس کے سینے پہ سوار ہوجائے مگر ۔۔۔ آہ۔۔۔ آہ کہ یہ تلا ش۔۔۔
”اے روح !تیری تڑپ سخت۔۔۔۔ سخت ٹھہری تیری تڑپ۔۔۔۔”
گھوڑوں کے سم پانی کے چھینٹے اڑاتے تھے، شڑپ ،شڑپ کی آوازیں ابھرتی تھیں اور ندی کا سفر کٹتا تھا۔ پھر کولین قبیلہ بھی پار ہوا۔ رتھ چلتی رہی۔ مختلف علاقوں سے گزرتی رہی۔
” رتھ روک دو چنا”۔۔۔۔ یکایک حکم ہوا۔
لگامیں کھینچی گئیں۔ رفتا ر آہستہ ہوئی۔ ٹاپوں کی آواز مدہم ہوتے ہوتے بالکل ختم ہو گئی تھی۔ فضا میں ہر طرف سکوت چھا گیا تھا۔ اک مہیب سا سناٹا تھا اور بس۔۔۔ رتھ روک دی گئی تھی۔سدھارتھ نے آنکھیں بند کرکے رنج حلق سے اتارا ، ضبط کو پیا اور حو صلے کو آواز دی تھی۔ سب داس سر جھکائے اداس سا کھڑا تھا۔ فیصلہ تو تبھی ہو چکا جب رتھ نے محل کوچھوڑا تھا ،اب تو عمل کا وقت تھا۔ سدھارتھ چند ثانیہ بے حس و حرکت کھڑے رہے اور پھر ہاتھ حر کت میں آئے تھے۔ پہلے گلے سے مالائیں اتریں، بازوؤں اور کانوں کے سب پہناوے بھی اتارے گئے۔ شاہی لباس بھی اتار دیا گیا۔ ایک عام سی چادر جسم پر باندھی اور دوسری کی بکل مار لی۔ اور بس۔۔
یوراج وہیں پہ، اسی رتھ کے پاس، شاہی لباس کے بدلتے ہی ۔۔۔ختم ہو گیا تھا، اب وہ سدھارتھ تھا۔ بس سدھارتھ۔۔۔ اک عام سا انسان اور بس۔۔۔۔سب ختم ہوا ۔ سدھارتھ نے یوراج کودفن کردیا۔ اور اب وہ کوئی ”یوراج”نہ تھا۔ اب سے وہ کچھ اور تھا۔
”چنا !یہ لو اور جا کر پتا جی کو دینا اور کہنا۔۔۔ معافی کا طلبگار ہوں۔ میری منزل وہ نہ تھی کہ جو انہوں نے متعین کر رکھی تھی۔ میں حکومت کے لیے پیدا نہیں کیا گیا۔ میرا مقصد حیات کچھ اور ہے اور یہ ہی میری تلاش ہے۔ جا ؤ، چلے جاؤ۔۔”سدھارتھ نے یوراج کی شایانِ شان سب چیزیں چنا کے حوالے کیں۔ اس باوفا ملازم نے بنا چوں چرا کئے وہ سب چیزیں پکڑ کر سینے سے لگا لی تھیں۔ آنکھیں نم تھیں، من کہتا تھا کہ وہ یوراج کو روک لے یا پھر راجا کو بھی اطلاع کر سکتا تھا وہ لیکن وہ یوراج کے حکم کے خلاف کیسے جاتا؟؟
گھوڑوں کی لگامیں پھر سے کھینچی گئیں۔ اب کے اشارہ چلنے کا تھا۔ گھوڑوں نے اپنی اگلی دونوں ٹانگیں اٹھائیں ہنہنائے اور سم زمین پہ دے مارے۔ مٹی اڑی، دھول پھیل سی گئی ۔رتھ کا رخ بدلا۔۔۔ سواری کو چلانے والا منتظر کھڑا تھا اور چنا پیروں کو روکے دو چادروں میں ملبوس شخص کو دیکھتا اور اس میں سے یوراج کو ڈھونڈتا تھا۔ پھر چنا نے آگے بڑھ کر سدھارتھ کے ہاتھ چومے اور انہیں آنکھوں سے لگایا۔ آنسو بے تاب تھے مگر وہ انہیں بہنے نہیں دینا چاہتا تھا۔ سدھارتھ نے اس کی پشت پہ تھپکی دی اور اس تھپکی میں اک حوصلہ تھا۔ چنا رخصت ہو کر رتھ پہ سوار ہوا ، ہاتھ اٹھا کر الوداع کہا۔دو چادروں میں ملبوس شخص نے بھی ہاتھ اٹھا کر جواب دیا اور پھر دونوں نے پشت پھیر لی، رخ بدل لیا اک دوسرے سے۔ رتھ کپل وستو کی طرف جاتی تھی اور چادروں میں ملبوس شخص ۔۔۔ وہ کدھر کو جاتا تھا؟۔۔۔۔ وہ۔۔۔۔ وہ ” راج گڑھ ”کو جاتا تھا۔
*****

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

72 views , 1 views today

Read Previous

مستانی — منظر امام

Read Next

دانہ پانی — قسط نمبر ۸

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!