پنج فرمان — سحر ساجد

ہائے! بے چاری راج کماری ۔۔۔ دکھیاری راج کماری
اس کے سینے پہ سانپ لوٹتے تھے۔یوراج اچھے بھلے اس کے ساتھ سفر پہ نکلے تھے۔۔۔ بس ذرا سی دیر کو باہرنکلے اور کایا ایسی پلٹی کہ یشودھرا کا سدھارتھ، وہیں کہیں اس جھونپڑے کے پاس ہی رہ گیا۔ جو واپس آئے وہ یوراج تو نہ تھے، کوئی اور تھے۔ اس نے کئی خادموں کو یوراج کی جاسوسی پہ لگایا کہ کہیں کوئی اور عورت تو یوراج کی زندگی میں نہیں آگئی تھی۔ کوئی اور عورت؟۔۔۔۔ یہ کیسے ہو سکتا تھا بھلا۔ کوئی اور عورت یشودھرا کا توڑ نہیں ہو سکتی تھی۔ وہ تھی اور بس وہ ہی تھی۔ مگر یہ معاملہ کسی عورت کا نہیں تھا۔ وہ کئی سال یشودھرا کے حسن میں مست رہے تھے۔اور اب یوں اچانک ۔۔۔ اس طرح سے، اتنے سال بعد۔۔۔ کیا آفت آن پڑی تھی کہ یوراج سدھارتھ۔۔ راجکماری کی طرف نظر اُٹھا کر نہ دیکھتے تھے۔”ہجر”یشودھرا کو مارنے لگا۔ فراق کوڑے برسانے لگا اور وہ غم کی تصویر بن گئی اور پھر۔۔
پھر ایک دن جب غم حد سے سوا ہو گیا۔ برداشت ٹوٹ کر بکھر گئی تو وہ یوراج کے سامنے تن کر کھڑی ہو گئی وہ یشودھرا نہ تھی جو یوں تن کر کھڑی تھی۔ وہ۔۔۔۔وہ تومحبت تھی۔
” یشودھر! ۔۔۔ ہٹ جائیے۔”اس کے حسین چہرے کو کچھ دیر تکنے کے بعد سد ھارتھ بولے تھے۔
” یوراج!۔۔۔ اب اگر یہاں سے ہمیں کوئی ہٹائے تو موت ہی ہٹائے” محبت ہو اور اس پہ غصہ اور غصہ بھی وہ ،جو غم کا پالاہو سدھارتھ نے ہاتھ پشت پہ باندھتے ہوئے ایک گہرا سانس لیا کہ اب اسے کیا سمجھائے۔۔۔ کچھ کہے بھی تو آخر کیا کہے؟؟؟۔۔۔۔
یشودھرا تن کر اس کے سامنے کھڑی تھی۔ مارے طیش کے اس کے نتھنے پھڑپھڑاتے تھے اور سینے سے خر خر کی آوازیں آتی تھیں۔
” یوراج !۔۔۔ اپنے ہاتھوں سے ہماری بلی چڑھا دیں لیکن ہمارے ساتھ یوں تو نہ کریں” اب کے وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی تھی۔ یوراج کا دل پسیجا، پگھلا اور پگھل کر پھر سے یشودھرا کے قدموں میں بہنے کو تیار نظر آیا لیکن۔۔۔۔۔
راج کماری آج بھی اتنی ہی حسین تھی مگراس بار حسن کے مقابلے میں زیادہ زور آور تھی۔ یہ جو بے چینی ہوتی ہے نا۔۔۔ بے قراری۔۔۔ یہ پیروں تلے جلنے والی آگ ہوتی ہے جو کسی طرح سے سکون لینے نہیں دیتی۔ دل جلتا ہے اور ٹھنڈک کہیں سے نہیں پہنچتی۔۔۔ کہیں سے نہیں ملتی۔ یوں سمجھئے کہ یوراج کو اضطراب کے دورے پڑتے تھے۔ وہ سینہ مسلتے، سکون کی تلاش میں مارے مارے پھرتے اور بھول جاتے تھے کہ کوئی یشودھرا بھی تھی۔
ہا۔۔۔۔ یشودھرا کی قسمت۔۔۔۔۔
سدھارتھ نے نم آنکھوں سے اس غم زدہ کو دیکھا اور پھر پہلو بچا کر نکل گئے۔ محبت ہو ا ہوئی۔۔۔ ماضی کا قصہ ٹھہری۔وہاں دفن ہوئی۔۔۔ جہاں سے اس کا نشان تک نہ ملتا تھا۔ اور یشودھرا یوں دم سادھے کھڑی رہی جیسے حنوط شدہ لاش ہو۔۔۔ یا پھر صدیوں بعد کہیں سے دریافت ہونے والا کوئی مجسمہ۔ حیرانی اس کی آنکھ میں ٹھہر سی گئی تھی۔ دکھ کو دل نے سہنے سے انکار کردیا تھا۔
”ہائے” کہہ کر راج کماری نے سینے پہ ہاتھ مارا، لب آہستہ سے ، بے آواز ہلے۔”سدھارتھ”
اور پھر۔۔۔۔۔۔
وہ لہرا کر گری اور گر کر ہوش سے بے گانہ ہو گئی۔
*****

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

ایسا کیا ہواتھا کہ یوراج اس حال کو آن پہنچے کہ راج کماری کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھتے تھے۔ جو بھی ہوا تھا، اسی جھونپڑے کے پاس ہواتھا۔ تو آخر ہوا کیا تھا؟؟؟۔۔۔۔۔۔
”یوراج حیران ہوئے کہ اس ویرانے کو آباد کرنے والا کون؟۔۔۔”
وہ آگے بڑھے اور بڑھ کر جھانکا۔ وہاں کیا تھا؟ وہاں کون تھا؟ ۔۔وہاں ۔۔وہاں ایک سادھو کا ڈیرہ تھا جو جسم پر گھٹنوں تک ایک چادر لپیٹے ہوئے تھا۔ یوراج تجسس کے مارے اندر چلے گئے ۔
”تم کون ہو؟”سوال ہوا۔
” میں’تم’ہوں”۔جواب آیا۔
” ہم سمجھے نہیں۔۔۔”
”تم سمجھ سکتے بھی نہیں۔۔”
” کیوں؟؟؟۔۔۔”
”تمہارے ذہن پہ اس نے پردہ ڈال رکھا ہے۔۔۔”سادھو نے سدھارتھ کے گلے میں موجود موٹی موٹی طلائی مالاؤں پر اپنی چھڑی مارتے ہوئے کہا تھا۔
”اس نے؟۔۔”یوراج ایک مالا کو اٹھا کر اونچا کرتے ہوئے ، حیران ہو کر کہا۔
”یہ تو قیمتی جواہرات ہیں۔۔۔”حیرت کچھ اور بڑھی۔
” دیکھا ۔۔۔ دیکھا میں نے کہا تھا ناں کہ اس نے پردہ ڈال رکھا ہے اور تم بے وقعت ٹھیکریوں کو جواہرات کہتے ہو۔”سا دھو جیسے خوش ہو اتھا۔
”ٹھیکریاں ؟۔۔۔ یہ اگر ٹھیکریاں ہیں تو پھر جواہرات کیا ہیں؟”سدھارتھ کو اب اس کی با تیں ناگوار گزری تھیں۔ تیوری چڑھ چکی تھی۔
”جواہرات۔۔۔ وہ ہی جس کے لئے یہ ویرانہ آباد کیا ہے”۔۔۔سادھو نے دونوں ہاتھ پھیلا کر کہا تھا۔
”کیا؟۔۔۔ کس لئے؟۔۔۔”یوراج اب جلال میں آ ئے تھے۔
” زندگی کیا؟۔۔۔ کس لئے؟۔۔۔”ترنت جواب موصول ہوا تھا۔
اور وہ سوال نہ تھا۔۔۔کوئی سُن کر دینے والی چیز تھی۔ عین دل کے مقام پہ جا لگا تھاوہ سوال۔ سدھارتھ بھی سن ہو کر رہ گئے تھے یوں جیسے وہ سوال نہ تھا کوئی ناگہانی آفت تھی۔۔۔ سدھارتھ اب یوں دکھائی دیتے تھے کہ گویا بولنے کی نعمت سے محروم ہوں۔
” زندگی کیا؟۔۔۔ کس لئے؟۔۔۔”وہ ہلکے سے بڑ بڑائے تھے۔
اک لمحے کی کہانی تھی اور بس۔۔۔۔ ابھی چند گھڑیا ں پہلے تک تو وہ مسکراتے تھے اور اب زندگی نے وہ پلٹا کھایا کہ وہی سوال لا کر سامنے پٹخ ڈالا جسے حسن نے بھلا دیا اور زندگی نے پھر سے یاد دلا دیا تھا۔
اور یہ زندگی۔۔۔۔
”اُف! اس سے بڑھ کر تلخ چیز اور کوئی نہیں۔”
” زندگی کیا؟۔۔۔ کس لئے؟۔۔۔”سدھارتھ نے اب کے بیٹھی ہوئی آواز میں سادھو سے پوچھا تھا۔ جلال یوں رخصت ہو ا گویا جھاگ تھا۔
”جا ؤاور جا کر تلاش کرو۔۔۔ زندگی کیا اور کس لئے ۔۔۔ جواب لفظوں میں نہ ملے گا۔۔۔ جواب صرف اور صرف تلاش میں ملے گا۔۔۔”
اک لمحے کی ہی تو کہانی تھی۔
اور بس۔۔۔۔
سب کچھ اُلٹ پلٹ ہو گیا ۔ حُسن اپنی اہمیت کھو بیٹھا ۔یوراج سدھارتھ کے پیروں تلے وہ آگ لگی کہ جسے بے چینی و بے قراری کہہ کر پکارا جاتا ہے۔
” اک لمحے ہی کی تو کہانی تھی اور بس۔۔۔۔”
*****
داسیاں بھاگتی آئیں۔پائلوں اور کنگنوں کی چھنک اور کھنک میں ”عجلت”سنائی دیتی تھی۔ وہ اس طرف بھاگتی تھیں جس طرف راج کماری بے ہوش گری پڑی تھی۔ یشودھرا کو اٹھا کر آرام گاہ میں پہنچایا گیا تھا۔ کوئی پیر ملتی تھی تو کوئی دوپٹے کے پلو سے ہوا جھلتی تھی۔
”ہائے۔۔ہائے راج کماری کو کیا ہوا؟۔۔۔کیا ہوا؟؟؟۔۔۔”
ان کو کیا معلوم کہ کیا ہوا۔ محبت کا وار ہوا تھا اور کڑا وار ہوا تھا۔ راج کماری کے گل بہار جیسے ہونٹ یک دم سیاہ سے پڑنے لگے تھے۔ رنگت پہ بے جان سی سفیدی چھا گئی ۔ سانس کو سینے پہ کان دھر کر سننا پڑتا تھا۔ اور داسیاں بھاگتی تھیں۔ ٹوٹکے کرتی تھیں۔ اپنے پلوں سے ہوا جھلتی تھیں، تلوے ملتی تھیں۔
” ہائے۔۔۔ہائے یہ راجکماری کو کیا ہوا۔۔۔ کیا ہوا؟؟؟۔۔”
یشودھرا کا پورا جسم ٹھنڈے پسینے میں بھیگا ہوا تھا۔ وہ بے دم نظر آتی تھی۔ پیلاہٹ میں نہائی ہوئی دکھتی تھیں اور داسیاں جب وید کو بلانے کے لئے بھاگتیں تو ان کی پائلوں اور کنگنوں کی چھنک میں عجلت سنائی دیتی تھی۔
*****
کپل وستو کے مستقبل کی خبر سنائی گئی جسے سن کر سدھارتھ کو خوش ہونا چاہیے تھا۔ ان کے چہرے پہ مسکراہٹ کھل کر بکھرنی چاہیے تھی ۔ خوشی کا اظہار ہونا چاہیے تھا اور بھر پور طریقے سے ہونا چاہیے تھا۔ لیکن یہ کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یوں لگتا تھا جیسے یوراج کا چہرہ مارے غم کے ڈھلک سا گیا ہو۔ بے حد گہری سوچوں اور تفکرات نے ان کے چہرے کوڈھانپ رکھا تھا ۔ مسکراہٹ تو کبھی ان کے چہرے پہ آئی ہی نہیں۔یہ کیسی خبر سن لی تھی کہ مارے رنج کے کندھے جھک سے گئے تھے اور وہ خبر سنانے والی داسی کو بنا نوازے ہی مڑ گئے تھے۔ یشودھرا کی طرف ایک دفعہ پھر سے آنکھ اٹھا کر نہ دیکھا اوردروازے سے ہی پلٹ گئے تھے۔ داسی حیرت کے مارے یوراج کو جاتا دیکھتی رہی۔
”لیلا ! ۔۔۔”یشودھرا نے مسکراتے ہوئے داسی کو پکارا تھا۔
داسی ہاتھ باندھے مڑی اور بولی: ”حکم راج کماری ”۔
اپنی سیج پہ نیم دراز یشودھرا کے ہونٹوں کی مسکراہٹ میں اک نازجھلکتا تھا۔ اس نے اپنے ہاتھ کے زیور اتارے اور داسی کی طرف اچھال دیئے۔ وہ بے اختیارخوش ہوئی اور شادمانی کے شعر کہنے لگی تھی۔ یشودھرا مسکراتی رہی اور اس کی آنکھ سے مستی چھلک چھلک پڑتی تھی اور وہ مستی کہتی تھی۔۔
” بچ کے کہاں جا ؤگے یوراج۔۔۔ بھلا بتا ؤ تو سہی اب اورکہاں۔۔۔ کس طرح۔۔۔ کہ اولاد سے بڑی اور مضبوط کوئی زنجیر اورہے کیا؟۔۔۔”
یشودھرا کے لب مسکراتے اور مسکرا مسکرا کر یوراج کو چیلنج کرتے تھے کہ۔۔۔۔
”کہاں تک اور کب تک۔۔”
*****
ایک زمانہ بیت گیا۔ پیروں تلے لگی آگ کو ٹھنڈک کا کوئی وسیلہ نہ ملا۔ وہ پہلے سے کہیں زیادہ تیزی کے ساتھ بھڑکتی ۔ من کو ہلکان کرتی تھی اور روح کو نوچتی تھی۔
”زندگی کیا۔۔۔کس لئے؟” اور سدھارتھ فکر کی سوما پیتا تھا۔
یہ سوال نہیں تھا مکڑی کے منہ سے نکلنے والا جالا بننے کاتار تھا جس میں اس کا دل جکڑا جاتا تھا۔
”اور دل ۔۔۔سارا فساد اسی کا تو ہے۔۔۔”
کہنے کو ذرا سا لوتھڑا مگر کام وہ وہ کرتا ہے کہ بس۔۔۔۔۔۔۔
وہ غدر مچائے کہ بس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”ہونہہ ۔۔۔ فسادی کہیں کا۔”
یہ فسادی سدھارتھ کو بھی چین نہیں لینے دیتا تھا۔اس نے سدھارتھ سے بھی وہ وہ کام کروانے تھے کہ بس۔۔۔
ایسے کام کہ تاریخ میں لکھا جانا تھا”پانچ سو یا پھر شاید چھے سو قبل مسیح۔۔۔ راجا بمبسار کے دور میں۔۔۔جب کپل وستو کی ریاست میں شدودھن حکومت کرتا تھا تو۔۔۔”
*****

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

مستانی — منظر امام

Read Next

دانہ پانی — قسط نمبر ۸

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!