پنج فرمان — سحر ساجد

خبر کے لئے مشہور ہے کہ وہ جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی ہے۔مگر کیا ہے کہ یہ خبر تو اس سے بھی کہیں زیادہ چست رفتاری سے پھیلتی ہے۔ سو وہ اپنی پوری رفتار کے ساتھ پھیلی اور راجا تک جا پہنچی۔ اور یہ خبر بھلا کیاتھی؟
یہ سدھارتھ کا حال تھا جو کہ خبر کی صورت پھیلا اور جا پہنچا راجا شدودھن کے پاس۔ وہم تو کب سے لاحق تھا راجا کو مگر اب یوں لگتا تھا کہ یہ حقیقت بن کر ہی ٹلے گا اور حقیقت بھی کیسی مانو سات منہ والا اژدھا جو اس کی وراثت کوکھا جائے گا۔ راجا کو کچھ نہیں سوجھتا تھا۔کیا طعام اور کیا جام۔ سب کچھ اس وہم نے بھلا کر رکھ دیا تھا۔ مستقبل ہاتھ سے جا رہا تھا، سب کچھ غرق ہونے چلا،کیا اس کا نام اور کیا حسب نسب۔ کپل وستو کا راجا۔۔۔ راجا شدودھن کا پوت۔۔۔ ساکھیہ قبیلے کا وارث۔۔۔۔
وہ اگرکوئی روحانی پیشوا بن گیا تو کیا ہو گا؟وہ مذہب کا پرچار کرنے کے لئے تو نہیں۔وہ ایک یوراج تھا یوراج۔۔۔ ایسا کیسے ہو سکتا تھا بھلا؟ کیسے؟اور شدودھن ایسا ہونے بھی کیسے دے سکتا تھا۔ وہ کپل وستو کاراجا تھا۔ وہ کیوں کرایسا ہونے دے سکتا تھا۔ ازل سے ایک اصول چلا آرہا ہے کہ ہر جوڑ کا ایک توڑ ہوا کرتا ہے اور ضرور ہی ہوا کرتا ہے۔
تو اس کا بھی ایک توڑ تھا۔۔۔
*****
اُسے اگر نا زنین کہا جاتا تو کم تھا۔ دل نشین پکارا جاتا تو اس کے سراپے کی مکمل تعریف نہ تھی ۔ حسین کہا جائے۔۔۔ تو جچتا نہ تھا۔ آخر وہ کیسا حسن تھا کہ جس کے لیے ڈھیروں الفاظ بھی کم پڑنے لگے تھے۔ آخر وہ کو ن تھی ؟
وہ۔۔۔ وہ “یشودھرا” تھی کہ جس کے لیے اور جس پہ محض ایک ہی لفظ سجتا تھا۔
” مجسم حسن”
کولین قبیلے کا سب سے حسین چہرہ۔ ایسا حسن کہ تعریف نا ممکن سی ہونے لگے۔ وہ تھی یشودھرا۔ مایا دیوی کی بھانجی۔
اعلان جشن ہوا۔خوشیوں کی منادی ہوئی۔لوبان دہکنے لگا، گیتوں کے سر بکھرنے لگے۔سورا پانی کی طرح بہنے لگی۔ محفلیں سجنے لگیں۔ خزانے کا منہ ایک بار پھر سے رعایا کے لئے کھول دیا گیا تھا، داسیاں نوازیں گئیں۔ خو شی نے ایک بار پھر سے اپنے پنکھ پھیلائے اور ریاست کپل وستو کو اپنے نرم پروں میں سمیٹ لیا تھا۔ پا ئلوں کی چھنک اور مغنیہ کی آواز دور تلک سنائی دیتی تھی۔
” یوراج سدھارتھ کا بیاہ تھا راجکماری یشودھرا سے”
سولہ برس کے بعد ایک بار پھر سے ریاست کپل وستو کا محل آسمان سے یوں دکھائی دیتا تھا کہ جیسے دہک رہا ہو۔ روشنی اس قدر تھی کہ محل دہکتا ہوا سا محسوس ہوتا تھا۔
” مایا دیوی!۔۔۔ ارے او مایا دیوی ۔۔۔تم کہاں ہو؟؟ کہاں ہو تم؟ دیکھو تو سہی تمہارا پوت کیسا جوان نکلاہے۔ دیکھو تو سہی کہ سج دھج کر وہ کیسا حسین دکھائی دیتا ہے۔ کیسی رونق ہے اس کے چہرے پہ۔ مایا دیوی۔۔۔ ارے اوہ مایا دیوی تم کہا ں ہو؟۔۔۔۔۔۔۔
تو کیا تم نہیں دیکھو گی اس کی جوانی۔۔۔اس کا بیاہ۔۔۔ اس کا روپ۔ تم کیوں اتنی جلدی سو گئی کہ اپنی ہی آنکھوں کے خواب کی تعبیر نہ دیکھ سکیں۔۔۔ کیوں؟؟؟؟
تمہیں بھی موت اڑا لے گئی ناں ۔ دیکھو تم اتنے سکون سے سوتی ہو اور وہاں کپل وستو میں۔۔۔اس کے محل میں۔۔۔سدھارتھ کا بیاہ ہو بھی گیا۔ وہاںخوشیاںہیں۔۔۔جشن ہے۔ گیتوں کی لے ہے۔ ساز بج بج اٹھتے ہیں اور تمہارا پوت۔۔۔ وہ گھائل ہو چکا، یشودھرا پر مر مٹ چکا ، اس کے حسن پہ۔ اسے راجکماری کی اداؤں نے فنا کر رکھ دیاہے۔
” تو ہر جوڑ کا ایک توڑ ہوتا ہے اور ضرور ہی ہوتا ہے۔”
”اور عورت۔۔۔”
” اس سے بڑا توڑ اور کیا ہوگا؟
*****
مختلف مواقع کی مناسبت سے سدھارتھ کے رہنے کی خاطر تین مختلف مقامات پر محل بنائے گئے۔ اور ان میں دنیا کاسب سامان سجا دیا گیا۔۔۔۔۔۔
“زر۔۔۔زمین۔۔۔اور۔۔۔۔۔ زن۔۔۔۔۔۔”
اس طرح سے سجا دئیے گئے کہ کبھی بھولے سے بھی وہ کسی اور جانب متوجہ یا مائل نہ ہو سکے۔ دنیا کا جال تیار تھا اور شکار پھنسنے کے واسطے مکمل مائل تھا۔
یشودھرا کا حسن، اس کی قاتل مسکراہٹ، اس کی ادائیں، اس کے ناز، اس کی باتیں ۔۔ہا۔۔
کس ادا پہ مرا جائے، کس پہ فنا ہوا جائے اور کس پہ دل کو تھام لیا جائے۔ وہ آفت تھی آفت۔ اک حسین جال۔۔۔ایسا جال کہ جس کے لئے منہ بول کر کہا جائے۔۔۔۔
”آ!۔۔۔۔ اور گھیر لے مجھے ہر طر ف سے۔۔۔ہر جانب سے۔
تو یوراج پھر کیسے اور کیوں کربچ پاتے؟ توڑ ہی ایسا جان دار اور شان دارتھا کہ دامن بچانا محال تھا۔ اور آج تک کبھی ایسا ہوا؟؟ کوئی بچ پایا ؟ حسن کے قہر سے۔ یوراج ایسے غرق ہو ئے کہ سب بھلا ڈالا۔۔۔کیا ریاست اور کیا کارہائے ریاست۔ایسے مست ہوئے کہ نہ کسی بات کاہوش نہ ہی کسی کام کا۔ یشودھرا تھی۔۔۔وہ تھے اور وقت کی حسین ترین ساعتیں۔ وہ تو صرف اور صرف یشودھرا کے ہو کر رہ گئے تھے۔ اس کے عشق میں مست، قصیدہ گوئی میں محو۔ ایک بارپھر سے وہ اپنے محل میں محصور ہو کر رہ گئے تھے۔
”دنیا کیا تھی؟؟؟۔۔۔”
”کیا ؟۔وہ جو محل سے باہر تھی۔۔۔۔”
”نہیں۔ دنیا تو بس محل کے اندر تھی ، ایسی رنگین اور خوب صورت کہ کسی اور جانب دیکھنے کی اجازت نہ دیتی تھی اور اسے یشودھرا کہہ کر پکارا جاتا تھا۔”
*****
”رنگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
”سات رنگ اور سات تشبیہات۔۔۔۔۔”
سرخ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محبت
نیلا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گہرائی
نارنجی۔۔۔۔۔۔۔ خوشی
پیلا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ذہانت
سبز ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فطرت
قرمزی۔۔۔۔ وجدان
بنفشی۔۔۔۔۔ روحانیت
ایک رنگ۔۔۔۔ ایک احساس۔
سات رنگ ۔۔۔۔ سات احساسات
اور یہ سات رنگ بھلا کون سے؟۔۔۔۔ قوس قزح کے رنگ۔ دھنک کے رنگ۔
*****
یشودھرا یوراج کے ہم سفر ہو اور اس سے بڑھ کر حسین سفر اور بھلا کون سا ہو۔ اس سے بڑھ کر یادگار سفر بھی اور کوئی نہ تھا۔ وہ دونوںہاتھی پر سوار تھے اور اوپر بڑی سی چھتری سایہ فگن تھی۔ یوراج کی سواری کے آگے پیچھے کئی محافظ گھڑ سوار دستے اور دوسرے ہاتھی تھے۔ ہاتھی چلتے تھے، گھوڑے بھاگتے تھے اور سفر کٹتا تھا۔ جب قا فلے نے در یا کنارے پڑاؤ ڈالا ۔سورج ڈوبنے کو تھا اور آسمان کے کناروں پہ لالی پھیل پھیل سی جاتی تھی۔چار ڈ نڈے زمین میں گاڑھ کر کپڑے کی چھت ڈالی گئی اور چاروں طرف پردے گرا د ئیے گئے۔ آرام گاہ تیار تھی۔ یشودھرا اور سد ھارتھ کی آرام گاہ تیا ر تھی۔ وہ د ونوں آرام کر رہے تھے اور باہر کھانے کی تیاری چل رہی تھی۔آگ جلائی گئی، بکری کا گوشت تیا ر کیا جانے لگا۔ فضا میں بھنے ہوئے گوشت کی مہک پھیل پھیل سی جاتی تھی اور بھوک کو مہمیز کرتی تھی۔آرام گاہ کے اندر یشودھرا نیم دراز تھی۔
” یوراج آپ کہا ں جا رہے ہیں؟” سدھارتھ کو اٹھتا دیکھ کر راج کماری نے سوال کیا تھا۔ لہجے میں فکر مندی گھلی ہوئی تھی۔سدھارتھ اس کے انداز پہ مسکرایا تھا۔
”ہم چہل قدمی کو جا رہے ہیں، آپ چلیں گی ہمارے ساتھ؟”اسی مسکراتے انداز میں جواب ملا۔۔
”نہیں یوراج ۔۔۔ہم نہیں جا پائیں گے۔ آپ ہو آئیے۔”یشودھرا تھکاوٹ سے چور لہجے میں بولی۔سدھارتھ آرام گاہ سے باہر آیا، محافظ ساتھ ہو لیے لیکن اس نے منع کر دیا۔ اسے تنہائی درکار تھی۔تنہائی ہمیشہ سدھارتھ کے لئے بڑی پرکشش ثابت ہوئی تھی۔خنک شام میں ٹہلتے ٹہلتے وہ دریا کے پاس جا پہنچا تھاجہاں لہر یں اٹھتیں اور اس کے پیروں سے ٹکراتی تھیں۔دونوں ہاتھ پشت پہ باندھے، برہنہ جسم پہ چادر لپیٹے وہ اپنے سامنے سوریا کو دریا میں غروب ہوتے دیکھ رہا تھا۔افق پہ شفق کی لالی پھیل چکی تھی اور نیلے مائع میں سونے کا تھال ڈوبتا جا رہا تھا۔ یوں ہی ٹہلتے ٹہلتے وہ درختوں کے بیچ جا پہنچے تھے۔ یوراج کو دور جاتا دیکھ کر محا فظ ذرا سا فاصلہ رکھ کر پیچھے پیچھے چلنے لگے۔اب کی بار محافظوں کو منع نہیں کیا گیا تھا۔ وہ درختوں کے بیچوں بیچ جا رہے تھے کہ یک دم نظر کی گرفت میں گھاس پھونس سے بنا ایک جھونپڑا آیا۔ یوراج بری طرح سے چونکے تھے۔
” اس ویرانے کو آباد کرنے والا بھلا کون؟۔۔۔۔”
اور پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*****
“تصور کیا ہے؟۔۔۔”
‘ایک دودھیا سفید پرندہ۔۔۔۔”
“آج اور کل کے مابین رابطے کا سب سے تیز ترین ذریعہ۔”
“ایک پل۔۔۔۔”
یہ ایک دروازہ ہے۔ کھولو اور نکل جاؤ۔۔۔ چاہے تو لمبینی کے باغ میں یا پھر کپل وستو کے محل میں۔ یا پھر کسی اور شہریا کوچے میں۔ یہ تیسری آنکھ کھول دیتا ہے اور تیسری آنکھ۔۔۔۔ یہ وہ دیکھتی ہے جو دو آنکھیں نہیں دیکھ پاتیں۔یہ ” ذہن”ہے۔ سوچ ہے، خیال ہے،گمان ہے، تخیل ہے اور تصور۔۔۔۔۔۔
یہ زاویۂ نگاہ ہے۔ یہ ”من”ہے۔ تیسری آنکھ ہے جو سوہ سب دیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے جو اوجھل ہے۔۔۔دفن ہے۔۔۔ گرد کی تہوں کے نیچے ۔۔۔ماضی کی قبروں میں۔ یہ دیکھ لیتی ہے۔۔۔ہاں۔۔۔یہ دیکھ لیتی ہے جودو آنکھیں نہیں دیکھ پاتیں۔۔۔۔۔
*****
زندگی میں کوئی زلزلہ نہیں آیا تھا نہ ہی کسی طوفان نے گھیر لیاتھامگر پھر بھی ” زندگی”الٹ گئی تھی۔ ایسی الٹی تھی کہ یشودھرا کا حسن بھی کسی کام کا نہ رہا تھا۔ دل کو نہیں بھاتا تھا اور بھلا کیوں نہیں بھاتا تھا دل کو؟۔۔۔کیوں کہ ۔۔۔۔
کیوں کہ اب فکر دل کو کھاتی تھی۔من کو ہلکان کر کے رکھ دیتی تھی ۔قلب کودیمک لگ چکی تھی اور وہ بھربھری مٹی کی طرح بکھرنے لگا۔ وہ اٹھتا اور راتوں کو نکل جاتا۔ دن میں بھی کہاں حاضر پایا جاتا تھا۔
” سوال”کے جال میں الجھ کر خود بھی الجھ جاتا تھا۔ سدھ بدھ ۔۔۔اب کہاں۔ چین کسی صورت،کسی طرح نہیں ملتا تھا۔”سکون”کسی شے میں نہیں تھا اور کہیں سے ملتا بھی تو نہیں تھا۔
” کاش یہ بازاروں میں بکتا۔۔۔۔”
تو یوراج سدھارتھ ”کپل وستو ” کو بیچ کر خرید لیتے۔
”کاش یہ کسی طلسمی پرندے کا نام ہوتا۔۔۔”
تو یوراج سدھارتھ کوہ قاف کا راستہ ناپ لیتے ۔
”کاش یہ کسی دوا میں ہوتا۔۔۔”
تو۔۔۔۔ ہا۔۔۔۔۔ تو کیاایک یوراج کے لئے یہ ناممکن تھا؟ وہ حاصل کر لیتا۔۔۔ کہیں سے بھی۔۔۔کسی بھی طرح سے۔۔۔کسی بھی حال میں۔ پوری ریاست میں منادی کرادیتا۔۔
”اگر کوئی سکون نامی دوا لے آئے تو اسے انعام میں آدھی ریاست دے دی جائے گی۔۔”
”سکون ! ۔۔۔ یہ ایسے تھوڑی ملتا ہے۔ یہ بازاروں میں کب بکتا ہے۔ یہ کب کسی پرندے کا نام ہوا ؟۔۔۔اسی لیے تو یہ سدھارتھ کو بھی نہیں ملتا تھااور بے چین کئے رکھتا تھا، اس قدر بے چین کہ یوراج یشودھرا تک کو بھول سے گئے۔
اور یشودھرا۔۔۔۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

مستانی — منظر امام

Read Next

دانہ پانی — قسط نمبر ۸

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!