پنج فرمان — سحر ساجد

”انسان پید ا ہوتا ہے بچے کی صورت، جوان ہوتا ہے آپ کی طرح، درمیانی عمر کوپہنچتا ہے میری طرح اور پھر آخری عمر کو جا پہنچتا ہے اس بوڑھے کی طرح۔” چنا نے بوڑھے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ سدھارتھ شدتِ حیرت کے باعث خاموش اس آدمی کی طرف دیکھنے لگے۔
”تو کیا انسان جوں جوں بوڑھا ہوتا جائے گا تو کیا وہ ایسا ہوتا جائے گا؟؟؟۔”وہ مڑ مڑ کر اور مزید حیرانی سے اس شخص کو دیکھتے ۔رتھ اپنی معمول کی رفتارسے چلتی تھی۔آبادی گزری ویرانہ آیا۔
”جنگل شروع ہوا چاہتا ہے مہاراج۔”چنا نے مؤدب ہو کر اطلاع دی۔
رتھ نے پھر سے رفتار پکڑی اور وہ گزری ایک ویرانے سے۔اب سدھارتھ چنا سے باتیں نہیں کرتے تھے۔ وہ اردگرد زیادہ دھیان دیتے اور سوچتے تھے ۔ نہیں جانتے تھے کہ اب وہ کیسا منظر دیکھنے والے تھے۔چند ہی میل کا فاصلہ طے ہوا ہو گا کہ۔۔۔۔۔
”سڑی ہوئی انسانی لاشیں، گلے ہوئے اعضا، مردہ وجود، زندگی سے خالی جسم۔”
ریاستیں آئے روزایک دوسرے کے مدمقابل ہوتی تھیں۔ایسے ہی کسی مقابلے کا انجام ،وہ کوئی شکست خوردہ فوجی دستہ تھاجو راہ میں آیا ۔دم بہ خود اس منظر کو دیکھتے ہوئے یوراج کا دل دھک سے رہ گیا تھا۔
یہ۔۔۔ یہ ؟ اب یہ کیا تھا؟زندگی کا سب سے حیران کن، دہشت ناک منظر وہ آج پہلی بار دیکھ رہے تھے۔
”یہ ۔۔۔۔یہ اِن انسانوں کو کیا ہوا، کیا ہوا آخر؟؟؟۔۔۔”
”چنا!!!۔۔۔”پھر سے مصاحب خاص کو پکارا گیا اور اس پکار میں وحشت ٹھاٹیں مارتی تھی۔
”حکم یوراج” چنا نے ادب سے جواب دیا۔
“ان کے ساتھ کیا معاملہ ہوا؟” چنا کو دیکھے بغیر ان لاشوں کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھتے ہوئے پوچھا گیا تھا۔
” یوراج!۔۔۔۔ انسان پید ا ہوتا ہے بچے کی صورت، جوان ہوتا ہے آپ کی طرح، درمیانی عمر کوپہنچتا ہے میری طرح اور پھر آخری عمر کو جا پہنچتا ہے اس بوڑھے آدمی کی طرح۔ پھر وہ اپنے انجام کو پہنچتا ہے اور انجام کا نام ”موت”۔”چنانے کٹی پھٹی لاشوں کی طرف اشارہ کر کے کہا تھا۔
”کیا؟؟؟۔۔”جھٹکا شدید تھا۔
”موت؟؟؟۔۔۔ یہ کیا ہے؟ کیا سب انسان ایسے ہی انجام کو پہنچتے رہے ہیں اور پہنچیں گے؟”رتھ چلتی تھی، ویرانے کو پار کرتی تھی اور یوراج انتہائی بے یقینی سے، اپنے خادم سے سوال کرتا تھا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”جی یوراج! سب انسانوں کا انجام ہے۔ کیا مہاراج اور کیا داس، سب کا انجام موت ہی ہے”۔ ایک خادم، ایک یوراج کو سمجھاتا تھا وہ ہی یوراج دنیا سے نابلد و نا آشنا تھے۔
” تو کیا زندگی کا انجام یہی ہے؟۔۔۔۔صرف یہی ؟؟؟۔”یقین تو جیسے کوئی پرائی چیز بن کر رہ گیا تھا۔۔۔ آکر ہی نہیں دے رہا تھا۔
”جی یوراج!۔۔۔ یہ ہی انجام ہے حیات کا”اور چنا مؤدب ہو کر جواب دیتا تھا۔
ویرانہ ختم ہونے کو تھا۔ منزل قریب تھی اور رتھ تیز رفتارسے دوڑتی ،ہوا کو مات دینے کی کوششیں کرتی لیکن ناکام ٹھہرتی۔ اور سدھارتھ۔۔۔
وہ سوچ میں غرق، حیرانی سے ہلکان ہو ہو جاتے تھے۔ دنیاآج پہلی بار آشکار ہوئی تھی۔ پہلی ملاقات تھی دنیا سے اور پہلی ملاقات ہی ایسی ٹھہری کہ جب بھی تاریخ لکھی جاتی تو یہ ہی لکھا جانا تھا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔
”مہاراج شدودھن کا پوت، یوراج سدھارتھ جب اپنے مصاحب خاص چنا کے ساتھ سفر پہ نکلا تو۔۔۔”
*****
”گمان کیا ہے؟”
ایک دودھیا سفید پرندہ۔ جو اڑا اڑا سا پھرتا ہے۔ کبھی آج کے آسمان پہ تو کبھی گزرے کل کے افق پہ۔ اڑان اس کا کام ہے۔ وقت اس کے سامنے ہیچ ہے۔اس کی اڑان کو کوئی نہیں روک سکتا سوائے اللہ کے۔ اتنی طاقت رکھتا ہے کہ واقعات کو الفاظ میں بُن لے اور ایک کہانی بنالے۔ وہ پہنچ سکتا ہے اور وہ جا پہنچتا ہے ان کرداروں کے درمیان ۔ وہ اڑا اڑا سا پھرتا ہے ان کے مابین کہ جب وہ کردار سانس لیتے تھے۔ تب وہ ایسے تو نہ تھے کہ قبروں کے نشان بھی ڈھونڈنے سے نہ ملتے ہوں۔ تب وہ چلتے پھرتے، ہنستے، روتے تھے۔ خوشی کے ساتھ غم بھی ساتھ سا تھ چلتا تھا۔
وہ ان پہ بیتے حالات دیکھ لیتا ہے۔۔۔
وہ ان کے دل کی بات جان لیتا ہے۔۔۔۔
اور پھرایک کہانی بُن ڈالتا اور صفحات کو الفاظ سے آراستہ کردیتا ہے۔۔۔ کہانیاں۔۔۔۔۔۔۔۔ رنگوں سے مزین کہانیاں۔
رنگ؟؟؟۔۔۔۔
مگرکیسے رنگ؟؟؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کون سے رنگ؟؟؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہانی اور رنگ؟؟؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*****
راجا شدودھن کی رتھ محل میں داخل ہوئی۔ آگے پیچھے گھوڑوں پہ سوار محافظ تھے۔ قافلہ تیزی کے ساتھ محل میں داخل ہوا ۔ ٹاپوں کی بلند آواز گونجتی تھی۔ پھر آہستہ آہستہ کم ہوتی ہوتی بالکل ہی معدوم ہوکر رہ گئی تھی۔راجا شدودھن رتھ سے اترا اور روش پہ چلنے لگا کہ یکایک اس کی نگاہ۔ بالکل غیر شعوری طور پہ دائیں طرف موجود باغ کے ایک کونے پہ جا ٹکی تھی۔ وہ حیران رہ گیا اور اس کا حیران ہونا بنتا بھی تھا۔ اس نے قد موں کا رخ باغ کی جانب موڑا تھا۔ خدام نے پیروی کی لیکن راجا نے ہاتھ اٹھا کر پیچھے آنے سے روک دیا اور اب ان پیروں کی ہمت نہ تھی کہ جنبش کرتے۔وہ اکیلا ہی اس جانب بڑھا تھا۔
”سدھارتھ!” قریب پہنچنے پہ اس نے پکارا لیکن سدھارتھ نرم گھاس پر سر جھکائے یوں بیٹھا رہا جیسے کوئی آواز ہی نہ آئی تھی۔وہ راجا کی آمد سے قطعا ًبے خبرکسی سوچ میں غرق دکھائی دیتا تھا۔
” سدھارتھ !”اب کہ آواز بلند تھی۔ سدھارتھ چونک کر متوجہ ہوا اوروہ ہڑبڑا کراٹھ کھڑا ہواتھاپھر جھک کر تعظیم بجا لایا تھا۔
”سدھارتھ اس طرح کیوں بیٹھے ہیں آپ؟”
سدھارتھ خاموشی سے ہاتھ باندھے کھڑا رہا۔ راجا کے ماتھے پہ بل نمودار ہوئے تھے۔
”سدھارتھ!جواب دیجئے، آپ اس طرح کیوں ادھر بیٹھے ہیں؟” لہجہ اب کے ذرا سا برہم ہوا تھا۔
”ہم کچھ سوچ رہے تھے”سدھارتھ نیچی آواز میں بولا تھا۔
”پترا! ایسی کون سی سوچ ہے جس نے آپ کو یوں بیٹھنے پہ مجبور کیا۔ آپ کپل وستوکا مستقبل ہیں،آپ کیوں اس طرح سے گھاس پہ بیٹھے ہیں۔”شدودھن کی حیرانی میں ناگواری کا عنصر نمایاں تھا۔
اور جب شدودھن یہ سوال کررہا تھا تو اس کے گمان تک میں نہ تھا کہ سدھارتھ کیا سوچتے تھے اور سدھارتھ خاموش کھڑے رہے اور جب بولے تو۔۔۔
”پتا جی !جب فکر من میں داخل ہو کر دل کو گھیر لے،تو کیا عرش تو کیا فرش۔ فرق واضح نہیں رہتا۔ فکر مدہوشی ہے ۔۔۔بنا سرور کی مدہوشی، یہ سوما ہے سوما”
(”سوما” ایک شراب جو اس زمانے میں لوگ بہ کثرت پیتے تھے، اس مذہبی نظریے کے تحت کہ یہ من کوپاک کرتی ہے)
شدودھن نے دم بہ خود اس کی بات سنی تھی اور سنتے ہی یوںہوگیا کہ گویا اس کے پیروں کے نیچے کی زمین کھینچ لی گئی ہو۔وہ جواب میں کچھ نہ کہہ سکا۔ منہ سے ایک لفظ تک نکل نہ پایا تھا۔وہ ایک سکتے کی سی کیفیت میں اپنے “مستقبل” کو دیکھتا تھا۔
” اٹھیے سدھارتھ !چلئے اندر چلئے۔۔” اک لمبے وقفے کے بعد زبان نے کچھ کہنے کی ہمت کی تھی۔اور پھر۔۔۔۔پھر فکر نے شدودھن کے من میں ،اس کے اندر ڈیرا جما لیا تھا۔۔ یہ۔۔۔یہ سدھارتھ نے کیا کہہ ڈالا۔۔۔۔۔ یہ ٹھیک نہیں تھا۔ ہرگز ہرگز بھی ٹھیک نہیں تھا۔ شدودھن نے تو آج تک۔۔۔آج تک سدھارتھ کو مذہب سے دور رکھا تھا تو وہ ایسی بات کیوں کر کہہ پایا۔۔۔ کیسے سوچ پایا۔ آج تک کسی مذہبی رسم میں شامل ہونے نہ دیا تھا اور وہ نام لیتا تھا سوما کا؟؟؟۔۔۔ سوما؟؟؟۔۔۔
کیسے معلوم ہوا اسے سوما کا؟ آخر کیسے؟۔۔۔۔۔۔
اور وہ کیوں اس طرح بات کرتا تھا کہ جیسے کوئی گیانی بات کرتا ہے۔ یہ ہو کیا رہا تھا؟ کیا ہو رہا تھا یہ؟ اور سدھارتھ کس ‘فکر’کی بات کرتے تھے۔ کون سی ایسی بات تھی جو فکر کی صورت، بیماری کی شکل میں ان کے دل کو لا حق ہو چلی تھی۔ کیسی فکر؟۔۔۔۔۔
راجا شدودھن سوچتا تھا اور سوچ سوچ کے ہلکان ہوا جاتا تھا۔
ایک بچے سے تو بہت کچھ چھپایا جا سکتا ہے۔ اسے مذہب سے بھی دور رکھا جا سکتا ہے۔ اس کی دنیا بھی ایک حد تک محدود جا سکتی ہے، یہ سب کچھ ممکن ہے مگر تب تک ہی ،جب تک وہ بچہ ہے۔ جسم پروان چڑھتا ہے تو عقل بھی نمو پاتی ہے۔”شعور” یہ بھی تو کچھ ہوتا ہی ہے نا۔ سدھارتھ نے کسی کو تو دیکھا ہو گا۔ کسی کو تو ضرور ہی دیکھا ہو گا اور جانا ہو گا کہ سوما کیا شے ہے۔ ایک سولہ سال کے نوجوان سے بھلا کیا کیا چھپایا جا سکتا ہے ۔
ہاں!اس نے دیکھا تھا۔ اس نے چنا کو دیکھا تھا۔ وہ ہی چنا جو کہ مصاحب خاص تھا اوروہ ہی چنا جو کہ سدھارتھ کا دنیاوی رہنما تھا۔ اچھا فلاں فلاں چیز نہیں معلوم تو چنا ہے ناں۔ اسی سے ہی پوچھ لیا جائے گا۔ چنا ،یوراج سدھارتھ کے لئے یوں تھا کہ جیسے معلومات سے بھری کتاب ہو ۔
*****
سورج کب چڑھا، کب ڈوبا؟کدھر سے چڑھا اور کدھر ڈوبا؟ ہوا پچھم سے آتی تھی یا پورب سے؟ پھول کھلنے کی رت تھی یا جاڑا ؟ ساون کا موسم تھا یا کہ اناج پکنے کی رُت۔چاندنی راتیں تھیں کہ اماوس کی ؟ دن کب شروع ہوا، کب ختم؟ رات کب آئی اورکدھر گئی؟
اسے نہیں معلوم تھا۔ بہ خدا اسے بالکل معلوم نہ تھا۔ نہیں جانتا تھا کہ کون سا کاروبار زندگی چلتا تھا۔
اور زندگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ہی تو ۔۔۔یہ ہی تو وہ چیز تھی جو سوال بن کر سدھارتھ کے سامنے آن کھڑی ہوئی تھی۔ اسے دنیا کی سب چیزوں سے الگ کر کے رکھ دیا تھا۔ اسے اس مقام پر لا پٹخا تھا کہ وہ مادی، دنیاوی چیزوں سے بیزار ی محسوس کرنے لگا تھا ۔ محل، داسیاں، سونا، جواہرات، عیش وعشرت۔۔۔۔۔حتی کہ ماں اور باپ سے بھی۔وہ ان سب سے بیزار تھا۔وہ ”زندگی” کے بارے میں فکر کرتا تھا۔۔
”یہ کیا تھی؟۔۔۔”
”اگر تھی تو کس لئے تھی؟”
”اسے ختم ہی ہو جانا ہے تو پھر یہ ہے کیوں؟۔۔۔”
”انسان کیوں جیتا ہے؟ کیا محض عیش و عشرت کے لئے؟۔”
شعوردن رات اس سے سوال کرتا تھا اور سوال کسی برچھی کی مانند چبھتا اور زخم زخم کرتا تھا۔اور جواب کہیں سے نہ ملتا حتیٰ کہ اب کی بار سدھارتھ کو چنا بھی مطمئن نہ کر پایا تھا۔ تسلی کسی حرف،کسی لفظ سے نہ ملتی تھی۔ سکون۔۔۔سکون تو کب کا لٹ چکا۔یہ کہیں بھی نہ ملتا تھا ۔بے سکونی اس کا احاطہ کئے ہوئے تھی۔ اسے چہار جانب سے گھیرے ہوئے تھی۔ اور وہ فکر کی” سوما”پیتا اور اسی مدہوشی میں مست رہتا۔اور یہ مدہوشی اسے ارد گرد، آس پاس سے لا تعلق کر چھوڑتی تھی لیکن سرور۔۔۔سرور نہیں بخشتی تھی۔ سرور حاصل ہو نہیں پاتا تھا۔ وہ سوچتا۔۔۔ سوچ میں غرق رہتا۔پھر بے چینی لاحق ہوتی۔ اضطراب جان کو کھانے لگتا اور وہ بیزار ہوتا گیا۔
”محل، داسیاں،جاہ و حشمت، سونا، جواہرات، حتی ٰکہ ۔۔۔ حتی ٰکہ ماں اور باپ سے بھی۔۔۔”
******

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

مستانی — منظر امام

Read Next

دانہ پانی — قسط نمبر ۸

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!