پنج فرمان — سحر ساجد

مایا کی حالت خراب تھی۔ بچنے کی امید زیادہ نہ تھی۔ وہ ہلکے ہلکے سانس لیتی ترستی نگاہوں سے اپنے پوت کو دیکھتی تھی۔اس گھڑی کے لئے اک عمر انتظار کیا تھا ۔تپسیا تھی جو اس نے انتظار کی صورت کاٹی اور اب جب کہ وہ دنیا میں آ چکا تو سانسیں ختم ہونے کی جلدی میں تھیں۔
آہ! ابھی تو میں نے یوراج کو گود میں بھی نہیں لیا۔ اے موت! کیا تم کو بھی ابھی آنا تھا۔۔۔کیا تم کو نہیں معلوم کہ میں نے تپسیاجیسا انتظار جھیلا ہے۔تم کو اتنی جلدی کس بات کی ہے؟ ٹھہرو، ٹھہرو، ٹھہر جا۔ مہلت دے دو۔ تھوڑی سی، اتنی سی کہ میں اپنے پوت کو بڑا ہوتا تو دیکھ لوں۔ اس کے سر پہ سجتا تاج تو دیکھ لوں، دیکھوں تو سہی کہ وہ کیسا گھبرو جوان بنے گا؟۔ دیکھنے تو دو۔۔۔ سنو تم ذرا ٹھہرتی نہیں؟؟؟
آہ!! کہ موت نے مہلت نہ دی مایا دیوی کو اور نہ اس نے کبھی دینی ہے کسی کو بھی۔وہ مایادیوی کی جان لے کر ٹلی۔وہ بیٹے کی پیدائش کے سات دن بعد مر گئی یہ دیکھے بغیر کہ اس کا پوت کیسا جوان ہو گا ،آخر کیسا؟؟؟؟؟
*****
رواج کے مطابق یوراج کی پیدائش پہ آٹھ برہمن پنڈتوں کوبلایا گیا۔ یوراج کی قسمت کی پیش گوئی کے واسطے۔انہوں نے اپنے اپنے زائچے نکالے، حساب لگایا، ستاروں کی چال دیکھی اور پھر پیش گوئی ہوئی۔
"یہ لڑکا جو پیدا ہوا ہے فلاں فلاں دن یہ کوئی عظیم راجا بنے گا اور گر اک راجا نہ بنا تو کوئی عظیم روحانی پیشوا ہوگا۔۔۔۔۔۔”
آٹھوں کے آٹھوں برہمنوں نے دوہری پیش گوئی کی تھی۔راجا شدودھن اسے سن کر زیادہ خوش نہ ہوا۔ وہ اس کا پوت تھا ، جو حکمرانی کے لئے پیدا ہوا تھا۔صرف اور صرف حکمرانی۔۔۔ روحانیت سے اس کا کیا لینا دینا۔ وہ اس کا وارث تھا اور مستقبل کا راجا اور بس۔۔۔۔
شدودھن اس پیش گوئی سے پریشان ہوگیا تھا اور اسی وجہ سے اس نے بیٹے کو مذہب کی تعلیم سے دور رکھا۔ اسے مذہبی رسومات و احکامات سے بھی دور رکھا اور یہ سب محض اس خوف کے تحت کیا گیا کہ اس کا پوت، ایک راجا کا پوت بادشاہت کو لات مار کر کہیں روحانیت نہ اختیار کر لے۔
اوراس کا نام ”سدھارتھ” رکھا گیا۔۔
وہ یوراج تھا۔۔۔پیدائشی شہزادہ۔سونے کاچمچ لے کر پیدا ہواتھا۔ ماں کے بعد اس کی پرورش کی ذمہ داری خالا نے سنبھالی تھی۔ مہا پجاپتنی کی ننھے سدھارتھ میں جان تھی ۔ وہ اپنی سانس بھی اسے دیکھ دیکھ کر لیتی تھی۔ اس کے چہرے کو دیکھ دیکھ کر جیتی تھی۔ نازو نخرے یوراج کے نہیں تو اور کس کے اٹھا ئے جانے تھے؟۔ ہمہ وقت کئی کئی داسیاں اور غلام خدمت پہ معمور۔ دنیا کہ ساری نعمتیں فقط اک جنبش ابرو کی منتظر۔ وہ شدودھن کی منتوں، مرادوں کی اولاد تھا اور سونے پہ سہاگا ،تھا بھی یوراج تو ۔۔۔۔۔۔
******

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

شدودھن اس پیش گوئی سے پریشان ہوگیا تھا۔وہم اس کے دل میں جڑ پکڑتا گیا۔ وہ پیش گوئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہا۔۔۔اسے کسی پل چین نہیں لینے دیتی تھی۔وہ گھبرا سا جاتا اوروہ سوچتا۔۔۔۔۔
کیا ہوگا ریاست کپل وستو کا مستقبل؟؟؟۔۔۔
کیا بنے گا ساکھیہ قبیلے کا؟؟؟۔۔۔
کیا بنے گا اس کے شجرو نسب کا؟؟؟۔۔۔
اگر وہ۔۔۔اس کا اکلوتا پوت۔۔۔گر و ہو گیا ، کوئی روحانی پیش وا تو؟۔۔۔۔۔۔تو؟؟ ہو گا کیا؟؟؟۔۔۔
نہیں۔۔نہیں ایسے کیسے ہو سکتاہے۔ایسا بھلا کب ہوا کہ کسی راجا کا پوت اور روحانی گرو؟۔
”نہیں۔۔۔نہیں یہ نہیں ہونا چاہئے ۔۔۔ہرگز بھی نہیں۔”یہ جو وہم کا مرض ہے نااس کا علاج دریافت ہوا نہ ایجاد۔ یہ جب کسی کو لاحق ہوتا ہے تو پھر اپنی مرضی کے کام ہی کرواتا ہے۔ اور شدودھن بھی ٹھہرا اسی مرض کا مریض۔ اور اس نے کیا کیا؟
اس نے۔۔۔
اس نے سدھارتھ کومذہب سے دور کر دیا۔ اپنے پروں کے نیچے چھپا کر رکھا۔اسے مقید کر کے رکھ دیا ایک دائرے میں۔اسے مذہبی رسومات و احکامات سے بھی دور رکھا۔دنیا میں کیا کیا ہوتا ہے اور کس کس طرح سے ہوتا ہے یوراج اس سے لاعلم رکھے گئے ۔نہیں جانتے تھے کہ دنیا کیا ہے۔جانتے تھے تو بس یہی کہ دنیا اتنی ہی ہے جو”محل” کے اندر۔اور راجا شدودھن نے یہ سب محض اس خوف کے تحت کیا کہ کہیں اس کا پوت، ایک راجا کا پوت بادشاہت کے بہ جائے روحانیت نہ اختیار کر لے۔
اوراس کا نام رکھا گیا "سدھارتھ”۔۔۔۔۔
وہ یوراج تھا۔۔۔پیدائشی شہزادہ۔سونے کا چمچ منہ میں لے کر پیدا ہواتھا۔ ناز نخرے اس کے نہیں اٹھائے جانے تھے تو اور کس کے اٹھائے جانے تھے۔اس کی جائے پناہ وہ محل،وہ طلسم کدہ نہ تھا لیکن یہ کہ وہ اس سے کم بھی نہ تھا۔ طلسم اگر بادشاہوں،ملکاؤں،شہزادے،شہزادیوں کی زندگی میں نہ ہو گا تو اور بھلا کہاں ہو گا۔۔۔ہاں۔۔۔اور بھلا کہاں ہو گا۔
تو وہ تھا سدھارتھ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو ایک طلسم کدہ جیسے محل میں پروان چرھتا تھا۔ ایک طلسماتی زند گی گزارتا تھا اوریہ ہی سمجھتا تھا کہ زندگی اور کچھ نہیں بس یہ طلسم کا دوسرا نام ہی تو ہے ۔اور کیا ہے؟
*****
ایک کچامیدان ہے۔ سدھارتھ اگرچہ ایک یوراج تھامگر اسے بھی سیکھنے تھے رائج الوقت فنون۔ تو وہ ایک کچا میدان تھا اور سر پہ سورج تپش برساتا تھا۔ ساتھ میں اس کا مصاحب خاص تھا "چنا”۔ مشق تھی شمشیر زنی کی۔
گھنگھریالے ، سیاہ ، لمبے بال،جو عین سر پہ۔۔۔ما تھے سے ذرا پیچھے، جوڑے کی شکل میں بندھے تھے۔پسینااس کے نیم برہنہ جسم پہ دھاروں کی شکل میں بہتا تھا۔بازو خا لی البتہ کانوں میں بالے ضرور موجود تھے۔وہ تھا سدھارتھ ۔ لڑکپن کو چھوڑتا اور جوانی کو چھوتا ہوا۔تلوار یوں چلاتا تھا کہ نظر پھر سی جاتی تھی۔تلوار بازی میں مہارت تو جیسے اس کی باندی تھی ۔ مقابل چنا تھا۔ میدان میں مٹی ان کے پیروں تلے اڑ اڑ جاتی تھی۔تلواروں کی کھنک اور چمک مبہوت کر رہی تھی ۔سورج ان کے سروں پہ تپش برساتا ۔جسم پسینے میں ڈوب ڈوب جاتے تو ناز،لاڈ، پیار کے دن ختم ہوئے۔کب کے گزر چکے۔ تربیت کے دن آن پہنچے۔طلسم ختم ہوا اور زندگی شروع۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ہے کوئی زندگی سے بڑھ کربا کمال شے
*****
یوراج سدھارتھ جوں جوں بڑا ہوتا گیا، شدودھن کے دل میں وہم کی جڑ مزید مضبوط ہوتی گئی۔
و ہ پیش گوئی۔۔۔۔۔
اسے کسی پل چین نہ لینے دیتی ۔ اسے مجبور کرتی تھی کہ وہ یوراج کو ہر اس چیز سے دور رکھے یا دورکر دے جو اسے مذہب یا روحانیت کے قریب لے جاتی ہو۔یہ کب ہوا بھلاکہ کسی راجا کا پوت "حکومت” کی بہ جائے "روحانیت” کے تخت پہ جا بیٹھے۔ ایسا کبھی ہوا؟ اور اس ہونے کے امکان کو پوری طرح سے کچل دیا گیا۔پوری طرح کوشش کی گئی کہ ہونے کا یہ امکان کبھی بھی ہونے نہ پائے۔یوراج کی دنیا بس یہی تھی کہ داسیوں سے پہلو گرمائے ، سورا کے خمار میں مست ،رقاصاؤں کی پائلوں کی چھنک میں ہر دم کھویا رہے یوراج شاذ ہی محل سے باہر جا پاتے تھے۔وہ تھا جواک عظیم بادشاہ اور بس۔
*****
ایک اصطبل کا منظر ہے۔ جس میں اعلیٰ نسل کے گھوڑے موجود تھے۔چنا رتھ تیار کرواتا نظر آتاتھا۔ انہیں دن چڑھے نکلنا تھا۔انہیں ؟ انہیں کون؟ وہ اور سدھارتھ۔
سدھارتھ؟کیا وہ سفر پہ جا رہے تھے؟؟؟ ارے۔۔۔ وہ کیسے؟۔۔۔کیسے سفر پہ جا رہے تھے؟آخر ان کا سفر پہ کیسے نکلنا ہوا؟ راجا تو انہیں ایک دائرے میں مقید کر کے رکھنا چاہتے تھے۔تو پھر یہ کیوں کر؟
پھر یہ کہ وہ یوراج تھے اوریوراج ہونے کے اپنے لوازمات ہوتے تھے۔ وہ کب تک محل کے اندر بٹھا ئے جا سکتے تھے۔سدھارتھ اب اپنی جوانی تک پہنچ چکے تھے۔تربیت کے دن ختم ہوئے۔ اک عمر ہوتی ہے سکھانے پڑھانے کی۔ اس کے بعد عمل کے ایام آن پہنچتے ہیں۔تو سدھارتھ بھی عمل کی عمر کو پہنچے۔دین سے دور کر دیا گیا ،دنیا سے دور کر دینا اب ممکن نہ رہا تھا ۔ گر ایسا کیا جاتا تو سدھارتھ ایک عظیم بادشاہ کیسے بن پاتے؟
وہ یوراج تھے۔۔ ۔ اور یوراج ہونے کے اپنے مسائل و معاملات ،اپنی رسمیں۔
پر اسے تو ایک الگ ہی دنیا کا راجا بننا تھا اور دنیا اپنے راجا کے انتظار میں تھی کہ کب وہ آئے اور اسے مسخر کر لے۔
تو دنیا اپنے راجا کا انتظار کرتی تھی۔
چنا اور سدھارتھ خادموں کے سا تھ رتھ پہ سوارسفر پہ نکلے۔ یہ سدھارتھ کا باہر کی دنیا سے پہلا تعارف بھی تھا۔
ایک دودھیا سفید پروں والا پرندہ عین ان کے سروں کے اوپر اڑتا اور دیکھتا تھا کہ دنیا کا راجااک سفر پہ نکلا تھا۔ وہ میدان ناپتے، سنگلاخ،چٹیل پہاڑوں کو روندتے،وادیوں،آبادیوں، بیابانوں کو پیچھے چھوڑتے آگے ہی آگے بڑھتا۔
اور جب وہ وادیوں سے گزرے ہوں گے تو۔۔۔۔۔۔۔
اب رتھ معمول کی رفتار سے چل رہی تھی۔ سدھارتھ سولہ سال کا نوجوان تھا۔آنکھیں بڑی مگر لمبوتری سی۔ گال پھولے پھولے سے تھے۔ گھنگریالے بالوں کا جوڑا سرپہ بندھا تھا۔گلے میں جواہرات کی مالائیں اور جسم پہ امرا کے رواج کے مطا بق چادر۔اس کے بازوؤں اور کانوں کے سب زیورات سونے کے تھے۔ حلیے ہی سے اعلیٰ گھرانے کا پوت دکھائی دیتا تھا۔مصاحبِ خاص چنا سے گاہ بہ گاہ تبادلہ خیالات کرتا آبادی میں محو ِ سفر تھا ۔سدھارتھ نے یک دم ٹھٹھک کر رکنے کا اشارہ کیا اور سامنے دیکھنے لگا ۔وہ کیا تھا؟ وہ کون تھا؟
”یہ کیا ہے چنا؟”یوراج نے ازحد حیرانی سے پوچھا۔
چنا نے نظریں اس طرف گھمائیں جس طرف دیکھ کر یوراج حیران ہوئے تھے۔وہ ایک بوڑھا، لاغر شخص تھا۔بہ مشکل لاٹھی سے چلتا تھا۔
”یہ ایک بوڑھا آدمی ہے یوراج”چنا نے جواب دیا۔
”بوڑھا؟؟؟”یوراج حیران ہوئے۔انہوں نے تو آج تک کسی آدمی کو اس حال میں نہ دیکھا تھا۔وہ گر حیران ہوئے تو ٹھیک حیران ہوئے تھے۔
”ہر انسان اپنی عمر کے آخری دور میں ایسا ہی ہوجاتا ہے یوراج”۔ چنا نے مزید وضاحت کی۔
”کیا؟؟؟۔۔۔۔۔مگر کیسے؟؟؟۔۔۔۔۔۔” حیرت اپنی انتہا کو پہنچی،
دنیاآج پہلی بار آشکار تھی۔تو سوال تو اٹھنے ہی تھے۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

مستانی — منظر امام

Read Next

دانہ پانی — قسط نمبر ۸

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!