پنج فرمان — سحر ساجد

سوچ کیا ہے؟؟؟
ایک دودھیا سفید پرندہ۔۔۔۔
جو اگر اڑنے پہ آئے تو “قرن” اس کے لئے معنی نہیں رکھتے۔جہاں وہ جانا چاہے وہاں جا پہنچے۔ سوچ کا پرندہ اسی باغ میں تھا جہاں شدودھن اداس بیٹھا تھا۔دن ڈھلا ،رات اتری۔نشست برخاست ہوئی اور سب اپنی اپنی آرام گاہوں کی جانب چل دیئے۔سوچ کا پرندہ بھی باغ سے اڑا اور ایک جھروکے میں جا بیٹھا۔ وہ کیا دیکھتا ہے کہ مایا دیوی کی آرام گاہ کے باہر پہرے دار چوکس کھڑے ہیں۔ آرام گاہ کے اندر بھی دو داسیاں موجود ہیں۔ مایا دیوی سیج پہ محو خواب ہے۔اس کے لانبے،کالے بال سیج پہ بکھرے ہیں۔ اس کا دبلا پتلا، مہین سا سراپا اس وقت نیند کی آغوش میں دبکا ہے۔وہ مجسم حسن ہے اور حسن جب سو رہا ہوتا ہے تو وہ کیسا ہوتا ہے؟؟؟ وہ ۔۔وہ مایا دیوی ہوتا ہے۔اس عمر میں بھی وہ کمال حسن رکھتی ہے۔آرام گاہ کے دکھنی جھروکے سے لہروں کی شکل میں سہج سہج کر آتی ہوا ہولے سے، نرمی سے اس کے بالوں کو سہلاتی ہے۔دیوی ذرا سی کسمسائی۔۔کروٹ بدلی اور سو گئی۔آج مدت بعد نیند اس طرح سے مہربان ہوئی تھی کہ مایا بے سدھ سوتی تھی۔اور پھر مایا نے دیکھا کہ۔۔۔۔۔
*******
قبل مسیح کی چھٹی اور پانچویں صدیوں میں بڑے بڑے کارنامے ہوئے۔یادگار صدیاں گنا جاتا ہے ان کو۔ایسے ایسے کارنامے انجام کو پہنچے کہ جن کے اثرات رہتی دنیا تک باقی رہیں گے۔ایسا کیا ہوا کہ ان صدیوں کو یادگار صدیاں ٹھہرا یاگیا؟؟؟
کیا طوفان نوح آیا،یا کسی قیصر نے سارے عالم کو فتح کیا؟؟؟
ایسا تو کچھ نہ ہوا، جو ہوا انسانی معاشرت کے حوالے سے ہوا۔یونان سے علمی میدان میں فیثا غورث کا نام سامنے آیا۔ ایک بڑا نام۔۔۔۔
ایران میں زرتشت کہ جس نے زرتشت نامہ لکھا۔ایک مذہب کی بنیاد رکھی۔ چین میں کنفوشش منظر عام پہ آیا۔تو قبل مسیح کی پانچویں اور چھٹی صدیاں عظیم ناموں سے بھری پڑی ہیں۔وہ نام کہ جنہوں نے انسانی معاشرت کے لحاظ سے عظیم کارنامے سرانجام دیئے۔
یونان میں فیثا غورث۔۔۔۔
ایران میں زرتشت۔۔۔۔
چین میں کنفو شش۔۔۔۔
اور ہندوستان؟؟؟
ہندوستان میں کیا؟آخر ہندوستان تب بھی دنیا کے نقشے پہ موجود تھا تو ہندوستان میں کیا ہوا؟
کیا؟؟؟
********

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

مایا دیوی نے ایک خواب دیکھا ۔۔۔۔
رات کا پچھلا پہر ہے۔ہواکی اک نرم سی لہر، دکھنی جھروکے سے آئی، ہولے سے مایا کے بالوں کو سہلایا، اس کے گالوں سے ٹکرائی لیکن مایا اب کسمسائی نہ کروٹ بدلی۔ وہ خواب دیکھتی تھی۔تو مایا دیوی نے اک خواب دیکھا۔
کیا خواب دیکھا؟؟؟
اس نے دیکھا کہ چھے دانتوں والا ایک سفید ہاتھی آیا اور آ کر اس کے دائیں پہلو میں داخل ہو گیا۔خواب کا دیکھنا ہی تھا کہ یکدم مایا کا دل گھبرایا، نیند ٹوٹی، آنکھ کھلی اور وہ اک گہرا سانس لے کر بے دار ہو گئی ۔ وہ گہرے گہرے سانس تواتر سے لینے لگی۔مایا کی حالت دیکھ کر داسی بھاگتی ہوئی آئی۔
”پانی!!”
مایا بے قابو ہوتی دھڑکن کے ساتھ بولتی تھی۔مہارانی کا چہرا پسینا پسینا تھا۔ سانس چڑھا ہوا اور گھبراہٹ کا شکار نظر آتی تھی۔
ہے بھگوان یہ کیسا خواب تھا، کیسا؟۔۔۔ یہ کیا تھا آخر؟؟؟۔۔ کیا؟؟؟”۔۔۔ اوروہ گھبرا گھبرا جاتی ۔ ایک سانس میں پانی چڑھایا ۔کچھ سیج پہ گرا اور کچھ لباس پہ۔۔۔ مہارانی اسی طرح سے پانی پیتی گئی لیکن سانس تھی کہ بحال نہ ہو پاتی تھی۔باقی ساری رات پھر نیند نہ آئی۔رہ رہ کر وہم ستاتے رہے،جان کو آتے رہے اور ہوا کے اپنے جتن۔۔۔ وہ دکھنی جھروکے سے آتی کبھی اس کے بالوں کو سہلاتی، کبھی نرمی سے گالوں سے ٹکراتی،کبھی تھپکی سی دیتی ہوئی محسوس ہوتی مگر نیند نے نہ آنا تھا سو نہیں آئی۔
یہ کیسا خواب تھا ۔۔۔کیسا؟ وہ سوچ سوچ کے ہلکان ہوتی رہی۔برا شگون تھا کہ اچھا؟ حساب لگاتی رہی۔ اندازے کرتی رہی۔ گھبراہٹ کے مارے جان نکلنے کو بے تاب ۔۔ کہیں پربھی سکون نہیں۔ داسیاں پنکھے جھل جھل کر تھک چلیں لیکن مہارانی کا قرار رخصت ہو چکا تھا۔ رات قطروں کی سی صورت گزرتی رہی۔
ٹپ، ٹپ،ٹپ۔۔۔۔
پھر بھی گزر ہی گئی۔ اندھیرا بھاگا، دن چڑھ آیا اور مہارانی باربار سینے کو مسلتی، کبھی دائیں کروٹ لیتی تو کبھی بائیں۔۔۔کبھی ٹہل ٹہل کر پاؤں شل کر لیتی تو کبھی یوں جی چھوڑ کر بیٹھتی کے جیسے آج اُٹھ نہ پائے گی ۔صبح اُس نے لباس بدلانہ سنگھار کیا۔ مانگ تک نہ سجائی۔
پوجا میں بھی من نہ لگا۔ وہم ستا تا تھا۔ ٹہل ٹہل کر جان عذاب کر رکھی تھی۔
کیسا خواب تھا کیسا؟؟؟۔۔۔
برا شگون تھا کہ نیک شگون؟ڈر کے مارے پنڈت سے بھی نہ پوچھوایاکہ معلوم نہیں کیا تعبیر ہو۔
“کچھ کھا لیجئے مہارانی ” داسی فکر مندی سے بولتی تھی۔
”من نہیں۔۔۔” مہارانی بے دلی سے جواب دیتی تھی۔
”سویرے سے کچھ نہیں کھایا آپ نے”
“یہ خواب جو ہمیں کھائے جا رہا” اب کہ مہارانی زودرنج دکھائی دی ۔
” یوں من کو نہ گھلائیں مہارانی ”۔۔۔پنڈت سے۔۔۔۔اس کا جملہ ادھورا رہ گیا۔
“ناں نا ں کسی سے کچھ مت کہنا۔۔کچھ مت کہنا۔۔۔”مہارانی نے بے قراری سے بل کھایا ۔
داسی خا موش ہو گئی اور طعام واپس بھجوا دیا اور مایا۔۔۔۔
فکر سے گھل گھل جاتی تھی، سینے کو مسلتی تھی اور وہم سے مرمر جاتی تھی۔
*******
سورج سوا نیزے پہ آیا۔ کسی نے بھی آج صبح سے مہارانی مایا کو محل میں نہیں دیکھا تھا۔دوپہر کے کھانے کا وقت ہو چلا۔ شدودھن کے آگے کھانا چنا گیا۔شدودھن کا ایک پہلو خالی تھا۔
”مایا؟۔۔۔۔ مایا کہاں ہے؟”راجا چونکا اور داسی سے پوچھا۔
”مہارانی کو آج سورج چڑھنے کے بعد کسی نے نہیں دیکھا مہاراج۔۔”
” مایا کو کہو کہ کھانے پہ آئے”حکم جاری ہو گیا تھا اور کس کی مجال کہ انکار کرے۔اطلاع برق رفتاری سے پہنچائی گئی ۔ سنتے ہی مہارانی کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔
“ہائے ہائے ۔۔ برا شگون نہ ہو۔۔۔ برا شگون نہ ہو” وہ درد سہنے کے سے انداز میں بولتی تھی۔کھلے بال باندھے گئے، لباس بدلا گیا ، زیور گہنے پہنائے گئے اور وہ راجا کے بلاوے پہ چل دی۔چند لمحوں کے بعد وہ شدودھن کے پاس پہنچ گئی تھی۔غلام نے صدا لگائی۔
“تعظیم بجا لائی جائے کہ مہارانی مایا تشریف لاتی ہیں” سب جھک گئے ۔ مہارانی آگے بڑھ آئی اورداسیاں سب دروازے کے باہرہی رک گئیں۔ مہارانی شدودھن کے سامنے تعظیم بجا لائی گئی ۔ شدودھن نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا،مہارانی خاموشی سے پاس جا بیٹھی۔ مایا کا سانس اٹکنے لگا مگر وہ ضبط کرکے بیٹھی رہی تھی۔شدودھن اور اس کی بہن کھانے میں مصروف تھے۔ طبیعت تھی کہ کھانے کی خوشبو سے خراب ہوئی جا رہی تھی۔ پھر اس نے ہمت کر کے لقمہ لیا ہی تھالیکن۔۔۔۔۔۔۔
*****
خیال کیا ہے؟
ایک دودھیا سفید پرندہ۔۔۔۔۔۔۔
جو گر اڑنے پہ آئے توفاصلے مات۔ اب کہ وہ مہارانی کی آرام گاہ سے اڑاتو اڑان بھرتا بھرتا نیلے آسمان پہ جا پہنچا۔ وہ اوپر ہی اوپراڑا ، فلک کی وسعتوں میں۔ اتنی اوپر کہ نظر کی گرفت سے اوجھل ہو گیا۔ وہ کہاں گیا؟؟؟۔۔۔ کہاں گیا؟؟؟۔۔۔۔
اور پھر یک دم وہ ریاست کپل وستو کے فلک پہ اڑتا نظر آیا اور اس کے عین نیچے ریاست وستو ایک بار پھر دلہن کی طرح سجی نظر آئی تھی۔ ریاست کیوں اس طرح سجی تھی؟؟؟۔۔۔۔۔۔
*****
کپل وستو ایک بار پھر دلہن کی طرح سجی نظر آتی تھی۔ ایک اور بھاگوان دن چڑھا ہے ریاست کپل وستو پہ خزانوں کے منہ کھول دیئے گئے ہیں۔ انعام و کرام کی بارش ہے۔ نذریں چڑھا ئی جا رہی ہیں۔کیسر رنگ کھل کھل پڑتا ہے۔ دور آسمان کی وسعتوں میں سے کپل وستو کو دیکھوتو وہ محل۔۔۔شدودھن کا محل سب سے الگ، واضح اور منفرد دکھتاہے اور کیوں نہ دکھتا اتنا منفرد، واضح اور الگ سا۔ جشن چراغاں تھا جشن چراغاں۔۔۔۔۔۔
اتنے چراغ کہ محل لو دیتا دکھائی دیتا ۔ خوشی محل کے اندر باہر چکراتی پھرتی اور وہ چہروں سے بھی ٹپک ٹپک پڑتی تھی۔ شدودھن کا دل نہیں چاہتا کہ وہ اپنا ماتھا اگنی دیو کے چرنوں سے اٹھائے۔آنکھیں بند کئے دونوں ہاتھ جوڑے وہ بھجن گائے چلا جاتا تھا۔ خوشی کے سر ہر طرف بکھرے پڑے تھے۔۔۔۔۔۔
کیا کیا نہ کیا اس ایک دن کے لئے۔ تعویذ، دھاگے،جنتر منتر، جڑی بوٹیاں، چڑھاوے، قربانیاں۔۔۔ہا۔۔۔ کیا کیا نہ کیا تھا۔اس ایک دن کے لئے۔ تو پھر آج جب یہ دن چڑھا۔۔۔ چڑھ کے آیا تو پھر شدودھن کیسے اٹھا ئے اپنا ماتھا بھگوان کی چرنوں سے۔ قید خانوں سے قیدی آزاد کیے گئے۔ رسیاں کھول دی گئیں، قتل گاہ میں جلاد کو روک دیا گیا۔۔۔۔۔۔
اک نئی زندگی کی نوید تھی تو پھر زندگی کیسے لے لی جاتی۔پینتالیس سال کی عمر میں مایا کو زندگی کی سب سے بڑی خوش خبری ملی تھی۔ اُس کا خواب برا شگون نہ تھا۔ وہ نیک شگون تھا اور ہوکر رہا۔مسکراہٹ تھی کہ مایا کے چہرے سے الگ نہ ہوتی تھی۔خوشی آنکھوں میں رقصاں تھی۔وہ خوامخوا ہی وہم کے ہاتھوں مری جا رہی تھی۔ یہ تو بھا گوان دن تھا جو جب چڑھا تو اس کے سر پہ خوش قسمتی کا تاج سجا گیا۔
*****
وہ اڑ رہا تھا ۔اپنی پوری رفتار کے ساتھ ، بلند اڑان کے ساتھ۔۔۔ کپل وستو کے آسمانوں پہ۔ وہ پروں کو جھپکتا تھا اور زمانے کے بہا ؤ میں اڑتا تھا۔
وہ دیکھتا تھا۔۔۔۔۔ کپل وستو کا جشن۔
وہ دیکھتا تھا۔۔۔۔شدودھن کی خوشی۔
وہ سوچ کا پرندہ تھا، تخیل کا پرندہ تھا، خیال کا پنچھی تھا۔وہ سب ہوتے دیکھتا اوراسے ابھی اور بہت کچھ دیکھنا بھی تھا۔حا لات، واقعات اور ان کی جزئیات بھی ۔ تواب کہ اس کی پرواز نیچی ہوئی۔ وہ ندی “ہان” کے اوپر اس طرح سے اڑتا تھا کہ اس کے پنجے پانی کو چھو چھو جاتے تھے اور لہریں ۔۔۔ موج درموج اٹھتی تھیں۔سبزہ دونوں طرف بہاردکھاتا تھا۔ اس طرف بھی ،ندی کے پاربھی ۔پھولوں کے کھلنے کا موسم تھا۔فضا مہک مہک جاتی تھی اور باآواز یہ اعلان کرتی تھی ،آ گیا وہ وقت ،قریب ہوا وقت کہ جب بھی تاریخ لکھی جانی تھی تو لکھا جاتا۔۔۔۔
قبل مسیح کی پانچویں اور چھٹی صدی میں، ہندوستان میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خیال کا پرندہ اپنے پروں کوزورزورسے جھپکتا تھا اورپھر اس نے اڑان بلند کی اورکولین قبیلے میں جا پہنچا۔
مایا دیوی رواج کے مطابق اپنے میکے آئی تھی۔ وقت گزرتا گیا۔ دن۔۔۔ہفتے۔۔۔مہینے۔۔۔نرمی سے اڑتے گئے۔وقت قریب سے قریب تر ہوتا گیا اور پھر وہ دن آیا۔۔۔۔۔۔
مایا دیوی کا دل اتنا گھبرایا کہ وہ لمبینی(موجودہ نیپال)میں موجود اپنے باغ میں نکل آئی۔ایک درخت کے نیچے نشست رکھی گئی اور۔۔۔۔اور۔۔۔۔
ساعت آن پہنچی۔۔۔۔
لمبینی کے ایک باغ میں، ایک درخت کے سائے تلے ”اس ”کی پیدائش ہوئی۔کپل وستو کا وارث آگیا۔ ساکھیہ قبیلے کا جانشین۔ وہ کہ شجرہ نسب جس سے چلنا تھا۔ولی عہد ریاست کپل وستو۔۔۔ وہ یوراج تھا، پیدائشی یوراج۔۔۔وہ پیدا ہوا ایک درخت کے نیچے، لمبینی کے ایک باغ میں، مایا دیوی کے پوت کی جائے پیدائش۔۔۔۔۔۔
******

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

مستانی — منظر امام

Read Next

دانہ پانی — قسط نمبر ۸

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!