تخیل کیا ہے؟
ایک دودھیا سفید پرندہ۔۔۔۔
جو اگر اڑان بھرنے پہ آئے تو کبھی صدیوں پہلے جا پہنچے تو کبھی صدیوں بعد۔وہ عقاب جیسا تیز رفتار ہے اور اس کی نظر کبھی مستقبل بعید پر ہوتی ہے تو کبھی ماضی بعید پر۔۔۔اس پرندے نے اڑان بھرنے کا قصد کیا۔ اس نے اپنے پر پھیلائے، انہیں پھڑپھڑایا،ہوا کے رخ کو جانچااور پھر سے اڑ گیا اور اب کہ سفر تھا صدیوں پہلے کا۔۔پانچ سو قبل مسیح یا شاید چھے سو قبل مسیح۔۔۔۔۔۔
”وقت ”اس کے لیے معنی نہیں رکھتا،صدیا ں اس کے سامنے مات ہیں۔۔کیوں کہ وہ اڑ سکتا ہے ،جہاں بھی وہ جانا چاہے ، جہاں بھی وہ پہنچنا چاہے جا سکتا ہے ۔
تو وہ اڑا اور جا پہنچا ۔۔۔۔
بھلا کہاں؟؟؟؟
کپل وستو۔۔۔۔۔قدیم ہندوستان۔
٭
یہ قدیم ہندوستان ہے۔ رگ وید کا زمانہ۔عہد آہن ، راجا بمبسار کا دور۔سارا ہندوستان ریاستوں میں منقسم ہے کہ جن کے راجا آئے روز ایک دوسرے کے مدمقابل ہوتے ہیں۔روز جنگیں۔۔۔یوں سمجھ لیجئے کہ یہ اس وقت کا وطیرہ ہے ۔ایسے میں ایک ریاست ایسی بھی ہے کہ جو اپنے جغرافیائی محل وقوع کی و جہ سے بڑے سکون میں ہے اور ریاست بھلا کون سی؟؟؟
وہی جس میں ہان ندی بہتی ہے اور وہی ہان ندی جس کے ایک کنارے پرسا کھیہ قبیلہ بستا ہے اور دوسرے پر کولین قبیلہ ۔وہی ریاست کہ جہاں گیہوں، جو اور چاول کی فصلیں لہلہاتی ہیں۔جنگیں ان کو اجاڑ نہ سکیں۔یہاں سبزہ بہار دکھاتا ہے،فضا مہکتی ہے۔امن سر بکھیرتا ہے اور سکون بہتا چلا جاتا ہے۔
ہاں!۔۔۔وہ تھی ایک ریاست کہ جس کا نام ہے ۔۔۔۔کپل وستو۔۔۔
پر امن اور پر سکون۔۔۔
وقت کے لکڑ داروزنی کواڑ دھکیلے گئے۔بند تالے چرر کی آواز پیدا کرتے ہوئے کھلتے گئے۔زنگ آلود قبضوں کو کھولنے کے لئے قوت صرف کرنا پڑتی تھی ۔تو وہ جب کھلتے تھے تو آواز پیدا کرتے تھے۔ دھول اُڑی،منظر دھندلا سا گیا تھا۔اور جب منظر واضح ہوا تو وہ نظر آیا، وہ ہی سفید پرندہ۔۔اور اس نے دیکھا کہ۔۔۔۔
دیوی، دیوتاؤں کا دور، بھجن گاتے لوگ۔ جنتر منتر الاپتی آوازیں۔امن و سکون سے بستے لوگ ،سنسکرت بولتے ہیں ۔دیوی، دیوتاؤں کے چرنوں میں نذریں چڑھاتے، قربانیا ں کرتے ہیں۔وہ پرندہ ان دیوی دیوتاؤں کی پوجا کرتے ہوئے لوگوں کے سروں پر سے اڑتا ہوا ایک محل کی فصیل پہ جا بیٹھا۔وہ محل پتھر اور گا رے سے بنا ہوا تھا۔اس کا داخلی دروازہ تنگ اور نیچا سا تھا۔اس دروازے سے اندر داخل ہوں تو نظر فورا ًمحل کی گہما گہمی اور ہلچل کوگرفت میں لیتی ہے۔ گہماگہمی اور ہلچل معمول سے بڑھ کر ہے۔باندیاں اِدھر سے اُدھر۔۔۔محل کی راہداریوں، غلام گردشوں میں چکراتی پھرتی ہیں۔ان کے رنگ برنگ دوپٹے چار سو بہار دکھاتے، ان کی قل قل کرتی ہنسی سے گونجتا ہے ۔محفل رقص عروج پہ تھی۔رباب، بانسری اور سنج کی آوازوں سے محل کی درودیوار جھوم ر ہے ہیں ۔مختصرچولی اور گھاگھرے میں ملبوس رقاصائیں، محو رقص ہیں۔یوں بل کھاتیں کہ گویا لچکیلی شاخیں۔سورا (شراب)کے مٹکے پہ مٹکے خا لی ہو رہے ہیں۔جام پہ جام چڑھائے جا رہے ہیں۔مغنیہ مسلسل نغمہ سرا ہے اور گیت پہ گیت گاتی چلی جا رہی ہے۔ اور گیت بھلا کون سے؟؟؟
خوشی کے گیت۔۔۔۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
امرا، رؤسا، سردار ،راجے سب بلوائے گئے۔دعوت طعام ہے اور محفلِ جام بھی۔باورچی خانے میں زعفران کی خوشبو پھیل پھیل جاتی ہے اور ہوا کے دوش پر سوار اعلان کرتی ہے۔۔۔۔خوش ہو جاو، خوشیاں مناؤ، کہ آج خوشی کا دن ہے۔خوشی؟؟؟ مگر کیسی خوشی؟
ہاں !۔۔۔ خوشی اور ایسی خو شی کہ خزانے کے منہ کھولے دئیے گئے ،سب داسیاں نوازی گئیں، دیوتاؤں کے چرنوں میں نذریں چڑھائی جا رہی ہیں۔بڑا ہی بھا گوان دن چڑھا ہے ریاست کپل وستو میں آج۔محل میں گھی کے چراغ جلتے ہیں اور اس طرح سے جلتے ہیں کہ محل دلہن سا روپ دھارے ہوئے ہے۔طاقوں میں چراغ،راہداریوں میں چراغ، فصیلوں پہ چراغ۔۔اتنے چراغ کہ جشن چراغاں ہو جیسے۔روشنی ہر طرف سے ، چہار جانب سے پھوٹی پڑتی ہے۔خوشی محل کے اندر ،باہر ہر سمت میں اڑی پھرتی ہے۔غلام بھاگے بھاگے سے کام نپٹارہے ہیں۔گھوڑے تیار کئے جا رہے ہیں،ہاتھی سنوارے جا رہے ہیں کہ ان کو سفر پہ نکلنا ہے۔ہر طرف رونق میلے کا سا سماں۔کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی ۔
"ہئے ہئے۔۔جلدی کرو ۔ اس ساعت نکلنا ہے ۔اس ساعت سے ایک گھڑی کم نہ زیادہ۔۔۔۔”
ریاست کپل وستو کہ جہاں خوشی کے گیت بلند ہورہے ہیں،روشنی رقصاں ہے، جشن چراغاں ہے، باندیوں کی قلقل کرتی ہنسی ہے، دوپٹوں کی بہار ہے اور زعفرانی کھانوں کی مہک۔۔۔۔۔
یہ سب ہے اور اس لئے ہے کہ آج وہ بیا ہتا ہونے چلا ہے۔۔وہ کہ جس کا نام شدودھن۔ راجا شدودھن۔ساکھیہ قبیلے کا راجا۔ ریاست کپل وستو کا راجا۔آج تو اس کی چھب ایسی نرالی کہ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
اعلیٰ سفید سوتی دھوتی پہنے ہوئے ہے۔اس کے اوپر ایک الگ کپڑے کو لپیٹ کر باندھا گیا ہے۔برہنہ جسم پہ بائیں کندھے سے ہوتی ہوئی ایک چادر،ترچھی شکل میں باندھی گئی ہے اور سامنے ایک پٹا سا دکھائی دیتی ہے۔کھلے بالوں کی لٹیں کندھوں تک آتی ہیں۔سر پہ پگڑی کہ جس کے سامنے قیمتی پتھر جڑا ہے۔دونوں برہنہ کلائیوں میں سونے کے موٹے موٹے کڑے ، سونے کے ہی بازوبند،گلے میں موتیوں کے ہار،اور کانوں میں سونے کی بالیاں۔ وہ اونچا لمبا ،توانااور مضبوط جسم کا مالک ہے۔ذات کاکھشتری۔ وہ ساری خوشی جو ریاست کپل وستو میں اڑی اڑی سی پھرتی ہے اب لگتا ہے جیسے سمٹ کرشدودھن کے چہرے پہ آن ٹھہری ہے۔
آج بیاہ کا دن ہے اور وہ دو راجکماریوں کوبیاہنے چلا ہے۔
********
ندی ہان کہ جس کے کنا رے بستا کولین قبیلہ۔کولین قبیلے کے راجا کی دو بیٹیاں۔
مہا مایا اور مہا پجاپتنی۔وہ دونوں بہنیں ۔۔ہا۔۔کیسا دن آیا ان دونوں کی زند گیوں میں کہ انہیں عطر سے نہلایا گیا۔ ہلدی ملی گئی۔ مہندی سے ہاتھوں پہ سوریا بنایاگیا ۔ ریشم کی نو نو گزکی ساریاں باندھی گئیں۔لمبے دراز گیسو سنوارے گئے۔ مانگ سجائی گئی۔پورپور مہکائی گئی اور روم روم سجایا گیا۔ہار، کنگن، بازوبند، ٹیکا، سب پہنا ئے گئے، سولہ سنگار پورے کیے گئے۔وہ شرما شرما سی جاتی تھیں۔ اپنی قسمت پہ نازاں اِٹھلا اِٹھلا جاتیں۔وہ کپل وستو کی مہارانیاں بننے جا رہی تھیں۔وہ جتنا اٹھلاتیں کم تھا، جتنا نازاں ہوتیںیہ بھی کم تھا۔
ان کے گلنار چہرے جیسے اعلان کرتے محسوس ہوتے ہیں کہ آج شادی کا دن ہے۔۔۔
کہ آج شادی کا دن ہے۔
********
رات بھی دن بن کر طلوع ہوئی ہے قصر میں۔ لگتا تھا کہ سورج آج کے دن کے لئے قصر میں ہی طلوع ہوا ہے اور وہ ڈوبا تو کہیں نہیں۔ رقاصاؤں کی پازیبوں کی چھنک دور تلک سنائی دیتی ہے۔ مغنیاؤں کی آوازیں نیندیں حرام کرنے کا موجب ہیں۔سازندوں کے ہاتھ ہیں کہ تھکتے نہیں۔
وہ بیاہ لا یا ان دو راجکماریوں کو اورجشن اپنے عروج کو پہنچا۔داسیاں خوشی کے مارے راجا کے آگے بچھ بچھ جاتی ہیں اور راجا کے ہاتھ ان کو نوازے چلے جاتے ہیں۔سورا پھر سے پانی کی طرح بہنے لگی۔
اور وقت اپنا آپ دکھانے لگا۔۔
وہ سرک سرک کر گزرنے لگا۔اس جشن کی شام سے لے کر وہ اس ساعت کے قریب آن پہنچا ۔ وہ ہی ساعت کہ جب تاریخ لکھی جانی تھی تو لکھا جانا تھا کہ۔۔۔
راجا بمبسار کے دور میں، ریاست کپل وستو میں۔۔
ساکھیہ قبیلے کے راجا شدودھن۔۔۔۔۔
اور محل کی فصیل پہ بیٹھا تخیل کا پرندہ سب دیکھتا تھا۔
******
یہ قصر کاپائیں باغ ہے۔ شدودھن مغموم اور اداس بیٹھا کسی سوچ میں گم ہے۔ ذرا سادکھی بھی دکھائی دے رہا ہے۔خوشی کے پر بے حدتیز رفتارہوتے ہیں جب ہی تو یوں پھر سے اڑ جاتی ہے۔ سو خوشی کے دن گزرے اور زندگی کی حقیقتیں منہ کھولے سامنے آن کھڑی ہوئیں ۔اتنا وقت گزر گیا اور ابھی تک شدودھن بے اولاد ہی تھا۔ اس کی ریا ست کا جانشین ،اس کا وارث، ولی عہد ابھی تک دنیا میں نہ آیا تھا ۔۔۔ہا۔۔۔تو بادشاہ اس لئے مغموم دکھائی دیتا تھا۔غم ہی تو تھا۔
کتنے ہی جنتر منتر کیے ۔۔ کیسی کیسی جڑی بوٹیاں استعمال نہ کیں۔پرارتھنا، چڑھاوے، نذریں ، قربانیاں، ۔۔سب کر ڈالیں اگنی دیو کے نام۔ کہ اب تو ۔۔۔اب تو اسے پوت دے دے لیکن "دیو ” کیا کرے ۔ بت اگر کچھ کر پاتے یا بولتے ہوتے تو سب سے پہلے ،وہ بت کچھ کرتا، سب سے پہلے وہ بت بولتا کہ جس کے کندھے پہ ابراہیم علیہ اسلام نے کلہاڑا رکھا تھا۔
راجا کو غم کھا تا تھا اور نوچ نوچ کے کھاتا تھا۔اتنی بڑی ریاست، خزانے،مال اسباب، داس، داسیاں۔۔۔۔ یہ سب کس کام کے ؟؟
ہاں!کس کام کے؟
تو کیا ساکھیہ قبیلہ بس شدودھن تک ہی چلے گا؟
شجرہ نسب بس شدودھن تک ہی؟
کیا اس کا وارث کوئی نہیں؟ کیا کوئی نہیں؟
تو ریا ست کپل وستو کا اگلا راجا ،شدودھن کی نسل سے نہ ہوگا؟
آہ! یہ کیسی تقدیر ہے ،کیسا غم ہے؟
راجا نے اک آ ہ بھر کر محل کی عمارت کو دیکھا تھا۔اور اس ایک آہ میں کیا کیا نہیں تھا۔۔۔
دکھ، بے چارگی ،بے بسی،مایوسی۔۔ اس ایک آہ میں کیا کیا نہیں تھا،
اولاد کا نہ ہونا۔۔ یہ چھوٹا غم نہیں اور اگر یہ غم کسی را جا ، کسی بادشاہ کو لاحق ہو جائے تو یہ غم سے زیادہ ریاست کی بقا کا سوال بن جا تا ہے۔راتوں کو سونے نہیں دیتا اور دن کا چین لوٹ کھسوٹ کر کھا جاتا ہے۔ شدودھن بھی مغموم تھا۔ نیند اور چین دونوں اب کہاں؟اپنے مصاحبوں کے ہمراہ باغ میں بیٹھا تھا۔ اتنے میں مایا دیوی داسیو ں کے جلو میں آتی دکھا ئی دی۔وہ دور سے ہی راجا کے چہرے پہ اداسی کو بھانپ لیتی ہے اور یہ اداسی اسے بھی اداس کرنے کا موجب بنتی ہے۔وہ سہج سہج کر ،نرم چال سے چلتی راجا تک آتی ہے۔
"آؤمایا ۔۔۔”
اس کے قریب آنے پہ راجا نے کہا۔
مہارانی نے جھک کر پرنام کیا اور راجا کے برابر آن بیٹھی۔
اور پھر ۔۔۔خاموشی۔
دونوں کے پاس ہی لفظ نہ تھے اوردونوں ہی ایک دوسرے کی حالت کے واقف کار تھے۔
"مہاراج” مایا نے پکارا۔
شدودھن متوجہ ہوا لیکن بولا نہیں۔
"شما کر دیجیئے ، ہم آپ کو اولاد نہ دے سکے” مایا سنسکرت میں بولی تھی اور شدودھن کے پاس جواب میں پھر خاموشی تھی۔اس نے بے اختیا ر ایک گہرا سانس بھر کہ آسمان کی طرف دیکھا تھا۔مایا کا دل دھک سے رہ گیا۔مہارانی کو اس رویے سے تکلیف ہوئی۔ اس کی خوبصورت آنکھوں میں یک د م آنسو بھر آئے ۔دل کو بہت ہی تکلیف پہنچی ۔تو کیا راجہ اس سے بیزار ہو چکا تھا؟؟؟۔۔۔۔
*******
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});