پنج فرمان — سحر ساجد

اس نے بدھ گایا کوچھوڑااور اپنے قافلے والوں کے پاس پہنچا۔ تبلیغ کی۔ انھیں سمجھایا کہ تکلیف سہنے یا بھوک برداشت کرنے سے من کی روشنی نہیں ملتی۔ سکون کا سامان نہیں ہوتا۔ یہ تو بس ”نیکی”میں ہے۔۔ اپنے ہاتھ، پاؤں، کان ، آنکھ، منہ، سب کو نیک بنا لو تو سکون خود بہ خود تمہارے قدم چومے گا۔ راحت سر کے بل چل کر آئے گی۔ تب تمہا را دل روشنی سے بھرجائے گا اور تم کسی پنکھ کی طرح ہلکے ہو جاؤگے۔ شاگرد سادھوؤں نے سدھارتھ کو دھتکار دیا۔ تھو تھو کی۔
”دیکھو۔ ۔ ۔دیکھو یہ باغی ہو چلا۔ سرکش ہو گیا ہے۔ جا ؤ۔ ۔ ۔جا دفع ہو جاؤ۔۔۔ ”
اور وہ نکالا گیا، دھتکارا گیا لیکن دل برداشتہ نہ ہوا۔ وہ وہاں سے چلا تو سارناتھ (بنارس) آن پہنچا ۔
وہاں پہنچ کر اس نے وعظ کیے اپنے پہلے ” پنج فرمان” ۔

*****
”پنج فرمان”
بچے رہو گے تم ۔ ۔ ۔
جان داروں کے قتل سے
چوری سے
جنسی زیادتی سے
جھوٹ سے
اور نشہ آور چیزوں سے۔ ۔ ۔
*****
سدھارتھ نے ایک نئے مذہب کی بنیاد رکھی۔ اور یہ ہی پنج فرمان اس مذہب کی بنیاد کہلائے۔ ان کا اطلاق ہر ایک پہ ہوتا ہے چاہے وہ ایک عام آدمی ہو یا با اثر۔ یہ فرمان اس مذہب کے ماننے والوں پہ یکساں طور پہ نافذ ہوتے تھے اور ہوتے ہیں۔ یوں سمجھ لیجئے کہ یہ اس مذہب کی بنیادی شرائط ہیں اور اس مذہب کو اپنانے کے لیے ان کاپورا کرنا لازمی تھا اور لازمی ہے۔ کل بھی اور آج بھی۔
”سنا!۔۔۔۔۔۔”
کل بھی اور آج بھی۔
*****

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

یہ لڑکا جو پیدا ہوا فلاں فلاں دن۔ یہ کوئی عظیم بادشاہ بنے گا اور اگرایسا نہ ہو سکا تو کوئی عظیم روحانی پیش وا ہوگا۔
پیش گوئی پوری ہوئی اور وہ ایک عظیم روحانی پیش وا بنا۔
وہ ہندوستان کے کونے کونے میں گیا اور اپنے مذہب کی تعلیمات کا پرچار کیا۔ اس کے ماننے والے روزبروز بڑھتے گئے۔ اس کا مذہب تیزی سے پھیلا اور اس کی ‘سنگھ’کا حجم بڑھتا ہی چلا گیا۔ سدھارتھ اسّی سال تک جیا۔اسّی سال تک وہ لوگوں میں اپنی تعلیمات پھیلاتا رہا۔ نیکی کا درس دیتا رہا، وعظ کرتا رہا ۔
اس نے حکم دیا :” اس کے مذہب کے پیروکار یا بھکشو اپنے پاس ایک پیالا رکھیں گے تاکہ وہ جو کچھ بھی پئیں چھان کرپئیں ۔یہ نہ ہوکہ انجانے میں ان کے معدے میں کوئی جان دار چلا جائے اور وہ اس کی ہلاکت کا باعث بن جائیں۔ انجانے میں بھی اے بھکشوؤ !کسی جان دار کی ہلاکت کا باعث مت بننا۔”
” سنو بھکشوؤ!جان دار کی ہلاکت کا باعث مت بننا۔ کسی طور سے، کسی بھی طرح، جان داروں کی ہلاکت کا باعث مت بننا۔ مت مارنا۔ ۔ ”
وہ اسّی سال کی عمر کو پہنچا اور جب موت قریب آئی تو اس نے اپنے تمام بھکشوں کو جمع کیا اور اپنا آخری فرمان، آخری وعظ جاری کیا۔ ۔ ۔
”بھکشوؤ! میں تم سے کہتا ہوں ، اس دنیا کی ہر فریب چیز کو زوال ہے اور اپنی نجات کے لیے کوشاں رہو۔۔”
تو کہانی اپنے انجام کو پہنچی۔ سفر تمام ہوا اور منزل آگئی۔سدھارتھ روانہ ہوا اپنے آخری سفر پہ۔ بس اب سب کچھ ختم ہوا۔ اس کے بعد۔۔۔ سدھارتھ کے بعد کیا ہوا؟ اس کے مذہب کاکیا بنا؟۔۔۔
اس کے مرنے کے بعد بھی وہ ہی ہوا جو آج تک ہوتا آیا ہے۔
بھکشو ؤں کے فرقے بن گئے۔ مذہب میں تحریف ہونے لگی۔ ہر کوئی اپنااپنا فرقہ لے کر بیٹھ گیا۔ بھکشو لوگ آپس میں جھگڑنے لگے۔ تو حضرت انسان نہ بدلے ۔۔۔ فرق صرف ” جد ت ”کا ہے۔
آج بھی اس مذہب کے کئی فرقے ملتے ہیں لیکن اٹل بات یہ ہے کہ وہ ”پنج فرمان” نہیں بدلے ۔ ”بچے رہوگے تم ۔۔۔ جان داروں کے قتل سے، چوری سے، جھوٹ بولنے سے، جنسی زیادتی اور نشہ آور چیزوں سے۔”
*****
وقت کے بوسیدہ لکڑی کے بھاری کواڑ ۔۔۔ آہستہ آہستہ بند ہو رہے تھے۔ ان کے بند ہونے سے دھول مٹی اڑتی تھی۔ زنگ آلود قبضے چھیڑے جانے پہ نالاں تھے اور مزاحمت کی پوری کوشش میں ‘چیں چیں ‘کی آوازیں بلند کرتے تھے۔ ایسے میں سرمئی آسمان پہ ایک پرندہ نمودار ہوا۔ وہ پرندہ اپنے پروں کو پورا زور لگا کر جھپکتا تھا اور اس کوشش میں تھا کہ وہ کواڑ بند ہونے سے قبل ماضی کے محلات میں سے نکل سکے۔ کواڑ آہستہ آہستہ بند ہو رہے تھے اور ان کے مکمل بند ہونے میں محض ہاتھ بھر کا فاصلہ رہ گیا تھا۔ اس سے پہلے کہ کواڑ مکمل طور پہ بند ہوتے ایک پرندہ پھر ،تیزی سے اس ہاتھ بھر کے فاصلے میں سے نکلا تھا۔
”کل” دفن ہوا ۔ ۔ ۔” آج ”زندہ ہو گیا۔
وہ کردار جو ”کل” میں سانس لیتے تھے۔ ” آج” مردہ کہلائے۔ ماضی میں جو محلات میں بسیرا کرتے تھے،حال میں ان کے مدفن کا نشان ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا اور گر کوئی نشان مل جائے تو اسے مجسمہ کہہ کرعجائب گھروں میں سجا دیا جاتا ہے۔ سدھارتھ کے مجسمے بھی ملے ہیں، یہاں پاکستاں میں بھی۔ اس کے ماننے والے آج بھی ہزاروں کی تعداد میں ہیں۔ نیپال اس مذہب کا گڑھ کہلایا جاتاہے۔ سدھارتھ کے مجسمے بنائے جاتے ہیں اور ان کے آگے سجدہ ریز ہوا جاتا تھا۔ اس سے مانگا جاتا ہے حالاں کہ اس کی پوری تعلیمات میں یہ کہیں نہیں ملتا کہ اس نے کسی بھکشو سے کہا ہو کہ میرے سے مانگویا میرے سامنے سجدہ ریز ہو جاؤ۔
یہ ”حال” ہے۔ اور وہ۔۔۔ وہ آخر تھا کون؟۔۔۔۔
*****
قبل مسیح کی پانچویں اور چھٹی صدیوں میں بڑے بڑ ے کارنامے ہوئے۔
یونان میں فیثا غورث
ایران میں زرتشت
چین میں کنفوشش۔۔۔
اور ہندوستان میں۔۔۔ ہندوستان میں کیا؟
ہندوستان میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہندوستان میں۔ ۔ ۔ ۔ سدھارتھ گوتم ۔
جب بھی تاریخ لکھی جائے گی تو لکھا جائے گا کہ ۔ ۔ ۔
پانچ یا پھر چھے سو قبل مسیح، راجا بمبسار کے دور میں، کہ جب کپل وستو میں راجا شدودھن حکومت کرتا تھا۔ اس کا پوت سدھارتھ۔۔۔ کہ جس کے پیدا ہونے پہ ریاست کپل وستو جھوم اٹھی تھی کیوں کہ وہ وقت قریب تھا کہ جب اس بالک نے ایک نئے مذہب کی بنیاد رکھنی تھی تو ایک یوراج نے عیش و آرام پہ لات ماری اورجنگل میں جابسا۔ اس نے نئے مذہب کی بنیاد رکھی اور وہ”مہاتما گوتم بدھ” کہلایا۔۔۔۔
اور اس نے ”بدھ مت ”کی بنیاد رکھی تھی۔
وہ ہی بدھ مت، جس کے ماننے والے آج بھی موجود ہیں اور وہ ہی بدھ مت جس کے پیروکار آج بھی دنیا کے کئی ممالک میں ایک کثرت سے بستے ہیں۔ چین۔ نیپال، سری لنکا ، جاپان اور برما۔۔۔۔
تو وہ تھا مہاتما گوتم بدھ اور یہ تھا اس کا مذہب۔۔۔ بدھ مت۔
*****
پہلا فرمان
”بچے رہو گے تم جان داروں کے قتل سے۔”
”جان دار”۔۔۔۔ تو مجھے بتایا جائے۔ مجھے بتایا جائے۔ ۔ ۔
کیا ۔۔۔ کیا ۔۔۔ وہ جا ن دار نہیں ہیں؟
کیا نہیں ہیں؟
کیا یہ تمہاری تری پٹک میں یہ نہیں لکھا ؟۔ ۔ ۔
کیا نہیں لکھا؟؟؟
”جواب دو، بولو بتاؤ۔۔۔ کیا تمہاری تری پٹک میں نہیں لکھا کہ بچے رہو گے تم جانداروں کے
قتل سے”
”واللہ !وہ جان دار ہیں ۔۔۔ جان دار ہیں۔ جان ۔ ۔ ۔دار۔ ۔ ۔ ہیں۔”
یہ تم تھے، تمہارا روحانی پیش وا، تمہارا ہی مذہب اور اسی کے فرمان۔
اور تم منکر ہو اپنی ہی تری پٹک کے اور تم قتل کرتے ہو مارتے ہو انہیں گویاوہ کوئی کیڑے
مکوڑے ہوں۔
کیا تم نے اپنا پیالا توڑ دیا؟؟؟۔ ۔ ۔
کیا اب تم کسی جان دار کی ہلاکت سے نہیں ڈرتے؟۔ ۔ ۔
کیا تم نے گوتم بدھ کے ” پنج فرمان ” اپنی پشت کے پیچھے پھینک دیئے ۔
وہ ہی گوتم بدھ جس کے مجسموں کے سامنے آج بھی تم اپنا ماتھا ٹیکتے ہو۔ اسے خدا (نعوذباللہ)مانتے ہو۔ گوتم بدھ کو مانتے ہو پر اس کی نہیں مانتے۔
تم بدھ کے کیسے ماننے والے ہو؟۔ ۔ ۔ہاں ۔ ۔ ۔تم کیسے بدھسٹ ہو؟
مت مارو۔۔۔ مت مارو ۔۔۔انھیں مت مارو، پرکھ لو ،جانچ لو ، کسی بھی کسوٹی پر،کسی بھی طریقے سے۔ سائنس سے پوچھ لو اور کوئی بھی ثبوت مانگ لوجو بھی تم مانگنا چاہو۔
ہر طریقہ۔۔۔ہر کسوٹی۔۔۔ہر جانچ۔۔۔ تم سے یہ ہی کہے گاکہ۔ ۔ ۔
وہ جان دار ہیں۔۔۔ مسلمان جان دار ہیں۔
قسم ہے اللہ کی کہ مسلمان جان دار ہیں۔۔۔
*****
اتنی لمبی اڑان ۔۔۔اتنی مسافت نے اسے تھکا دیا تھا۔ اس کا سفید دودھیا جسم چیچک زدہ تھا اور اس پہ جابجا کالا رنگ بدنما داغوں کی صورت پھیلا ہواتھا۔
اور وہ دکھ کے نشان تھے۔۔۔ غم کے دھبے تھے۔۔
اور جب وہ وقت کے کواڑوں سے نکلا تو اس کی طاقت ختم تھی۔ وہ بے حد تھکا ماندہ دکھائی دیتا تھا۔ پریشان اور بے حال۔۔۔۔
وہ اڑا۔۔۔ اور اڑ کر” قلم” کے پاس پہنچا۔ وہ ہانپ رہا تھا۔ اس نے اپنے پر پھڑپھڑائے اور حالات، واقعات، کردار سب قلم کے آگے ڈھیر کر دیئے۔۔۔۔
کہ لو بنو ایک کہانی اوروہ داستان لکھو کہ جس پہ ہمیشہ نفرت کا رنگ۔۔۔دکھ کا رنگ۔۔۔موت کا رنگ۔ حاوی رہے گا۔۔۔
” اے بھکشو ؤ! میں تم سے کہتا ہوں کہ ہر فریب چیز کوزوال ہے اور اپنی نجات کے لئے کوشاں رہو۔۔۔”
نفرت سے بڑا فریب اور کیا؟۔۔۔سنا تم نے نفرت سے بڑا فریب اور کیا؟ ؟ ؟۔ ۔ ۔
*****
قلم نے ایک اختتامی لکیر کھینچی اور کہانی مکمل کی۔ اب قلم کہانی کے لفافے کے اوپر لکھ رہا تھا۔
” Thein Sein کو پہنچے ، صدارتی محل ، دارلحکومت میانمار”
پتالکھنے کے بعد قلم اک ثانیہ کو رکا اور پھر لفافے پہ لفظ ابھرنے لگے۔
” ایک انسان کی طرف سے ایک انسان کو پہنچے۔۔۔”
(ختم شد)

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

مستانی — منظر امام

Read Next

دانہ پانی — قسط نمبر ۸

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!