پنج فرمان — سحر ساجد

کہاں زعفرانی کھانے۔۔۔۔اور۔۔۔ کہاں یہ معمولی غذا۔
”آج” نے ڈھانپ لیا تھا ”کل”کو۔
چھے برس۔۔چھے برسوں کی تپسیا تھی۔ اور آج وہ تپسیا خاک ہوئی۔ جب وہ محل سے نکلا تھا تو انتیس برس کا تھا ۔ اب پینتیس کا ہو چکا تھا۔ چھے سال۔۔۔ چھے سال گزر گئے۔تو کیا چھے برسوں سے اس نے ایک وقت کے کھانے کے لیے تپسیا کاٹی تھی؟۔ محض اس لیے ۔۔۔ کیا صرف اس لیے سدھارتھ نے چھے برس کی خاک چھانی تھی؟۔۔۔ کیا ایک وقت کے کھانے کے لیے وہ دربدر ہوا تھا؟۔۔۔ کیا صرف اس لیے اس نے تیاگ دیا تھا سب کچھ کہ کسی دن ایک دریا میں بے ہوش ہو کر جا گرے اور ایک کنیا اس کی جان بچائے۔
سوال پھر سے سر اٹھانے لگے۔ اور یہ سوال۔۔۔سوال نہ تھے ۔ سات منہ والے زہریلے سانپ تھے کہ جن کے پھن پھیلے ہوئے تھے اور وہ تیا ر تھے کی ڈس کر جان سے مار دیں سدھارتھ کو۔ تو چھے برسوں کی کمائی؟۔ ۔ ۔ بس یہ ہی ۔ ۔ ۔یہ ہی؟۔۔۔۔ ایک وقت کا کھانا اور بس؟۔۔۔۔
روح کا سکون گر تپسیا میں تھا تو وہ کہاں تھا؟۔ ۔ ۔
وہ دنیا کے کسی شخص کے پاس نہ ہوتا مگر سدھارتھ کے پاس تو ہوتا ناں۔کہ اس نے چھے برس اسی اک چیز کے لئے خاک چھانی تھی۔ لیکن۔۔۔ وہ اب بھی محروم تھا۔ اب بھی وہ اسی طرح تھا کہ جیسے چنا ، ابھی ابھی اسے رتھ سے اتار کر گیا ہو۔ چھے برسوں نے اسے کچھ نہ دیا تھا سوائے دن بہ دن بڑھتی ہوئی تڑپ کے۔
اور وہ بے زار ہو گیا اس طرزِ زندگی سے جو راہبوں، سادھوؤں اور بھکشوؤں نے اختیار کر رکھی تھی۔ وہ یہ سوچنے پہ مجبور ہواتھا کہ ایسا طرز زندگی کیسے کسی کو سکون بخش سکتا تھا؟۔۔۔ کیسے؟ یہ فطرت کے منافی تھا۔ یہ۔ ۔ ۔ غلط تھا۔ غلط تھا۔ جسم ایذا برداشت کرے تو سکون روح کو کیوں کر پہنچ سکتا ہے۔ اور اگر ایسا ہوتا تو سب سے پہلے سدھارتھ کے ساتھ ہوتا۔ تو چھے برس کچھ نہ تھے ما سوائے ایک مشت بھر اڑتی خاک اور گرد کے کہ جس میں وہ لاغر شخص اٹا پڑا تھا۔
“اے روح! تیری تڑپ سخت۔۔۔ سخت ٹھہری تیری تڑپ۔”
*****

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

برائی کیا ہے؟
ایک سیاہ زہریلا سیال۔ جو جس کسی میں سما جائے تو اس کے د ل کو بھی سیاہ کردے۔ ۔ ۔ کالا سیاہ۔یہ جب دلوں کو ڈھانپ لیتی ہے تو اس میں موجود ہر دوسرا جذبہ مارڈالتی ہے۔ جہاں یہ ہوتی ہے تو بس پھر یہ ہی ہوتی ہے۔یہ پردہ بن کر گرتی ہے آنکھوں پہ اور کھا جاتی ہے بصارتوں کو۔ یہ ذہنوں پر قفل ڈال دیتی ہے اور خرد کو لے اڑتی ہے۔ اور نفرت برائی کی ایک شکل۔۔۔
نفرت کی ایک شکل سرکشی ہے ۔نفرت پسندلوگ زہر کھاتے ہیں، زہر پیتے ہیں، اور زہر اگلتے ہیں۔ یہ زہر کو ہی پوجتے ہیں۔
”نفرت” لات و منات سے بڑا بت۔
اور یہ قبیلہ قابیل کے لوگ، اسی کے آگے سجدہ ریز۔ قریب ہے کہ پھٹ جائے گے ان کے دل، ان کے اپنے ہی زہر سے۔نفرت ۔۔۔ جاہلیت اور ”یہ”سب سے بڑے جاہل۔
اور نفرت۔۔۔ نہیں مدغم ہوتی سوچ میں۔ یہ ابھر آ تی ہے سوچ کے دودھیا جسم پہ جا بہ جا۔ چیچک کے بھدے داغوں کی صورت۔
*****
اسے تین دفعہ زندگی ملی تھی۔
پہلی با ر املی کے پیڑ تلے، لمبینی کے باغ میں۔
دوسری بار ڈوبنے سے بچنے پر۔
اور تیسری بار؟۔۔۔۔
یہ بدھ گایاہے۔
اور یہ پیپل کا درخت ہے۔
بھوک مٹی تو ذہن میں پھر سے فکر نے ڈیرہ جما لیا۔ وہ روز دریا کنارے پہنچ جاتا۔ پیپل کی چھاؤں میں بیٹھا فکر کی سوما پیتا تھا اور غور کرتا تھا، سوچتا تھا۔
”روح کا سکون۔ ۔ ۔ من کی روشنی کہاں ہے؟ کیسے ملتی ہے؟ کہا ں سے ڈھونڈی جائے؟ زندگی کیاہے، کس لیے ہے؟ ”اس نے راہب بن کر دیکھ لیا سادھو بن کر بھی جانچ لیا۔ تو اب۔۔۔ اب کیا کیا جائے؟۔ ۔ ۔
پیپل تھا۔۔۔ وہ تھا اور فکر تھی۔ روز جاتا، سوچتا اور ناکام لوٹتا۔ یوں لگتا کہ اس کی ‘لگن’ اس سے کچھ کروا کر چھوڑے گی۔’لگن’جب’جنون’ بنتی ہے توساری طاقتوں کو مات دے کر بذات خود ایک عظیم طاقت بن جاتی ہے۔ ایسی طاقت جو کچھ کر دکھاتی ہے اور اس طاقت نے وہ کچھ کر دکھایا۔
وہ عام سا ہی ایک دن تھا۔ سورج روز کی طرح ہی طلوع ہواتھا۔ سدھارتھ پیپل کے درخت تلے آلتی پالتی مارے بیٹھا تھا۔ آنکھیں بند کئے۔۔۔ دھیان لگائے ہوئے وہ من کی روشنی کو ڈھونڈتا تھا، تلاشتا تھا۔ روح کے اطمینان کو کھوجتا تھا۔ قریب تھا کہ دن گزر جاتا اور روز کی طرح سدھارتھ کو ناکام و بے مراد چھوڑ جاتا۔ لیکن سورج کی ڈوبتی کرنوں کے ساتھ۔۔۔ اس کے ذہن پہ ایک خیال ‘الہام’ بن کر اترا تھا۔ اور۔ ۔ ۔ اور سدھارتھ کو’نروان’حاصل ہوا۔
چھے برسوں کی تپسیا۔ ۔ ۔ ۔چھے برسوں کی مشقت ۔ ۔ ۔ چھے برسوں کی اذیت ۔ ۔ ۔تمام ہوئی۔
دہکتا، جلتا، سلگتا بھانبڑ سکون کی ٹھنڈک میں بدلا اور پورے جسم میں پھیل گیا تھا۔ بد ن میں سکون لہو کی جگہ دوڑنے لگا۔
اور اسے تیسری بار زندگی ملی۔
یہ بدھ گایا ہے اور وہ پیپل کا درخت تھا۔ جہاں کوئی تیسری بار زندگی سے گلے ملتا تھا۔
نفرت۔۔۔ ایک برائی اور نفرت کا رنگ ۔ ۔ ۔ کالا رنگ۔ سیاہ رنگ۔
یہ سفید رنگ میں مدغم نہیں ہوتا ۔ سفید رنگ اسے اُگل دیتا ہے اور یہ اس کے جسم پہ جا بہ جا آبلوں کی صورت ابھر آتا ہے۔
موت کا رنگ ۔۔۔ دکھ کا رنگ ۔۔۔غم کا رنگ۔۔۔ سیاہ رنگ۔ برائی کا رنگ ۔ ۔ ۔ سیاہ رنگ۔
تو نفرت کا رنگ بھی سیاہ کیوں کہ جس دل میں نفرت ہوتی ہے تو پھر وہاں کچھ اور نہیں ہوتا ،بس سیاہی ہوتی اور وہ کالا سیاہ پڑ جاتا ہے۔اسی سیاہی کی وجہ سے نور پھر اس دل میں اتر نہیں سکتا۔ جگہ بنا نہیں سکتا۔ سیاہی سے بھرا دل ۔ ۔ اندھا ہوتا ہے۔ ہر دوسرے جذبے سے محروم، خالی۔
*****
محبت ایک جذبہ ہے اور جب یہ جذبہ دل کوڈھانپ لے،وجود پہ چھا جائے تو یہ آنکھ میں نور بن کر اترتا ہے، ذہن میں اور سوچ میں پاکیزگی بن کر چھلکتا ہے۔۔۔۔
محبت ایک آفاقی جذبہ۔۔۔۔
بڑی ہی زیادتی ہے محبت کے ساتھ اگر اسے صرف مرد و زن تک محدود کر دیا جائے۔ یہ اس سے ماورا ہے۔ یہ جنس نامی حدود سے آزاد ہے۔ یہ آسمان جتنی وسیع ہے اور اس کی وسعت نہیں ماپی جا سکتی اور اسے چند لوک کہانیوں تک قید کر کے رکھ دیا جاتا ہے اور بس۔
خدارا اسے آزادکردو۔ اسے اڑنے دو، اپنی وسعت میں جینے دو۔ محبت کو اپنے ہونے کے جواز سے ملنے دو۔ محبت تب مرتی ہے جب اسے دو پیار کرنے والوں تک منسوب کر دیا جاتا ہے۔ محبت اس لئے تو پیدا نہیں کی گئی۔ اس لئے تو یہ وجود میں نہیں لائی گئی۔
”ایک انسان کا ایک دوسرے انسان کے ”وجود”کو تسلیم کرنا محبت ہے۔”
چاہے وہ جیسا بھی ہے،گورا، کالا، لمبا، چھوٹا، خوبصورت، بد صورت، مسلم، غیر مسلم، امیر، غریب۔۔۔ جیسا بھی ہے۔ محبت ”انسانیت” ہے۔
”محبت احترامِ انسانیت ہے۔”
”محبت روشنی ہے۔”
”محبت نیکی ہے۔”
اپنے من کو، اپنے دل کو نفرت کی برائی سے بچاؤ ۔ اس کی سیاہی سے۔تم جو بھی ہو ،جس فرقے سے ہو، جس بھی مذہب سے ہو، محبت کرنا سیکھو۔ اگر کوئی تمہارے فرقے، تمہارے مذہب، تمہاری نسل سے نہیں تو کیا وہ انسان نہیں؟
کیا’انسان ‘ ہونے کی تعریف بس یہی ہے کی وہ تمہارے مذہب، تمہارے فرقے، تمہارے ملک ، تمہارے شہر ، تمہاری ذات سے ہو ؟
کیا بس یہی؟
محبت تو نیکی ہے اور نیکی کو عام کرو۔ پھیلا ؤاسے۔۔۔ چاہے وہ اک مسکراہٹ ہی کیوں نہ ہو۔
*****
چھے برس پہلے جب وہ چنا کے ساتھ سفر پہ نکلا تو تب تاریخ میں لکھا جانا تھاکہ
”کپل وستو کی ریاست میں، راجا بمبسار کے دور میں، ایک یوراج سفر پہ نکلا ۔ وہ ایک بوڑھے آدمی سے اور ایک سادھو سے ملا۔ اس نے چند لاشیں دیکھیں وہ یوراج دنیا سے نابلد تھا اور جب وہ دنیا سے گلے ملا تو سوال سر اٹھانے لگے۔ تو اس نے اپنے “یوراج” ہونے پہ لات ماری اورحقیقت کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا اور حقیقت اسے’چھے برسوں ‘کے بعد بالآخر آن ملی۔۔۔
چھے برسوں کی اذیت کے بعد۔
چھے برسوں کی تپسیا کے بعد۔
اور یہ ہی تاریخ تھی، حقیقت تھی۔
اور وہ یوراج سدھارتھ تھا۔
*****
نیک قول
نیک عمل
نیک کوشش
نیک خیال
نیک مراقبے
اور نیک زندگی۔ ۔ ۔
یہ تھا چھے برسوں کا نچوڑ۔ جو اس کے دل پہ الہام بن کر اترا تھا۔ نیکی۔۔۔ نیکی۔۔۔ اور بس نیکی۔ روح کا سکون اسی میںہے اور بس۔ غم ہوتا ہے تو اس کا کوئی سبب بھی ہوتا ہے۔ سبب کو ختم کرو اور غم فنا۔۔ کہانی ختم۔ دل کو پاک رکھو تو سکون خود بہ خود اندر تک اترجائے گا۔ جسم کو کوئی ایسا فعل، کوئی ایسا کام، کوئی ایسی حرکت مت کرنے دو جس سے روح تکلیف زدہ ہو۔ جسم روح کا گھر ہے۔ جسم ستھرا ہو گا، تو روح بھی ستھری ہوگی۔ پھر یہ نہ تڑپے گی اور نہ ہی کوئی آگ اسے جلائے گی۔ اورروح کا یہ گھر نیکی سے ستھرا ہوتا ہے۔۔۔۔
نیکی ۔ ۔ ۔نیکی۔۔۔ اور بس نیکی۔
چھے برسوں کا نچوڑ یہ ہی۔
زندگی کیا اور کس لئے؟۔۔۔۔
زندگی نیکی اور بس اسی لئے۔۔۔
چار لفظ اور چھے برس ۔ ۔ ۔
*****

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

مستانی — منظر امام

Read Next

دانہ پانی — قسط نمبر ۸

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!