”یہ تم کیا کہہ رہے ہو رفیق جاناں….؟” فیروز ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا۔ رفیق نے ابھی کچھ دیر پہلے اسے جو کچھ کرنے کا کہا تھا۔ وہ اس کے رونگٹے کھڑے کرگیا تھا۔
”میں کیا کہہ رہا ہوں۔ تم اچھی طرح سمجھتے ہو۔ اب تم صرف اپنا جواب بتاؤ؟” لیکن میں کسی کے بہن بیٹی کے ساتھ یہ سب کیسے کرسکتا ہوں…” صدمے کے مارے اس کے منہ سے صحیح الفاظ نہیں نکل رہے تھے۔
”نہ تمہاری کوئی بہن ہے نہ میری تو ڈر کیسا؟…. ایک اور دھماکا کیا تھا رفیق نے وہ تو آنکھیں پھاڑ کے اُسے دیکھے گیا۔
”مگ مگر…. مگر خدا تو ہے سب کا رفیق جاناں۔” اس کی زبان لڑکھڑاگئی۔ رفیق ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا۔
”اب تم بحث بڑھارہے ہو۔ میں نے تم سے صاف جواب مانگا ہے۔ ہاں یا نہیں۔”
”نہیں۔” فیروز نے چہرہ پھیرلیا تھا۔
”آج کے بعد تمہاری میری دوستی ختم۔ اب مجھے کبھی آواز دینے کی کوشش بھی مت کرنا۔” اس نے زور سے فیروز کے کندھے پر مُکا جڑا تھا اور اس کی بیٹھک سے باہر نکل گیا۔ اب کے لب کچلنے کی باری فیروز کی تھی۔
٭٭٭٭
اور پھر دوستی جیت گئی۔ انسانیت ہارگئی۔ فیروز مر تو سکتا تھا مگر رفیق جان سے دوستی توڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ تب ہی اس نے رفیق جان کے منصوبے پہ عمل کرنے کے لیے اکیلے ہی ساری پلاننگ کی تھی۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ کبھی بھی ان کا پول کھلنے پر رفیق جان کا نام بھی سامنے آئے۔ اس نے رفیق جان کی دوستی میں اس لڑکی کو حاصل کرنے کے لئے ایک کھیل کھیلنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ وہ بھول بیٹھا تھا کہ مکمل فیصلہ صرف اُس بڑی ذاتِ کریم کا ہی ہوتا ہے۔
٭٭٭٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
ساری وادی میں قیامت برپا ہوگئی تھی۔ وادی کے چار جوانوں نے کسی مرد کو رات کے اندھیرے میں فرہاد آفریدی کے گھر کی دیوار پھلانگتے ہوئے دیکھا تھا۔ اس وقت جب کہ فرہاد وادی سے باہر شہر گیا ہوا تھا۔ ہر نفس مشتعل تھا۔ غیرت جاگ اُٹھی تھی اور بس سے باہر ہوئی جاتی تھی۔ دن اُبھر آیا۔
اور اس قیامت کی وجہ بننے والا وہ معصوم سا وجود، بے خبر کھلے آسمان تلے بکریاں چرانے میں مصروف تھا۔ تبھی اس کی نظر اپنی طرف آتے فرہاد پہ پڑی تھی۔
”لالا! آگئے شہر سے۔” اس نے گود میں لیا بکری کا بچہ نیچے رکھ دیا۔ وہ اپنی ماں کے پاس دوڑ گیا۔ فرہاد قریب آچکا تھا۔ اس کے چہرے پر ایک عجیب سی وحشت طاری تھی۔
”لالا۔” وہ بھی بھائی کی جانب لپکی، جو یک دم کچھ فاصلے پر رُک گیا تھا ”لالا خیر تو ہے۔” زرغونہ پریشان ہوگئی اور فرہاد نے اپنا نچلا لب دانتوں سے کچل ڈالا۔ زخمی چیتے کی طرح آگے بڑھا اور اگلے ہی پل زرغونہ کے لمبے بال اس کی مضبوط گرفت میں تھے۔ زرغونہ کی چیخ نکل گئی۔
بادل چھانے لگے تھے۔ کچھ دیر پہلے ہی نکلے سورج کے ساتھ بادل لُکا چُھپی کھیل رہے تھے۔
”لالا۔” زرغونہ درد سے کراہی اور فرہاد کچھ بھی سنے بغیر اسے پیٹنے لگا۔ لاتوں سے، گھونسوں سے، تھپڑوں سے۔
”بتا….. رات تجھ سے کون ملنے آیا تھا۔” بدن میں اٹھنے والی ٹیسوں اور لب پر اُبھرنے والی آہوں نے یک لخت ہی دم توڑدیا تھا۔ وہ حیرانی سے بھائی کو دیکھنے لگی اور چھلنی روح کے ساتھ یاد کرنے لگی کہ رات کو اس کے گھر کون آیا تھا۔ وہ سوچنے لگی اور فرہاد نے اسے زور دار لات رسید کی۔ وہ ایک جانب لڑھکی اور لڑھکتی چلی گئی۔ اس نے تیزی سے سہارا لینے کے لیے اِدھر اُدھر ہاتھ مارے اور زمین سے پیر الگ ہوتے ہی کسی درخت کی شاخ اس کے ہاتھوں میں آگئی۔ اس نے مضبوطی سے اس شاخ کو پکڑلیا، بادل گھنے ہوتے گئے۔ وہ اب ہوا میں معلق تھی۔ نیچے گہری کھائی تھی اور نوکیلے پتھروں پہ بہتا دریا۔
”لالا۔” وہ نہ جانے کیوں رو نہ سکی۔ آنسو پتھر ہوگئے تھے۔
”تھو” لالا نے زمین پر تھوک دیا۔
”تم ہر وقت شادی سے اس لیے انکار کرتی رہیں۔ تاکہ اس پلید کے ساتھ منہ کالا کرسکو بتا کون ہے وہ ورنہ آج تجھے خود اس کھائی میں گراکر تیری جان لے لوں گا۔ ” کتنا زہر تھا اس کے لفظوں میں۔
وہ چپ چاپ لفظوں کا زہر پیتی یاد کرنے لگی کہ رات اس سے ملنے کون آیا تھا۔ اس نے ساری رات خدا سے بات کی تھی۔
اپنے پیارے بھائی کی بہ خیریت واپسی کے لیے۔ ساری رات اندھیرے میں مصلے پر بیٹھی رو رو کر دعائیں مانگتی رہی۔
وہ ربِ واحد کو یاد کرتی رہی۔
اسی کو پکارتی رہی اور لمبی زندگی کی دعا مانگتی رہی۔
صرف اور صرف اپنے بھائی کی لمبی زندگی کی دعا….
دور پیپل کے تنے سے ٹیک لگائے رفیق یہ منظر بڑی حیرانی سے دیکھ رہا تھا۔ اس نے تو سوچا تھا کہ فرہاد بہن پہ جان دیتا ہے۔ وہ اگر زرغونہ کو بدنام بھی کردے گا تو فرہاد اپنی بہن پہ شک تک نہیں کرے گا۔ بس اس کا منگیترشادی سے انکار کردے گا۔ اور وہ پوری عزت سے اسے حاصل کرلے گا۔ لیکن یہاں تو۔ وہ محبت نہیں عشق کرتا تھا زرغونہ سے… یہ اس کا خیال تھا۔
وہ مرے مرے قدموں سے فرہاد کی طرف بڑھا تاکہ سچ بتاسکے۔ اپنی زرغونہ کو بچاسکے۔ مگر….
زرغونہ نے بھائی کی نظروں میں ایک پل کے لیے دیکھا۔ وہاں اس کے لیے نفرت تھی، غصہ تھا، شرمندگی تھی۔ اسے لگا وہ پاتال میں جاگری تھی۔ سو اب جینا مرنا ایک تھا۔
اس کی روح تک برہنہ ہوگئی تھی۔ چلتی سانسوں کی پھر کیا ضرورت…. رفیق سے چلنا دشوار ہورہا تھا۔ اس کی سانسیں اٹک رہی تھیں اور پاوؑں شل ہورہے تھے۔ وہ فرہاد کے قریب پہنچ چکا تھا تب ہی…
پاتال کی طرف سفر کرتی زرغونہ نے وفا نبھائی تھی۔
اور ہاتھ میں پکڑی شاخ چھوڑدی تھی ایک دم۔
اور بھائی کی مشکل آسان کردی۔
وہ نیچے کی جانب جارہی تھی۔ ہوا تیز تر ہونے لگی تھی اور اس کی خوبصورت جھیل جیسی آنکھیں بس بھائی کے چہرے پر جمی تھیں۔ جواب گھٹنوں کے بل گرا اسے اجنبیوں کی طرح دیکھے جارہا تھا۔ پاتال سے اچھا موت کا اندھیرا تھا۔ زرغونہ نے آخری سانس لیتے وقت خود کو ….. باور کرایا تھا۔ وادیٔ نیلم میں ایک نغمہ سا بکھرا تھا۔ درد بھرا نغمہ۔ دریائے نیلم کے پانی میں معصوم سا پھل گرنے کے بعد پیدا ہونے والے ارتعاش سے گونج اُٹھنے والا نغمہ۔ زرغونہ مرگئی تھی۔
٭٭٭٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});