وقت کی ریت پہ — فوزیہ یاسمین

ابو بہت خوش اور مطمئن ہوگئے تھے اور یوں میرا وہ خرگوش کی رفتار سے بھاگنے والا بھائی راستے میں سوتے سوتے پھر سے جاگ گیا تھا، نئے میدان فتح کرنے کے لیے۔ فاتح تو وہ بچپن ہی سے تھا۔ لوگوں کے دلوں سے کلاس کے گریڈز تک ہر جگہ کام یابی نے ہمیشہ ہی اس کے قدم چومے تھے اور اب تو وہ عمر کے اس حصے میں تھا جب واقعی یہ لگتا ہے کہ جو کچھ بھی ہے ہمارے دم سے ہے۔ ہم نہیں تو کچھ نہیں، اس کی مسکراہٹ اب بھی ہمارے گھر کے کونے کونے میں اجالا کرتی تھی۔ اس کے ہاتھوں کی لکیروں میں اس کا عزم صاف جھلکتا ہوا محسوس ہوتا۔
سب اسے دیکھتے اور پہلے کی طرح محسوس کرتے لیکن یہ صرف میں دیکھ رہی تھی کہ میرے اس فاتح بھائی کی چال اب الجھنے لگی تھی۔ مسکراہٹ کے اجالے میں دھند کی اداسی اور گہرا پن تھا۔ اس کے ہاتھوں کی لکیروں میں عزم کی جھلک نہیں بلکہ مستقبل کے اندیشے نظر آتے تھے۔ اس کے لہجے میں اب خاموشی بولنے لگی تھی، حالاں کہ پہلے بھی اپنی موجودگی کا احساس دلانے کے لیے اسے زیادہ بولنا نہیں پڑتا تھا۔ وہ تو جہاں بیٹھا ہوتا اس کے اردگرد کی ہر چیز اس کی موجودگی میں خود بہ خود بول اٹھتی۔ اب اگر میں پڑھائی کے دوران اس کے کمرے میں جاتی تو لگتا تھا کہ وہ کتاب پر نظریں جمائے کہیں اور دیکھ رہا ہے۔ حالاں کہ پہلے تو جو وہ پڑھتا تو اس کے رٹے مارنے کی آواز پڑوس تک جاتی تھی۔
پہلے ہمارے دن کا آغاز ناشتے کی ٹیبل پر ہونے والی لڑائی سے ہوتا تھا لیکن اب وہ اخبار میں سرگھسائے نہ جانے کون سے مسائل حل کررہا ہوتا کہ اگر امی اسے نہ ٹوکتیں تو اس کی چائے روزانہ ٹھنڈی ہوجاتی۔
درحقیقت انسان اُس وقت تک بہت خوش رہتا ہے جب تک اپنی بنائی ہوئی دنیا، اپنے یو ٹوپیا میں رہتا ہے۔ جب تک زندگی اور دنیا اس کے لیے کتابوں میں لکھے گئے لفظوں کے مانند ہوتی ہے۔ جب تک اچھائی اور برائی کے سارے معیار والدین کی نصیحتوں سے بنائے جاتے ہیں۔ انسان کے اندر دکھ کا پہلا دروازہ تب کھلتا ہے جب وہ گھر سے باہر عملی دنیا میں قدم رکھتا ہے۔ جہاں اچھائی برائی کے معیار والدین کی نصیحتوں سے مطابقت نہیں رکھتے۔ جب وہ اس دنیا میں قدم رکھتا ہے جو کتابوں میں موجود دنیا سے یکسر مختلف ہوتی ہے۔ جب اس کے یوٹوپیا پر حقیقت کا پہلا پتھر گرتا ہے۔
اس کے اندر بھی دکھ کا پہلا دروازہ اس وقت کھلا جب حسن رضا ہمدانی کی ڈیڈ باڈی ہماری دیوار پار کے صحن میں رکھی گئی۔ حسن اور وہ اس وقت سے دوست تھے جب دونوں ہاف پینٹ پہن کر اسکول جایا کرتے، اسکول کے ڈسپلنڈ ماحول سے لے کر کالج کی آزاد فضائوں تک۔ بچپن میں ڈیک زور دار آواز میں لگا کر صوفوں پر اچھلنے سے لے کر کالج کی سیاسی سرگرمیوں تک دونوں کبھی ایک دوسرے سے پیچھے نہیں رہے۔ وہ دونوں ذہین بھی تھے اور پرجوش بھی، سینے میں خون بھی گرم تھا اور دل میں کچھ کر گزرنے کا عزم بھی۔
وہ ہر لحاظ سے کسی بھی جماعت کی سیاسی دکان کو چمکانے کے لیے نہایت موزوں تھے۔ سوا نہیں سمجھایاگیا کہ ان کے اندر لیڈر بننے کے تمام گٹس موجود ہیں۔ انہیں بتایا گیا کہ اگر وہ چاہیں تو دنیا بدل سکتے ہیں۔ کچھ اندھے نظریات کی پٹی ان کی آنکھوں پر باندھے ہاتھ پکڑ کر اس راستے پر لے جایا گیا جہاں سے انکل ہمدانی کے اکلوتے بیٹے کی ڈیڈ باڈی ہی واپس آسکی۔
راشد جیسے سوتے سوتے جاگ گیا۔ ابھی توا س نے صرف خواب ہی دیکھا تھا۔ معاشرے کو جھیل سیف الملوک کی طرح صاف دیکھنے کا کہ حقیقت کی تیز دھوپ نے اس کی آنکھیں کھول دیں۔ کتنے دن وہ گم صم رہا اور اس کے بعد آنے والے کتنے دنوں تک وہ بیٹھے بیٹھے، ہنستے کھیلتے ایک دم غصے سے بھرجاتا۔ میں کتنے روز اسے بے بسی سے کتاب پر سر پٹختے، کرسی کو ٹھوکر مارتے اور باہر جاتے دیکھتی رہی۔ میں نے اسے سمجھانا چاہا کہ جو ہوچکا وہ اس پر صبر کیوں نہیں کرلیتا اور یہ کہ جو جیسا کرتا ہے ویسا ہی بھرتا ہے۔
”اسی بات کا تو دکھ ہے کہ جو جیسا کرتا ہے ویسا بھرتا نہیں ہے۔” اس نے پھیکی سی مسکراہٹ سے جواب دیا۔
”یہاں نظریہ کسی اور کا ہوتا ہے، اس نظریے کے پیچھے اپنا خون کوئی اور بہاتا ہے اور اس خون سے فائدہ کسی اور کو حاصل ہوتا ہے۔ پرانے زمانے میں جب جنگ کے دنوں میں لوگ شہر پر حملے کی صورت میں گھوڑوں پر جان بچاکر بھاگا کرتے تھے تو اپنے گھوڑے کی آنکھوں پر کپڑا باندھ دیتے تھے تاکہ اسے معلوم نہ ہوسکے کہ جس راستے پر وہ بھاگا جارہا ہے وہ آگ سے بھرا ہوا ہے۔ کالج کے دوسیاسی گروپ جب ایک دوسرے سے لڑتے ہیں تو ان میں سے بہت سے ایک دوسرے سے واقف بھی نہیں ہوتے۔ آپس میں کوئی دشمنی نہ ہونے کے باوجود وہ ایک دوسرے پر گولیاں چلاتے ہیں۔ ان کی آنکھوں پر بھی کسی لاحاصل نظریے، کسی بے اصول شخصیت کی پٹی بندھی ہوتی ہے۔ اس گھوڑے کی طرح جس کا سوار اپنی جان بچانے کی خاطر اسے آگ بھرے راستے پر تیز، بہت تیز دوڑاتا ہے اور صبر مجھے اس لیے نہیں آتا کہ صبر اس حقیقت پر کیا جاتا ہے جو ختم ہوچکی ہو۔ یہ کھیل تو ابھی جاری ہے۔ تم نے کبھی سوچا ہے۔” اس نے اپنی سرخ آنکھیں میری طرف گھمائیں۔
”ایک غریب گھر کا صحن ہے جہاں بوڑھے ماں باپ اور کئی جوان بہنیں ہیں جنہوں نے کئی موسموں تک اپنے صحن کے اکلوتے درخت کی آب یاری کی۔ اپنے اکلوتے بھائی کو اچھا کھلانے کے لیے خود نہیں پڑھا اور جب چھائوں دینے کے قابل ہوسکا تو اسے جڑ سے کاٹ کر اس کی لکڑی کوئی اور اٹھا کر لے گیا، اپنا آتش دان گرم رکھنے کے لیے۔”
”تو کیا یہ سب برے لوگ ہیں؟” میں نے اخبار میں چھپی اسٹوڈنٹ لیڈرز کی تصاویر دیکھتے ہوئے احمقانہ سا سوال کیا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”ہمارے نظام کو کسی کے اچھا ہونے یا برا ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہم سب کی حیثیت شطرنج کے پیادہ مہروں کی سی ہے۔ جنہیں ہر حال میں پٹنا ہوتا ہے، بازی چاہے کوئی جیتے۔ ہنگامے میں جب گولی کسی کو لگتی ہے تو وہ اپنے شکار سے یہ نہیں پوچھتی کہ وہ سچا تھا یا نہیں۔ نعرے لگا رہا تھا، خاموش کھڑا تھا یابس وہاں سے گزر رہا تھا۔ میں بھی تو اب کسی پارٹی میں حصہ نہیں لینا چاہتا لیکن کبھی کبھی مجھے اپنا آپ اس ہڈی کی طرح محسوس ہوتا ہے جسے بہت سے بھوکے کتوں کے آگے ڈالا جاتا ہو۔”
”کیا تم ڈر رہے ہو بھائی۔” میں نے بہت غور سے اس کا چہرہ دیکھا۔ مجھے یاد ہے ایک دن بچپن میں جب وہ کھیلتے کھیلتے بازو کی ہڈی تڑوا بیٹھا تھا اور ہاسپٹل میں ڈریسنگ کرواتے ہوئے اس نے اپنی روتی ہوئی ماں کو تسلی دی تھی تو ڈاکٹر نے حیران ہوکر ابو سے کہا تھا: ”آپ کا بیٹا بہت بہادر ہے۔” اب ابو کا وہی بہادر بیٹا میرے سامنے بیٹھا کہہ رہا تھا:
”ہاں میں ڈر گیا ہوں، میں ڈرتا ہوں اس آنے والے کل سے جب میری ماں مجھے درس گاہ ایسے بھیجے گی جیسے کوئی ماں اپنے بچے کو قتل گاہ بھیج رہی ہو۔”
”درس گاہیں قتل گاہیں کیسے بنتی ہیں؟ جن درختوں نے پھل اور چھائوں دینی ہو وہ آتش دان کی آگ میں کیوں جل جاتے ہیں؟ یہ میرے سوال نہیں تھے، یہ میرا پرابلم نہیں تھا۔ میرا پرابلم تو میرا بھائی تھا۔ سیاہ چمکیلے بالوں اور ہنستی ہوئی آنکھوں والامیرا بھائی۔ لیکن میں نے دیکھا کہ اب وہ الجھتے الجھتے ٹھہرنے لگا تھا۔ اس کی احتجاج کرتی آنکھیں اب سمجھوتا کرتی نظر آرہی تھیں۔ اس نے ٹریفک سگنل پر گاڑی پر کپڑا مارتے بچوں کو دیکھ کر کڑھتے ہوئے ”یہ سارا سسٹم ہی غلط ہے” کا نعرہ مارنے کے بجائے گاڑی کو ریس دے کر آگے بڑھنا سیکھ لیا تھا۔ شاید وہ جان گیا تھا کہ اگر وہ معاشرے کو جھیل سیف الملوک کی طرح صاف شفاف دیکھنا چاہتا تھا تو یہ اس کی اپنی غلطی تھی۔
اس نے چند بے نام اصولوں کے پیچھے گرنے والے جوان لڑکوں کی لاشوں، تیل کے چولہے کا شکار بننے والی بہوئوں، چند ٹکوں کے عوض ڈبل روٹی کی طرح بکنے والی عصمتوں، اسلحہ سے بھرے ہوئے طالب علم کے ہاسٹلز کے کمروں اور گزشتہ پچاس برس سے چلتی منفی سیاست کو ”سب ٹھیک ہے” کی چادر اوڑھائی اور بکل مار کر ایک کونے میں بیٹھ گیا۔ بھاڑ میں جائیں لوگ اور ان سے ہم دردی۔
یہ اس کا فائنل ائیر تھا اور اس کے اردگرد بہت سے لوگوں کو اس سے بہت سی توقعات تھیں۔ یوں اس کے رٹے مارنے کی آواز پھر پڑوسیوں تک پہنچنے لگی اور میری ماں کے سجدے طویل ہونے لگے۔
وہ چھوٹا سا تھا جب اپنی کورس کی کتاب میں راشد منہاس پرمضمون پڑھ کر اُن دنوں ہم سب کا دماغ کھاتا رہا کہ میں بڑا ہوکر راشد منہاس بنوں گا۔ اس سے اگلے ہفتے شارجہ میں پاکستان کا میچ ہارنے پر اس نے نہایت افسردگی اور عزم سے یہ اعلان کیا کہ چوں کہ ہمارے ملک کو اچھے اور ایمان دار کھلاڑیوں کی سخت ضرورت ہے۔ اس لیے وہ کرکٹ پلیئر بنے گا اور جب وہ تیرہ برس کا تھا تو ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کے متعلق سن کر اس نے یہ فیصلہ کیا کہ اس ملک کو بہت سے ڈاکٹر عبدالقدیر چاہئیں، سو وہ ان جیسا بڑا آدمی بنے گا۔
”تم صرف آدمی بن جائو تمہارے لیے یہی کافی ہے۔”
میں چڑ کر اسے جواب دیا کرتی۔ جو کچھ اس نے دل سے چاہا وہ کبھی پورا نہیں ہوا اور جو کچھ میں نے صرف زبان سے کہا وہ خود بہ خود ہی پورا ہوگیا۔
میرے راشد منہاس کو مارنے کے لیے کسی غیر ملکی جاسوس کو کوئی طیارہ اغوا نہیں کرنا پڑا۔ ہمیں ضرورت بھی نہیں ہے کسی باہر سے آئے ہوئے دشمن کی، ایک دوسرے کے لیے ہم خود ہی کافی ہیں۔
ایک پارٹی کہتی تھی کہ اسے مخالف پارٹی نے مارا ہے۔ دوسری پارٹی کہتی تھی کہ اسے پولیس کی گولی لگی ہے اور پولیس کا بیان تھا کہ ہنگامے میںکس نے گولی چلائی کچھ پتا نہیں چلا اور میں سوچتی ہوں کہ اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ اسے کس کی گولی لگی ہے۔ اسے مرنا تھا وہ مرگیا۔ شطرنج کے ان پیادہ مہروں کی طرح جنہیں ہر حال میں پٹنا ہوتا ہے۔
میں آج بھی را ت کو دیر رتک جاگتی ہوں۔ امی آج بھی مجھے جلد سوجانے کی ہدایت کرنا نہیں بھولتیں۔ پڑوسیوں کا الارم آج بھی ٹھیک بارہ بجے چیختا ہے۔ پورے چاند کی روشن کرنیں آج بھی میرے کمرے کی کھڑکیوں سے لپٹ کر مجھ سے دیر تک جاگنے کا سبب پوچھتی ہیں لیکن اب رات کے ایک بجے کوئی ہاتھ لائونج کے دروازے پر اس یقین کے ساتھ دستک نہیں دیتا کہ اس کی ماں جائی، اس کی بہن اس کے انتظار میں اب تک جاگ رہی ہوگی۔

٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

مس ظرافت کا باورچی خانہ — حرا قریشی

Read Next

نیلی جھیل — شفیق الرحمٰن

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!